(زمانہ گواہ ہے) فلسطین اسرائیل جنگ :حماس کے نمائندہ کی زبانی - وسیم احمد

7 /

اہل فلسطین باشعور ہیں ، وہ جانتے ہیں کہ دنیا منافقت کررہی ہے لہٰذا ان کے

پاس اب واحد راستہ جہاد اور شہادت کی موت ہے اور اسی میں ان کی عزت ہے ،

آج تک اسرائیلی غاصبوں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم ہی نہیں کیا ہے

تو دوریاستی حل کا فارمولا کس لیے ؟

اقوام متحدہ اور او آئی سی  کی قراردادوں کے مطابق بھی فلسطین کی مبارک

زمین پر اسرائیل کاکوئی حق نہیں ہے ،

7اکتوبر سے ایک دن قبل تک یہ ثابت ہو چکا تھا کہ مسئلہ فلسطین کا سیاسی

حل کامیاب نہیں ہے : ڈاکٹر خالد قدومی ( ترجمان حماس )

فلسطین اسرائیل جنگ :حماس کے نمائندہ کی زبانیکے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں حماس کے ترجمان کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمد

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال: 7اکتوبر سے آج تک غزہ میں تقریباً بیس ہزار شہادتیں ہوچکی ہیں جن میں آدھے معصوم بچے اورخواتین ہیں۔ اس پورے عرصے میں فلسطینی مسلمانوں کا جذبہ جہاد اورشوق شہادت کس لیول کا رہاہے اور کیاوہ اب بھی حماس کی پہلے کی طرح ہی حمایت کررہے ہیں ؟
ڈاکٹر خالد قدومی:جیت کااصل مورال عوام ہوتے ہیں جوقربانیاں دیتے ہیں ، غزہ کی اس جنگ میں بچوں اور خواتین نے بے مثال قربانیاں دی ہیں ۔ اسرائیل کے جنگی جرائم 75سال سےجاری ہیں لیکن دنیا اس پر خاموش تھی ۔ 7 اکتوبر کو چونکہ اسرائیل نے نقصان اٹھایا ہے تو دنیا متوجہ ہوئی ہے ۔ اس سے پہلے ہماری قربانیوں پر، مظلومیت پر دنیا کی کوئی توجہ نہیں تھی ۔ ہمارے عوام کو معلوم ہے کہ دنیا منافقت کررہی ہے اور ہمارے پاس صرف جہاد اورمزاحمت کا راستہ رہ گیا ہے ۔ اس وقت تک وہاں حماس کے خلاف ایک ریلی بھی نہیں نکلی بلکہ اسرائیل سے انتقام کے لیے ریلیاں نکل رہی ہیںحالانکہ اسرائیل نے فلسطینی خاندانوںمیں سے کوئی نہ کوئی فرد شہید کیا ہے ۔ میںدنیا سے سوال کرتاہوں کہ فلسطینی عوام کی اتنی قربانیوں کے بعدبھی اور اقوام متحدہ کو مسلسل پیغامات بھیجنے کے باوجود بھی وہ کیوں خاموش ہے؟ یقیناً حماس نے طوفان الاقصیٰ کا آغاز کردیا لیکن ان کی جنگ اپنےدفاع اور آزادی کے لیے ہے اور ایک بڑے ظالم اور غاصب کے خلاف ہے ۔ بہرحال ہمارے عوام باشعور ہیں۔ ان کو پتا ہے کہ ہمارے پاس اب واحد راستہ جہاد اور شہادت ہے اور اسی میں ہماری عزت ہے اور اسی طریقے سے ہم غاصب اسرائیل کو اپنی سرزمین سے نکال سکتے ہیں ۔ اسرائیل کونقصان پہنچے گا تب ہی وہ باز آئے گا ۔ 2005ء میں بھی اسرائیل نے غزہ پر قبضہ کرنے کی کوشش کی بھاری قیمت چکائی تھی تو وہ مجبور ہو کرغزہ سے نکلا تھا ۔ آج بھی وہی تاریخ دوبارہ لکھی جارہی ہے ۔ اسرائیل اب بھی شکست کھائے گا اور پورے فلسطین سے نکل جائے گا۔ ان شاء اللہ
