(امیر سے ملاقات ) امیر سے ملاقات قسط 22 - محمد رفیق چودھری

7 /

کسی خطہ میں مسلمانوں کی زندگی ظالم اور جابر دشمن نے تنگ کررکھی

ہو تو وہاں کے رہنے والوں پر جہاد فرض ہو جاتاہے ۔

اپنی نسلوں میں شوق شہادت ،جذبہ جہاد پیدا کرنا ہمارا فرض ہے

جب نظام خلافت قائم ہوگا توپھرمظاہرہ نہیں ہوگا بلکہ کارروائی ہوگی ۔

ان مصنوعات کابائیکاٹ کیا جائے جن کا براہ راست نفع اسرائیل کو جاتاہے ۔

سالانہ اجتماع کے موقع پر امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کے رفقائے تنظیم و احباب کے سوالوں کے جوابات

میز بان :آصف حمید

سوال:کیا والدین کے اجازت نہ دینے کے باوجود اجتماع میں شرکت صحیح عمل ہے ؟
امیر تنظیم اسلامی: سوال بڑا اہم ہے۔ نوجوانوں کی طرف سےیہ سوال ایک دوسری نوعیت کے تحت بھی آتا ہے کہ کیاوالدین کی اجازت کے بغیر وہ تنظیم اسلامی میں بیعت کر سکتے ہیں ؟ہم یہی مشورہ دیتے ہیں کہ یہ کوئی چھپ کرکرنے والا کام نہیں ہے ۔آپ والدین کوآن بورڈ لیں اور ان کی رضامندی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ جب تک وہ باقاعدہ آپ کو اجازت نہیں دیتے آپ تنظیم اسلامی کے دروس قرآن ، اجتماعات اورسرگرمیوں میں شرکت کرتے رہیں۔ جو اس وقت اجتماع میں آگئے ہیں میں ان کو واپس نہیں بھیجوں گاالبتہ ان کو مشورہ دوں گاکہ اس پورے اجتماع کی کارگزاری اپنے والدین کو سنائیے گا اوران کو ہمارا سلام اوردعائیں پہنچائیے گا توامید ہے کہ فائدہ ہوگا۔ ان شاء اللہ!پھر معذرت کرتے ہوئے کہیے گاکہ امیرتنظیم اسلامی نے کہاہے کہ والدین سے اجازت لے کر آپ کو اجتماع میں آنا چاہیے تھا۔ امید ہے کہ پھر آئندہ آپ کو ان کی رضامندی حاصل ہوگی ۔اللہ تعالیٰ تمام نوجوانوں کو اسی مزاج کے مطابق آگے چلنے کی تو فیق عطا فرمائے ۔
سوال:امیرتنظیم اسلامی کاذریعہ آمدن کیا ہے ؟
امیر تنظیم اسلامی:میرا ذریعہ آمدن ایک ہی ہے الحمد للہ ۔ کراچی علم فاؤنڈیشن کے نام سے ایک ادارہ ہے جس کے تحت نصاب قرآن تیار ہوا ہے ۔ پاکستان میں لاکھوں طلبہ اس نصاب سے استفادہ کر رہے ہیں ۔ اس ادارے میں 2008ء سے میری ذمہ داری ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اب اس ذمہ داری کے اوقات معین نہیں ہیں اورمیرا کثر کام سمارٹ فون یا لیپ ٹاپ وغیرہ پر ہوجایا کرتا ہے ۔ اس ادارے سے ایک مشاہرہ آتا ہے جو میری آمدنی کاواحد ذریعہ ہے ۔ باقی تنظیم اسلامی میں طے شدہ پالیسی ہے کہ ہم لوگ میڈیا پر جو پروگرامز کرتے ہیں وہاں سے کوئی پیسہ نہیں لیتے۔ الحمدللہ!کراچی میں سفر کے دوران ایک گاڑی میرے استعمال میں ہے جوانجمن خدام القرآن سندھ کی ملکیت ہے البتہ اس کی مینٹینس اوردیگر اخراجات میرے ذمہ ہیں۔ کراچی میں ہی رہائش ہے۔البتہ کم وبیش چار ماہ سفر میں رہنا ہوتا ہے جس میں ہرپندرہ دن کے بعد لاہور آنا ہوتا ہے۔ یہ سفر جہاز پر ہوتا ہے جس کے ٹکٹ کے اخراجات تنظیم اسلامی کے بیت المال سے ادا کیے جاتے ہیں ۔
سوال: تنظیم اسلامی نےمسئلہ فلسطین کے حوالے سے کیا کام کیا ہے؟
امیر تنظیم اسلامی:مسئلہ فلسطین کےحوالے سے ہمیشہ تنظیم اسلامی نے آواز بلند کی ہے ۔ غزہ پر اسرائیل کے حالیہ حملہ کے بعد بھی تنظیم اسلامی نے باقاعدگی کے ساتھ ہر سطح پر آواز بلند کی ہے ، اس کے لیے پورے پاکستان میں مظاہرے کیے ہیں ، کارنر میٹنگز اور ریلیاں منعقد کی ہیں ، خطبات جمعہ میں اس کو موضوع بنایا ہے اور زمانہ گواہ ہے پروگرام میں تسلسل کے ساتھ اس پر بحث کی ہے اور امیر سے ملاقات کے عنوان سے سوال و جواب ہوئے ہیں ۔ مختلف جگہوں پر پریس کانفرنسز منعقد کی ہیں ، فلسطین کے ضمن میں کرنے کے کاموں کے حوالے سے 13 نکات مرتبہ کرکے شائع کیے ہیں اور مختلف فورمز پر پیش بھی کیے ہیں لیکن یہ سب کچھ جہاد باللسان ہے ۔حدیث رسول ﷺ ہے کہ اگر منکر کو دیکھو توہاتھ سے روکو، اگراس کی طاقت نہیں تو زبان سے روکنے کی کوشش کرو اوراس کی بھی طاقت نہیں تودل میں برا جانویعنی اس کو بدلنے کا ارادہ رکھو۔ اس وقت ہمارے پاس ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہیں لیکن اس منکر اورظلم وجبر کے خلاف آواز بلند کرنے کی ہم نے مستقل کوشش کی ہے ۔ اس حوالے سے ہم نے مالی امداد کے لیے بھی آوازلگائی ہے لیکن چونکہ تنظیم اسلامی کاعالمی سطح پرویلفیئر کا سیٹ اپ نہیں ہے لہٰذا پہلے سے موجود تین اداروں کو ہم نے نامزد کیا ہے جن کے ذریعے تنظیم کے رفقاء و احباب اہل فلسطین کی مالی مدد کرسکتے ہیں۔ ان میں خبیب فاؤنڈیشن، الخدمت فاؤنڈیشن اور دارالعلوم کورنگی کراچی شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ دعاؤں بالخصوص قنوت نازلہ کا اہتمام کررہے ہیں ۔ یعنی جو ہمارے بس میں ہے وہ ہم کررہے ہیں لیکن جو بس میں نہیں ہے اس کے لیے ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمارے لیے راستے کھول دے ۔
