بی بی سی کی ڈاکومنٹری نے پہلے سے ثابت شدہ معاملے پر مزید مہر
تصدیق ثبت کردی ہے کہ مودی بھارتی مسلمانوں کا قاتل ہے : رضاء الحق
مغرب جب قرآن مجید کی بے حرمتی کرتا ہے تومسلمان حکمران اور عوام
کواپنے عمل سے ثابت کرنا ہوگا کہ ہم قرآن کے ساتھ کھڑے
ہیں : ڈاکٹر محمد حسیب اسلم
بھارت کشمیر میں جس طرح کا انسانیت سوز کھیل کھیل رہاہے اس پر
دنیاکا خاموش رہنا مجرمانہ غفلت کا ارتکاب ہے : عبداللہ حمید گل
اسلام اور مسلمان دشمنی میں ملوث بھارت اور سویڈن کے موضوع پر
حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال
میز بان :وسیم احمد
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال:حال ہی میں برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے2002ء کے گجرات میں مسلم کش فسادات کے حوالے سے ڈاکومنٹری نشر کی ہے ۔ 20سال قبل کے واقعات پر اب ڈاکومنٹری بنانے کے مقاصد کیا ہوسکتے ہیں ؟
رضاء الحق:بھارت میں مسلم کش فسادات کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا بلکہ اس سے پہلے 1992ء میں ہندوؤں نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ بابری مسجد گرائی اوراس منصوبے میں RSS،VHP اورBJP ملوث تھے اوران کی اعلیٰ سیاسی قیادت کی سرکردگی میں یہ سب کچھ ہوا۔ 2002ء کے گجرات کے مسلم کش فسادات کا پس منظر یہ ہے کہ 27فروری 2002ء کو ایک ٹرین ہندو یاتریوں کولے کر ایودھیا سے واپس آرہی تھی۔ راستے میں ٹرین کواندر سے بند کرآگ لگادی گئی جس میں ان کے 59لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ لیکن فوری طورپرانہوں نے الزام مسلمانوں پر لگا دیا۔ مودی گجرات کا وزیراعلیٰ تھا۔ اس کی اورRSS کے غنڈوںکی پوری پلاننگ تھی کہ ہم نے کس طرح سے بھارت میںاپنا راج قائم کرنا ہے ۔ ہم پھر مسلمانوں سے بھی بدلے لیں گے اورچن چن کران کوقتل کریں گے۔ بعد کے واقعات نے یہ سب کچھ ثابت کیا۔ بی بی سی کی ڈاکومنٹری میں کچھ ایسے شوائد ہیں جوپہلے سے موجود تھے اور کچھ نئی باتیں بھی سامنے آئیں ۔ اگر غور کریں تو بی جے پی کی حکومت میں آج جولوگ بڑے بڑے عہدوں پرفائز ہیں وہ سب گجرات کے فسادات میں ملوث تھے۔ اس ڈاکومنٹری میںبتایا گیا ہے ہے کہ جب ہندو غنڈے مسلمانوں پرحملے کررہے تھے توکانگریس کے لیڈر احسان جعفری کے گھر میں تقریباًسو مسلمانوں نے پناہ لے لی۔ احسان جعفری نے حکومتی سطح پرہرطرف فون کیا لیکن ان کوکوئی اہمیت نہیں دی گئی ۔ کیونکہ اب بات کھل کرسامنے آگئی ہے کہ اس وقت پولیس کویہ احکامات دیے گئے تھے کہ آپ نے ہندوئوں کی کوئی کارروائی نہیں روکنی۔ بعد میں پولیس کے بڑے عہدوں پرفائز لوگوں نے گواہیاں بھی دیں ۔بہرحال احسان جعفری نے جب دیکھاکہ ان کی کوئی نہیں سنتا تووہ خود باہرگئے اوران دہشت گردوں سے بات کی کہ عورتوں اوربچوں کوتوچھوڑ دو توانہوں نے اس شخص کی گردن کاٹی اور ان کو ٹکڑے کرکے شہید کردیااورپھراند ر داخل ہو کر مزید 70 لوگوں کو شہید کردیا۔ اس طرح کے بہت سارے واقعات ہوئے ۔