سوال:کیاحماس اور فلسطینی عوام کودوریاستی حل والا فارمولا قابل قبول ہے؟اگر نہیں توکیوں ؟
ڈاکٹر خالد قدومی:7اکتوبر کے بعد جولوگ دوریاستی حل کی بات کرتے ہیں ان کی علمی اپروچ بہت کمزور ہے ۔ بات وہ کریں جسے سے کوئی فائدہ ہے ۔ ایک چیزکو ہم نے آزما کردیکھا ہے ۔1967ء سے وہ لوگ کہتے آئے کہ مغربی کنارہ اور غزہ میں سے 20 فیصد فلسطین بنے باقی 80 فیصد اسرائیل بنے ۔ حالانکہ یہ بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف ہے ۔ 1947ء میں اقوام متحدہ میں باقاعدہ یہ قرارداد منظور ہوئی تھی کہ 45 فیصد رقبے پر فلسطینی ریاست بنے گی جبکہ بدقسمتی سے 55 فیصد فلسطینی جغرافیے میں یہودی ریاست بنے گی اور اگرچہ ہم ارض فلسطین کا ایک ذرہ بھی صہیونیوں کو دینے کے لیے تیار نہیں
لیکن آج تک یہ قراردادبھی نافذ نہیں ہوئی ۔ ہم نے صرف یہ دیکھاکہ اسرائیلی ریاست ایک سامراج ہے ، ایک روگ ہے جو اقوام متحدہ کی قرداددوں(242 اور339 ) کے خلاف عمل پیرا ہے اوراس نے 80 فیصد فلسطین کو غصب کرلیا ہے اور 20 فیصد فلسطین کو بھی وہ فلسطینی ریاست نہیں کہتے بلکہ فلسطینی علاقہ کہتے ہیں ۔ یعنی آج تک اسرائیلی غاصبوں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم ہی نہیں کیا ہے تو دوریاستی حل کا فارمولا کس لیے ؟ حق خود ارادیت کے اصول کوسامنے رکھیں توآزاد لوگوں سے پوچھا جائے گاکہ آپ کیا چاہتے ہیں ۔ جیل کے اندر قیدیوں سے یہ کہنا کہ دال کے بدلے میں برگر کھا لو، کیا اس کو مذاکرات کہیں گے؟ قیدی توکہیں گے کہ پہلے آزادی ہو۔ ہمارا بھی یہ مطالبہ ہے کہ پہلے قبضہ ختم کرو۔ اقوام متحدہ اور او آئی سی کی قراردادوں کے مطابق بھی فلسطین کی مبارک زمین پر اسرائیل کاکوئی حق نہیں ہے ۔ 7اکتوبر سے ایک دن قبل تک یہ ثابت ہو چکا تھا کہ مسئلہ فلسطین کا سیاسی حل کامیاب نہیں ہے ۔ اب وہ لوگ دوریاستی حل کی بات کررہے ہیں اس لیے کہ ان کے پاس کوئی راستہ ہی نہیں ہے۔ میں بتا رہا ہوں کہ راستہ ہے ۔ جنگ کوروکاجائے ،غزہ کامحاصرہ ختم کیا جائے ، قیدی رہا کیے جائیں۔ یہودی عیسائیوں کو بھی اہمیت نہیں دیتے ان کے اوپر تف یاتھوکرنا ان کاعقیدہ ہے ۔امریکی وزیر خارجہ انتھنی بلنکن اسرائیل آکر کہتا ہے کہ میں امریکہ کے وزیرخارجہ کی حیثیت سے نہیں بلکہ یہودی کی حیثیت سے بات کررہا ہوں۔بہرحال فلسطین کے مسئلہ کاایک ہی حل ہے کہ فلسطینی عوام سے پوچھا جائے کہ وہ کیاچاہتے ہیں ۔
سوال:کیاحماس نے دوریاستی حل کے فارمولے کے مقابلے میںآپ کے بتائے ہوئے پوائنٹس سامنے رکھیں ہیں ؟
