(اداریہ) امریکہ پاکستان سے کیسے ڈیل کرتا ہے.... - ایوب بیگ مرزا

10 /

اداریہ


ایوب بیگ مرزا


امریکہ پاکستان سے کیسے ڈیل کرتا ہے....


پاک امریکہ تعلقات کے عنوان سے بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے لیکن اس مرتبہ ہم نے اپنی تحریر کو ’’امریکہ پاکستان سے کیسے ڈیل کرتا ہے؟‘‘ کا عنوان دیا ہے۔ اس لیے کہ جب ہم ’’پاک امریکہ تعلقات‘‘ کو عنوان بناتے ہیں تو پھر یہ دو ممالک کے درمیان کسی نہ کسی سطح پر اور کسی نہ کسی انداز میں برابری کا تصور دیتا ہے کیونکہ ’’تعلقات‘‘ کا لفظ یہ تاثر دیتا ہے کہ دونوں ممالک اس حوالے سے کوئی باہم فائدے کا کردار ادا کر رہے ہیں لیکن اگر ہم امریکہ پاکستان سے کیسے ڈیل کرتا ہے کو عنوان بنائیں گے اور پھر تاریخ میں جھانکیں گے تو اصل حقائق واضح ہو کر ہمارے سامنے آئیں گے۔ ماضی میں جب بھی پاک امریکہ تعلقات پر روشنی ڈالی گئی ہے تو ہم نے گریز کیا کہ قائداعظم اور لیاقت علی خان کے ’’عہدحکومت‘‘ میں اس حوالے سے ہونے والے معاملات پر کوئی تبصرہ کیا جائے۔ قائداعظم کا تو قیامِ پاکستان کے بعد امریکہ سے کوئی خاص رابطہ نہ ہوا۔ البتہ لیاقت علی خان امریکہ گئے اس دورہ کے دوران اُنہوں نے بعض سوالات کا جواب تو ایک مجاہد کی طرح دیا اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کے عوض پاکستان میں شہد اور دودھ کی نہریں بہا دینے کی تجویز کو رد کر دیا۔ لیکن اُن کا اس دورے کے لیے امریکہ سے جہاز مانگنا اور پھر سرکاری دورہ ختم ہونے کے بعد امریکہ میں سیر و تفریح کے لیے قیام کرنا اور اس حوالے سے دوسری سہولتوں کا طلب کرنا پھر اسی امریکی جہاز میں برطانیہ جانا اور مبینہ طور پر محض سیر و تفریح کے لیے قریباً ایک ہفتہ ٹھہرنے کی درخواست کرنا انتہائی معیوب دکھائی دیتا ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ ہم نے تب اپنے چھوٹے پن کا اظہار کیا تھا۔
وزیر اعظم لیاقت علی خان نے امریکہ کے اس دورے کے فوری بعد ایوب خان کو ترقی کی مطلوبہ منازل طے کروا دیں اور بالآخر وہ آرمی چیف بن گئے اور محمد علی بوگرہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر متعین ہوئے اور پھر جب انگریز کے تربیت یافتہ آئی سی ایس آفیسر غلام محمد پاکستان کے گورنر جنرل بنے تو اُنہوں نے خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برطرف کر دیا اور اِن ہی نے محمد علی بوگرہ کو امریکہ سے بلا کر پاکستان کا وزیراعظم بنا دیا۔ پاکستان سیٹو، سینٹو کا رکن بھی بن چکا تھا جو سوویت یونین کے خلاف امریکہ نے دنیا کے کئی ممالک سے مختلف معاہدےکرکے بنایا تھا۔ گویا اب پاکستان امریکہ کا باقاعدہ حلیف تھا۔ دوسری طرف بھارت سوویت یونین کی سرکردگی میں بنے ہوئے وارسا پیکٹ میں تھا نہ سیٹو سینٹو کا حصہ بنا۔ لیکن بھارت کا واضح رحجان سوویت یونین کی طرف تھا جبکہ پاکستان بھارت میں چپقلش کا آغاز روزِ اوّلِ سے تھا، لیکن امریکہ نے پاکستان کے ایک حلیف کی حیثیت سے اسلحہ دیتے وقت یہ شرط لگائی تھی کہ یہ اسلحہ بھارت کے خلاف استعمال نہیں ہو سکے گا جبکہ اُس وقت پاکستان کا بھارت کے سوا دنیا بھر میں کوئی واضح دشمن نہ تھا۔ لیکن امریکہ نے پابندی لگا دی کہ اُس کا دیا ہوا اسلحہ بھارت کے خلاف استعمال نہیں ہو سکے گا۔ کشمیر کو قائداعظم نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ پاکستان کے ہر لیڈر نے کشمیر کو پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ قرار دیا۔ کشمیر پر پہلی جنگ 1948ء میں ہوئی جب بھارتی افواج اور ہمارے قبائلیوں کے درمیان گھمسان کا رن پڑا۔ قبائلی مجاہدین اپنے روایتی اسلحہ سے جنگ لڑ رہے تھے۔ مجاہدین جموں کے ہوائی اڈے پر قبضہ کیا ہی چاہتے تھے کہ ایک سازش کے تحت سلامتی کونسل نے جنگ بندی کا اعلان کروا دیا۔پھر ایک عجیب واقعہ ہوا کہ پاکستان کے آرمی چیف کو سول حکومت کا وزیر وفاع بنایا گیا، یوں ایوب خان آگے بڑھتے چلے گئے۔ یہاں قدرت اللہ شہاب کی شہرہ آفاق کتاب ’’شہاب نامہ‘‘ کا حوالہ ضروری ہے جس میں مصنف نے واقعاتی شہادتوں سے ثابت کیا ہے کہ امریکہ اور سوویت یونین کی زبردست دشمنی کے باوجود اُن کا اس بات پر اتفاق ہوتا تھا کہ پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے پاکستان میں بار بار مارشل لاء لگے۔ اس عمل کا آغاز 1958ء میں ایوب خان کے مارشل لاء سے آغاز کیا جا چکا تھا۔
1962ء میں بھارت اور چین کی سرحدی جھڑپیں جاری تھیں، بھارت اپنی ساری فوج کشمیر سے نکال کر ہند چینی سرحد پر لے آیا۔ چین نے پاکستان میں اپنے سفیر کے ذریعے ایوب خان کو پیغام بھیجا کہ کشمیر خالی پڑا ہے۔ پاکستانی افواج کو کشمیر میں واک اوور مل جائے گا، کشمیر حاصل کرنے کا یہ سنہری موقع ہے۔ اسلام آباد میں چینی سفیر نے صدر ایوب خان کے پی اے سے رابطہ کیا۔ پی اے نے آدھی رات کو ایوب خان کو جگا کر چین کا پیغام پہنچایا لیکن ایوب خان سے امریکہ پہلے عہد لے چکا تھا کہ وہ اس صورتِ حال سے فائدہ نہیں اٹھائے گا اور بعدازاں بھارت کے ساتھ کشمیر پر مذاکرات کرکے کشمیر کا مسئلہ حل کر لیا جائے گا۔ سابق CIA چیف بروس ریڈل نے بھی اپنی کتاب میں اس واقعہ کی تصدیق کی ہے۔ بھارت چین جنگ ختم ہوئی لیکن بعدازاں بعد ازاں ہی رہا۔ ایوب خان نے "Friends Not Masters" لکھ کر دل کا بوجھ ہلکا کیا۔
1965ء کی پاک بھارت جنگ میں امریکہ نے دونوں ممالک کو اسلحہ کی سپلائی پر پابندی لگا دی۔ سوال یہ ہے کہ بھارت تو امریکہ سے اسلحہ لیتا ہی نہیں تھا لہٰذا صرف پاکستان کو دورانِ جنگ ایک کاری ضرب لگائی گئی۔ صدر ایوب خان کا خیال تھا کہ امریکہ صرف پاکستان کی خارجہ پالیسی تک اپنے رول کو محدود کرے گا، وہ پاکستان کا دشمن نہیں بلکہ صرف اُس کی خارجہ پالیسی کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔ اُن کی یہ غلط فہمی بھی جلد دور ہوگئی جب اندرون ملک خود اُن کے خلاف چلنے والی تحریک کو امریکہ کی آشیر باد بلکہ مدد کے شواہد سامنے آئے۔ ہم اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ پاکستان کی اندرونی سطح پر بھی سیاسی اور معاشی بہتری امریکہ ایک حد تک ہی گوارا کرتا ہے لیکن جب پاکستان ان حوالوں سے باقاعدہ استحکام حاصل کرنے لگتا ہے تو اندرونی مہربانوں سے مل کر صورتِ حال کو پلٹا دیتا ہے۔ ایوب خان اگرچہ غلط طریقے سے حکمران بنے تھے۔ اُنہوں نے سویلین حکومت کا تختہ الٹا تھا، لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اندرونی سطح پر پاکستان کو سیاسی اور معاشی لحاظ سے مستحکم کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ لہٰذا ایک تحریک کو سپورٹ کرکے سیاسی اور معاشی ترقی کو ریورس گیئر لگا دیا گیا۔ علاوہ ازیں پاکستان کو دو لخت کرنے میں بھی CIA نے اہم رول ادا کیا، اس کا انکشاف ہنری کسنجر کر چکے ہیں۔ لیکن جب ’فال آف ڈھاکہ‘ کے بعد بھارت کا مغربی پاکستان کو بھی صفحۂ ہستی سے مٹانے کا ارادہ نظر آیا اور یہاں بھی اُسے سوویت یونین کی پشت پناہی حاصل تھی۔ لیکن مغربی پاکستان کے بارے میں امریکہ بھارت کے راستے کی دیوار بن گیا۔ اس سے یہ بات سمجھنا بہت آسان ہوگیا کہ امریکہ پاکستان کو کمزور اور مفلوج دیکھنا چاہتا ہے لیکن اُس کا خاتمہ نہیں چاہتا۔ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان زندہ تو رہے لیکن اُس کے ہاتھ کا کھلونا بنا رہے اور امریکہ جیسے چاہے اُس سے کھیلتا رہے اور اس خطے میں امریکہ پاکستان کو اپنے مفادات کے تحت استعمال کرے۔ کارگل کی جنگ اِس لحاظ سے تو ایک غلط محاذ کھولا گیا کہ امریکہ کسی بھی صورت میں اور کسی بھی محاذ پر پاکستان کو یہ اجازت نہیں دے گا کہ وہ بھارت پر برتری حاصل کر لے یعنی امریکہ کی بھارت میں دلچسپی کا غلط اندازہ لگایا گیا لیکن یہ بات اپنی جگہ پر صحیح ہے کہ اگر امریکہ کارگل میں آگے بڑھ کر بھارت کی مدد کو نہ پہنچتا اور سیٹلائٹ کے ذریعے پاکستانی افواج یا مجاہدین کے exact ٹھکانے ظاہر نہ کرتا تو بھارت کے لیے اس جنگ میں بہت مشکلات پیداہو جاتیں۔
امریکہ نے اسرائیل کے وجود کو خطرہ لاحق ہونے کی وجہ سے پاکستان کو ایٹمی قوت بننے سے روکنے کی کوشش بھی کی لیکن اللہ کو کچھ اور منظور تھا۔ پاکستان افغانستان کی جنگ کی آڑ میں ایٹمی قوت بن گیا۔ ایٹمی پروگرام کے آغاز کا کریڈٹ بھٹو کو تکمیل کرنے کا ضیاء الحق کو اور دھماکے کرنے کا کریڈٹ نواز شریف کو جاتا ہے۔ امریکہ کی ایک بار پھر کوشش ہے کہ پاکستان ایٹمی صلاحیت کھو دے۔ بہرحال امریکہ کی پاکستان کے بارے میں یہ پالیسی جاری ہے کہ پاکستان ایک کمزور، مقروض اور مفلوج ریاست کے طور پر دنیا کے نقشہ پر رہے اور اُس کے مفادات کو serve کرے۔ حال ہی میں رجیم چینج بھی اسی پالیسی کا حصہ ہے جب عمران خان کی طرف سے امریکہ کو "Absolutely Not" کا جواب ملا اور جب "Democratic Summit" میں شرکت سے انکار کرکے چین کا ساتھ دینے کا صاف صاف اعلان کر دیا تو پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت کا تختہ الٹ کر بھان متی کے ایسے کنبہ کو اقتدار سونپ دیا گیا ہے جو پاکستان کو سیاسی اور معاشی لحاظ سے بدترین سطح پر لے آئے ہیں، جس میں پاکستان کی سلامتی بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ امریکہ پہلے پاکستان کو تباہ کرنے کے لیے ایک خوف ناک گڑھے تک تو لے آتا ہے پھر اُسے بچا لیتا ہے اور ایسی حالت میں آگے چلاتا ہے کہ اُس کی کمر پر پستول تانی ہوتی ہے اور یوں پاکستان کا اگلا سفر شروع ہوتا ہے۔