جب یہ واقعات ہوئے تودنیا میں ہنگامہ برپا ہوگیاکہ انڈیاجواپنے آپ کو جمہوری اور سیکولر ملک کہتاہے وہاں پرایسے واقعات کیوں ہورہے ہیں۔ چنانچہ یورپی یونین اور برطانیہ نے اپنے طورپرایک انوسٹی گیشن کروائی۔ برطانوی وزیرخارجہ جیک سٹرا نے اس ڈاکو منٹری میںتبصرہ کیاکہ وہاں بڑی پلاننگ کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف کام کیاگیا۔ عورتوں کاریپ کیاگیا۔مسلمانوں کو ٹارگٹ کرکے ان کی نسل کشی کی گئی اورEthnic Cleansing کی گئی۔رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ مودی ان واقعات میں ملوث تھا۔ یعنی پورا معاملہ اس کے ذریعے ہوا تھا۔ انڈیا کی عدالتیںاور ادارے ان واقعات پرپردہ ہی ڈالتے رہے ۔ کچھ عرصہ قبل وہاں کی سپریم کورٹ نے مودی اور اس کے ساتھیوں کو بالکل کلین چٹ دے دی ۔ یہ سوال ضرور پیدا ہورہاہے کہ اس وقت برطانیہ کے سرکاری نشریاتی ادارے نے یہ ڈاکومنٹری جاری کی ہے توکیاوہ مسلمانوں کوان کے حقوق دلوانا چاہتے ہیں ؟میرے نزدیک شاید بنیادی وجہ یہ نہ ہو۔وہاںکے نشریاتی ادارے حکومتی پالیسی کے تحت ہی چلتے ہیں۔بیس سال اگر وہ خاموش رہے توایک دم ان کوکیسے یہ خیال آگیا کہ ان کو حقوق دلوانے ہیں۔ جب سے طاقت کامرکز برطانیہ سے امریکہ میں گیاہے توبرطانیہ نے امریکہ کے مقاصد کوہی آگے بڑھانے کے لیے کچھ نہ کچھ کردار ادا کیاہے ۔اس وقت دوتھیوریز سامنے آرہی ہیں۔ ایک یہ کہ امریکہ بھارت سے جوکام لیناچاہ رہاہے بھارت اس طرح سے نہیں کررہا۔ یعنی چین ،روس اور دیگر معاملات کے حوالے سے بھارت امریکہ کواس طرح سپورٹ نہیں کررہا۔ وہ روس کے ساتھ بھی تعلقات جاری رکھے ہوئے ہے۔لہٰذا مودی حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے ڈاکو منٹری نشر کی گئی ہے کہ ہمارا کام کر و۔ ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ جب بھی انڈیامیں BJP کی مقبولیت کم ہوناشروع ہوتی ہے تو اپنے انتہا پسند ہندو ووٹ بینک کو قابو کرنے کے لیے کوئی ایساواقعہ کروا دیا جاتا ہے۔ جیساکہ وہاں الیکشن میں ہمیشہ پاکستان کے خلاف کارڈ کواستعمال کیا جاتاہے ۔ اب بی بی سی کی اس ڈاکومنٹری کے نتیجہ میں مودی یہ کہے گاکہ چونکہ میں ہندوؤں کے لیے کام کررہا ہوں اور بھارت کو ایک عظیم ملک بنانا چاہتا ہوں اس لیے مجھے ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔ لہٰذا ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مودی کودوبارہ مقبولیت دلانے کے لیے یہ واقعہ کیاگیاہو۔
سوال: ماضی میں انڈیا میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر مظالم کے حوالے سے امریکی کانگریس میںانڈیاکے خلاف رپورٹس آچکی ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی کئی دوسرے ادارے مسلمانوں کے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف رپورٹیں جاری کرتے رہے ہیں لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ انڈیا کوآج تک کسی ایسی رپورٹ کی قیمت نہیں چکانی پڑی۔ اس کی کیاوجہ ہے ؟