ڈاکٹر خالد قدومی:یقیناً!2018ء میں حماس کا ایک سیاسی ڈاکومنٹ سامنے آچکا ہے جس کے مطابق پورا فلسطین ہمارا ہے۔حماس کاموقف توبالکل واضح ہے کہ اسرائیل کا وجود ہی یہاں نہیں ہونا چاہیے۔میں سمجھتا ہوں کہ اسرائیل ایک روگ سٹیٹ ہے۔اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی مخالفت کے باوجود اس کاممبر ہے۔یورپی لوگ مجھے کہتے ہیں کہ آپ لوگ اسرائیل کو نابود کرنا چاہتے ہو تو میںکہتا ہوں کہ ہم اس اسرائیل کی بات کرتے ہیں جو 1948ء  میں  یہاں قائم ہو ا ۔ اس سے پہلے اس علاقے پر فلسطین نام سے ایک ملک تھا ۔ لہٰذا اس سرزمین پر اسرائیل کا کوئی حق نہیں ہے ۔عالمی استعماری قوتوں نے سیاسی مفاد کی خاطر اسرائیل کویہاں بسایا حالانکہ ہم ان کو تسلیم نہیں کر رہے اور نہ کریں گے۔ اسرائیل نے حق شناخت ہم سے چھین لیا۔ آج اگر کوئی فلسطینی باہر جاکرتعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے تواس کے پاس اپنے ڈاکومنٹ ہی نہیں ہیں کہ وہ کہاں پیدا ہوا ہے ۔ لیکن کہا جاتاہے کہ ان کےساتھ سمجھوتہ کریں۔ یہ کوئی راستہ نہیں ہے ۔بشمول یروشلم فلسطین کو مکمل آزادی دی جائے ،فلسطین کا ایئرپورٹ بند کیا ہوا ہے ، اس کو کھولا جائے ، دنیا کے ساتھ ہمارے سفارتی تعلقات بحال ہوں ، فلسطین میں اسرائیل کا کوئی عمل دخل نہ ہو اور نہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کی جائے ۔اگر جنگ بند کرنی ہے تویہ کرنا پڑے گا۔کیافلسطینیوں کو حقوق دینے کے لیے کوئی تیار ہے ؟شیخ احمدیاسین شہیدنے یہ پروپوزل 1990ء کی دہائی میں دی تھی لیکن اسرائیل نے کوئی توجہ نہیں دی بلکہ جنگی حملے شروع کردیے ۔دنیا کوچاہیے کہ وہ اسرائیل کو سمجھائے کہ وہ خون خرابہ بند کرے ورنہ ہمارے پاس جہاد اورتحریک مزاحمت والا راستہ ہی ہے۔ کیونکہ ہم آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیںہم کوئی دہشت گرد نہیں ہیں۔
سوال: حماس کے ترجمان کی نظر میں گریٹر اسرائیل کامنصوبہ کیا ہے اورکیا اسرائیل کی حالیہ جارحیت اسی منصوبے کی تکمیل کے لیے ہے؟
ڈاکٹر خالد قدومی: اسرائیل کاوزیرخزانہ سمورتش ہے ۔اس نے مارچ 2023ء میں فرانس میں ایک کانفرنس میں گریٹر اسرائیل کانقشہ لگایا جو دریائے نیل سے دریائے فرات تک ہے۔ یہ نقشہ اسرائیل کی کرنسی پربھی موجود ہے۔اس گریٹر اسرائیل کے منصوبے میں مدینہ منورہ، عراق، تبوک وغیرہ سب علاقے آتے ہیں ۔ سابق موساد ایجنٹ یوسی ایلفر نےPeripheryکے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں بتایا ہے کہ گریٹر اسرائیل کی حدود کردستان سے مصر تک ہیں ۔ ساری دنیا کو پتا ہے گریٹر اسرائیل کانقشہ عربوں کے خلاف ہے لیکن عرب حکومتیں اسرائیل کے عشق میں گرفتار ہیں ۔ ان کو معلوم ہونا چاہیےکہ اسرائیل کااگلا نشانہ وہ خود ہوں گے ۔
