سات خوش قسمت لوگ(حدیث نبوی ﷺ کی روشنی میں )
مسجد جامع القرآن قرآن اکیڈمی کراچی میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے27جنوری2023ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص
خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیا ت کے بعد!
آج ہم ان شاء اللہ نبی اکرمﷺ کی بہت ہی قیمتی اور معروف حدیث مبارک کا مطالعہ کریںگے۔ اس حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جن کو اللہ تعالیٰ کل قیامت کے دن اپنے عرش کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا۔حضرت ابوہریرہ ؓ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیںکہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا :’’سات خوش نصیب ایسے ہیں جنہیں اللہ اپنا سایہ نصیب فرمائے گا جس روز اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہو گا۔ (1)عادل حکمران، (2)وہ نوجوان جو اللہ کی عبادت میں پروان چڑھا،(3) وہ آدمی جس کا دل مسجد کے ساتھ معلق ہے، جب مسجد سے نکلتا ہے (تو وہ مسجد سے لاتعلق نہیں رہتا) حتیٰ کہ وہ وہاں لوٹ جاتا ہے، (4)وہ دو آدمی جو اللہ کی رضا کی خاطر باہم محبت کرتے ہیں، اسی بنیاد پر اکٹھے ہوتے ہیں اور اگر جدا ہوتے ہیں تو بھی اس محبت پر قائم رہتے ہیں، (5)وہ آدمی جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو اس کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں، (6)وہ آدمی جسے حسب و جمال والی دوشیزہ نے (برائی کی)دعوت دی تو اس نے کہا:میں اللہ سے ڈرتا ہوں!اور(7) وہ آدمی جس نے جو صدقہ کیا، اس نے اسے اس قدر مخفی رکھا حتیٰ کہ اس کا بایاں ہاتھ نہیں جانتا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔‘‘ (متفق علیہ)
قرآن مجید کئی مقامات پر قیامت کی ہولناکیوں کا تذکرہ ہمارے سامنے رکھتا ہے۔ آج اگر گرمی کی شدت پچاس ڈگری تک ہو تو ہماری کیا حالت ہوتی ہے۔ سوچئے !جب قیامت کادن ہوگااور اس دن گرمی کی جو شدت ہوگی تو اس وقت عالم کیا ہوگا ؟ جہاں سوائے اللہ تعالیٰ کے عرش کے سایہ کے کوئی اور سایہ نہیں ہوگا اور وہ سایہ صرف ان لوگوں کو نصیب ہوگا جو ان سات قسم کے افراد میں سے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کوکل کی تیاری کی توفیق عطا فرمائے۔اب ہم ان افراد کے اوصاف کا مطالعہ کریں گے ۔
(1)۔ عادل حکمران
بنیادی طور پر یہاں حکمران سے مراد ایسا شخص ہے جسے کسی خطہ ارض کے افراد پر اختیار اور حکمرانی مل گئی ہو ۔ اس منصب پر بیٹھ کر بہت مشکل ہوتاہے کہ کوئی عدل کر سکے ۔ چار بچوں کے باپ کی کل کی جوابدہی بڑی مشکل بات ہے چہ جائیکہ لاکھوں اور کروڑوں افراد کے حوالے سے روز قیامت جواب دینا پڑے ۔ لیکن اگر حکمران عدل کرنے والا ہو،دل میں اللہ کا خوف رکھتا ہو ، مخلوق خدا کے ساتھ بھلاسلوک کرنے والا ہو،اللہ کی زمین پرظلم کے خاتمے کی کوشش کرنے والا ہوتواس حدیث مبارک کے مطابق ایسا حکمران اللہ کے عرش کے سائے میں ہوگا۔عدل ہمارے دین کابہت بڑ ا تقاضا ہے۔اللہ نے اس کائنات کو عدل پربنایاہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{وَالسَّمَآئَ رَفَعَہَا وَوَضَعَ الْمِیْزَانَ(7)} ’’اور آسمان کو اُس نے بلند کیا اور میزان قائم کی۔‘‘
{ اَ لَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(8)} (الرحمٰن)’’تاکہ تم میزان میں زیادتی مت کرو۔‘‘
اب ہم سے تقاضا ہے کہ اس میزان عدل میں تم ڈنڈی نہ مارنا۔ اللہ سورۃ الحدید کی آیت 25میں اپنے رسولوں کامشن بیان فرماتاہے :
’’ہم نے اپنے رسولوں کو نشانیاں دے کر بھیجا اور ان کے ہمراہ ہم نے کتاب اور میزان (عدل) بھی بھیجی تاکہ لوگ انصاف کو قائم رکھیں۔‘‘
اس مقصد کے لیے اللہ نے رسولوںکو بھیجا۔ اللہ تعالیٰ رسول اللہﷺ کی زبان سے کہلواتاہے :
’’اور (آپؐ کہہ دیجیے کہ) مجھے حکم ہوا کہ میں تمہارے درمیان عدل قائم کروں۔‘‘ (الشوریٰ:15)
اوراب ختم نبوت کے بعد امت مسلمہ کے کاندھوں پر جو ذمہ داری ہے اس حوالے سے امت کو قرآن کہتاہے :
{یٰٓــایُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَآئَ لِلّٰہِ ط} (النساء:135)’’اے اہل ایمان‘ کھڑے ہو جائو پوری قوت کے ساتھ عدل کو قائم کرنے کے لیے اللہ کے گواہ بن کر‘‘
بہرحال عدل ہمارے دین کابہت بڑاتقاضا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے صرف عدل کی بات نہیں کی بلکہ عدل قائم اور نافذ کرکے دکھایاہے۔لیکن آج جس تناظر میں ہم جی رہے ہیںکہ آٹے کی لائن میں لگنے والے بھی ہلاک ہو جاتے ہیںاور اب آئی ایم ایف کے ساتھ رضا مندی کے بعد جومزید تباہی مچنے والی ہے، پھرنئے ٹیکس لگیں گے اور معاملہ کہاں تک پہنچے گا ۔ آج اگر کوئی شخص حکمرانی شوق سے قبول کررہاہے تووہ سومرتبہ سوچے کہ کل اس نے رب تعالیٰ کو جواب دیناہے۔ بہرحال اگر کوئی ظلم کر رہاہے تو حدیث مبارک کے مطابق وہ روز قیامت تاریکیوںاور سختیوں میں ہو گا اوراگر وہ عدل کررہاہے تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے عرش کے سائے میں اسے جگہ ملے گی۔
(2)عبادت گزار نوجوان
اس سے مراد وہ نوجوان ہے جواللہ کی عبادت میں پروان چڑھا ہو۔ریٹائرمنٹ کے بعد بڑھاپے میں سب کواللہ یاد آہی جاتاہے ۔ اگر70برس کے بعد بھی اللہ کسی کوتوفیق دے دے تووہ اس کی عطا ہے۔ اور 70 برس کے بعد بھی اگر کوئی پلٹ آئے اور سچی توبہ کرلے تو اللہ معاف کرنے کو تیار ہے ۔اس کی نفی نہیں ہے ۔ معاذاللہ! البتہ جوانی کی زندگی کادور وہ ہوتاہے جب ساری صلاحیتیں اپنے نکتہ عروج پرہوتی ہیں ، پہاڑوں سے ٹکرانے کاحوصلہ ہوتاہے اور اپنی ذات کے سوا کسی کو خاطر میں نہیں لایا جاتا ۔ ایسے میں بگڑنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اس موقع پرکوئی اللہ کویادر کھے ،اللہ کے ساتھ تعلق کی مضبوطی ہو،اللہ کی بندگی میں لگاہو اور اپنے شب وروزکو جائز معاملات میں لگائے تویہ نوجوان بھی کل اللہ کے عرش کے سائے میںہوگا۔یہی وجہ ہے کہ جوانی اورنوجوانی کامعاملہ علیحدہ سے قرآن کریم بھی بیان کرتاہے ۔ ابراہیم علیہ السلام نے جب تن تنہا بتوں کا خاتمہ کیااس وقت بھی ان کی نوجوانی کی کیفیت کا ذکرقرآن کریم بیان کرتاہے ۔یوسف علیہ السلام کی شرم وحیا کی حفاظت کااگر قرآن پاک ذکر کرتاہے توساتھ ان کی جوانی کاذکر بھی کرتاہے ۔اصحاب کہف بھی نوجوان تھے جنہوںنے اپنی جان اور وطن کے مقابلے میں اپنے ایمان کی حفاظت کوترجیح دی۔ان کا ذکر بھی قرآن بطور خاص کرتا ہے ۔ اسی طرح رسول اللہﷺ کے صحابہ کرام ؓ میںایک سے ایک بڑھ کر ایک نوجوان ہمیں نظر آتاہے جن کی حضورﷺ تحسین بھی فرمایا کرتے تھے ۔قرآن کے بعد حدیث میں بطور خاص جوانی کے بارے میں ذکر ہے ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بندے کے قدم قیامت کے دن ہٹ نہیں سکیں گے جب تک کہ وہ پانچ سوالات کے جوابات نہ دے دے۔ان میں سے ایک سوال یہ بھی ہوگا کہ جوانی کہاں کھپائی ؟ یعنی جوانی کے بارے میں روز قیامت بطور خاص سوال ہوگا ۔ چونکہ جوانی میں انسان کے ارادے ، قوت ، صلاحیتیں اپنے نکتہ عروج پر ہوتی ہیں اور اسی عمر میں بگڑنے کے بھی زیادہ چانسز ہوتے ہیں لہٰذا اس دور میں جو نوجوان تقویٰ اور بندگی کی راہ اختیار کرلے اللہ تعالیٰ اسے اپنے عرش کے سایہ سے سرفراز فرمائے گا ۔
دنیا کہتی ہے کہ کسی ملک میں تبدیلی اورانقلاب کے لیے30 فیصد نوجوانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں 60فیصد نوجوان ہیںلیکن ان کو فضولیات میں لگا دیا گیا ہے ۔ کبھی سپورٹس کے نام پران کو استعمال کیاجاتاہے۔ اسی طرح انٹرٹینمنٹ کے نام پر بے حیائی،عریانی اورفحاشی کو پھیلاکرنوجوان نسل کا بیڑا غرق کردیاہے اوراب تو حد یہ ہوگئی ہے کہ سیکولر سیاستی جماعتوں کے لوگ کنسرٹ کے انداز میں ہلڑ بازی کرتے ہیں جوکہ اخلاقی اور دینی اقدار کے خلاف ہے ۔ لیکن اگر دینی سیاسی جماعتوں کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں انتخابات کے موقع پروہی ڈریس کوڈ اختیار کریںجوآج کل عام نوجوانوں کاہوچکا ہے تویہ ڈوب مرنے کا مقام ہے۔
جس نے واقعتاً اللہ کی وحی پر ایمان لایا ہو ، قرآن کاجسے شوق وذوق ہوجائے اسے یہ بے حیا کلچر سب گندگی لگے گا۔معلوم نہیں کیوں آج لوگ اصل کو چھوڑ کر محض نقل پر مطمئن ہوجاتے ہیں ۔ یہ ناچ گانے، فلمیں، ڈرامے وغیرہ یہ سب مصنوعی ہی توہیں ،ظاہر ہے اصل تک رسائی نہیں ہوگی تو گندگی ہی اصل محسوس ہورہی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے اور خاص طور پر نوجوانوں کی حفاظت فرمائے ۔آمین !