ڈاکٹر حسیب اسلم:اس معاملے کو دواعتبارات سے دیکھاجاسکتا ہے ۔ پہلے میں یہ کہوں گاکہ ایسا نہیں ہے کہ ان چیزوںکا بالکل بھی فرق نہیںپڑتا۔ مثال کے طور پرانڈیا میں کچھ مسلمان بی جے پی کے حمایتی ہیں ۔ جب اس طرح کی رپورٹس آئیں گی توانہیں کچھ نہ کچھ احساس ہوگا کہ بی جے پی مسلمانوں کی دشمن ہے اور ہو سکتا ہے وہ مودی کی حمایت چھوڑ دیں ۔ آج کے دور میں عوامی رائے عامہ کی اہمیت ہے اور اس طرح کی رپورٹس سے عوامی رائے عامہ پراثر پڑتاہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ بھارت کو ایسی رپورٹس کی قیمت کیوں نہیں چکانی پڑتی تو جورپورٹیں شائع کرنے والے ممالک ہیں (برطانیہ ،امریکہ وغیرہ ) ان کے اپنے ہاں عدل اور مساوات نہیں ہے ۔ یورپ میں احیائی تحریکوں کے نتیجے میں جو انسانی حقوق کا تصور آیا وہ بھی قومیت کی وجہ سے جانبدار انہ رہاہے ۔پھر سیکولرازم کی وجہ سے دین اوردولت میں جدائی ہوئی ہے توپھرہوس کی امیری ،ہوس کی وزیری قائم ہوئی۔ پھر یورپی ممالک نے اپنے اندر اگر انسانی حقوق کی کچھ پاسداری کی بھی ہے تو دوسرے ممالک میں انہوں نے بھی جو مرضی میں آیا کیا ہے ۔ آج بھی یورپ کا یہ دہرا معیار ہے کہ جہاں مفادات ہوتے ہیں وہاں انسانی حقوق کے خلاف بات نہیں کرتے اور جہاں سے کوئی مقصد اس طرح سے حل ہوتا ہو تو وہاں انسانی حقوق کی بات کر لیتے ہیں ۔ جہاںتک امریکہ کی بات ہے تووہ مسلمانوں کے ساتھ اپنے ملک میں اور پھر پوری دنیا میں کیا کرتا رہا ہے سب جانتے ہیں ۔ اس سے توقع کرنا ہی بے سود ہے ۔سپین نے جب مسلمانوں کی نسل کشی کی تھی توان کا موقف یہ تھا کہ یہ ہمارا ملک تھا ، مسلمان باہر سے آئے تھے لہٰذا ان کو ہم نکالیں گے ۔ لہٰذا برطانیہ کاکوئی بندہ کس منہ سے اسے کہہ سکتاہے کہ تم مسلمانوں پرکیوں ظلم کررہے ہو؟ ایک انٹرویو میںمودی نے کہا تھا:"You have no right to tell us.You can not tell us about human rights." یعنی تم لوگ بھی یہ سارا کچھ کرتے رہے ہواور اب ہمیں ہیومن رائٹس کاسبق پڑھارہے ہو۔ بہرحال پوری دنیا میں کوئی ایسی طاقت ہے ہی نہیں جوکسی ظالم کے خلاف آواز اٹھائے ۔ وہ مسلمان جن کے ساتھ یہ ظلم ہورہاہے اصولی طورپر توآواز ان کواٹھانی چاہیے تھی وہ بھی آپس میں بٹے ہوئے ہیں ۔ کوئی بی جے پی میں ہے کوئی کانگریس میں ہے ۔ان کی آواز ایک نہیںہے۔ یہی حال پوری دنیا کے مسلمانوں کا ہے ۔ ایک زمانہ وہ تھا جب سلطنت عثمانیہ کاخاتمہ ہواتھا تو تحریک خلافت ہندوستان میں چلی اور یہاں سے چندہ کرکے پیسے ترکی بھیجے گئے لیکن آج ہماری عیاشیاں بدمعاشیاں اپنی جگہ ہیں لیکن دوسرے مسلمانوں کے ساتھ جوہوتا رہے انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے ۔بہرحال ایسی ڈاکومنٹریز سے جو فرق پڑنا چاہیے وہ نہیں پڑتا ۔
سوال: گجرات کے فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی کوبھارت میں بری الزمہ قرار دیا گیا ہے ۔ اس پرآپ کیاکہیںگے ؟