سوال:حالیہ جنگ میں حماس کو کتنا نقصان پہنچا اوراس کے مقابلے میں حماس نے اسرائیل کوکس قدر جانی اورمالی نقصان پہنچایا؟
ڈاکٹر خالد قدومی:جنگ میں نقصان تو ہوتا ہے ۔ اگرآپ فتح چاہتے ہیں تو پھر کچھ نقصان بھی برداشت کرنا پڑے گا ۔ ہمیں دکھ ہوتاہے کہ ہماری بہنیں اور ہمارے بچے شہید ہو رہے ہیں لیکن تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہےکہ آزادی کی ایک قیمت ہوتی ہے ۔ الجزائر نے 1.5ملین شہید دےکر فرانس سے آزادی لی۔ آپ لوگوں نے برصغیر میں انگریزوں کے خلاف کتنے شہید دیے تھے ۔ کیاآپ کو کوئی کہہ سکتا ہے کہ گھر میں بیٹھتے ، کھاتے پیتے عیش کرتے، کیا ضرورت تھی لڑنے کی۔ ویت نامیوں،جاپانیز ،فرنچ لوگوں نے انقلاب کے لیے قربانیاں دیں ۔ یہ شہادت توہمارا راستہ ہے ۔ ہمارے مجاہدین جتنے شہید ہوئے ہیں ان کی تعداد کم ہے ۔ہمارے پاس تقریباً چالیس ہزار مجاہد ہیں ۔ حالیہ جنگ میں دوڈھائی ہزار مجاہدین نے حصہ لیا۔ چارہزار پانچ سو اسرائیلی فوجی مارے گئے، زخمی توہزاروں کی تعداد میں ہیں، وہ خود یہ فگرز تسلیم کرتے ہیں۔ہمارے عوام کی شہادتیںزیادہ ہوئی ہیں، جو بہت بڑی قربانی ہے۔7 اکتوبر سے پہلے ہمارے بچے گھروں میں شہید ہوتے تھے ، محاصرے ، خوراک اور پانی کی قلت کی وجہ سے ، یہ کون سی امت ہے جووہاں پانی تک بھی نہیں پہنچاسکی۔ بہرحال مسلمان حکمران بھی ہمارے بھائی ہیں ، ہم ہی ان کو ووٹ دے کر کرسی پر بٹھاتے ہیں، اللہ ان کوہدایت دے ۔ ہمارے مجاہدین کے پاس کمانڈو کا لباس نہیں ہے بلکہ بعض تو چپل کے بغیرٹریک سوٹ میں ہوتے ہیں ۔ الیاسین نے بم اٹھایا، ریڈکلر کانشان لگایا اور دس اسرائیلی فوجیوں پر حملہ کردیا اور سب کو ماردیا ۔ ویڈیوز موجود ہیں ۔ انہی ویڈیوز کو دیکھ کر یورپ میں اسرائیل کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں، انہوں نے دیکھا کہ اسرائیل کی حیثیت تو ایک مکڑی کے جالے کی ہے ، آپ نے انگلی لگائی ، وہ ٹوٹ جائے گا ، لہٰذا لوگوں کو بھی حوصلہ ملا کہ ہم بھی اسرائیل کے خلاف بول سکتے ہیں ۔ ایک مصری سکالر انسائیکلو پیڈیا آف ذائنزم کو سات جلدوں میں تصنیف کررہے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اسرائیل دووجوہات سے دنیا میں موجود ہے ایک مغربی طاقتوں کی سپورٹ سے اوردوسرا مسلمانوں کی کمزوری کی وجہ سے ۔
سوال: غزہ میں عارضی جنگ بندی کی کوشش جاری ہے کیاحماس اس کوشش کی حمایت کرتی ہے ؟
