امیرسے ملاقات (21)
دینی طبقہ اگر انتخابی سیاست کا طریقہ چھوڑ کرڈاکٹر اسراراحمدؒ کے بیان کردہ
منہج انقلاب نبوی ﷺپر متفق ہو جائے تو تحریک ِنفاذ اسلام میں تیزی آسکتی ہے ۔
ہم فلسطینی مسلمانوں کی مدد کے حوالے سے کرنے کے کاموں کو13 نکات کی صورت
میں بیان کر چکے ہیںجو تنظیم کی ویب سائٹ اور سوشل میڈیا پیجز پرموجود ہیں۔
ہم صرف جدوجہد کرنے کے مکلف ہیں نتائج اللہ تعالیٰ کے حوالے ہیں۔
1947ء میں پاکستان جس بنیاد پر بنا تھا اس بنیاد کو مضبوط نہ کیا تو1971ء
میں دولخت ہو گیا۔
سوشل میڈیا پر موجود فتنوں سے بچنے کے لیے قرآن سے ایمان کی آبیاری، نیک
لوگوں کی صحبت اور تجربات سے فائدہ حاصل کرنا چاہیے۔
پون صدی میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ انتخابی سیاست کے ذریعے نظام چل تو سکتا
ہے لیکن بدل نہیں سکتا ۔
احسانِ اسلام سرکلر میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر فرد کی ذمہ داریوں کے انقلابی،
ظاہری اور روحانی پہلوئوں پر عدل کی بنیاد پر عمل درآمد کے لیے رہنمائی موجود ہے۔
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال: تنظیم اسلامی کے سالانہ اجتماع کے موقع پررفقاء واحباب کوپیغام اور شمولیت کی دعوت کیسے دی جائے ؟
امیر تنظیم اسلامی:سالانہ اجتماعات تحریکی جماعتوں اور ان کے کارکنوں کے لیے فکرکی آبیاری، جذبے کو ابھارنے اور بھولے ہوئے سبق کی یاددہانی کا ذریعہ بنتے ہیں ۔ ایک دوسرے سے ملاقات ،تعارف اورایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کاموقع ملتا ہے ۔پھر کچھ موجودہ حالات میںلائحہ عمل ،اہداف اور ہماری ذمہ داریوں کے حوالے سے راہنمائی ملتی ہے۔ سالانہ اجتماع عموماً رفقاء کے لیے خاص ہوتاہے ، عام عوام کے لیے نہیں ہوتا ۔ البتہ اجتماع کے خطبات باقاعدہ ریکارڈ کیے جاتے ہیں اورکچھ دنوں کے بعد ویب سائٹ اورسوشل میڈیا پراپ لوڈ کر دیے جاتے ہیں جہاں عام لوگ بھی استفادہ کر سکتے ہیں ۔ احباب کے لیے دوسرے بھی بہت سارے آپشنز ہوتے ہیں ۔ کئی علاقوں میں ہمارے حلقہ قرآنی، دروس قرآن ،خطابات جمعہ ، دورہ ترجمہ قرآن و خلاصہ مضامین قرآن کے پروگرام ہوتے ہیں۔ احباب ان سے استفادہ کرسکتے ہیں ۔اسی طرح جواحباب تنظیم اسلامی اور ڈاکٹر اسرار احمدؒ سے محبت کرتے ہیں لیکن تنظیم میں شمولیت کے لیے ارادہ نہیں پاتےیا تنظیم کے فکر سے اتفاق نہیں کر تے اُن کے لیے بھی تنظیم کا تمام تر دعوتی مواد ریکارڈنگ یا لٹریچر کی صورت میں موجود ہوتا ہے ۔
سوال::امیر سے ملاقات کاپروگرام کب منعقد ہوتا ہے؟ (محمد ذیشان رئوف پراچہ)
امیر تنظیم اسلامی:یہ پروگرام ماہانہ بنیادوں پر منعقد ہوتاہےا ورہرماہ کی پندرہ تاریخ کو یہ ویب سائٹ اورسوشل میڈیا پرآن ائیر ہوتاہے ۔
سوال:فلسطین اور جن جن ممالک میں مسلمانوں پرمظالم ہورہے ہیںاس کی وجہ سے کیا ساری امت مسلمہ پر جہاد فرض ہوچکا ہے ؟