سوال: فلسطین کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں کیا امت مسلمہ پر جہاد فرض ہو گیا ہے؟
امیر تنظیم اسلامی:امت کے بعض علماء بشمول مفتی تقی عثمانی صاحب کی طرف سے اس پرباقاعدہ کلام ہوا ہے ۔سورۃ النساء کی آیت 75کا حوالہ دے کر عرض کیاجاچکا ہے کہ قتال فی سبیل اللہ کے معنی میں جہاد کی فرضیت تو ہے البتہ اصول یہی ہے کہ الاقرب فالاقرب کے مصداق جوجتنا قریب ہے اس کا حق بھی اتنا زیادہ ہے۔ کسی خطہ میں مسلمانوں کی زندگی ظالم اور جابر دشمن نے تنگ کررکھی ہے تو وہاں کے رہنے والوں پر جہاد فرض ہے ۔ لیکن اگر وہ مقابلہ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو پھر ان کے قریب رہنے والے مسلمانوں یامسلم ممالک پر جہاد فرض ہوجائے گا۔ اگر وہ بھی استطاعت نہیں رکھتے تو پھر الاقرب فالا قرب کی بنیاد پر یہ سلسلہ پھیلتا چلا جائے گا۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے :{لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَاط}(البقرہ:286) ’’اللہ تعالیٰ نہیںذمہ دار ٹھہرائے گا کسی جان کو مگر اس کی وسعت کے مطابق۔‘‘
فقہاء نے یہ بات بھی بیان کی ہے کہ عمومی طور پر جس کے پاس استطاعت اوراستعداد ہے اس کے مطابق اس پرجہاد کی فرضیت ہوجائے گی۔ جن کے پاس استعداد اورصلاحیت موجود ہےلیکن اس کے باوجود وہ جہاد نہیں کرتے تو ان کو فکر بھی دلائی جائے اور ان کے لیے دعا بھی کی جائے ۔
سوال:کیاجہاد کی تیاری کے ضمن میں تنظیم نے بھی کوئی ٹریننگ دینے کا اہتمام کیا ہے ؟
امیر تنظیم اسلامی:بنیادی طور پر جہاد پوری زندگی کا ہے ۔ جہاد فی سبیل اللہ کے عنوان سے بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرارا حمدؒ کا ایک کتابچہ موجود ہے جس میں پوری تفصیل ہے کہ اللہ کابندہ بننے کے لیے محنت کرنا، معصیت سے بچنا، اللہ کے دین کے لیے دعوت دینا ، اللہ کے کلمہ کی سربلندی کے لیے محنت کرنا یہ سب جہاد کی مختلف شکلیں ہیں۔تنظیم اسلامی اولاً پاکستان میں نظام خلافت کوقائم کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ اس اعتبار سے غور کرنے والی بات یہ ہے کہ جس نوعیت کامنہج ہے تربیت بھی اسی نوعیت کی ہوگی ۔ اس موضوع پر ڈاکٹر اسرارا حمدؒکی دوکتابوں منہج انقلاب نبویﷺ اور رسول انقلاب کاطریق انقلاب موجود ہیں ۔ یقیناً ہمارے پیش نظر رسول اللہﷺ کا طریق انقلاب ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی شروع میں اقامت دین کی جدوجہد اسی انداز میں کی ہے کہ لوگوں کو دین کی دعوت دی ہے ، انہیں قرآن کی تعلیم دی ہے ، گناہوں سے بچنے اور آخرت کی فکر دلائی ہے اور آخر میں جب تصادم کا مرحلہ آیا ہے تو باقاعدہ قتال کیا ہے لیکن آپ ﷺ کے سامنے کفار تھے جبکہ یہاں تصادم کے مرحلہ میں سامنے مسلمان ہوں گے لہٰذا یہاں ہم قتال کی بات نہیں کریں گے بلکہ دین کے لیے جان دینے کی بات کریں گے ۔ اس کےلیے شوق شہادت ،جذبہ جہاد پیدا کرنا ہمارا فرض ہے ۔رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس کوموت آئے اس حالت میں کہ اس نے نہ کسی غزوہ میں شرکت کی نہ راہ خدا میں شہید ہونے کی تمنا کی توایسے شخص کی موت ایک قسم کے نفاق پر ہوئی ۔ہمیں دعا بھی کرنی ہے :
((اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنَا شَھَادَۃً فِیْ سَبِیْلِكَ ))’’اے اللہ ہمیں شہادت کارتبہ عطا فرما۔ اس کے لیے تیاری کرنی ہے ۔‘‘
سوال:فلسطین کے لیے جماعتوں نے الگ الگ مظاہرے کیوں کیے اور پھر خاموشی کیوں چھا گئی ؟
امیر تنظیم اسلامی:ابھی تک تو خاموشی نہیں چھائی بلکہ مختلف جماعتیں مظاہرے کررہی ہیں اور ہمارا بھی یہی خیال ہے کہ یہ ایشو زندہ رہنا چاہیے ۔ البتہ یہ درست ہے کہ دینی اور مذہبی جماعتوں کو مشترکہ طور پر مظاہرے کرنا چاہیے تھے۔ اگر لند ن میں ہر قومیت ، مذہب اور ملت کے 8 لاکھ افراد جمع ہوئےتو مسلمان اکٹھے کیوں نہیں ہو سکتے ۔ تاہم اصل مقصد مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنا ہے چاہے اس کے لیے مختلف اجتماعیتیں مختلف انداز اور مواقع کا استعمال ہی کیوں نہ کریں ۔ جب نظام خلافت قائم ہوگا توپھرمظاہرہ نہیں ہوگا بلکہ کارروائی ہوگی ۔ یہ وہ اصل کام ہے جس پرہمیں توجہ کرنی چاہیے اور اپنی اگلی نسلوں میں بھی اس فکر کو منتقل کرنا چاہیے ۔ اس پرتوجہ رہے گی تو ان شاء اللہ مظاہروں سے آگے بڑھ کر اقامت دین کی جدوجہدکااظہار ہوگا اوراللہ کی نصرت ہمارے شامل حال ہوگی توپھرمظاہرے نہیں بلکہ اقدامات ہوں گے ۔ ان شاء اللہ!