عبداللہ حمیدگل:بھارت میں جس طریقے سے عدالتوں میں دھوکہ دہی سے کام لیاگیاہے کسی اور ملک میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ حال ہی میں بھارت میں شہریت کا جو قانون آیا اس کے نتیجے میں کثیرتعداد میں مسلمانوں کو بھارتی شہری ہونے سے محروم کردیا۔ اتنے عرصے سے جولوگ بھارت میں رہ رہے تھے کیا وہ غیرقانونی رہ رہے تھے اوربھارت کی سرکار، فوج، انٹیلی جنس ادارے اورعدلیہ کواس کاعلم نہیں تھا۔بھارت کی عدلیہ نے کشمیری راہنما افضل گورو کوپھانسی دلوا دی تھی۔ حالانکہ اس فیصلے میں عدلیہ کے ریمارکس یہ تھے کہ افضل گورو کے خلاف کوئی واضح ثبوت نہیں ملا لیکن انڈین قوم کی تسلی اورتشفی کے لیے ہم اس کو پھانسی کی سزا دے رہے ہیں۔لہٰذا ان بھارتی عدالتوں سے کیا توقع کی جاسکتی ہے ؟ ’’گجرات کا قصائی ‘‘ کے الفاظ تومغرب نے استعمال کیے ہیں ۔اسی طرح سیفرون ٹیرراسٹ کانام RSSکو CIAنے دیا تھا۔ اسی کے نتیجہ میں امریکہ نے مودی پر ویزہ کی پابندی لگائی تھی لیکن جب وہ وزیراعظم بن گیا تو پابندی ہٹاد ی کیونکہ اب بھارت کو چین کے خلاف ایک طاقت کے طور پر پیش کرنا مقصود تھا ۔ اسی طرح یورپی یونین کے336 ارکان نے بھارت کی کشمیر میں مداخلت کو ناجائز قرار دیا اور اس کوانسانی حقوق کی سراسر خلاف ورزی گردانا۔ پھر انسانی حقوق کوسلب کرنے کے حوالے سے اقوام متحدہ کی باقاعدہ دورپورٹس موجود ہیں جن میں اس حدتک ظالمانہ قصے بیان کیے گئے ہیں کہ اقوام متحدہ کانمائندہ جورپورٹ کوپڑ ھ رہا تھاوہ روتے روتے ہلکان ہوگیاکہ بھارت میں اتنے مظالم ڈھائے جارہے ہیں ۔ اس کے باوجود بھارت کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے ۔
سوال: جیسے نائن الیون کے واقعہ کو افغانستان پرحملے کے لیے عالمی یلغار کابہانہ بنایاگیا تھاانہی دنوں بالکل اسی طرح گوجرہ ٹرین حادثہ کومسلمانوںکی نسل کشی کاجواز بنانے کی کوشش کی گئی ۔ ایک ہی وقت میں اس خطے کے مسلمانوں کی نسل کشی کے یہ دونوں واقعات کیاایک ہی گریٹ گیم کاحصہ نہیںتھے ؟
عبداللہ حمیدگل:جی بالکل !نسل کشی توآج بھی ہورہی ہے۔ دوسال پہلے بھارت میں عیسائیوں کے دو سو خاندانوں کی صلیبیں آگ کے الائو میں پھینک دی گئی تھیں اور ساتھ یہ بھی کہا کہ اگر تم ہندو نہیں بنتے تواسی طریقے سے ہم تمہیں اٹھا کر پھینک دیں گے ۔ کیایہ دنیا نے نہیں دیکھا۔پھر جب آسٹریلین باشندوں کو چر چ میں بند کرکے آگ لگادی گئی تھی تو وہ واقعہ دنیا بھول گئی ؟ سمجھوتہ ایکسپریس کو جس طریقے سے نذر آتش کیاگیا، اسی طرح کے بے شمار واقعات ہیں جن پر ہمیں غور کرنا چاہیے۔ پھر بھارت اب کشمیر کے اندر انسانیت سوز کھیل کھیل رہاہے اورجومظالم ڈھارہاہے اس کے اوپر دنیاکااس طریقے سے خاموش رہنا مجرمانہ غفلت کا ارتکاب ہے ۔ دنیا کلبھوشن کے اوپر بھی خاموش ہوجاتی ہے ، اس کے بعد ابی نندن جیسا بدمعاش باقاعدہ ایک سرکاری جہاز لے کر ،سرکاری پستول لے کر سرکاری وردی پہن کے پاکستان کے اندر گھس جاتاہے اورپاکستان کی سرحد کے اندر مداخلت کرتا ہے تویہ عالمی قوانین کی دھجیاں اڑانے کے مترادف نہیں ہے ؟ اسی طرح آرٹیکل 370،35اے کوختم کیاگیاتوکیایہ اقوام متحدہ کے منہ کے اوپر ایک زوردار طمانچہ نہیں تھا؟اس کا مطلب ہے کہ یہ سارے حقائق ہیںلیکن چونکہ چور مچائے شور،بھارت کی داڑھی میں وہ تنکا ہے بلکہ اس کی ساری داڑھی ہی غلط ہے۔ مودی ہندو توا کا جو تصور لے کر آیا ہے وہ یہ ہے کہ بھارت صرف برتر کلاس کے لوگوں کے لیے ہے باقی تمام لوگ چاہے وہ ہندوہی کیوں نہ ہوںیااقلیتیں ہوں ان کے لیے بھارت میں رہنے کی جگہ نہیںہے ۔وہ بھارت میں مذہبی دہشت گردی کررہے ہیں ۔ مسلمانوں پرمظالم ڈھائے جارہے ہیں ۔ وہاں کی مساجد کوشہید کیاجارہاہے ۔ پھروہاں مسلمانوں کی بچیوں کوحجاب پہننے سے روکا جارہاہے ۔اس کا مطلب ہے کہ بھارت میں ایک سوچ کے تحت ہندوتوا کوپروموٹ کیاجارہا ہے ۔
سوال: بی بی سی کی ڈاکومنٹری میں نریندر مودی کو ذمہ دار ٹھہرایاہے ۔ جبکہ اس وقت انڈیا میں حکومت کانگریس کی تھی اورمسلمانوں کی جان ومال کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ کیایہ ایک طرح سے آدھاسچ نہیں ہے ؟
رضاء الحق: جب ہم فیڈرل نظام کودیکھتے ہیں توکہاجاتاہے کہ ملک کے سارے لوگوں کی جان ومال کاتحفظ فیڈرل حکومت کے ہی ذمہ ہے۔لیکن بھارت کی تاریخ الگ ہے ۔ اصل میں بی جے پی 1925ء میںقائم ہوئی تھی اوریہ جماعت ہٹلر اورمسولینی جیسے ظالم حکمرانوں سے متاثر ہوکر نسل پرستانہ نظریہ کی بنیاد پربنائی گئی تھی ۔ ان کی تھیوری یہ تھی کہ ہماری ایک Superior Raceہے اور باقی تمام ان ہندوئوں کے نیچے دب کے رہیں اورہم جیسے چاہیں ان کے ساتھ سلوک کریں ۔ حتیٰ کہ ان کو ہم واپس اپنے ہندومت کے مذہب میںلے کر آئیں گے ۔ یہ دوسری بات ہے کہ جب تقسیم ہوئی تو انڈیا میں سیکولرقوتیں غالب آگئیں لیکن انتہاپسند جماعتBJP اورہندوئوں نے اس چیزکو تسلیم نہیں کیا۔ پھریہ بھی دیکھیں کہ اسی وقت گاندھی کو RSSکے رکن نتھورام نے قتل کردیا تھا۔اسی گروہ نے 1980ء تک سیاسی جماعت کے طور پربھی طاقت پکڑنی شروع کردی۔انتہا پسند ہندو طبقہ سارا ان کے ساتھ کھڑا ہے ۔ اسی بناء پر 2002ء میں بطور وزیر اعلیٰ مودی نے گجرات کے سارے علاقے کو اپنے قبضے میں کر لیا تھااورسارا انتہاپسند ہندو طبقہ اس کے اشاروں پرناچ رہا تھا ۔ پولیس سمیت صوبے کی پوری مشینری اس کے ساتھ تھی۔لہٰذا اس معاملے میں فیڈرل حکومت کچھ کرنہیں کرسکتی تھی۔ یقیناً وہ بھی بری الذمہ نہیں ہے لیکن چونکہ مودی نے طاقت اتنی حاصل کرلی تھی کہ بعد ازاں انہوں نے وفاقی حکومت پر بھی قبضہ کرلیا لہٰذا وہی فسادات کا اصل ذمہ دار بھی ہے ۔
سوال:سویڈن میں ایک دفعہ پھرقرآن پاک کی بے حرمتی کاواقعہ ہوا۔ اس واقعہ پرتمام دنیا کے مسلمانوں کے دل دکھے ہوئے ہیں اوروہ دنیا میں احتجاج کررہے ہیں ۔ اس سارے واقعہ کی تفصیلات کیا ہیں ؟