ڈاکٹر خالد قدومی:یہ جنگ بندی نہیں ہے ۔ یہ جوبائیڈن اور بلنکن کی رائے ہے کہ ہم وقفہ دے رہے ہیں تاکہ امداد اندر پہنچا سکیں ۔حالانکہ یہ کسی معاہدے کے تحت نہیں ہونا چاہیے بلکہ اپنے بارڈرز کو اوپن کرنا چاہیے تاکہ لوگوں تک امداد اور غذا اور میڈیسن جلد پہنچائی جاسکے۔ لیکن انہوں نے چار پانچ دن کے لیے جنگ بندی کااعلان کیا ہے حالانکہ اتنے کم عرصے میںکیا ہوسکتا ہے ۔ دوسو ٹرک ہیں جوپہلے نیتن یاہو کے فوجیوں کے چیک کرنے سے اندر جائیں گے اوراس کے علاوہ بے شمار چیک پوسٹس ہیں جہاں سے پاس ہوکر یہ جائیں گے۔ حماس اس کو نہیں مانتی کیونکہ یہ کافی نہیں ہے۔اہل غزہ کا حق ہے کہ ان کی سرحد بغیر کسی شرط کےکھلی ہونی چاہیے ۔
سوال:اسرائیلی جارحیت رکوانے کے لیے حماس امت مسلمہ اورپاکستان سے کیاتوقعات رکھتی ہے ؟
ڈاکٹر خالد قدومی:ایک ہوتاہے فرض اور ایک ہوتی ہے توقع ۔ آخر یہ فلسطینی عوام کس چیز کادفاع کررہے ہیں؟وہ قبلہ اوّل مسلمانوں کا ہے جس کاحماس اورفلسطینی لوگ دفاع کررہے ہیں۔ اگر ہم نہ ہوتے تویہ اسرائیل کھلم کھلا سنٹرل ایشیا تک پہنچ چکا ہوتاکیونکہ اسرائیل کے اثرات دنیا کی اکانومی اورحکومتوںکے اوپر بہت زیادہ ہیں۔ اسرائیل جاکرانڈونیشیا میں سائنس دان کو شہید کرتا ہے، عراق اورایران میں شہید کرتاہے ۔ روزانہ شام میں بمباری ہوتی ہے لیکن کوئی جواب ہی نہیں دے رہا۔ ہم اپنی جدوجہد کو جاری رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے ۔ یہ فلسطین آزاد کبھی نہیں ہوگا جب تک امت اورانسانیت ہمارا ساتھ نہ دے کیونکہ اسرائیل صرف فلسطین کا دشمن نہیں ہے وہ جس طرح غزہ،القدس کے امن کو تباہ کررہا ہے اسی طریقے سے وہ اسلام آباد،تہران اور ریاض کے امن کوتباہ کرے گا۔ اس لیے ہم سب نے مل کر اس کا سامنا کرنا ہے جس کے لیے ایک واحد نسخہ یہ بھی ہے کہ ہم مسلم امہ کی سطح پر اپنی پروڈکٹس پر انحصار کریں ، وہی کھائیں ، پئیں اور پہنیں جو ہم اپنے تئیں پیدا کر سکتے ہیں، باہر کی پروڈکٹس کو اپنے علاقوں میں داخل نہ ہونے دیں ۔ امریکہ کون ہوتاہے ہماری تقدیر متعین کرنے والا ۔ ہم امریکہ کے دشمن نہیں ہیں لیکن ہم نہیں چاہتے کہ کوئی اورآکر ہمارے مستقبل کا تعین کرے ۔ آپ ہمارے ساتھ انسانی سطح پر پارٹنرشپ بنانا چاہتے ہیں توسو بسم اللہ آجائیں لیکن اگر آپ اسرائیل کو ہمارے اوپر مسلط کرنا چاہتے ہیں تو یہ ہمیں قبول نہیں ۔ ہم نے 7 اکتوبر کو امریکی تسلط کو شکست دی ہے ۔ اب اس کے بعد ہم نے امریکہ اور اسرائیل کو دوبارہ حاوی نہیں ہونے دینا ۔ عوام جذباتی نہیں ہوئے بلکہ ہوش و حواس اور گہرے شعور کے ساتھ سڑکوں پہ نکلے ہوئے ہیں۔ ان کو حالات کا پتا ہے لہٰذا وہ فلسطین کاساتھ دے رہے ہیں۔البتہ ہمارے مسلم حکمرانوں کی سمجھ نہیں آرہی کہ وہ رفاح بارڈر کیوں نہیں کھول سکے ۔ ابوعبیدہ (حماس کے ترجمان) نے کہاکہ ہمیں آپ کی آرمی کی ضرورت نہیں لیکن ہماری سمجھ سے باہرہے کہ 57 مسلم ممالک کے سربراہان ریاض میں جمع ہوتے ہیں، قراردادیں منظور ہو گئیں لیکن پھر بھی رفاح بارڈر کو نہیں کھول سکے ۔
