عالم ِاسلام کے خلاف یہود و نصاریٰ کی سازشیں(4)
ڈاکٹر اسرار احمد ؒ
(گزشتہ سے پیوستہ)
پاکستان : اب آیئے پاکستان کی طرف کہ پاکستان ان کا ہدف کیوں ہے؟
اوّلًا: پاکستان اسلامک فنڈامنٹلزم کا فکری اور علمی گڑھ ہے ‘لہٰذا اس قلعہ کو مسمار کرنا ان کے پیش نظر ہے۔
ثانیاً: پاکستان ایک مسلمان ایٹمی طاقت ہے۔ لہٰذا ان کے نزدیک گریٹر اسرائیل کا نقشہ شروع کرنے سے پہلے پاکستان کے ایٹمی دانت توڑنے ضروری ہیں۔ ورنہ اگر وہ منصوبہ شروع ہو گیا تو پورے عالم ِ اسلام کے اندر عوامی سطح پر جو طوفان اٹھے گا وہ حکومتوں کو بہا کر لے جائے گا اور اس صورت میں خطرہ موجود ہے کہ کہیں پاکستان میں فنڈامنٹلسٹ حکومت قائم نہ ہو جائے۔اور ان کے ہاتھ میں اگر ایٹمی ہتھیار آ گئے تو ظاہر بات ہے کہ پھر وہ استعمال بھی ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا اس کے ایٹمی دانت توڑنا ان کے پروگرام میں شامل ہے۔
ثالثاً:چائنا کا گھیرائو (containment) مکمل کرنے کے لیے پاکستان کو استعمال کرناپیش نظر ہے۔اس لیے کہ یہی ایک آئوٹ لٹ ہے جو چائنا کو ملا ہوا ہے۔ چائنا نے پاکستان میں بہت سرمایہ کاری کی ہے۔ شاہراہِ ریشم کی تعمیر پر اس کا کتنا پیسہ خرچ ہوا ہے اور اس کے کتنے فوجیوں نے وہاں پر جانیں دی ہیں! پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر جوسڑکیں بنائی گئی ہیں اس میں ہماری آرمی نے بھی کام کیا ہے لیکن اس میں بہت بڑا حصّہ چائنیز کا ہے۔ پھر اُس نے گوادر پر کتنا پیسہ خرچ کیا ہے! اس لیے کہ وہ پاکستان سے گوادر کے راستے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے تجارتی روابط بڑھانا چاہتا ہے۔ اس طرح وہ بحرالکاہل سے ہو کر سٹیٹ آف ملاکا (ملائشیا)سے ہوتے ہوئے بحر ہند میں پہنچنے کے بجائے براہِ راست شاہراہِ ریشم کے ذریعے پاکستان میں اتر کر گوادر کے راستے بحیرئہ عرب کے گرم پانیوں میں پہنچ جائے گا۔ چین کی اس منصوبہ بندی کو روکنے کے لیے امریکہ پاکستان پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے۔
رابعاً: پاکستان کو غیر مستحکم کر کے بلوچستان کو گریٹربلوچستان بنانا بھی ان کے پروگرام میں شامل ہے۔ اس طرح ایک تو انہیں بلوچستان سے افغانستان کے راستے وسط ایشیا کے تیل کے ذخائر تک رسائی مل جائے گی اور دوسرے بلوچستان کے اندر جو بڑے پیمانے پر معدنی دولت موجود ہے اس پر ان کا قبضہ ہو جائے گا ۔ پاکستان کے بارے میں وہ یہ چاہتے ہیں کہ اس کے ایٹمی دانت توڑ کر اسے بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔ امریکہ کی سیکریٹری آف سٹیٹ کنڈولیزا رائس کے اس بیان کا مَیں کئی بار ذکر کر چکا ہوں کہ پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ بھارت اور امریکہ مل کر کریں گے۔ اس کے یہ الفاظ آن ریکارڈ ہیں۔ اس اعتبار سے افغانستان کے بعد پاکستان کا نمبر ہے۔