رضاء الحق:یہ انتہائی افسوس ناک اوراندوہناک واقعہ ہے۔ واقعہ میں ملوث راسمیں پالوڈان نامی شخص سٹرام کرس جماعت کا رکن ہے جوکہ انتہائی دائیں بازو کی جماعت ہے۔وہ ڈنمارک شہر سے تعلق رکھتاہے لیکن اس کے پاس سویڈن کی دہری شہریت بھی ہے۔ 2021ء میں اسی بدبخت نے قرآن پاک کونذرآتش کرنے کی جسارت کی تھی اور اب پھریہ حرکت کی۔اس واقعہ کے ساتھ ساتھ ہالینڈ میں بھی یہ واقعہ ہوگیا۔ وہاں کی پارلیمنٹ کی بلڈنگ کے باہر اسی طرح کے بدبخت نے یہ حرکت کی۔ دراصل اسلاموفوبیا کی سوچ مغرب میں پھیل گئی ہے جس کے خلاف ہمارے سابق وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں آواز بلند کی تھی۔ پاکستا ن اس حوالے سے بڑا مضبوط موقف رکھتاہے کہ اسلاموفوبیاکودنیا میں ختم ہوناچاہیے اوراس کی کوششوں سے15مارچ دنیا میںاسلامو فوبیا کے خاتمے کے عالمی دن کے طور پر نامزد ہوا لیکن اصل بات اس کے نتائج ہیں۔ مغرب میں احیائی اور اصلاحی تحریکیں مادیت پرستی، لبرل ازم اورسیکولرزم کولے کر آگے بڑھیں توان کے اخلاقی پیمانے بہت مختلف ہوگئے۔ خاص طورپرنائن الیون کے بعد جب سب کی انگلیاں مسلمانوں کی طرف اٹھنا شروع ہوئیں اور پھر قرآن پاک اور نبی اکرمﷺ کی ذات اقدس کوانہوں نے نشانہ بنایا۔ سویڈن کاواقعہ اس لحاظ سے بڑا عجیب ہے کہ اصل میں وہاں پراحتجاج ترکی کے خلاف ہورہا تھا۔ چونکہ روس اوریوکرائن کامسئلہ چل رہاہے توسویڈن اورفن لینڈ چاہ رہے ہیں کہ ہم نیٹوکاحصہ بنیں لیکن ترکی اس کے مخالف ہے اوریہ ترکی کی ایمبیسی کے باہر احتجاج کررہے تھے تو اس دوران اس بدبخت شخص نے یہ حرکت کی۔ اس کووہاں پرجس طرح پولیس کی پروٹیکشن ملی ہے ، لگتا ہے کہ پوری پلاننگ کے ساتھ یہ واقعہ کیا گیا ہے۔ سکینڈے نیوین ممالک میں ہولوکاسٹ کے بارے میں صرف یہ کہہ دیاجائے کہ اس میں 60لاکھ سے کم یہودی تھے تواس پر چھ سال قید کی سزا ہے۔ اگر ان کے بادشاہ یاملکہ کے بارے میں کوئی تضحیک آمیز گفتگو کی جائے توچار سال قید کی سزا ہے ، قومی پرچم جلانے پر قید کی سزا ہے ۔ لیکن اسلاموفوبیا میںوہ لوگ اس حدتک آگے نکل چکے ہیں کہ اسلام ، قرآن پر رکیک حملے پوری پلاننگ کے ساتھ کرتے ہیں ۔تنظیم اسلامی اس بے حرمتی کی ہرفورم پر شدیدمذمت کرتی ہے ۔ہماری دعا ہے کہ مسلم امہ اس معاملے پرمتحد ہو اورزبانی جمع خرچ سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات بھی کرے ۔
سوال:مسلمان ممالک مغرب کے دوہرے معیارات اور اسلام دشمنی کا کیسے مقابلہ کرسکتے ہیں؟
ڈاکٹر حسیب اسلم:اس حوالے سے کچھ لوگ وہ ہیںجو کہتے ہیں آپ اس چیز کو اتنا سیریس نہ لیں ۔ ایسے لوگوں کی حس مرچکی ہوتی ہے ۔ ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ سیرت النبی ﷺ کا مشہور واقعہ ہے جب حضرت عمرh کے اسلام قبول کرنے سے قبل (معاذاللہ) آپ ﷺ کے قتل کے ارادے سے نکلے اور انہیں راستے میں خبر ملی کہ ان کے اپنے بہنوئی اور بہن اسلام قبول کر چکے ہیں تو وہ سیدھے ان کے گھر پہنچے جہاں اندر سے تلاوت کی آواز آرہی تھی ۔ حضرت عمرhاندر گئے اور مارپیٹ کے بعد جب ان کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو انہوں نے قرآن کا وہ نسخہ مانگا جو وہ پڑھ رہے تھے ۔ ان کی بہن فاطمہ بنت خطابk کو معلوم تھا کہ بھائی غصے میں ہے ، جان بھی لے سکتا ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے جواب دیا کہ میں تمہیں اس کو ہاتھ بھی نہیں لگانے دوں گی ۔ یہ ہے مسلمان کا اصل کام کہ اپنی جان پرکھیل جائے مگر قرآن کی بے حرمتی برداشت نہ کرے ۔ اب رہی بات کہ مغرب کی اسلام دشمنی اور دہرے معیار کا مقابلہ کیسے کیا جائے ۔ مغرب اسلام کی وہ چیزیں لیتا ہے جن میں ان کو اپنے لیے فائدہ نظر آتا ہے ۔ ایک طرف تو انسانی حقوق کا تصور وہاں اُبھرا ہے ۔ مگر عدل قائم نہیں کر سکے ۔ انہوں نے آزادی تو دی مگر وہ آزادی مادر پدر آزادی میں بدل گئی ۔ سکینڈے نیوین ممالک میں انسانی فلاح کا تصور تو عروج پر ہے مگر ساتھ ہی ساتھ مادر پدر آزادی کے اظہار کا معاملہ اس قدر ہے کہ اس کے لیے کسی دوسرے کی آزادی ، دوسرے کے حقوق چھین لیے جاتے ہیں ۔ قرآن مجید کے بارے میں دشمنان اسلام کا رویہ کوئی نیا نہیں ہے ۔ آپ ﷺ کے زمانے میں بھی کافروں نے کہا کہ قرآن کوہرگز نہ سنو۔ جب پڑھا جارہاہوتو درمیان میں شور ڈالو تاکہ کوئی دوسرا بھی نہ پڑھ سکے ۔ مگر ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود اسلام پھیلا ۔ اب بھی نائن الیون کے بعد جتنا دبانے کی کوشش کی گئی اتنا تیزی سے اسلام پھیل رہا ہے ۔اسی بات کی ان کو پریشانی ہے ۔ ان کو پتہ ہے کہ یہ کتاب اتنی پر کشش ہے کہ اس سے دنیا اسلام کی طرف جارہی ہے ۔ یہی مسئلہ سرداران قریش کو بھی قرآن سے تھا۔قرآن پاک کی سورہ حٰمٰ سجدہ میں فرمایا :
’’اور کہا ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا کہ مت سنو اس قرآن کو اور اس (کی تلاوت کے دوران) میں شور مچایا کرو‘تا کہ تم غالب رہو۔‘‘(آیت :26)
اب یہ جو الفاظ ہیں ان پر غور کریں کہ وہ اپنی طرف سے ایسے ہتھکنڈے استعمال کرکے اسلام پر غالب ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس کا مقابلہ کرنے کی سب سے اچھی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ہم قرآن سنائیںاور قرآن کو پرموٹ کریں۔ اس پر بھی سیر ت کا بڑا پیارا واقعہ ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودhنے صحابہj کے درمیان بیٹھ کر کہا کہ قریش قرآن سے اتنی دشمنی کرتے ہیں مگر انہوں نے کبھی قرآن کو سنا نہیں ۔ میں تو جاؤں گا کل کفار کے سامنے کھلے عام قرآن کی تلاوت کروں گا۔جب وہ گئے اور سورۃ الرحمٰن کی تلاوت کی تو سارے دم بخود ہوگئے اور ان پر پھر بڑا ظلم وتشدد بھی ہوا۔بہرحال اگر وہ اس کو سننے میں رکاوٹ ڈالتے ہیں تو مسلمانوں کو سنانے کے لیے میدان میں آنا چاہیے ۔انڈیا کے سکالر انعام الرحمٰن غزالی نے کہا کہ مغرب اگر قرآن مجید کی بے حرمتی کرتا ہے تومسلمان حکمران اور عوام کو اعلان کرنا چاہیے کہ ہم قرآن کے ساتھ کھڑے ہیں ۔قرآن ہمارا دستور اور ہمارا آئین ہے ۔ہم اس کو یاد کریں اور پڑھیں اور اس پر عمل بھی کریں ۔ یہی ایک حل ہے ۔اسی طرح اسلام غالب ہوگا ۔ ان شاء اللہ
tanzeemdigitallibrary.com © 2024