امیر تنظیم اسلامی:اس سوال کافقہی جواب مفتیان کرام بیان فرماتے ہیں ۔بالخصوص فلسطین میں جس طرح مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے اس پربہت سارے علماء کی طرف سے فقہی پیراڈائم میں راہنمائی فراہم کی گئی ہے کہ اگر کسی علاقے میں مسلمان آباد ہیں اوران پردشمن حملہ کردیتاہے یاوہاں کوئی غاصب اورظالم ان کی نسل کشی کرتا ہے ،ان کی جان ومال کے درپے ہوجاتا ہے تووہاں کے مسلمانوں پرقتال فرض ہوجاتاہے ۔لیکن اگر وہاں کے مسلمان دشمن کامقابلہ کرنے کی استعداد نہیں پاتے توپھر الاقرب فالاقرب کے مصداق قرب و جوار کے مسلمانوں پراس کی فرضیت آجائے گی اورپھراسی ترتیب سے آگےبڑھتے ہوئےبات پوری اُمت پر آجائے گی ۔ تاآنکہ مجموعی اعتبار سے پوری امت مسلمہ پر جہاد فرض ہوجائے گا۔البتہ اپنی استعداد اوراستطاعت کے اعتبار سےہر ایک مسلمان آواز بلند کر سکتاہے ، ان کے لیے دعائیں ،قنوت نازلہ اورمالی تعاون کرسکتاہے۔اپنی حکومت کوعسکری تعاون کرنے کی ترغیب دے سکتا ہے ۔ اگر کوئی جتنی استعداد رکھتاہے وہ اتنابھی نہیں کررہا توپھر وہ گناہ گار ہوگا خواہ وہ عوام میں سےہو ، خواہ وہ حکمرانوں میں سے ہو۔اس حوالے سے میں نے13 نکات ترتیب دیے ہیں جوتنظیم کی ویب سائٹ اورندائے خلافت میں شائع ہوچکے ہیں، ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔
سوال::تنظیم اسلامی ابھی تک پاکستان میں اسلامی نظام قائم کیوں نہیں کرسکی ؟
امیر تنظیم اسلامی:یہ بات ہمیشہ ذہن میں رہنی چاہیے کہ ہم جدوجہد کرنے کے مکلف ہیں نتائج اللہ تعالیٰ کے حوالے ہیں۔75سال سے پاکستان میں لوگ مختلف مناہج کے ذریعے کام کررہے ہیں۔ بعض کاخیال ہے کہ فقط تعلیم کے ذریعے اسلامی انقلاب آجائے گا ۔ حالانکہ اللہ کے رسول ﷺ سے بڑھ کرمعلم کون ہوگا؟ بعض کا خیال ہے کہ دعوت وتبلیغ سے انقلاب آئے گا تواللہ کے رسول ﷺ سے بڑھ کر داعی کون ہو گا؟ بعض عسکری منہج کے ذریعے کرنا چاہتے ہیں۔حالانکہ یہاں ہتھیار اٹھانا بنتا نہیں کیونکہ حکمران ، مقتدرطبقات اوراداروں کے لوگ سب مسلمان ہیں توکلمہ گومسلمانوں کی گردن اڑانا مسلمان پر جائز نہیں ۔ ایک معروف طریقہ انتخابی سیاست کا ہے جس پر ہماری دوبہت بڑی دینی سیاسی جماعتیںکاربند ہیں ۔ لیکن مودبانہ گزارش یہ ہے کہ انتخابی سیاست کا چکر ہم 75 برس تک دیکھ چکے ہیں اور ابھی تک سیاسی طور پرنابالغ ہی ہیں۔ پون صدی میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ انتخابی سیاست کے ذریعے نظام چل تو سکتا ہے لیکن بدل نہیں سکتا ۔ اس لیے پاکستان کے تناظر میں اسلامی نظام کے لیے ایسی تحریک کاراستہ موزوں ہے جس میں جان تو جائے گی ، لینے کی بات نہیں آئے گی ۔ چونکہ دینی طبقے کی ایک بہت بڑی اکثریت ابھی تک انتخابی راستے کے گھن چکر میں پھنسی ہوئی ہے اس لیے تحریک نفاذاسلام کی دعوت کو مشکلات درپیش ہیں ۔لیکن میں پوری دیانتداری سے عرض کرتا ہوں کہ بہت ساری دینی جماعتوں ، ان کے علماء اور دوسری تحریکوں میں یہ تاثر اب عام ہو رہا ہے کہ اس فرسودہ نظام کو انتخابی سیاست کے ذریعے نہیں بدلا جا سکتا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے بیان کر دہ منہج انقلاب نبوی ﷺ پرلوگ متفق ہوںاور انتخابی سیاست سے دینی طبقہ منحرف ہو جائے تو شاید اس جدوجہد میں مزید تیزی آسکتی ہے ۔ ہم یہ کوشش کریں گے تاآنکہ لوگوں کے دلوں کو اللہ تعالیٰ بدل دے ۔