سوال:قنوت نازلہ میں تمام غیرمسلموں کے لیے بددعاکرنا کیاسنت سے ثابت ہے؟
امیر تنظیم اسلامی:بالکل! رسول اللہﷺ کے زمانے میں صحابہ کرامj کو دھوکے سے بلا کرشہید کیا گیاتوآپ ﷺ نے اُن ظالموں کے لیے ایک مہینے تک قنوت نازلہ کااہتمام فرمایا۔ احناف کے ہاں ایسے موقع پر نماز فجر میں قنوت نازلہ ہے لیکن بعض فقہاء کے ہاں دیگر نمازوں میں بھی قنوت نازلہ کااہتمام کرنے کی گنجائش موجود ہے ۔ کبھی کبھی یہ نکتہ ذہن میں آتا ہے کہ رسول اللہﷺ رحمت للعالمین تھے توآپ ﷺ کیسے بد دعائیں کرسکتے ہیں ۔بعض حضرات اسی وجہ سے اس کے لیے دعائے ضرر کا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔ یقیناً رسول اللہﷺ رحمت للعالمین ہیں حتیٰ کہ آپﷺ سب سے زیادہ معاف کرنے والے تھے لیکن جب اللہ کی حدود ٹوٹتی تھیں توکیا اللہ کے رسولﷺ سے بڑھ کر کسی کو غصہ آتا تھا۔ایسے مواقع پر غصہ بھی حضورﷺ کی سنت میں ہے ۔ اس لیے ہم بھی قنوت نازلہ کا اہتمام کر سکتے ہیں ۔ خواتین باجماعت نماز میں نہیں آسکتیں تو انفرادی سطح پر اپنی نمازوں میں اس کا اہتمام کر سکتی ہیں ۔ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں کہ دعامومن کابہت بڑا ہتھیار ہے۔ اوریہ سنت سے ثابت شدہ بات ہے۔
سوال:گریٹر اسرائیل دجال کے آنے پربنے گا اور موجودہ صہیونی حکومت بنائے گی ؟
امیر تنظیم اسلامی: دجال کب آتاہے ، گریٹر اسرائیل کب بنتا ہے، اس کی فکر کرنے کی بجائے ہمیں اپنی فکر کرنی چاہیے کہ ہم حق کے لیے کیا کر رہے ہیں ۔ وہ اگر باطل ہو کر ساری کوششیں کر رہے ہیں ، اپنی نسلوں کی تربیت کر رہے ہیں تو ہم حق پر ہونے کے باوجود کتنی تیاری اور جدوجہد کر رہے ہیں ۔ حالانکہ ہم اللہ کے کلام کو مانتے ہیں اور محمدرسول اللہﷺ کوالصادق المصدوق مانتے ہیں توکیا آپﷺ کی بشارات پردلی یقین ہے کہ پوری زمین پر اللہ کا دین قائم ہو گا؟ ہم نے اس دین کے قیام کے لیے کتنی جدوجہد کی ہے ؟کیا اس حوالے سے ہمیں جواب نہیں دینا پڑے گا؟ ابھی موت آجائے تو ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا سامنے کرنے کے لیے تیار ہیں؟
سوال:امیرتنظیم رفقاء کوحکماً اسرائیل کی پروڈکٹ کا بائیکاٹ کرنے کا کہیںاوران اداروں اورکمپنیوں کو چھوڑنے کاکہیں جن کی ملکیت یہودیوں کے پاس ہو؟
امیر تنظیم اسلامی:ہم نے اپنے تیرہ نکات میں یہ پوائنٹ بھی شامل کیا ہوا ہے کہ وہ مصنوعات جن کا ڈائریکٹ نفع اسرائیل کو جاتا ہے ان کابائیکاٹ کیاجائے ۔ کیاہماری غیرت کاتقاضا نہیں ہے کہ ہم ان مصنوعات کابائیکاٹ کریں۔امیر تنظیم کے حکم دینے سے کیا ہوگا؟اللہ کے ہاں جوابدہی توانفرادی ہوگی ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{وَکُلُّہُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَرْدًا(95)} (مریم) ’’اور قیامت کے دن سب کے سب آنے والے ہیں اُس کے پاس اکیلے اکیلے۔‘‘
ہر بندہ جس چیز کا مکلف ہے اُس کا جواب دینا ہے۔میں کہوں گاکہ ہماری خواہش ہے، ترغیب وتشویق ہےکہ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے۔ جہاں تک اداروں اورکمپنیز کاسوال ہے توہرشخص دل سے پوچھ سکتا ہے کہ کیامیں ایسے اداروں کوserve کررہا ہوں جن کا پیسہ اسرائیل کو جاتا ہے اور اُس کی مدد سے وہ مسلمانوں پرمظالم ڈھا رہا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہے کہ ((استفت قلبک )) اپنے دل سے فتویٰ لے لو چاہے لوگ کچھ بھی کہتے رہیں ۔ اپنے اند ر سے جواب آئے گا۔
سوال:الیکشن میں ووٹ کس کو دیں؟ کیاجماعت اسلامی کودیں جن کاجیتنے کا کوئی امکان نہیں ؟
