(اداریہ) دِلّی دور نیست - ایوب بیگ مرزا

7 /

اداریہ
ایوب بیگ مرزادِلّی دور نیستغزہ کی جنگ 47 روز جاری رہنے کے بعد بالآخر 4 دن کے لیے بند ہوئی ہے۔ ان 47 دنوں میں اسرائیل فلسطینیوں پر فضا سے آگ برساتا رہا ۔ زمینی حملے بھی شروع کر چکا تھا۔ اُس کے ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں اور دوسری بھاری مشینری سامنے آنے والی ہر شے کو روندتی رہی۔ بمبار طیارے سول آبادی پر ہی نہیں ہسپتالوں پر بھی اندھا دھند بمباری کرتے رہے۔ عورتیں اور بچے خون میں نہاتے رہےاور اُن کے جسموں کے اعضا ہوا میں بکھرتے رہے ۔ الشفاء ہسپتال سے زخمیوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر باہر نکالا اور کھلی سڑک پر پھینکا گیا۔ یہ المناک مناظر اور بچوں کی چیخ و پکار دنیا بھر میں لوگ گھروں میں بیٹھے ٹیلی ویژن کی سکرین پر دیکھ اور سن رہے تھے۔ اس پر یورپ کے لوگ جن کی اکثریت عیسائی ہے متاثر ہوئے اور وہ اسرائیل کی اس درندگی کے خلاف احتجاج کے لیے لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے۔
آگے بڑھنے سے پہلے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ایک عرصہ سے مغرب کا میڈیا جس پر یہودی کنٹرول رکھتے ہیں، مسلسل یہ پروپیگنڈا کر رہا تھا کہ مسلمان دہشت گرد ہیں، قتل و غارت گری ان کے مذہب کا حصہ ہے۔ مسلمان امن کے دشمن ہیں، یہ ہمارے خون کے پیاسے ہیں، مسلمان تاریکی کی پیداوار ہیں۔ ان کا مہذب اور روشن خیال دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ جاہل اور تہذیب ِنو کے دشمن ہیں۔ ان کی وجہ سے انسانیت خطرہ میں ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب کچھ سفیدفام دنیا کے اذہان و قلوب میں بڑی شدت سے راسخ کیا جا رہا تھا۔ اس پس منظر میں اہلِ یورپ کا اسرائیل کی وحشت ناک کارروائیوں اور درندگی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکلنا یقیناً اہمیت رکھتا ہے۔ لہٰذا یہ کہہ کر کہ یہ لوگ تو جانوروں اور درندوں کے حوالے سے بھی احتجاج کرنے نکل آتے ہیں، ایسے احتجاجوں کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کرنا جن میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ شریک ہوں، غیر مناسب ہے۔ البتہ مسلمان ممالک کے شہریوں کو اپنے گریبان میں منہ ڈالنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے دعوؤں اور نعروں پر غور فرمائیں اور اپنے عمل کا جائزہ لیں۔ عام مسلمان شہری پانی کی طرح بہتے اِس خون کو دیکھ کر اور عورتوں بچوں کی آہ و بکا سن کر اظہار افسوس کر رہے ہیں، اس سے آگے کوئی سوچ ہی نہیں۔ زیادہ سے زیادہ اپنی اور دوسری مسلمان حکومتوں کو بُرا بھلا کہہ کر اپنی ذمہ داری سے عہدہ برّا ہو جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عام شہری براہِ راست تو کچھ بھی نہیں کر سکتا لیکن اگر مسلمان شہری یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی حکومتیں کچھ کر سکتی ہیں تو سوال یہ ہے کہ کیا وہ اپنی حکومتوں کو کھینچ کر دشمن کے خلاف میدان میں اترنے پر مجبور نہیں کر سکتے؟ ہماری رائے میں عوام اگر ارادہ کر لیں تو وہ ہرچہ بادا باد کا نعرہ لگا کر اپنی حکومتوں کو مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ اسرائیل کا ہاتھ روکیں اور غزہ کو موت کی وادی بنانے کی اسرائیلی خواہش کو لگام ڈالیں۔ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ مسلمان ممالک کے شہریوں نے احتجاج کرکے اپنی حکومتوں کو اپنے ذاتی، سیاسی اور معاشی مطالبات ماننے پر مجبور کر دیا۔ یہ اُس وقت ہی ممکن ہے جب ہم نبی پاک ﷺ کے فرمان کے مطابق ایک جسد بن جائیں اور جسد کے ایک حصہ کی تکلیف دوسرے حصہ کو خود بخود بے چین کر دے۔ لیکن جب تک ذہن سے یہ نہ نکلے کہ میں ہی صرف میں ہوں اور وہ تو بس وہ ہے اُس وقت تک سب حال مست رہیں گے۔ ٹیلی ویژن سکرین پر معصوم بچوں کے چہروں سے خون کے فوارے چھوٹتے دیکھیں گے عورتوں کی چیخ و پکار سنیں گے تب ہم میں سے وہ بہت نرم دل سمجھا جائے گا جو آہ بھرے گا اور دشمنوں کی توپوں میں کیڑے پڑنے کی دعا کرے گا جبکہ ہماری اکثریت تو اپنی ’’مومن حکومتوں‘‘ کے سجائے ہوئے میلوں ٹھیلوں اور میوزک کنسرٹ سے غم بہلائے گی۔