سوال:پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش کے حالات کودیکھتے ہوئے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اگر1947ء کی تقسیم نہ ہوتی تویہ بہتر نہیں تھا؟
امیر تنظیم اسلامی:حدیث کی رو سے’اگر‘ کا کلمہ شیطان کے راستے کو کھولتاہے ۔ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ پاکستان 1947ء کو بن گیااور جس بنیاد پرہم نے پاکستان لیااس کو مضبوط نہ رکھا تو1971ء میں بنگلہ دیش بھی بن گیا۔ ذرا غور فرمائیے! اس وقت بھارت میں مسلمانوں پر جو ظلم ہورہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے ہمیں پاکستان کی قدر نہیں کرنی چاہیے ؟ اگر پاکستان نہ بنتا تومزید کتنی لاکھوں جانوں کانقصان ہوتا۔ البتہ بھارت ، بنگلہ دیش اوریہاں رہنے والے مسلمان کلمہ کی بنیاد پربھائی ہیں۔ ہمیں مجبوراً علیحدہ ملک بنانا پڑا تاکہ ایک خطہ زمین ہوجہاں ہم اسلام کونافذ کرکے دنیا کو دکھا سکیں ۔ قائد اعظم نے بھی کہا تھاکہ پاکستان منزل نہیں ہے بلکہ یہ تجربہ گاہ ہے جہاں ہم اللہ کے دین کوقائم کرکے دنیا کو دکھاسکیں ۔ اگرہم دین کو قائم کریں گے تو اللہ کی مدد ہمارے شامل حال ہوگی اور ہمارے قدم مضبوط ہوں گے ۔ پھر ہم کشمیر ، فلسطین اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے آواز اُٹھا سکیں گے ۔ آج اگر ہم اپنی اصل بنیاد کی طرف لوٹیں توہمارا رشتہ تمام مسلمانوں سے انما المومنون اخوۃ والا ہوگا ۔اللہ ہمیں اس کی طرف لوٹنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
سوال:ڈاکٹر اسرار احمدؒرسول اللہﷺ کانام لینے کے بعد ﷺکم بولتے تھے ، اس کی کیاوجوہات ہیں ؟ (وسیم انور، رحیم یار خان)
امیر تنظیم اسلامی:چونکہ ڈاکٹر صاحب ؒ کے خطبات اکثر طویل ہوتے تھے جن میں رسول اللہ ﷺ کاذکر مبارک تواتر کے ساتھ آتا تھا اس لیے ہو سکتاہے ایک دو مرتبہ انہوں نے ﷺ نہ کہا ہو ورنہ زیادہ تر تو ڈاکٹر کے الفاظ استعمال کرتے تھے۔فقہی لحاظ سے فقہاء نے بیان فرمایاہے کہ ایک نشست (درس،خطاب وغیرہ)میں رسول اللہ ﷺ کا نام مبارک آئے توایک مرتبہ درود بھیجنا فرض ہے اوراس کے بعد وہ مستحب کے درجے میں ہے۔اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے کہ قرآن میں کبھی اللہ تعالیٰ آپﷺ کاذکر فرماتا ہے ، کبھی مشرکین مکہ اوریہود آپﷺ کے حوالے سے کچھ بیان کررہے ہوتے ہیں۔ مثلاً محمد ( ﷺ) نے یہ کہا ۔ ایسے مواقع پر ڈاکٹر صاحب ؒ رسول اللہ ﷺ کانام مبارک پہلے لیتے، پھرفرماتے تھے: ﷺ۔ہمارے ہاںنعت خواں حضرات اور قوال جب رسول اللہﷺ کا نام لیتے ہیں تو کیا درود پڑھتے ہیں ؟ جبکہ ڈاکٹر صاحب جب دو اڑھائی گھنٹے کا خطاب کرتے تھے تو اس میں سینکڑوں مرتبہ آپ ﷺ کاذکر آتا تھا ، ایک آدھ مرتبہ اگر درود بھیجنا رہ گیا تو اس کو منفی انداز میں نہیں لینا چاہیے ۔