بھارت کو اپنا سٹریٹجک پارٹنراور اتحادی بننے پر امریکہ نے اسے اتنا بڑا تحفہ دیا ہے کہ اس کے ساتھ سول نیوکلیئر معاہدہ کیا ہے۔ اس طرح اسے کھلی چھوٹ حاصل ہو گئی ہے کہ دنیا میں جہاں سے چاہے نیوکلیئر بم بنانے والے آلات ووسائل حاصل کرے۔ یہ تحفہ دینے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ایٹمی دانت توڑ کر اسے بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا بھی ان کے پیش نظر ہے اور اس کی طرف پیش قدمی شروع ہو گئی ہے۔ چنانچہ بھارت ہمارے گرد اپنا شکنجہ کس رہا ہے اور دریائوں کا پانی روک کر ہمیں گھٹنوں کے بل گرانے کا منصوبہ بنا چکا ہے۔ پنجاب کا علاقہ کبھی باروں (نیلی بار وغیرہ) پر مشتمل ہوتا تھا اور یہ سب صحرا تھے۔ دریائوں کا پانی رک جانے سے ہماری نہریں خشک ہو جائیں گی اور پورا پنجاب پھر سے صحرائوں میں تبدیل ہو جائے گا۔
سعودی عرب : پاکستان کے بعد ان کا اگلا ٹارگٹ سعودی عرب اور شام ہیں۔ اس لیے کہ سعودی عرب ’’وہاب ازم‘‘ کا منبع (source)ہے‘ جس نے دنیا کے اندر اسلامک فنڈامنٹلزم کو بہت تقویت دی ہے‘ اور مغرب فنڈامنٹلسٹ کی حیثیت سے ’’وہاب ازم‘‘ کو بھی گالی کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ ’’قرآن‘‘ وہاں کے نظامِ تعلیم کا جزوِ لازم ہے۔ اگرچہ وہاں کی حکومت نے امریکہ کے ایماء پر اپنی نصابی کتب میں سے جہاد و قتال کی آیات اور یہود و نصاریٰ کے خلاف آیات نکال دی ہیں‘ مثلاً:{یٰٓــاَیـُّـھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰی اَوْلِیَآئَ م}(المائدۃ:51) تاکہ نوجوان نسل کے اذہان میں ایسے افکار پروان نہ چڑھیں‘ لیکن یہ لوگ قرآن کو تو نہیں بند کر سکتے۔ قرآن تو ان کے رگ و پے میں ہے‘ قرآن تو پڑھا جا رہا ہے اور پڑھا جاتا رہے گا۔ لہٰذا فنڈامنٹلزم کا بڑا سورس ہونے کے ناتے سعودی عرب بھی ان کی آنکھ کا کانٹا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں مسلمانوں کے مقدّس مقامات (مکّہ و مدینہ) پر حملہ کرنے کا معاملہ زیر بحث آیا ہے۔ ٹام ٹینکریڈو (Tom Tancredo)‘ جو جان مکین کے مقابلے میںریپبلکن پارٹی کے ٹکٹ کا امیدوار تھا‘اُس نے یہ ہرزہ سرائی کی تھی کہ ہم مسلمانوںکے مقدس مقامات پر بمباری کریں گے۔ اس کی انتخابی مہم کے مینیجر نے بھی یہی بکواس کی تھی۔
یہ چمن معمور ہو گا نغمہ ٔ ‘توحید سے
جیسا کہ قبل ازیں عرض کیا جا چکا ہے ‘ اسلام میں جیسے ہی غربت کا آغاز ہوا تھا‘تجدیدی مساعی کا بھی آغاز ہو گیا تھا۔ یہ تجدیدی مساعی چودہ سو برس تک تدریجاً بڑھتے بڑھتے اب اپنے کلائمکس کو پہنچنے والی ہیں۔ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ اللہ کے دین کی تجدید ِکامل ہو کر رہے گی۔ اور یہی درحقیقت سورۃ الانشقاق کی ان آیات میں سے تیسری آیت کا مطلب ہے۔ یہ جو فرمایا:
{فَلَآ اُقْسِمُ بِالشَّفَقِP وَالَّــیْلِ وَمَا وَسَقَ(16) وَالْقَمَرِ اِذَا اتَّسَقَ(18)}’’تو نہیں‘ میں قسم کھاتا ہوں شفق کی۔ اور قسم ہے رات کی اور اُن چیزوں کی جن کو وہ اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے۔ اور قسم ہے چاند کی جب وہ رفتہ رفتہ پورا ہو جاتاہے۔‘‘
