(اداریہ) غزہ کی پکار اور مسلمان حکمرانوں کی بے حسی - ایوب بیگ مرزا

7 /

اداریہ
ایوب بیگ مرزاغزہ کی پکار اور مسلمان حکمرانوں کی بے حسی

مرکزی ناظم نشر و اشاعت نے اسلام آباد میں تنظیم اسلامی کے زیر اہتمام سیمینار میں یہ تحقیقی مقالہ پیش کیا جسے بطور اداریہ شائع کیا جا رہا ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کو میں ہاتھی اور چیونٹی کے درمیان جنگ کہتا ہوں۔پھر یہ کہ ہاتھی کو جنگل کے دوسرے درندوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور چیونٹیوں کا بھی صرف ایک گروہ میدانِ کار زار میں ہے باقی دوسرے گروہ ہاتھی اور درندوں کے خوف سے اپنے اپنے بل میں گھُسے ہوئے ہیں۔ جان ہتھیلی پر رکھ کرسارے جنگل سے لڑنے والے چیونٹی کو خوفزدہ کر رہے ہیںکہ تم موت کے منہ میں کیوں جارہے ہو، سرنڈر کرو اور اپنی اور ہم سب کی زندگی بچالو۔ بلکہ طاقتور کی پکار پر لبیک کہو، آپ اب میری اِس مثال کو غزہ میں چھڑی اِس جنگ میں منطبق کرلیں۔ موجودہ اسرائیل اور حماس کی جنگ کے دوران یمن کے حوثیوں نے دو بحری جہاز اغواکرلیئے ۔اِس پر امریکہ نے دس (10) ممالک پر مشتمل ایک بحری فورس بنائی ہے جو اسرائیل کے جہازوں کے اغوا کو روکے گی۔ آپ یقین کریں امریکہ کی بنائی ہوئی اِس فورس میں تین عرب ممالک بھی ہیں۔اس پر یہ شعریاد آیا”دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف_ اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی“۔آپ حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیں تو یہ الگ بات ہےکیونکہ اِسے تسلیم کرنا خود ہی کو بے نقاب کرنا ہے اور ہم اس وقت کھلی آنکھوں سے حقیقت کو پالینے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ حقائق سے آنکھیں بند کرلیں اورجاگتے ہوئے خواب دیکھتے چلے جائیں کیونکہ حقائق سے آنکھیں چار کرنے سے ہمارے لیے زندہ رہنا مشکل ہوجائے گا۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہم اُمت مسلمہ ہیںاور ہماری جنگ اِس وقت اُس قوم سے ہے جو اپنے کردار،اپنی بد عہدیوں اور اپنی نافرمانیوں کی وجہ سے اُمتِ مسلمہ کے منصب سے معزول کردی گئی تھی۔
آپ یقیناً سوال اُٹھائیں گے کہ نافرمانیوں ، سر کشیوںاوربد عہدیوں کی وہ کون سی قسم ہے جس کا ارتکاب مسلمان نہیں کررہے۔ اس سلسلے میں حضورﷺ کی ایک حدیث بھی ہے۔ حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’تم اپنے سے پہلے والوں کے طریقوں کی بالشت دربالشت اور ہاتھ در ہاتھ پیروی کروگے، یہاں تک کہ وہ اگر گوہ کے بل میں داخل ہوئے ہوں تو تم بھی اس میں داخل ہوںگے، اس پر صحابہؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! پہلے والوں سے آپؐ کی مراد کیا ہے؟ یہود ونصاریٰ ہیں؟ تو آپﷺ نے فرمایا: ’’توپھر اور کون۔‘‘ (بخاری، مسلم ، حاکم) لیکن آپ کے سوال اٹھانے کے باوجود ہم دو وجوہات کی بنا پر اب بھی اُمتِ مسلمہ کہلوانے کے حقدار ہیں۔ پہلی یہ کہ ہم یہود کی طرح صد فی صد اور مکمل طور پر نافرمان اور سرکش نہیں ہوئے۔ اب بھی
مسلمانوں میں ایسی جماعتیں اور افراد ہیں جن پر یہ شعر صادق آتا ہے، ’’خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ کرتے ہیں اشکِ سحر گاہی سے جو ظالم وضُو‘‘۔ یہاں میں آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ انہی خال خال اشک سحرگاہی سے وضو کرنے والوں میں سے وہ لوگ ہوں گے جو آخری معرکہ حق و باطل میں حصہ لیں گے۔ لہٰذا مسلمان اُمتِ مسلمہ کے منصب پر قیامت تک فائز رہنے کے اہل رہیں گے۔ ان شاء اللہ!