سوال: ڈاکٹر اسرار احمدؒ پاکستان میں کیسا اسلام چاہتے تھے ، کیاوہ سیکولراسلام تھا یاکسی اورطرز کا؟(وسیم صاحب)
امیر تنظیم اسلامی:اگر سیکولرازم کا ڈکشنری میں معنی دیکھاجائے تویہ بات سامنے آتی ہے کہ سیکولر ازم سے مراد ہے کہ ریاست کے اجتماعی معاملات میں مذہب (دین) کا کوئی عمل دخل نہیں ہو گا یعنی وہ توبالکل اسلام کے خلاف کھڑا ہے جبکہ ڈاکٹر اسرار احمدؒ یہ کہتے کہتے دنیا سے چلے گئے کہ اسلام مکمل نظام حیات ہے جو فرد ،گھر،معاشرہ، ریاست، نظام اورپوری دنیا کے لیے نہ صرف نظام کی تعلیم دیتا ہے بلکہ اپناغلبہ بھی چاہتا ہے۔اسی جدوجہد کے لیے انہوں نے تنظیم اسلامی قائم کی۔یہاں تک کہ جن لوگوں نے قائد اعظم پرالزامات لگائے کہ وہ سیکولر سٹیٹ چاہتے تھے تو اس کا جواب بھی ڈاکٹر صاحب ؒ نے تفصیل کے ساتھ دیا ہے کہ قائداعظم اور علامہ اقبال کیسا پاکستان چاہتے تھے ۔
سوال: سوشل میڈیا اورپورنو گرافی کے فتنے سے نکلنے کاکیاحل ہے ؟
امیر تنظیم اسلامی:یہ اس وقت ایک گلوبل مسئلہ ہے ۔ حتیٰ کہ عملی مسلمان بھی اس فتنے کا شکار ہو سکتے ہیں۔ الا ماشاء اللہ! کیونکہ آج ہر ایک کے پاس سمارٹ فون موجود ہےجو کہ آج تعلیم ،بزنس ،ریسرچ وغیرہ تمام چیزوں کے لیے استعمال ہورہا ہے۔ حتیٰ کہ مدارس میں بھی اس کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے ۔اس عموم بلوہ سےہم چاروناچار گزر رہے ہیں ۔اللہ کے خوف کے بغیر اس فتنہ کا مقابلہ بہت مشکل ہے ۔ کیونکہ سات پردوں میں پولیس،فوج اورکسی طاقت کاخوف نہیں آسکتا سوائے اللہ کے ۔ خوف خدا اگر بندے کے اندر ہوگا تو وہ حتی الامکان بچنے کی کوشش کرے گا ۔ پیغمبروں کی بنیادی دعوت یہی تھی :
{یٰـقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ }(الاعراف:65) ’’اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی بندگی کرو۔‘‘توہرپیغمبر نے یہ بھی فرمایا؛{فَاتَّقُوا اللہَ وَاَطِیْعُوْنِD} (الشعراء) ’’پس تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو۔‘‘
قرآن پاک کا تقریباًایک تہائی حصہ(بالخصوص آخری منزل) آخرت کے بیان پرمشتمل ہے۔ کیونکہ ساری باتیں سمجھ میں آبھی گئیں تو آخر میں نیکی چاہے کتنی مشکل ہواس کو اختیار کرنے اوربدی چاہے کتنی پرکشش ہو اس سے بچنے پر صرف خوف خدا ہی آمادہ کرسکےگا۔اسی بات کو ہمیں سمجھانے اور دلوں میں اتارنے کی ضرورت ہے۔اسی طرح قرآن پاک کہتاہے :{اتَّقُوا اللہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ(119)} (التوبۃ) ’’ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور سچے لوگوں کی معیت اختیار کرو۔‘‘ہمیں اپنے ماحول کو نیک بنانا پڑے گا۔ جیسے ڈاکٹر اسرار احمدؒ فرماتے تھےکہ سارا ماحول تودجل وفریب ، نفس اور شیطان کے حملوں کا ہے توایک نوجوان کیا،ایک بوڑھا بھی اکیلا اس کوresist نہیں کرسکتا ۔ قرآن کہتاہے :
{وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ۵وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ(3)} (العصر) ’’ اور انہوں نے ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور انہوں نے باہم ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی۔‘‘
تویہ ماحول گھر،دفاتر اورمعاشرے میں بنانا ہوگا۔ اس کے لیے اجتماعی ماحول کواختیار کرنے کی کوشش کریں ۔ تنظیم اسلامی کے پلیٹ فارم سےسوشل میڈیا پر ہم نے اپنے ساتھیوں کے لیے کچھ ہدایات دی ہوئی ہیں کہ سمارٹ فون وضو کی حالت میں استعمال کرو۔ سابق امیرحافظ عاکف سعید (اللہ ان کوصحت عطا کرے) فرماتے تھے کہ باوضو ہوکر اوربسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کراستعمال کرو۔ کیونکہ بندہ پاکی کی حالت میں فرشتوں سے زیادہ قریب ہوتا ہے ۔ان چیزوںکو ہمیں جڑ سے پکڑنے کی ضرورت ہے ۔اس کے لیے قرآن پاک کامطالعہ ترجمہ وتشریح کے ساتھ ہونا چاہیے ۔ قرآن سے ایمان کی آبیاری ، نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے اورلوگوں کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے تو پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت متوجہ ہوگی ۔ کیونکہ شیطان اورنفس کو بنانے والا اللہ ہے، اس کے اذن کے بغیر شیطان اورنفس کچھ نہیں کر سکتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:{فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ(98)} (النحل)’’تو جب آپ قرآن پڑھیں تو اللہ کی پناہ طلب کر لیجیے شیطان مردود سے۔‘‘
پھر ایک دوسری جگہ فرمایا: {وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللہِ ط}(حٰم السجدۃ:36) ’’اور اگر کبھی تمہیں شیطان کی طرف سے کو ئی چُوک لگنے لگے تو اللہ کی پناہ طلب کر لیا کرو۔‘‘
پھرنوجوانوں کو شادی کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے نوجوانو! تم میں سے جواستطاعت رکھتا ہے تووہ نکاح کرے کیونکہ یہ نگاہوں کونیچا رکھتا ہے اورشرمگاہوں کی حفاظت کاباعث ہے ، حیا اور ایمان کی حفاظت ہوتی ہے ۔ اللہ کے رسولﷺ نے زوجین کے تعلق کو دل لگانے کااچھا ذریعہ قرار دیا ،لیکن ہمارے معاشرے میںگناہ کوآسان اورنکاح کو مشکل بنادیا گیا ہےجس کا نتیجہ ہے کہ سکرینوں پر انٹرٹینمنٹ کے نام پر جوانیاں لٹائی جارہی ہیں۔ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ نکاح کو آسان بنایا جائے۔
سوال: رجوع الی القرآن کورس کے طلبہ دوران کورس تنظیم اسلامی میں شامل ہوسکتے ہیں ؟(مقدس فیاض )
امیر تنظیم اسلامی:رجوع الی القرآن کورس ڈاکٹر اسراراحمد ؒ نے 1980ء کی دہائی میں شرو ع کیا تھااور پاکستان کے چند بڑے شہروںمیںیہ سلسلہ جاری ہے۔ انجمن خدام القرآن لاہور سمیت پورے ملک کی انجمنوں میں اورتنظیم اسلامی کے مرکز میں یہ کورس جاری ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لوگ پہلے ہی تنظیم میں شامل ہوتے ہیں اورپھریہ کورس کرتے ہیں ۔میں خود 1998ء میں تنظیم میں شامل ہوااور 2002ء میں یہ کورس کرنے کاموقع ملا۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ فرماتے تھے کہ رفقاء تنظیم اولاً اورترجیحاً یہ کورس کریں۔