(3)تنہائی میں اللہ سے ڈرنے والا
وہ شخص جوتنہائی میں اللہ کویاد کرے اور اللہ کی خشیت کی وجہ سے اس کی آنکھ سے آنسو جاری ہو جائیں۔یہ رونااللہ کو کتناپسند ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’دوقطرے اللہ کوبڑے پسند ہیں۔ ایک خون کا وہ قطرہ جواللہ کی راہ میں قتال کرنے کے دوران میدان میں بہہ جائے اور ایک وہ قطرہ جواللہ کے خوف سے بندے کی آنکھ سے بہہ جائے ۔‘‘حدیث میں آتا ہے کہ جب آنسوؤں کا یہ قطرہ بہتا ہے چاہے وہ مچھر جتناہی کیوں نہ ہو تواللہ اس بندے کے گناہوں کوایسے جھاڑ دیتاہے جیسے خزاں کے موسم میں درختوں کے اوپرسے پتے جھڑجاتے ہیں۔لیکن یادرہے کہ اس طرح کی احادیث میں عام طور پرصغیرہ گناہوں کی معافی مراد ہوتی ہے ۔ کبیرہ گناہوں کی معافی کے لیے سچی توبہ اور اس کی شرائط کو پورا کرنا ضروری ہے ۔لیکن بہرحال اللہ کے خوف سے رونے کی اور آنسو بہنے کی یہ فضیلت ہے جس کا ذکر آیا ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی یہ کیفیت نصیب کرے۔ لیکن آج کل لوگوں کوفلموں کے ڈائیلاگ دیکھ کرروناآتاہے۔پاکستان کسی ٹیم سے ہارجائے تو روناآتاہے ۔ بچے کی شادی پرصرف چالیس لاکھ خرچ ہوئے کروڑ خرچ نہیں کرسکااس کے اوپرروناآرہاہے۔ فلاںانسٹی ٹیوشن میں بچے کاداخلہ نہیں ہوا تورونا آتا ہے لیکن اللہ کے ساتھ تعلق میں رونا نہیں آرہا۔ یہ دلوں کی سختی کی علامت ہے ۔ قرآ ن کہتاہے :
{فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃًط} (البقرۃ:74) ’’پس اب تو وہ پتھروں کی مانند ہیں‘ بلکہ سختی میں ان سے بھی زیادہ شدید ہیں۔‘‘
اوراللہ ہمیں پکارتاہے :
’’کیا ابھی وقت نہیں آیا ہے اہل ایمان کے لیے کہ ان کے دل جھک جائیں اللہ کی یاد کے لیے اور اُس (قرآن) کے آگے کہ جو حق میں سے نازل ہو چکا ہے؟‘‘(الحدید:16)
لیکن آج یہ رونامفقود ہوچکا ہے ۔اگرآج تنہائی میں ہمیں اللہ کے خوف سے رونانہیں آرہا توپھرہمیں اپنے اندر جھانکنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہمارے دل سخت تو نہیں ہو چکے۔ اللہ تعالیٰ دلوں کی سختی سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔آمین !
(4)مسجد میں دل لگانے والاشخص
جس کادل مسجد میں اٹکا رہے۔یعنی ایک نماز ادا کی تودوسری نماز کااس کو انتظار رہے ۔ہاں!اذان دی جائے گی یاددہانی کے لیے مگر بندہ توپہلے سے تیار بیٹھا ہوتاہے۔ بلکہ اذان کے وقت بھی آجاتاہے ۔ یہ نہیں کہ بھاگتے بھاگتے آئے اورجمعہ کی دورکعت میں پہنچااور پھر سلام پھیرا اوربھاگ گئے ۔اگر پنج وقتہ نماز کامعاملہ ہے تویہ نہیں کہ موڈ ہوا تومسجد میں جاکرپڑھ لیں گے ورنہ چھوڑ دیں گے ۔بالکل غلط بات ہے ۔کوئی واقعتاً مجبوری آ گئی توبات الگ ہے ۔ورنہ جماعت کی نماز کی فضیلت ہے ۔اللہ کے رسولﷺ نے توان لوگوں کے بارے میں اپنے غصے کا اظہار فرمایاکہ جواذان کی آواز سن لیتے ہیں اورجماعت میں نہیں آتے اور کوئی عذر بھی نہیں۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ میرا جی چاہتاہے کہ ان کے گھروں کوآگ لگادوںلیکن مجھے خیال آتاہے کہ گھر میں عورتیں اور بچے بھی ہوں گے ۔یعنی حضورﷺ نے اپنے اس شدت تاثر کااظہارفرمایا۔جماعت کی نماز کا 27گنا زیادہ اجرہے ۔ پھرا س کے اور بہت سارے فوائد ہیں ۔ بہرحال مسجد میں دل اٹکا رہنے کامفہوم یہ ہے کہ اسے نمازوں کی فکر ہوتی ہے ۔ باقی مساجد میں رہنا،مساجد کی خدمت کرنا، مساجد کے انتظامات میں اپناحصہ ڈالنا، مساجد کوآباد کرنے کی کوشش کرنا،لوگوں کومساجد کی طرف متوجہ کرناوغیرہ یہ سارا کچھ بھی مساجد کے تعلق کے ذیل میں ہی آئے گا۔
اسی طرح ہم توجہ دلاتے ہیں کہ ٹھیک ہے خواتین کے لیے جماعت کی نماز کی پابندی لازم قرار نہیں دی گئی وہ گھرمیں ادا کریں توان کواجرملے گا۔ البتہ کم ازکم جمعہ اور عیدین کے موقع پرکوشش کی جائے کہ وہ بھی خطبات سن سکیں کیونکہ خطبات جمعہ و عیدین کا بنیادی مقصد تذکیر ہے ، یاددہانی ہے ۔ اس لیے ان مواقع پر خواتین کے لیے بھی باپردہ انتظام ہو نا چاہیے تاکہ وہ بھی تعلیم و تربیت کے ان مراحل سے گزر سکیں ۔ اصولی بات ہو رہی تھی کہ مسجد میں دل اٹکا رہے ۔اسی طرح ایک ماں ہے تو اپنے بیٹے کو مسجد میں بھیجے۔بہن ہے تو بھائی کو متوجہ کرے گویااس ماں اور بہن کا دل بھی مسجد کی طرف اٹکا ہوا ہے۔آج ہمارے بچے کہاں کہاں نہیں جاتے ، پارک میں جانے کے لیے ، ٹیوشن اور جم کے لیے جارہے ہیں ، چھوٹے چھوٹے بچوں کو گاڑی میں پتہ نہیں کہاں کہاں ڈراپ کیا جارہا ہے۔ کیا وہی گاڑی بچوں کو مسجد میں ڈراپ کرنے کے لیے استعمال نہیں ہوسکتی۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔
(5)اللہ کے لیے محبت رکھنے والے
وہ افراد جو اللہ کے لیے ہی ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں ۔ یہ بہت بھاری بات ہے ۔ اس لیے کہ جب محبت اللہ کے لیے ہوجائے تو بقیہ محبتیں نیچے ہوتی ہیںاور کبھی کبھی خونی رشتے بھی نیچے رہ جاتے ہیں۔ غزؤہ بدر میں صدیق اکبرؓ مسلمانوں کی طرف سے لڑ رہے تھے جبکہ ان کے بیٹے جو ابھی ایمان نہیں لائے تھے کفار کی طرف سے لڑ رہے تھے ۔ سیدنا علیh ایک طرف ہیں چچازاد دوسری طرف ہیں۔وہاں اسلام اور اللہ کی محبت تمام رشتوں پر غالب تھی ۔ ہم نماز وتر میں دعائے قنوت پڑھتے ہیں۔اس میں الفاظ ہیں :