امیر تنظیم اسلامی:اس حوالے سے ہماری تنظیمی پالیسی بالکل واضح ہے ۔ چونکہ بعض علماء اور اہل دین کی طرف سے ووٹ کو ایک امانت کہا جاتا ہے توامانت کاادا کرنا ایک شرعی تقاضے کے طورپر بیان ہوتا ہے۔اس حوالے سے تنظیم اسلامی نے یہ پالیسی بنائی ہےکہ :
1۔امیدوار ظاہر کے اعتبار سے فسق وفجور (کبیرہ گناہ) میں مبتلا نہ ہو۔
2۔امیدوار جس جماعت سے تعلق رکھتا ہے تو اس جماعت کے منشور میں یااس کی قیادت کے عمومی یا عوامی بیانات میں خلاف شریعت کوئی بات نہ ہو۔
ان دومعیارات پر جو بھی امیدوار پورا اتر رہا ہو آپ اسے ووٹ دے سکتے ہیں ۔ باقی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ نظام فرسودہ ہے۔ اس کی گواہی اس نظام کے اندرر ہنے والے دے رہے ہیں لہٰذا چہرے نہیں نظام تبدیل ہونا چاہیے ۔اس انتخابی عمل کے ذریعے ہم نظام چلا سکتے ہیں لیکن بدل نہیں سکتے ۔تنظیم اسلامی اس نظام کو بدلنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے ۔البتہ جب تک نظام بدل نہیں جاتا تب تک اس مملکت کو چلانا تو ہے ۔ یہ مجبوری ہے لہٰذا ووٹ کو امانت کے طور پر دینا ہے تو پھر اس امانت کا حق ادا کرنے کے لیے درج بالا دو شرائط کو مدنظر رکھنا ہوگا ۔
سوال:رفقائے تنظیم اسلامی کے مابین ووٹ ڈالنے کے حوالے سے جواختلافات پائے جاتے ہیں ان پرقابو کیسے پایا جائے ؟
امیر تنظیم اسلامی:تنظیم اسلامی کی پالیسی میں رفقاء کو صرف ووٹ دینے کی حد تک اجازت ہے اور اس کے لیے بھی دو بنیادی شرائط طے شدہ ہیں ۔ اس سے آگے بڑھ کر کسی سیاستدان یا سیاسی پارٹی کے لیے مہم چلانے یا الیکشن لڑنے کی قطعاً اجازت نہیں ہے ۔ اگر کوئی رفیق تنظیم خود امیدوار بنتاہے یا کسی کے لیے کنونسنگ کرتا ہے تو تنظیم اپنی پالیسی کے مطابق اسے تنظیم سے فارغ کردیتی ہے کیونکہ یہ تنظیم کے منہج کے خلاف ہے ، تنظیم کا کام تو اس فرسودہ نظام کی جگہ اللہ کے دین کو قائم کرنا ہے ۔ انتخابی سیاست کی بحثوں میں پڑنا تنظیم کا کام نہیں ہے ۔ یہ میدان سیاستدانوں کے کھلا چھوڑ دیں، وہ پہلے سے ہی لڑرہے ہیں اورلڑتے رہیں گے۔ ٹی وی ٹاک شوز میں بیٹھ کرجس طرح غیرسنجیدہ زبان اور طرزعمل اختیار کرتے ہیں وہ ہم اپنے گھروالوں کے ساتھ بیٹھ کردیکھ نہیں سکتے ۔وہ جماعت جو یہ نعرہ لے کر کھڑی ہو کہ یہ نظام انقلابی راستے سے بدلے گاوہ اس فرسودہ نظام کے مکینزم میں پڑ کراور ڈوب کراخلاق سے عاری ہوجاتی ہے ۔ جبکہ ایک دینی جماعت کا اصل کام یہ ہونا چاہیے کہ اس کی توانائیاں اگر لگیں تو اس نظام کی فرسودگی اور بگاڑ کو ثابت کرنے میں لگیں ۔ اصل علاج وہی نظام خلافت ہے اور اس کےلیے انتخابی راستہ کی بجائے انقلابی راستہ ہی اصل راستہ ہے اور اسی کے لیے دینی طبقہ کی توانائیاں صرف ہونی چاہئیں ۔
سوال: موجودہ حالات میں اس فرسودہ نظام کو بدلنے یا اتحاد اُمت یا نفاذ شریعت کے حوالے سے مختلف شخصیات کی طرف سے بھی آوازیں بلند ہورہی ہیں جن میں مفتی عدنان کاکا خیل ، مفتی ثاقب رضا مصطفائی اور مفتی منیب الرحمٰن نمایاں ہیں اور ان کا کام بھی مثبت ہے ۔ کیاان کو بھی اپروچ کیاجاسکتا ہے یا نظام کی تبدیلی کے لیے ان سے اتحاد قائم کیا جا سکتاہے ؟
امیر تنظیم اسلامی: الحمدللہ!تنظیم اسلامی کی تاریخ گواہ ہے کہ اس کے پلیٹ فارم سے پہلے بھی مشترکات پر جمع ہونے اور مشترکہ آواز بلند کرنے کے لیے کوششیں ہوتی رہی ہیں ۔ سابق امیرتنظیم اسلامی حافظ عاکف سعید صاحب (اللہ تعالیٰ ان کوصحت عطا کرے ) نے اپنے دور امارت میں اس سلسلہ میں دینی جماعتوں کی قیادت سے اور علماء سے باقاعدہ ملاقاتیں بھی کیں اور مشترکہ طور پر اقامت دین کی جدوجہد کی ضرورت اور اہمیت کو ہمیشہ اجاگر کیا ۔ مجھے بھی جتنی اللہ نے توفیق دی ہے، تنظیمی دوروں کے دوران ، علماء سے ملاقاتوں کے دوران ہمیشہ اس بات کی دعوت دی ہے ۔ البتہ ضرورت اس بات کی ہے ان کوششوں کو مزید تیز کیا جائے ، تنظیمی وفودکی شکل میں علما، سیاسی وسماجی اورمعاشرے کی بااثر شخصیات سے ملاقاتیں کی جائیں۔انسداد سود کی مہم میں جماعت اسلامی اور تنظیم اسلامی نے مل کر کام کیا ۔ الحمد للہ ۔ اب علماء بھی مشترکہ جدوجہد کی ضرورت کو محسوس کر رہے ہیں ۔ جیسا کہ مفتی تقی عثمانی صاحب نے انسداد سود کے حوالے سے سیمینار میں اپنے خطاب کے دوران کہا کہ صرف سود کے خلاف ہی نہیں بلکہ تمام منکرات کے خلاف بھی ہمیں مشترکہ طور پر پیش قدمی کرنی چاہیے ۔ اسی طرح قرآنی نصاب کی ترتیب میں مفتی منیب الرحمٰن صاحب اورمفتی تقی عثمانی صاحب کی سرپرستی شامل رہی ہے۔ مفتی عدنان کاکاخیل صاحب سے بھی ایک دوملاقاتیں ہوئی ہیں، وہ ہمارے کام سے واقف بھی ہیں اورایک دواعتبارات سے خاص طور پر قرآنی نصاب کے سلسلہ میں انہوں نے ہمارے ساتھ تعاون بھی کیا۔ اسی طرح ثاقب رضا مصطفائی صاحب کے حوالے سے بھی ہماری کوشش ہے کہ وہ ہمارے فورمز پر آئیں ، جب وہ آئیں گے تو ان سے مشترکات پر بات بھی ہوگی ۔ ان شاء اللہ ۔ ایسا نہیں ہے کہ اتحاد کی کوشش نہیں ہوئیں البتہ ان کوششوں میں تیزی لانے کی ضرورت ہے ۔ باقی نتائج اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔
سوال:تنظیم اسلامی میں شامل ہونے کے لیے قرآن وحدیث کی روشنی میں کن باتوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے ؟
امیر تنظیم اسلامی:اس سوال کے دوپہلو ہیں ۔ (1)کسی جماعت میں شامل ہونے کے لیے کن باتوں کودیکھنا ہے ۔(2)تنظیم اسلامی میں شامل ہونے کے لیے کون سی چیزیں دیکھنی ہیں ۔اس حوالے سے بانی تنظیم ؒ پانچ باتیں بیان کرتے تھے :
1۔جماعت ایسی جوائن کریں جس کے پیش نظر اللہ کے دین کاغلبہ ہوکیونکہ رسول اللہﷺ کا مشن یہی تھا۔ ازروئے الفاظ قرآنی:
{ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ}(الصف:9)’’وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسولؐ کو الہدیٰ اور دین ِحق کے ساتھ تاکہ غالب کر دے اس کو پورے نظامِ زندگی پر‘‘
2۔وہ جماعت اپنے تربیت وتزکیہ کے پروگرام کے لیے قرآن حکیم کو اولین اہمیت دیتی ہو ۔ازروئے الفاظ قرآنی:
{یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَق}’’ ان کو پڑھ کر سناتا ہے اُس کی آیات اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں تعلیم دیتا ہے کتاب و حکمت کی۔‘‘
3۔وہ جماعت بیعت کی بنیاد پر قائم ہو۔ قرآن وحدیث میں صراحت کے ساتھ اس کا ذکر موجود ہے ۔ امام نسائی ؒ نے رسول اللہﷺ کی دس قسم کی بیعتوں کا ذکر کیا۔ چودہ صدیوں سے جماعت بنانے کا طریقہ قرآن کریم، احادیث مبارکہ ،سنت رسول ﷺ، خلفائے راشدین اورسلف صالحین کے طرزعمل سے بیعت کی بنیاد پر ثابت ہے ۔
4۔وہ جماعت نبی اکرمﷺ کے منہج کو سامنے رکھ کرجدوجہد اورمحنت کررہی ہو۔ ازروئے الفاظ قرآنی:
{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} ’’(اے مسلمانو!) (الاحزاب:21)تمہارے لیے اللہ کے رسول ؐمیں ایک بہترین نمونہ ہے ‘‘
دعوت ،تزکیہ، تربیت، عبادات،اقامت دین کی جدوجہد وغیرہ پرعمل کرنے کے لیے بہترین اسوہ رسول اللہﷺ کاہے ۔سب سے بڑا انقلاب محمدرسول اللہﷺ نے برپا کیا۔وہاں سے ہی ہم نے راہنمائی لینی ہے ۔ یعنی وہ جماعت اپنے طریقہ کار کو حتی الامکان سنت رسول ﷺ سے قریب کرے ۔
5۔جس جماعت میں جانا چاہتے ہیں اس کی قیادت (امیراور مرکزی ذمہ داران )کا جائزہ لیں ۔ کسی جماعت کے عام اراکین کے جائزہ سے اس جماعت کی نوعیت کا صحیح اندازہ نہیں ہوسکے گا ۔ مثال کے طورپر عبداللہ بن ابی کلمہ گو مسلمان تھا لیکن کیا اس کو دیکھ کر رسول اللہﷺ کی جماعت کے بارے میں کوئی رائے قائم کرسکتا ہے ؟ استغفراللہ!