جس طرح چاند رفتہ رفتہ بڑھتا ہے اور چودہ دن میں ہلال سے بدر بن جاتا ہے اسی طرح تجدید کا چاند تدریجاً بڑھ رہا ہے اور چودہ صدیوں میں آکر اب اسلام کی تجدید کامل ہونے والی ہے۔ گویا وہ وقت آ چکا ہے جب مجددِ کامل کا ظہور ہو گا۔ اور اسی کے ضمن میں عالم ِ اسلام میں مختلف تجدیدی مساعی ہو رہی ہیں‘ برعظیم پاک و ہند میں اور خاص طور پر پاکستان میں یہ تجدیدی مساعی جاری ہیں۔ اس کے بعد چوتھی آیت میں فرمایا:
{لَـتَرْکَبُنَّ طَبَـقًا عَنْ طَـبَقٍ(19) }’’تم یقیناً درجہ بدرجہ اوپر اٹھو گے۔‘‘
یعنی تجدید ِدین کا کام اسی طرح تدریجاً تکمیل کو پہنچے گا جیسے نبوت کی تکمیل ہوئی تھی۔ حضرت آدم ؑ سے لے کر محمدرسول اللہﷺ تک کئی ہزار برس میں تدریجاً تکمیل نبوت اور تکمیل رسالت ہوئی۔ اسی طرح اب دین اسلام کی تجدید کامل ہونی ہے‘ اس کا وقت اب آگیا ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ بالآ خر اسلام کا غلبہ پوری دنیا میں ہو کر رہنا ہے ع ’’یہ چمن معمور ہو گا نغمہ ٔ‘ توحید سے!‘‘لیکن اس سے پہلے مسلمانوں کو کچھ زخم لگنے ہیں۔ عالم ِعرب پر اللہ کی طرف سے کچھ عذاب کے کوڑے برسنے ہیں‘ اور اسی طرح ہو سکتا ہے کہ ہم اہل ِپاکستان پر بھی عذاب کے کوڑے برسیں۔ اس لیے کہ اوّلین مجرم اہل ِ عرب ہیں اور دوسرے نمبر پر ہم مجرم ہیں۔ ہم نے اسلام کے نام پر یہ ملک بنایا اور 61 برس ہو گئے مگر اسلام ہماری ترجیحات میں کہیں نہیں ہے‘ یہاں اسلام کے نظامِ عدلِ اجتماعی کی کوئی ادنیٰ سی جھلک بھی موجود نہیں ہے۔ لہٰذا ہم بہت بڑے مجرم ہیں۔ اللہ ہمیں معاف کر دے اور مزید مہلت دے دے تو یہ اس کا کرم ہے ۔ اس کے لیے ہم دعا کر سکتے ہیں۔ لیکن اونچ نیچ ہونے کے بعد ہو کر یہی رہے گا کہ بالآخر اسلام کا بول بالا ہو گا اور دین کی کامل تجدید ہو گی‘ اِن شاء اللہ العزیز۔
اب ہم میں سے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اپنی جگہ سوچے کہ ان مساعی میں اس کا کیا حصّہ (contribution) ہے۔ دورِ نبویؐ میں اسلامی انقلاب محمد رسول اللہﷺ کے دست ِمبارک سے تمام مراحل طے کرتے ہوئے پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا۔ ابوجہل‘ ابولہب اور دیگر کفار و مشرکین اس جدّوجُہد میں شرکت سے محروم رہ گئے‘ لیکن حضرات ابوبکر‘ علی‘ عمر‘ حمزہ اور عثمان وغیرہمjرسول اللہﷺ کے دست و بازو بن گئے۔ یہ تو ہر شخص کا اپنا معاملہ ہے کہ کون آگے رہتا ہے اورکون پیچھے رہتا ہے۔ جیسے سورۃ المدثر کی یہ آیت ہم نے پڑھی: {لِمَنْ شَآئَ مِنْکُمْ اَنْ یَّـتَقَدَّمَ اَوْ یَتَاَخَّرَ(37)} یعنی اب جو چاہے آگے بڑھ جائے اور جو چاہے پیچھے رہ جائے! نبوت کا خورشید طلوع ہونے کے بعد یہ پکار تھی کہ اب کون ہے جو آگے بڑھتا ہے‘ تصدیق کرتا ہے اور کون ہے جو پیچھے رہ جاتا ہے؟ پیچھے رہنے والے محروم رہ جائیں گے اور آگے بڑھ کر تصدیق کرنے والے اللہ کی رحمتوں کے اہل قرار پائیں گے۔ اسی طرح اب تجدید کامل تو ہو کر رہنی ہے ‘لیکن اب کون ہے جو اِس جدّوجُہد میں حصّہ ڈالنے کو تیّار ہو؟ کون ہے جو اپنے جسم و جان کی توانائیاںاس کے اندرصَرف کرنے کو تیار ہو؟ کون ہے جو اپنے مالی وسائل و ذرائع کو اس کے لیےصَرف کرنے کو تیار ہو؟ (ختم شد)
tanzeemdigitallibrary.com © 2024