بہرحال یہ بات بھی اپنی جگہ صد فی صد درست ہے کہ اصل ذمہ داری ریاستوں کی ہے، حکومتوں کی ہے۔ مسلم ممالک نے آج سے چون(54) سال پہلے organization of Islamic cooperation جس کا مخفف OIC ہے قائم کی تھی۔ اس کا پہلا اجلاس 1969ء میں مراکش (رباط) میں ہوا۔ آج اس تنظیم کی جو صورتِ حال ہے اس پر اس کے سوا کیا تبصرہ کر سکتے ہیں ’’ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا‘‘
حقیقت یہ ہے کہ تنظیم کا آغاز کچھ ایسا بُرا نہیں تھا۔ بھارت اُس وقت بھی بہت سے عرب ممالک کے حکمرانوں کے دلوں میں بستا تھا، لہٰذا بھارت کو OIC کی رکنیت اس بنیاد پر دے دی گئی اور اُسے کانفرنس میں مدعو کر لیا گیا کہ بھارت میں کثیر تعداد میں مسلمان بستے ہیں۔ پاکستان میں اُس وقت مارشل لاء لگا ہوا تھا۔ یحییٰ خان پاکستان کے صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے۔ کون نہیں جانتا کہ وہ ایک عیاش، غیر ذمہ دار اور خود میں ڈوبا رہنے والا انسان تھا۔ تب بھارت نے مزید ایک شر انگیزی کی اور ایک سکھ وزیر کو کانفرنس میں شرکت کے لیے بھیج دیا۔ سکھ رہنما نے کانفرنس ہال میں داخل ہوتے ہوئے بڑی زور دار آواز میں السلام علیکم کہا اس پر پاکستان کا وہ صدر جس کی سطور بالا میں چند صفات بیان کی گئی ہیں، اُٹھ کھڑا ہوا اور بڑی گرجدار آواز میں اس بھارتی نمائندے کو کانفرنس سے نکال باہر کرنے کا مطالبہ کیا جو تھوڑی بہت ردو قدح کے بعد تسلیم کر لیا گیا اور بھارتی نمائندے کو باہر نکلنا پڑ گیا۔
آج پچاس سال گزرنے کے بعد OIC مضبوط اور توانا ہونے کی بجائے اس حالت کو پہنچ گئی ہے کہ اسرائیل کے بدبخت یہودی مسلمان بچوں کے چیتھڑے اُڑا رہے ہیں۔ مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوز کر رہے ہیں اور OIC کانفرنس میں چار عرب ممالک جن میں حرمین شریفین کے ’’محافظ‘‘ بھی شامل ہیں، اس بات پر ڈٹ جاتے ہیں کہ اسرائیل کے خلاف کسی اقدام کو مشترکہ اعلامیہ کا حصہ نہیں بنایا جائے گا ۔
بعض دانشور حضرات ہمیں اسرائیل کے خلاف اقدام کے حوالے سے جذباتی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہماری جذباتیت مسلمانوں کے لیے ہی نقصان دہ ہے اور دشمن اِنہیں اشتعال دلا کر جنگ و جدل کے لیے اُکساتا ہے اور پھر ان کی خوب درگت بناتا ہے۔ وہ کبھی قرآن پاک سے {کُفُّوْٓا اَیْدِیَکُمْ }’’اپنے ہاتھ روکے رکھو ‘‘ کا حوالہ دیتے ہیں اور کبھی صلح حدیبیہ کا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں ان عقل کے اندھوں کو دشمن کی چال سمجھ ہی نہیں آتی۔ ہمارا جواب یہ ہے کہ کب اور کس نے کہا ہے کہ امت ِمسلمہ یک دم اعلانِ جنگ کرکے میدان میں کود جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگرچہ دشمن کے خلاف بالآخر قتال کا مرحلہ بھی آتا ہے لیکن اُس کے لیے بہت سوچ و بچار کرکے اور اپنے حالات کا جائزہ لینے اور صحیح وقت کا انتخاب کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر یہ کہ یہ تسلیم کرنا بھی اعترافِ حقیقت ہوگا کہ مسلمانوں اور اُن کے دشمنوں میں طاقت کا عدم توازن فی الحال ناقابلِ عبور نظر آتا ہے۔ البتہ سوچنے کی اصل بات یہ ہے کہ کیا کھلی جنگ سے پہلے بھی دشمن کے خلاف کوئی اقدام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے یا نہیں۔ ہماری رائے میں اگر امت ِمسلمہ پورے اتفاق اور یکسوئی کے ساتھ اس دشمن اور اُس کے سرپرستوں کا تجارتی اور سفارتی بائیکاٹ کر دے اور اس پر ایک خاص عرصہ تک استقامت دکھائے تو اسرائیل ہی نہیں اُس کے سرپرستوں کے ہوش بھی ٹھکانے لگ جائیں گے اور وہ معقولیت اختیار کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔ اُس صورت میں روس اور چین جیسی عالمی قوتوں سے بھی یورپ اور اسرائیل کے خلاف تجارتی اور سفارتی اقدام کرنے کا مطالبہ کیا جا سکے گا۔ لیکن یہ سوچنا بھی حماقت ہوگی کہ امتِ مسلمہ تو اسرائیل کے خلاف کوئی عملی قدم نہ اُٹھائے اور کچھ بڑی طاقتوں سے یہ توقع کی جائے کہ وہ اسرائیل کے خلاف لنگوٹ کس لیں گے۔
کاش کوئی ہمارے دانشوروں کو یہ سمجھائے کہ مسجد اقصیٰ کی جگہ پر تھرڈ ٹمپل بنانا، گریٹر اسرائیل قائم کرنا جس میں عراق،شام، لبنان، کویت، اردن اور مصر کے بعض حصے ہی نہیں مسلمانوں کو جان سے زیادہ عزیز مدینہ منورہ بھی شامل ہے۔ اسے یعنی گریٹر اسرائیل کو معرضِ وجود میں لانے کو وہ اپنی مذہبی ذمہ داری کہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا عربوں کی یہ امن پسندی، صلح جوئی اور ترلے منتیں اُنہیں ایسے اقدام سے روک دیں گی کہ وہ اپنے مذہبی تقاضے کی تکمیل نہ کریں۔ کب تک ہم مصلحت آمیزی کی آڑ میں بزدلی کا مظاہرہ کرتے رہیں گے اور خود کو بے وقوف بناتے رہیں گے۔

مسلمانانِ پاکستان بھی خدارا ایک بات سمجھ لیں کہ اسرائیل تو 1967ء میں یعنی چھپن (56) سال پہلے ہی علی الاعلان کہہ چکا ہے کہ عرب بیچارے ہم سے کیا لڑیں گے ہمارا اصل مقابلہ پاکستان سے ہے۔ یاد رہے اُس وقت پاکستان کے پاس ایٹمی صلاحیت بھی نہیں تھی۔ سوچنے کا مقام یہ ہے کہ کیا گریٹر اسرائیل کی طرف بڑھنے سے پہلے یا اُس کے تکمیلی مراحل میں اسرائیل ایٹمی پاکستان کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کر لے گا؟ ہم نہیں جانتے کہ وقت پڑنے پر پاکستان اپنی ایٹمی قوت کو استعمال میں لاتا ہے یا نہیں، لیکن وہ امریکہ جو تل ابیب کی سلامتی کو واشنگٹن کی سلامتی پر ترجیح دیتا ہے، کیا وہ بھی اسلامی بم سے صرفِ نظر کرے گا؟ حالانکہ اُس کا ماضی تو اس بات پر شاہد ہے کہ وہ افغانستان جیسے چھوٹے اور پسماندہ ملک پر حملہ کرنے سے پہلے نائن الیون کرواتا ہے اور اس ڈراما کو عذر بنا کر پاکستان پر اپنے پنجے پوری شدت سے گاڑ لیتا ہے۔ لہٰذا یہ تصور کرنا بھی حماقت عظمیٰ ہوگی کہ اسرائیل عرب ممالک اور مسلمانوں کے مقدس مقامات اور شہروں کی طرف بڑھنے سے پہلے پاکستان کو ایٹمی صلاحیت سے محروم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرے گا اور یہ بھی ممکن نہیں کہ امریکہ اس واردات میں اسرائیل کے ہر اوّل دستے کا رول ادا نہ کرے۔ لہٰذا پاکستانیوں خاص طور پر حکمرانوں کو خوابِ خرگوش سے بیدار ہونا ہوگا۔ غزہ کی جنگ شروع ہونے کے بعد غافل حکمرانوں کو کم از کم انگڑائی تو لے لینی چاہیے تھی یعنی کوئی سوچ و بچار اور مشاورت کا سلسلہ تو شروع کرنا چاہیے تھا لیکن اُن کے طرزِعمل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ’’ہنوز دلی دوراست‘‘ کا مستانہ نعرہ لگا کر کلمہ طیبہ کے نام پر بننے والی مملکت ِخدادادِ پاکستان میں رنگ برنگے فیسٹیول کروانے میں شدت سے مصروف ہیں۔ یہ نادان خود کو امریکی چھتری تلے محفوظ سمجھ رہے ہیں اور عطار کے اُسی لونڈے سے دوا لینے پر اصرار کر رہے ہیں، جس کے سبب بیمار ہوئے ہیں۔ وہ اس فلسفہ پر یقین رکھتے ہیں۔ آج کا دن خیریت سے گزر گیا ہے کل کی کل دیکھا جائے گی۔ سقوطِ غرناطہ اور ڈھاکہ سے پہلے بھی مسلمانوں کے ایسے ہی رنگ ڈھنگ تھے۔ اے اللہ! ہمارے ایمان کو جِلا بخش اے اللہ! ہمارے دلوں کو جذبہ جہاد اور شوقِ شہادت سے لبریز کر دے۔ اے اللہ! ہماری دینی غیرت اور حمیت کو زندہ کر دے۔ آمین یا رب العالمین!