((وَ نَخْلَعُ وَ نَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُکَ)) ’’ہم علیحدہ ہوجاتے ہیں اورہم چھوڑ دیتے ہیں جوتیری نافرمانی کرے ۔‘‘ ایک بندہ نماز بھی پڑھتا ہے اور یہ دعا بھی کرتا ہے لیکن پھر جاکر شراب کی پارٹیوں، بے پردہ اور مخلوط محافل میں شریک بھی ہوتا ہے تو یہ دونوں چیزیں دین میں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں ۔ اگر اللہ کی رضا مطلوب ہے تو منکرات کو چھوڑنا پڑے گا ۔ بہرحال وہ دوافراد جواللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کریں۔ دوسری روایات میں آتاہے کہ وہ ملتے بھی ہیں تواس کیفیت پراور جب جدا ہوتے ہیں توان کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ ان کی محبت صرف اللہ کی خاطر ہوتی ہے ۔ دنیا کی کوئی غرض مقصود نہیںہوتی تو اللہ تعالیٰ روزقیامت انہیں اپنے عرش کے سایہ سے سرفراز فرمائے گا ۔
(6)مثالی خوف خدا رکھنے والاشخص
وہ شخص جسے کسی خاتون نے اپنے نفس کی طرف مائل کیایعنی زناکی دعوت دی لیکن وہ بندہ کہے کہ میں اللہ سے ڈرتاہوں تو وہ قیامت کے دن اللہ کے عرش کے سائے میں ہوگا ۔ دنیا کے لاکھ پہرے لگادیں ،جتنے پہرے عقل انسانی لگائے گی دوسری عقل اس کو توڑ دے گی۔ لیکن اگر رب کاخوف ہوگا توبندہ سات پردوںمیں بھی بچ سکے گا۔اللہ ہمیں وہ خشیت الٰہی عطا فرمادے ۔ بہرحال زنا کاراستہ حرام ہے ۔ اللہ نے نکاح کاحلال راستہ حلال دیاہے ۔بہرحال آج کل ہم نے بے حیائی اور فحاشی کوعام کردیاہے اورنکاح کو مشکل کردیاتوپھرزنا ہوناہے ۔ جوانیاں لٹ رہی ہیں ،شتر مرغ کی طرح ریت میں سر ڈال کرہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ہمیں آواز بلند کرنی چاہیے اورنکاح کے عمل کو آسان کرنے کی بات کرنی چاہیے ۔
7۔چھپاکرصدقہ کرنے والاشخص
وہ شخص جوصدقہ کرے تو چھپا کر کرے۔یہ بھی آسان بات نہیںہے۔ہمارے اساتذہ نے سکھایاکہ کچھ نیکیاں توخالص آخرت کے لیے رکھو۔ کئی نیکیاں ظاہر ہوجاتی ہیں۔جیسے زلزلہ، سیلاب یا مسجد کی تعمیر کے دوران اجتماعی پکار لگائی جاتی ہے ۔اس موقع پرایک بندہ محسو س کرتاہے کہ میں اگر دوں تودس لوگ اوربھی دیں گے ۔وہ بھی ٹھیک ہے اچھی بات ہے ۔ حالانکہ وہ نفلی صدقہ ہوتاہے۔ اس کا بھی اجر ملے گا لیکن یہاں عام حالات کی بات کی جار ہی ہے کہ جس نے ایسے صدقہ دیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی معلوم نہ ہوا تو وہ شخص بھی روز محشر رب کے سائے میں ہوگا ۔
اس حدیث مبارکہ میں اللہ کے نبی ﷺ نے بڑی پیاری بشارتیں دی ہیں کہ سات قسم کے افراد اللہ کے سائے میں ہوں گے ۔اللہ تعالیٰ ان امور پرہمیں عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے اور ہمیں بھی عرش کا سایہ نصیب کرے۔ آمین یا رب العالمین !
tanzeemdigitallibrary.com © 2024