سوال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ تنظیم اسلامی میں شامل ہونے کے لیے کن باتوں کو دیکھنا ضروری ہے ۔ اس حوالے سے چار باتیں اہم ہیں :
1۔چونکہ تنظیم بیعت کی بنیاد پر قائم ہے تواس کے امیر پرذاتی وشخصی اعتماد کرکے شامل ہوں۔
2۔تنظیم کے فکر سے اتفاق ہو۔ فرائض دینی کاجامع تصور، بیعت ،منہج وغیرہ ہمارے فکرکے بنیادی تصورات ہیں ۔
3۔ تنظیم کے طریقہ کار سے اتفاق ہونا چاہیے ۔
4۔ عقائد اہل سنت والجماعت والے ہونے چاہئیں۔
اگر کسی کوان چیزوں سے اتفاق ہے وہ تنظیم میں شامل ہوسکتا ہے ۔ شامل ہونے کےلیے بنیادی کتابچوں کا مطالعہ ہوجائے توبہتر ہوگاجن میں ایک تنظیم اسلامی کی دعوت والاکتابچہ ہے۔جوبانی محترم کاایک خطاب ہے۔ اس کے بعد شامل ہونے کے لیے ایک فارم پرکرنا پڑتا ہے یابالمشافہ بیعت کریں۔
سوال: بیعت کے بغیر تنظیم کی کیسے خدمت کی جاسکتی ہے؟
امیر تنظیم اسلامی:ایسے بہت سے احباب ہیں جو ابھی تنظیم میں شامل نہیں ہوئے لیکن وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ اوراللہ کے دین سے محبت کرتے ہیں ، اس وجہ سے وہ ڈاکٹر اسرار احمدؒ اور تنظیم اسلامی سے بھی محبت کرتے ہیں ۔ اسی لیے وہ تنظیم کے اجتماعات میں بھی شریک ہوتے ہیں ۔ انہیں ہم احباب کہتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ وہ تنظیم کی کیسے خدمت کر سکتے ہیں ۔ میں کہوں گاکہ خدمت نہ کریں بلکہ اپنا فرض ادا کریں۔ اقامت دین کی جدوجہد کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے ۔ میں خود اللہ کا بندہ بنوں، دوسروں کو اللہ کی بندگی کی دعوت دوں ۔یہ میں اپنے آپ پراحسان کروں گاکہ یہ فرائض ادا کرکے اپنے آپ کو جہنم سے بچالوں اور اپنے رب کو راضی کروں۔ اجتماعی سطح پر یہ فرائض اکیلا بندہ ادا نہیں کر سکتا ۔ اس کے لیے جماعت ضروری ہے ۔ ہماری دعا اورخواہش ہے کہ آپ شامل ہوں۔ خواہش سے بڑھ کر ایمان کا تقاضا ہے ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم مومن نہیں ہوسکتے جب تک اپنے بھائی کے لیے وہی بات پسند نہ کرو جواپنے لیے پسند کرتے ہو۔ لیکن جب تک شامل نہیں ہورہے توپھر آپ ہمارے حلقہ جات قرآنی، ماہانہ اورسہ ماہی اجتماعات، مظاہروں، مہمات وغیرہ میں شریک ہوسکتے ہیں ۔لوگ سمجھتے ہیں کہ بیعت کرکے ہم پھنس جائیں گے ۔ حالانکہ دنیا مومن کے لیے قیدخانہ ہے اورکافر کے لیے جنت ہے ۔توکیاہم پھنسے ہوئے نہیں ہیں ؟ کیااسلام چھوڑ دیں گے ؟ کافر اگر دنیا میں مزے کررہا ہے توکل آخرت میں جہنم میں ہوگا۔لیکن مومن کے لیے آخرت میں آرام ہی آرام ہے ۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ تنظیم اسلامی میں آکر کیاکرنا ہوگا؟میں کہتاہوں کوئی نیا کام نہیں کرنا ہوگا ۔ کوئی ایک تنظیم اسلامی کاتقاضا بتا دیں جو قرآن کریم اور احادیث رسولﷺ کی تعلیمات کے خلاف ہو۔یعنی وہ تقاضے جواسلام میں ہیں وہی تنظیم میں رہ کر پورے کرنے ہیں ۔ البتہ ایک فرق آجاتا ہے کہ ہم ڈسپلن کے ساتھ کام کرنے کی پوزیشن میں آجائیں گے ۔ پھر ہم اجتماعیت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔ ایک دوسرے کے لیے تقویت کا باعث بنتے ہیں اور دعائیں لیتے ہیں ۔
سوال: کسی بھی اجتماع میں ایمان کی جو کیفیت ہوتی ہے اس کو سارا سال کیسے قائم رکھا جائے ؟

امیر تنظیم اسلامی:یہ مسئلہ سب کے ساتھ ہوتا ہے ۔حضرت حنظلہؓ کا واقعہ یاد کرلیں ۔ ایک دن حنظلہ گھر سے نکلے اور کہتے جا رہے ہیں، حنظلہ تو منافق ہو گیا۔ صدیق اکبر ؓ ملے اورپوچھا:یہ کیوں کہہ رہے ہو؟توکہا:اللہ کے رسولﷺ کی مجلس میں ایمان کی ایسی کیفیت ہوتی ہے کہ جنت اورجہنم نظر آتی ہیں۔لیکن جب دنیوی معاملات میں آتے ہیں توکیفیت بدل جاتی ہے ۔ کیاصدیق اکبر ؓ کے پاس جواب نہیں تھا؟ لیکن صدیق اکبر ؓ نے کہا کہ بھائی یہ تومیرا بھی مسئلہ ہے ۔ آؤ رسول اکرمﷺ سے پوچھتے ہیں ۔ چنانچہ وہ دونوں رسول اللہﷺ کے پاس گئے اوران سے پوچھا توآپﷺ نے فرمایا:اے حنظلہ ! یہ کبھی کبھی کامعاملہ ہوتا ہے اگر ہمیشہ وہی کیفیت رہے جو میرے پاس ہوتی ہے توفرشتے تمہارے بستروں پرتم سے مصافحہ کریں۔ بہرحال ان واقعات کے بیان کرنے کا مطلب لائسنس نہیں ہے کہ اجتماع میں سستی ہے توہوتی رہے ، سوتے ہیں توسوتے رہیں ۔ بلکہ اگر اجتماعی ماحول میں یہ برکت مل رہی ہے تواپنے آپ کو ماحول سے زیادہ سے زیادہ جوڑنے کی کوشش کریں ۔اگر اس ماحول کی برکتیں محسوس کرتے ہوتوپھر گھر میں اور معاشرے میں ایسا ماحول بنانے کی کوشش کریں ۔