اس کے علاوہ بھی لوگ کرتے ہیں۔ 15سال سے لے کر 84سال کے بزرگوں نے یہ کورس کیا۔الحمدللہ!بہرحال جوتنظیم میں شامل ہوناچاہتے ہیں تواگر ان کوبات سمجھ آگئی ہے توفوری شامل ہوجائیں ۔ بعض کہتے تھے کہ آپ لوگ یہ کورس کرا ہی اسی لیےرہے ہیں تاکہ ہم تنظیم میں شامل ہوجائیں۔ اس ضمن میں ہمارے پاس دو جواب ہیں ۔ ایک جو اپنے لیے پسند کریں گے وہی آپ کے لیے بھی پسند کریں گے ۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ آپ پڑھیں ،سمجھیں،دل آمادہ ہو تو پورے شعور کےسا تھ شامل ہوں۔تنظیم میں شامل ہونے کے لیے اس کورس کی تکمیل ضروری نہیں ہے ۔
سوال: انجینئر محمدعلی مرزا،کس حیثیت سے اپنے آپ کو ڈاکٹر اسرار احمدؒ کا شاگرد کہتے ہیں ؟ (محمد حذیفہ آصف پراچہ ،کراچی )
امیر تنظیم اسلامی:ہماری ایک اصولی پالیسی ہے جس پرہم حتی الامکان عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔عام طورپر جماعتوں اورشخصیات کا نام لے کر تنقید نہیں کرتے۔ البتہ کوئی فرقہ باطلہ ہو،انکار سنت یا ختم نبوت سے انکار کا معاملہ ہو تو بات الگ ہے ۔ لیکن چونکہ سوال آگیا تو اس حوالے سے دوتین اصولی باتیں ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ امت کا ایک تہائی حصہ اردو سمجھتا ہے اوربولتا بھی ہے ۔لہٰذا بانی تنظیم کوسننے والوں کی تعداد تواب کروڑوں میں جاچکی ہے ۔ کسی شخصیت سے استفادہ کرنے کے بعد اس کواپنامحسن سمجھنا اچھی بات ہے۔ اس معنی میں کوئی کہتاہے کہ وہ میرے استاد ہیں توایسے تولاکھوں افراد آپ کو ملیں گے جو ڈاکٹر صاحب ؒکو اپنامربی سمجھتے ہیں۔ سیدنا حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ جس نے مجھے ایک لفظ سکھا دیا وہ میرا استاد ہے اور اس حوالے سے میں اس کا غلام ہوں۔امام ابوحنیفہؒ کوایک عام انسان نے کوئی مسئلہ سمجھادیا تو وہ اس کے احترام میں کھڑے ہو جایا کرتے تھے ۔ یعنی یہ ہمارے اسلاف کا طریقہ ہے ۔ ہمارے بھائی نے جن صاحب کے بارے میں فرمایا توان کے بعض معاملات ایسے ہیں کہ اگر ڈاکٹر اسرارا حمدؒ بھی زندہ ہوتے تووہ اتفاق نہ کرتے۔ اختلاف رکھنا ایک شے ہے لیکن جدال احسن ہونا چاہیے ۔قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے : ’’ اور مت گالیاں دو ( یا مت برا بھلا کہو) ان کو جنہیں یہ پکارتے ہیں اللہ کے سوا ‘ تو وہ اللہ کو گالیاں دینے لگیں گے زیادتی کرتے ہوئے بغیر سوچے سمجھے۔‘‘(الانعام:108)
لہٰذا ان صاحب کی بعض چیزیں ایسی ہیں جوہمارے دینی مزاج سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ لیکن اگر وہ ڈاکٹر صاحبؒ کا نام لیتے ہیں تواس سے تنظیم کی دعوت کونقصان تو نہیں پہنچے گا۔بہت سی باتیں ایسی ہیں جوہمارے اختیار میں نہیں ہیں ۔ اگر کسی نے استفادہ کیا اوراس وجہ سے تعلق جتا رہا ہے تو ٹھیک ہے ، اسے یہ بھی دیکھ لینا چاہیے کہ ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی پوری زندگی کس کام میں لگی ۔ ڈاکٹر صاحبؒ کی زندگی تو خدمت قرآنی، اقامت دین کی جدوجہد میں صرف ہوئی ۔ لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ اگر کوئی ان کو استاد کہتا ہے تووہ ان کی زندگی کے مقصد سے کتناا ہم آہنگ ہے ۔ڈاکٹر صاحب ؒ خود کہتے تھے کہ اگر مجھ سے محبت ہے توآئو میرے ہاتھ پربیعت کرواورمیرے کام میں میر ی مدد کرو۔