بہرحال اب آجائیے اُس جنگ کی طرف جو سابقہ اُمتِ مسلمہ اور موجودہ اُمتِ مسلمہ کی ایک چھوٹی سی تنظیم کے درمیان اِس وقت جاری ہے۔غزہ میں حماس نے اپنے وجود کو اِس پس منظر اور ماحول میں برقرار رکھاہوا ہے۔ جب کہ مسلمان ممالک میں جوبڑی دلیری اور جرأت کا مظاہرہ کرتا ہے وہ یوں گویا ہوتا ہے: ’’جان کی امان پاؤںتو عرض کروں‘‘ یہ کہہ کر اسرائیل کے ہسپتالوں اور سول آبادیوں پر بمباری کی خالی خولی مذمت کر دیتا ہے جب کہ امریکہ اور یورپ کھل کر اور علی الاعلان اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں۔اِس کے لیے وہ تل ابیب بھی حاضر ہورہے ہیں اور اسرائیل کو اپنے ہر قسم کے تعاون کا یقین بھی دلاتے ہیں اور وہ صرف باتیں نہیں کررہے بلکہ عملی طور پر 160بحری جہاز اسلحہ لے کر اسرائیل پہنچ چکے ہیںجن میں صرف امریکہ کے 35 جہاز ہیں۔اسرائیل کے برطانیہ میں سفیر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ عرب ممالک بے چینی سے جنگ بندی کا انتظار کررہے ہیں تاکہ وہ اسرائیل سے اپنے تعلقات بڑھانے کاسلسلہ از سرِ نو شروع کر سکیں۔ افسوس صد افسوس کہ اُنہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ اسرائیل نے 20 ہزار سے زائد ہمارے مسلمان بھائی شہید کردیے ہیں۔جن میں عورتوں اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے، بے شمار زخمی ہیں اور ہزاروں لاپتہ ہیںجن میں 70 فیصد عورتیں اور بچے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں یہ حال ہے کہ اگر سندھ میں کوئی ہندوعورت مسلمان ہوکر مسلمان سے شادی کرلیتی ہے یا اُسے کوئی زک پہنچتی ہے توموم بتی مافیا آسمان سر پر اُٹھا لیتا ہے ۔ غزہ میں ہزاروں عورتوں اور بچوں کے شہید ، زخمی اور لاپتہ ہونے پر کیا پاکستان کی کوئی انجمن نسواں سامنے آئی؟ کسی موم بتی مافیا نے کچھ کیا؟ ہر گز نہیں۔ جب مسلمان خود عملاً ثابت کرے گا کہ اُنہیں اپنے بھائی بہنوں کی جان، مال اورعزت عزیز نہیں تو دوسرا کیوں اُن کی جان و مال سے نہیں کھیلے گا۔
فلسطین کے حوالے سے آج کل دو ریاستی حل کا بڑا چرچہ ہے جو منہ اٹھاتا ہے فلسطین کی بابرکت سرزمین کے بارے میں کہہ دیتا ہے کہ اِسے فلسطینیوں اور یہودیوں کے درمیان تقسیم کردینا چاہیے یعنی ایک ریاست فلسطینیوں کی وجود میں آجائےا ور دوسری اسرائیل کے نام سے یہودی ریاست بنادی جائے۔ اِس حوالے سے بات آگے بڑھانے سے پہلے ایک اور غلط فہمی کا ازالہ کر دوں کہ ہمارے کئی لوگ مسجد اقصیٰ کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہیں اور وہ اُسے مسجد عمرؓ تک محدود کر دیتے ہیں، حالانکہ قبۃ الصخرہ بھی مسجد اقصیٰ کا حصہ ہے۔ مسجد اقصیٰ ہمارا قبلہ اوّل ہے۔ وہاں سے رسول اللہﷺ نے آسمانوں کا سفر شروع کیا جسے ہم معراج کہتے ہیں۔ اِسی مسجد میں آپؐ کی امامت میں تمام انبیاء کرامؓ نے نماز ادا کی۔ اِس سرزمین کو برکت والی سرزمین قرار دیا گیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ چاہتا تو آپﷺ کو آپؐ کے گھر سے سیدھا آسمانوں کی طرف لے جاتا، لیکن اس مسجد کی عظمت کا اظہار ضروری سمجھا گیا۔ لیکن آج حالت یہ ہے کہ مسلمانوں کو وہاں نماز پڑھنے کی بھی اجازت نہیں۔ بہرحال یہ عقل کے اندھے کیا نہیں جانتے کہ اِس وقت بھی وہاں عملی طور پر دو ریاستیں ہیں۔ایک کا نام فلسطین اتھارٹی اور دوسری یہودیوں کی باقاعدہ ریاست اسرائیل کے نام سے ہے۔کیا وہاں خون خرابہ رُک گیا ہے؟ یہودی ہر دوسرے روز فلسطینیوں کا چلتے چلتے خون بہادیتے تھے۔ پھر یہ کہ کیا دوریاستی حل کی رَٹ لگانے والوں نے اسرائیل سے کبھی پوچھا کہ کیا اُسے دو ریاستی حل قبول ہے ۔حال ہی میں جب اخباری نمائندوں نے اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو سے کہا کہ یہ کہا جاتا ہے کہ دوریاستی حل کو آپ نے سبو تاز کیا ہےتواُس نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا: بالکل! میں دو ریاستوں کے حق میں نہیں ہوںیعنی بقول اُس کے ایک ہی ریاست ہو گی اور وہ اسرائیل ہوگی ۔ہمارا عجب معاملہ ہے۔ ہم دشمن کے فائدے کی بات خود اپنے منہ سے کرتے ہیں۔دو ریاستی حل کو تسلیم کرنے کا مطلب ہے، سب دنیا مسلمانوں سمیت اسرائیل کو تسلیم کرلے گی اور اسرائیل جب چاہے گا فلسطین کی کمزور ریاست کو ہڑپ کر جائے گا اور دنیا منہ تکتی رہے گی اور سلامتی کونسل اجلاس کرتی رہے گی۔ ہمارے وزیراعظم صاحب نے بھی یہی فرما دیا ہے کہ قائد اعظم کا یہ کہنا کہ "israel is illegitimate child of west" کوئی مذہبی یا آسمانی بات تو نہ تھی۔ درحقیقت ہمارے حکمرانوں نے اپنے نازک دل و دماغ پر شاید کبھی اتنا بوجھ ڈالا ہی نہیں کہ سمجھیں کہ دو ریاستی حل کا مطلب کیا ہے ۔
میں یہاں خاص طور پر عرب حکمرانوں سے مخاطب ہو کر عرض کروں گا کہ صہیونیت کے باوا آدم تھیوڈو رہرزل نے تو 1897ء کی پہلی میٹنگ میں ہی یہ اعلان کر دیا تھا کہ خدا کے وعدے کے پورے ہونے کا وقت آگیا ہے اب Holy Land میں ایک ریاست قائم ہوگی جو نیل سے فرات تک پھیلی ہوگی۔ گویا پہلے دن ہی گریٹر اسرائیل کا اعلان کر دیا گیا تھا اور وہ یہ مذہبی بنیادوں پر قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اِس حوالے سے تاریخ میں عیسائی یہودی گٹھ جوڑ واضح طور پر نظر آتا ہے۔ 1916ء میں جب برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کیا تھا تو جنرل ایلن بی جو برطانوی فوج کا کمانڈر تھا اُس نے صلاح الدین ایوبی کی قبر پر جا کر ٹھوکر ماری تھی اور کہا تھا "Wake up Salah-Din we are back"۔ یہاں میں مسلمانوں اور عیسائیوں کی ذہنیت میں فرق واضح کرتا چلوں۔ جب حضرت عمر ؓ کے دور میں بیت المقدس فتح ہوا تو آپ جانتے ہیں کہ خون کا قطرہ بھی نہیں بہا تھا یعنی جنگ کی نوبت ہی نہیں آئی تھی۔ عیسائیوں کے مطابق فاتح بیت المقدس کی شخصیت کا نقشہ اُن کی کتابوں میں کھینچا ہوا تھا۔ حضرت عمرؓ کو دیکھتے ہی اُنہوں نے چابیاں مسلمانوں کے حوالے کر دی تھیں۔ پھر دوبارہ جب صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کا قبضہ 1187ء میں ایک جنگ کے ذریعے واپس لیا تو فاتح بیت المقدس نے ارضِ مقدس پر بہت کم خون ریزی کی۔ لیکن 1099ء میں جب مسلمانوں کو اِس علاقے میں شکست ہوئی تھی تو تاریخ کہتی ہے کہ صلیبیوں نے اتنا خون بہایا تھا کہ اُن کے گھوڑوں کے گھٹنے خون میں ڈوب گئے تھے میں یہ بات مسلمان اور غیر مسلمان کی ذہنیت میں فرق واضح کرنے کے لیے بتا رہا ہوں۔ آج غزہ کی جنگ میں صہیونیوں کے ٹارگٹ فوجی تنصیبات کم اور سکول، ہسپتال، یونیورسٹیاں اور شہری آبادیاں زیادہ ہیں۔ بچوں کو یہ کہہ کر قتل کر رہے ہیں کہ یہ ٹائم بم ہیں، وقت آنے پر ہمارے خلاف پھٹ جائیں گے لہٰذا اِن کا زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ مریضوں کو ہسپتالوں سے گھسیٹ گھسیٹ کر سڑکوں پر پھینک رہے ہیں جہاں وہ تڑپ تڑپ کر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ میں نہیںسمجھتا کہ پتھر کے زمانے کے لوگ بھی اتنے ظلم و ستم اور جہالت کا مظاہرہ کرتے ہوںگے۔ اسرائیلی کہتے ہیں کہ مسلمان تاریکی کی پیداوار ہیں۔ آج ساری دنیا جس میں یورپ کے عوام بھی شامل ہیں اِن پر تھو تھو کر رہے ہیں اور اِنہیں انسانیت کے دشمن قرار دے رہے ہیں۔ بہرحال اصل صدمہ اصل دکھ دینے والی بات مسلمان حکمرانوں کا رویہ اور اُن کی بے حسی ہے۔ معلوم ہوتا ہے وہ موت کو بھلا چکے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ دولت اور اقتدار ہمیشہ ہمیشہ اُن کے پاس رہے گا۔ کتنے فرعون، نمرود اور ہٹلر بالآخر زمین کا رزق بنے، کتنے ابوجہل گزرے جن کی تنی ہوئی گردنیں زمین بوس ہوگئیں۔ اللہ رسی دراز کرتا ہے لیکن کسی ظالم کو بُرے انجام کے حوالے سے کوئی غلط فہمی لاحق نہیں ہونا چاہیے۔
ہمارے بعض دانشور یہ کہتے ہیں کہ حماس نے 7اکتوبر 2023ء کو اسرائیل پر حملہ کرکے بڑی غلطی کی ہے۔ اُس نے اسرائیل کو موقع دے دیا ہے کہ وہ ہزاروں فلسطینیوں کا آسانی سے قتل عام کر دے۔ بعض حضرات اتنی زبردست دانشوری بگھارتے ہیں اور یہاں تک کہتے ہیں کہ حماس نے حملہ ہی کسی کے اشارے پر کیا ہے۔ وہ اِسے نائن الیون جیسے فالس فلیگ سے مِلا دیتے ہیں۔ اِس لاجک کے خلاف دلائل کا ڈھیر لگایا جا سکتا ہے، لیکن اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ اسرائیل کبھی اپنا ایک فرد کسی صورت نہیں مرواتا جبکہ 7 اکتوبر 2023ء کو سینکڑوں یہودی جہنم واصل ہوگئے تھے۔ یاد رہے اسرائیل کا سب سے بڑا مسئلہ آبادی کی کمی یعنی Human resources کی shortage رہی ہے۔ وہ کیسے ایسا ڈراما رچا سکتا ہے جس میں سینکڑوں یہودی مارے جائیں۔ یہاں اِس بات کا ذکر کرنا ضروری بھی ہے اور دیانت داری کا تقاضا بھی ہے کہ عربوں کو گزشتہ پون صدی میں جو شکستوں اور ذلت و ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ اُن کی شرم ناک بزدلی، نااہلی اور عیش و عشرت کی زندگی میں غرق ہوجانے کا نتیجہ تھی۔ سیال سونا اگلتی زمینوں نے اُنہیں دھن اور دولت سے لاد دیا تھا۔ وہ اِس دولت سے ملک کو صنعتی اور تجارتی ترقی کے لیے استعمال کرنے کی بجائے گلچھرے اُڑاتے رہے۔ اُنہیں زندگی کی رنگینیوں سے فرصت ہی نہ تھی کہ وہ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلحہ ساز فیکٹریاں لگانے کی فکر کرتے۔ آج اگر عرب جدید جنگی ساز و سامان کی پروڈکشن کر رہے ہوتے تو اسرائیل حملہ کی جرأت ہی نہ کرتا۔ بہرحال ؂ ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات! اور عرب یہ سزا بھگت رہے ہیں اور خوب بھگت رہے ہیں۔ یہی اُن کا ضعف اور ناتوانی اُنہیں مجبور کر رہی تھی کہ وہ اسرائیل کے آگے سرنڈر کر جائیں۔ وہ اپنے کمزور اور بزدل ہونے کی وجہ سے اسرائیل سے محبت کی پینگیں بڑھا رہے تھے۔ اُس کے آگے بچھ رہے تھے، یہ منت سماجت اور ترلے منتیں کر رہے تھے تاکہ اپنی حکومتیں بچا سکیں جو ہرگز نہ بچنا تھیں۔ میں مسلمانوں خاص طور پر عربوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پسپائی کے عقب میں کوئی دیوار نہیں ہوتی۔ فرد، معاشرہ یا ریاست جب کسی ڈھلوان سے لڑھکتی ہے تو وہ بالآخر کھائی ہی کی مکین بنتی ہے۔ بہرحال 7اکتوبر 2023ء کو حماس کے حملے نے کم از کم ایک وقت تک اسرائیل سے صلح صفائی اور غیر فطری حلیف بن جانے کے عمل کو بریک لگا دی ہے۔ درحقیقت عربوں کی اسرائیل سے تعلقات بڑھانے کی خواہش عقل کے منافی بھی تھی اور غیر فطری غیر منطقی بھی تھی جس کے نتائج کبھی اچھے نہ نکلتے۔
اب آئیے اِس نکتہ کی طرف جو ظاہری طور پر تھوڑا سا ہٹ کر تو ہے لیکن غیر متعلق ہرگز نہیں ہے۔ یاد رکھیں! غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ امریکہ کی آشیر باد سے ہی نہیں بلکہ امریکہ کی مکمل رضا مندی اور معاونت سے ہو رہا ہے۔ امریکہ کا اسلام اور پاکستان سے کیا تعلق ہے۔ اِس حوالے سے کچھ عرض کرنے سے پہلے ایک تاریخی واقعہ سن لیجیے۔ آج سے قریباً چالیس سال قبل ایک سینئر صحافی سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے ایک سوال کے جواب میں خود صحافی سے سوال کیا کہ کیا آپ یہ بتائیں گے کہ پاکستان کا بڑا دشمن بھارت ہے یا امریکہ؟ صحافی اُن کی یہ بات سن کر کہتا ہے ظاہر ہے بھارت ہے۔ تب بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹراسرار احمدؒ اللہ تعالیٰ اُنہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے، کہتے ہیں، نہیں میری بات یاد رکھنا امریکہ پاکستان کا بھارت سے بڑا دشمن ہے۔ وہ صحافی ششدر رہ گیا۔ آج وقت نے ثابت کیا ہے کہ یقیناً امریکہ دنیا میں ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے۔ اِس کی وجہ بھی آپ سمجھنے کی کوشش کریں۔ درحقیقت امریکہ کی چودھراہٹ اور پون صدی سے رواں دواں عالمی شہنشاہیت کا ستون کیپٹلزم یعنی سرمایہ دارانہ نظام ہے اور اسلام کا عادلانہ نظام واحد نظام ہے جو کل کلاں اِسے چیلنج کر سکتا ہے۔ اگر وہ دنیا میں کہیں قائم ہوگیا تو سرمایہ دارانہ نظام بُری طرح شکست کھا جائے گا کیونکہ وہ بدترین استحصالی نظام ہے۔ دریں صورت امریکہ کی عالمی شہنشاہیت دھرام سے زمین پر آ گرے گی اور پاکستان چونکہ اسلامی نظریاتی ملک ہے لہٰذا پاکستان کو تباہ و برباد کرنا امریکہ کا اوّلین ایجنڈا ہے۔ پھر یہ کہ اللہ نے ایسی سبیل بھی پیدا کر دی کہ پاکستان نے ایٹمی صلاحیت حاصل کر لی۔ اب اگر غزہ کی جنگ پھیلتی ہے، کسی مسلماں ملک سے تو کوئی توقع نہیں البتہ اگر روس اور چین اِس جنگ میں براہِ راست ملوث نہیں بھی ہوتے لیکن وہ اپنے مفادات کی خاطر اور امریکہ کی دشمنی میں اسرائیل کے خلاف اِس جنگ کو ایندھن فراہم کرتے رہتے ہیں، جس سے جنگ طویل ہوجائے کیونکہ جنگ کی طوالت اسرائیل کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوگی۔ اس لیے کہ جنگ اگر لمبی ہوئی تو حالات بھی پلٹا کھا سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ جنگ اگر کسی ٹرننگ پوائنٹ پر پہنچتی ہے تو امریکہ خطرہ محسوس کرتا ہے کہ کہیں ایٹمی پاکستان اِس جنگ میں نہ کود پڑے۔ لہٰذا امریکہ نے حفظِ ماتقدم کے طور پر اِس پر ورکنگ شروع کر دی تھی اور پوری کوشش اور محنت سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات خراب کروا رہا ہے اور آنے والے وقت میں اِس حوالے سے انتہائی تشویش ناک خبریں آ رہی ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں، وہ یہ کہ اِس صورتِ حال میں امریکہ پاکستان کو اپنے ہمسائے کے ساتھ جنگ میں engage کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے اور فرض کریں پاکستان اور افغانستان دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور امریکہ کی تمام تر کوششوں کے باوجود باہم جنگ سے گریز کرتے ہیں تو پھر وہ پاکستان کو engage کرنے کے لیے بھارت کو استعمال کرے گا، جو امریکہ کی شہ پاتے ہی تیار ہو جائے گا۔ لیکن بھارت کی یہ بھول ہوگی کیونکہ ایسی صورت میں چین لا تعلق نہیں رہ سکتا۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ پاکستان اگر امریکی دباؤ اور غیروں کا مقروض ہونے کی وجہ سے فلسطین میں حماس کی عملی مدد کرنے کی ہمت نہیں پاتا تو اُسے کم از کم یہ ضرور کرنا چاہیے کہ اِس شیطانِ بزرگ کے عزائم بھانپ کر افغانستان سے تصادم کرانے کے امریکی ایجنڈے کو تو بُری طرح ناکام بنا دے، تاکہ اسرائیل لعین پر پاکستان کے میدان جنگ میں اترنے کا خوف طاری رہے۔ میں سمجھتا ہوں آنے والے وقت میں پاکستان کو انتہائی اہم رول خواہی نخواہی ادا کرنا پڑے گا۔ پاکستان بلکہ تمام مسلمان حکمرانوں کو حیدر علی کے بہادر سپوت ٹیپو سطان کا یہ باطل شکن نعرہ کسی صورت فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔‘‘
آخری اور اہم ترین بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں مسلمان اللہ تعالیٰ سے دعائیں کر رہے ہیں کہ اُنہیں غیروں کے ظلم و ستم سے نجات دے۔ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے اور ہماری دعاؤں کو قبولیت بخشے۔ لیکن ہمیں بھی گریبان میں منہ ڈالنا ہوگا۔ جب مصر سے آواز اٹھے گی We are the sons of Pharoach یعنی ہم فرعون کی اولاد ہیں اور عراق والے خود کو نمرود سے جوڑیں گے اور پاکستان جس نے پچاس سال پہلے اپنے آئین میں لکھا تھا ’’کوئی قانون سازی قرآن اور سنت کے خلاف نہیں ہوگی‘‘ لیکن سود، جوا، شراب کے پرمٹ وغیرہ کو سرکار کی سرپرستی حاصل ہوگی تو ایسی صورت میں ہمارا کیا منہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے مدد کے طالب ہوں۔ اے اللہ! ہم پر رحم فرما اور ہمیں ہدایت عطا فرما۔ آمین یا رب العالمین!