سوال:بانی تنظیم ؒنےافغانستان جاکرملاعمرؒسے ملاقات کی تھی، کیاآپ کابھی افغانستان جا کرطالبان کی لیڈرشپ سے ملاقات کاکوئی ارادہ ہے؟
امیر تنظیم اسلامی:اس حوالے سے ایک ٹیکنیکل فرق یہ ہے کہ جب بانی تنظیم ؒ گئے تھے تو اس وقت کی طالبان حکومت کوپاکستان نے تسلیم کر رکھا تھا لیکن موجودہ طالبان حکومت کو پاکستان نے ابھی تک تسلیم نہیں کیا ہے ۔ حد یہ ہے کہ چین نے اپناسفیر افغانستان میں تعینات کردیاہے جس کا مطلب ہے کہ سفارتی تعلقات بحال ہوگئے لیکن ہم جو کلمہ گو مسلمان ہیں ابھی تک اپنے پڑوسی مسلم ملک کو تسلیم نہیں کر رہے ۔ ہماری شدید خواہش ہے کہ مذاکرات اور افہام و تفہیم کا معاملہ ہو اور ہماری حکومت آگے بڑھ کر افغانستان کی اسلامی حکومت کو تسلیم کرے ۔ ہم نے اپنی مرکزی عاملہ کی مشاورت سے اس ملاقات کا فیصلہ pendingرکھا ہوا ہے جب حالات ٹھیک ہو جائیں گے تو پھر دیکھیں گے جو اللہ کا حکم ہوگا ۔ ملاعمر ؒ نے ڈاکٹر صاحب ؒ سے کہا تھاکہ پاکستان میں رہ کر جدوجہد کریں۔ پاکستان کمزور نہ ہو، پاکستان میں انتشار نہ ہو اورعلماء سے رابطہ رکھیں اوروہاں اقامت دین کی جدوجہد کوآگے بڑھائیں۔ہمارے لیے اولین اور اصل میدان یہ پاکستان ہی ہے ۔ اللہ ہمیں جدوجہد کواورآگے بڑھانے کی توفیق دے ، حالات کا سدھار ہو اور پھر جب امام مہدی کے لیے فوجیں جائیں تو ان میں ہم بھی شامل ہوں ۔
سوال:جب افغانستان میں خلافت کا کام کافی آگے ہے تو ہم ان کا ساتھ کیوں نہیں دے رہے ؟
امیر تنظیم اسلامی:ایک ٹیکنیکل فرق مدنظر رہنا چاہیے ۔ جب ملا عمر ؒ حیات تھے تو اس وقت بھی انہوں نے اسلامی امارت افغانستان کہا ہے ، خلافت کا لفظ استعمال نہیں کیا اور ابھی بھی اسلامی امارت افغانستان کہا گیا ہے ۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ خلافت تو عالمی ہوتی ہے، وہ کسی ملک تک محدود نہیں ہوتی ۔ جہاں تک ان کا ساتھ دینے کا معاملہ ہے تویہ کس نے کہا کہ ہم ان کا ساتھ نہیں دے رہے۔ اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے دعا کرنا، ان کی حمایت میں آواز بلند کرنا، ان کے لیے اپنے ذمہ داران کو مشورہ دینا یہ تمام چیزیں ان کا ساتھ دینا ہے، ہمارا مقصد اور مشن ایک ہے ۔ کیا یہاں رہ کر اس مشن کو آگے بڑھانا ان کے لیے تقویت کا باعث نہیں بنے گا ؟ جو ممکنات ہیں اس میں ہم ان کاساتھ دے رہے ہیں اور ہم اپنے حکمرانوں سے تقاضا کررہے ہیں کہ وہ آگے بڑھ کر ان کی حکومت کو تسلیم کریں تاکہ ہماری مغربی سرحد محفوظ ہو اورہماری سالمیت کو کوئی گزند نہ پہنچے اور اگر ہم مستقبل کے عالمی منظر نامہ (الملحمۃ العظمیٰ اور خراسان سے لشکروں کانکلنا) کومدنظر رکھیں توپھر نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ یہاں متحد ہوکر ہمیں کھڑا ہونے کی ضرورت ہے ۔
سوال: (1)تنظیم اسلامی میں جتنا زور مردوں کی دعوت وتربیت پر دیا جاتاہے اتنازور خواتین کی دعوت وتربیت پر کیوں نہیں دیا جاتا ؟
(2)اسلامی تحاریک میں خواتین کا اہم وقابل ذکرکردار رہاہے ۔ اسلامی نظام میںگھرمیں نئی نسل کی فکری وذہنی آبیاری وتربیت کی اپنی اہمیت ہے جس ضرورت اور اہمیت دور جدید میں مزید بڑھ گئی ہے ۔ آخر کیاوجہ ہے کہ ہم تنظیم اسلامی کی خواتین میںتعلیم و تربیت کے نظام کو اس طرح قائم نہیں کر پارہے جس طرح اس کا تقاضا ہے ؟
امیر تنظیم اسلامی:اس حوالے سے چند اصولی باتیں ہیں۔ الرجال قوامون علی النساکے مصداق اللہ نے مرد کو قوام بنایا۔ جہاں گھروالوں کی جسمانی، مادی حاجات کو پورا کرنا مرد کی ذمہ داری ہے وہیں ان کی روحانی حاجات کو پورا کرنا، ان کو جہنم سے بچانے کی فکر کرنابھی مرد کی ذمہ داری ہے ۔ قرآن میں ارشاد ہوتاہے :
{یٰٓــاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا}(التحریم:6)’’اے اہل ِایمان! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے بچائو‘‘
اللہ تعالیٰ نے گھرکانظام چلانے کے لیے عورت کو مرد کے تابع رکھا ہے لہٰذا یہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عیال کو جہنم کی آگ سے بچانے کے لیے انہیں دینی تعلیم دے ۔ ہم ہررفیق تنظیم کو کہتے ہیں کہ گھریلوا سرہ قائم کرو،گھرمیں دعوت کا کام کرو، گھروالوں کودین سے جوڑنے کی کوشش کرو۔یقیناً یہ مشکل کام ہے لیکن ہمارا فرض ہے، ہمیں یہ کام ہر حالت میں کرنا ہے ۔ ہماری تنظیم میں پورا حلقہ خواتین قائم ہے۔ حتیٰ کہ اگر نظام العمل مردوں کے لیے موجود ہے تونظام العمل عورتوں کے لیے بھی موجود ہے ۔ نظام اجتماعات اگر مردوں کے لیے معین ہیں توعورتوں کے لیے بھی معین ہیں ۔ البتہ فرق کرلیں۔ دینی مزاج کے مطابق عورت کی اصل ذمہ داری گھر کی ہے ۔ ہمارے ہاں بعض دینی اجتماعیتوں یااداروں میں عورتوں کو بالکل مردوں کے برابرفرنٹ لائن پرکھڑا کر نے تک نوبت آ گئی ہے۔ یہ دین کا مزاج نہیں ہے ۔ اس حوالے سے بانی تنظیم ؒ کا بڑا قیمتی کتابچہ ہے :مسلمان خواتین کے دینی فرائض۔ وہ مرد بھی پڑھیں اورخواتین کو بھی پڑھایا جائے ۔ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم میں کمزوری ہے تویہ کمزوری تومردوں کے نظام چلانے میں بھی ہے ۔اس کمزوری کا ازالہ کرنے کی کوشش کی جائے ۔ اس میں بہتری کی کوشش کی جائے ۔ ترغیب وتشویق کامعاملہ ہوگا۔ اسی طرح خواتین کا نظام چلانے کے اعتبار سے ان کے کرنے کے کاموں کو انجام دینے کے اعتبار سے بہت بہتری کی گنجائش ہے اس پر ہم توجہ کریں گے اور کررہے ہیں ۔ الحمدللہ!
سوال:اگر کسی اشکال کاحل جاننے کے لیے امیرتنظیم سے براہ راست ملاقات کرنی ہوتو کیسے ممکن ہے ؟
امیر تنظیم اسلامی: اس حوالے سے گزارش یہ ہے کہ آپ اپنے نظم کے ذریعے مرکز تک آسکتے ہیں ۔ہو سکتا ہے راستے میں ہی آپ کا مسئلہ حل ہو جائے لیکن اگر ایسی نوعیت پیش آتی ہے کہ صرف امیر تنظیم سے ہی مسئلہ حل ہوگا تواس کا امکان ہے ۔ میرا مہینے میں دو مرتبہ لاہور میںجمعہ کا خطاب ہوتاہے ۔ اگرچہ مختصر وقت کا دورہ ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود اگر کوئی نظم کے ذریعے رابطہ کرتاہے تو اس سے ملاقات ہو سکتی ہے ۔ مگر نظم کے ذریعے پہلے رابطہ ضروی ہے ۔ ایسا نہ ہوکہ آپ لاہور پہنچ جائیں اورامیرتنظیم کراچی میں ہوں ۔
سوال: ڈاکیو منٹریز اور دروس قرآن کوپبلک کرتے ہوئے بیک گرائونڈ میں میوزک کااستعمال کیاضروری ہے ؟
امیر تنظیم اسلامی:شاید محسوس ہوکہ میوزک ہے لیکن سپیکر پر آنے والی ہرآواز کو اگر میوزک کہیں گے توپھر اذان اوراقامت اورنماز کو بھی چھوڑ دیں۔ یہ اصل میں ووکلز(گلے کی آوازیں) ہوتی ہیں جن کو بیک گرائونڈ میں یااس کے علاوہ استعمال کیا جاتاہے ۔
میزبان: اصل میں بانی محترم ؒ کا مواد پرانا ہے اور یوٹیوب کی آرٹیفیشل انٹیلی جنس پرانے مواد کو copied contentکہہ کر روکتی ہے۔ اس لیے بیگ گراؤنڈ کا استعمال یا کوئی نشید لگا دینا ایک حکمت عملی کے طورپر بھی ہے ورنہ کسی صورت میں بھی کسی موسیقی یامیوزیکل بیک گرائونڈ کااستعمال ہم حرام سمجھتے ہیں اوراس کواستعمال نہیں کرتے ۔
سوال: تنظیم اسلامی اشتہارات میں تصاویر کااستعمال کیوں کرتی ہے ؟
امیر تنظیم اسلامی: میں نے ہمیشہ یہاں اور دوسرے اجتماعات میں سمارٹ فون سے تصاویر لینے سے منع کیا ہے۔ کیونکہ مجھے کوئی شوق نہیں ہے کہ میری تصویر کھینچی جائے۔ میرے پاس بانی محترمؒ ،والدین ،سابق امیر یااپنے بچوں کی کوئی تصویر نہیں ہےلیکن میری دعائوں میں یہ سب شامل ہوتے ہیں ۔ صرف میڈیا پر آنا ہوتاہے اوریہ بانی تنظیم ؒ نے ہمیں سمجھایا اوربانی تنظیمؒ اس وقت آئے جب لوگ اس کوحرام سمجھتے تھے لیکن آج وہی لوگ اتناآگے چلے گئے ہیں کہ ہمیں شرم آنا شروع ہوگئی ہے۔ جبکہ ہم نےمیڈیا کو ایک ذریعے کے طورپر استعمال کیا ہے۔ اسی طرح ہم نے تصاویر صرف تھم نیل کے طورپر استعمال کرنی ہوتی ہیں تاکہ پتا ہو کہ اس ویڈیو میں کون ہے اور کیا ہے ؟لہٰذا مشورے کے بعد ہم نے صرف تھم نیل کے طور پر چھوٹی تصویر کی گنجائش دی ہے ۔