سوال: احسان اسلام سرکلر کیا ہے ؟
امیر تنظیم اسلامی:اسلام،ایمان اور احسان کی اصطلاحات حدیث جبرئیلd میں موجود ہیں جن کی وضاحت ڈاکٹر صاحب ؒنے اپنے اربعین نووی کے دروس میں کی ہے۔ جہاں تک احسان اسلام سرکلر کامعاملہ ہے توتنظیم اسلامی میں بہت سارے امور پرمشاورت ہوتی ہے اورپھرامیرتنظیم اسلامی کی طرف سے فیصلہ ہوتاہے جو تنظیمی نظم کے تحت پوری تنظیم میں سرکلیٹ کیا جاتا ہے۔اس کوہم سرکلر کہتے ہیں ۔ اسی کے تحت بہت ساری ہدایات جاتی ہیں کہ دعوت کے کام کی ترتیب کیا ہونی چاہیے ، فلاں آگاہی کس طرح ہونی چاہیے ، فلاں کورس کس طرح ہونا چاہیے وغیرہ تواسی طرح کاایک سرکلر احسان اسلام کا ہے ۔جب ہم دینی اجتماعیتوں کاجائزہ لیتے ہیں توان میں مختلف مزاج کے لوگ ہوتے ہیں ۔ اجتماعیت کا حسن یہ ہے کہ ان تمام مزاجوں کو ساتھ لے کر چلیں۔ ہماری توجہ انفرادی اوراجتماعی دونوں ذمہ داریوں پررہنی چاہیے ۔imbalanceنہیں رہنا چاہیے کہ باہر اقامت دین کی جدوجہد کے نعرے لگارہے ہیں لیکن فجر کی نماز میں سوئے ہوئے ہیں۔ یعنی جو ہمارے بس میں نہیں وہ توکرر ہے ہیں لیکن جوہمارے اوپر فرض ہے وہ نہیں ادا کر رہے ۔ اسی طرح کبھی یہ ہوتاہے کہ فرائض اورنوافل کی پابندی ہورہی ہے جویقیناً اچھی بات ہے لیکن دین کے اجتماعی تقاضوں سے غفلت برتی جارہی ہے ۔ اب صورتحال میں توازن اور عدل لانا اجتماعی قیادت کی ذمہ داری ہے۔ سابق امیر تنظیم اسلامی حافظ عاکف سعید s کے دورامارت میں اس پر باقاعدہ شوریٰ اور توسیعی عاملہ میں برسوں مشاورت ہوئی ہے ۔ جب میرا دورامارت شروع ہوا تومیں نے کہا کہ ہمارے بزرگوں نے اتنی بڑی محنت کی ہے تواس پرعمل درآمد کیا جائے اور اس کونظم کی سطح پر جاری کیا جائے اوراس کی تنفیذ کی جائے۔اس میںانفرادی معاملات (عقائد،ایمانیات، عبادات، مالی معاملات کا درست ہونا، حقوق العباد کی ادائیگی وغیرہ)اوراجتماعی معاملات(دعوت دین اور امربالمعروف اورنہی عن المنکر ) کے لیے باہر نکل کرمحنت کرنا وغیرہ شامل ہیں ۔ اس سرکلر کو شائع کیا گیا ۔ احسانِ اسلام سرکلر میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر فرد کی ذمہ داریوں کے انقلابی ، ظاہری اور روحانی پہلوئوں پر عدل کی بنیاد پر عمل درآمد کے لیے رہنمائی موجود ہے۔ اس کوشش کا حاصل یہ ہے کہ ہم اپنی تمام دینی ذمہ داریوں کوادا کرسکیں۔احسان اسلام کا سرکلر میں نے چند علماء کرام اورایک دوتحریکی کارکنوں کودکھایا تووہ عش عش کراٹھے کہ ہمارے ہاں اتنے پہلوئوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اور الحمد للہ یہ خارج سے گواہیاں بھی آرہی ہیں ۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024