سوال:ڈاکٹر اسرارا حمدؒ کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں اورعرب نوجوان ڈاکٹر صاحبؒ کی تعلیمات سے کتنا آگاہ ہیں ؟
ڈاکٹر خالد قدومی:میں ذاتی طورپر ڈاکٹر صاحبؒ سے ملا ہوں اور میں ان کا شاگرد ہوں کیونکہ میں نے ان کی کتابوں اوردروس سے بہت کچھ سیکھا ہے ۔انہوں نے فلسطین کے بارے میں بالخصوص اسریٰ ومعراج کے سفر،مسلم امہ اور انسانیت کی سطح پر اقصیٰ کے رول پر جو کچھ کہا ہے اور سیاسی اسلام کی جو تشریح پیش کی ہے کہ کس طرح اس کو موجودہ حالات سے میچ کرنا ہے ، اس حوالے سے ڈاکٹر صاحبؒ کی جو فکر ہے اس کو عرب نوجوانوں نے بہت پسند کیا ہے ،ڈاکٹر صاحبؒ کو سوشل میڈیا پربہت سنا جاتا ہے ۔اُن کے زمانے میں ان کے دروس سے لوگ اتنے واقف نہیں تھے ۔ میرا خیال ہے کہ ان کافکر عرب نوجوانوں میں ابھی اتنا زیادہ مقبول نہیںہوا ،اس کو عربوں میں پھیلانے کی ضرورت ہے ۔اس فکر کوبہت زیادہ دنیامیں انسانوںمیں عام ہونا چاہیے ۔
سوال:ایک عام پاکستانی مظلوم فلسطینی بہن بھائیوں کی مدد کیسے کرسکتا ہے ؟
ڈاکٹر خالد قدومی:میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے نوجوان ہم سے زیادہ ہوشیار ہیں ان کے پاس زیادہ creative ideasہیں۔ چند عملی پہلو کی طرف اشارہ کروں گا:
1۔ہمارے مجاہدین کا راکٹ میدان میںاستعمال ہوتا ہے۔ آپ کا راکٹ آپ کا کلمہ، الفاظ اورخیالات ہیں ۔ آپ کاآئیڈیا بلٹ پروف ہے ۔ آج جس بیانیہ کو ہم نے فتح کیا اس سے اسرائیل کو بہت تکلیف ہوتی ہے ۔ اسی وجہ سے وہ فلسطینیوں کاانٹرنیٹ ،سوشل میڈیا وغیرہ سب کچھ بند کرچکا ہے ۔ پھر میں کہوں گاکہ ہمارا اپنا میڈیا (فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام کا متبادل) کیوں نہیں ہے۔ ہمارے نوجوان اس طرح کانیٹ ورک بنانے میں کامیاب کیوں نہیں ہو سکے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج سپانسرشپ کی پرابلم ہے لیکن اگر آپ شروع کریں گے یہ مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔
2۔آپ نے انسانی بنیادوں پرہماری مدد کرنی ہے۔ فلسطین عوام پڑھے لکھے اور اچھے خاندان سے ہیں لیکن ابھی وہ مہاجر کیمپوں میں آگئے ہیں۔یہ آپ کے عزیز ہیں جوآج سڑک پرآگئے ہیں ۔ یہ ہمارا فرض بنتاہے کہ ہم ان کا ساتھ دیں ۔آپ ساتھ دیںگے تووہ جہاد جاری رکھ سکیں گے ۔ آپ ان کاساتھ دیں اور اپنا بھی دفاع کریں ۔ ہم رفاح بارڈر پر دیکھ رہے ہیں کہ ٹرکس کی لائن ہے یقیناً یہ ہمارے مسلمان بھائیوں کی امداد ہے جو وہاں پہنچی ہے اورمزید کی ضرورت ہے ۔
3۔ ڈپلومیٹک پریشر بڑھائیں ۔ آپ جب تک سڑک پر ہیں، آپ کی حکومت اور عالمی برادری دیکھیں گے کہ ادھر کچھ غلط ہے تووہ آپ کی بات مانیں گے ۔ آپ پُرامن طریقے سے سڑکوں پر نکلنا بند نہ کریں ۔