(دعوت و تحریک) نیکی اور بدی - تنظیم اسلامی

7 /

نیکی اور بدیمرکزی شعبہ تعلیم و تربیت تنظیم اسلامی

آپ سوچ رہے ہوں گے نیکی اور بدی کے بارے میں کسے معلوم نہیں۔ اس مضمون کو پڑھنے سے کیا فائدہ نیکی اور بدی کے بارے میں تو ہم خوب اچھی طرح جانتے ہیں۔ نہیں یہ ہماری غلط فہمی ہے نیکی اور بدی کے بارے میں ہم بہت سے مغالطوں کا شکار ہیں۔ اطمینان رکھیے ہم کوئی بہت مشکل باتیں کرنے نہیں جا رہے: حضور اکرم ﷺ کا فرمان ہے: ((اِنَّ الدِّيْنَ يُسْرٌ)) ’’دین بہت آسان ہے ۔‘‘ نیکی اور بدی کا قانون بھی بڑا آسان اور سراسر رحمت کا قانون ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس iسے مروی ایک حدیث ہے:
’’اللہ تعالیٰ نے نیکیاں اور برائیاں لکھ دی ہیں اور پھر اس کو واضح بھی کردیا ہے۔ کوئی شخص نیکی کا اراداہ کرے اورا بھی اس نے اس پر عمل نہ کیا ہو تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے پاس مکمل نیکی درج فرمالیتا ہے اور اگر نیکی کا ارادہ کر کے اس پر عمل بھی کر گزرے تو اللہ تعالیٰ اس نیکی کو اپنے پاس دس گنا سے لے کر سات سو گنا بلکہ اس سے بھی کئی گنا زیادہ لکھ لیتا ہے۔ اور اگر انسان برائی کا صرف ارادہ کرے اور اس پر عمل نہ کرے تو بھی اللہ تعالیٰ اسے اپنے ہاں مکمل نیکی لکھ لیتا ہے اور برائی کا ارادہ کر کے عمل بھی کرے تو اللہ تعالیٰ اپنے پاس اسے صرف ایک گناہ ہی لکھتا ہے۔ ‘‘(مسلم،بخاری)
معلوم ہوا کہ دین میں اصل چیز کسی کام کو کرنے کا ارادہ ہے۔ انسان کو کچھ صلاحیتیں دی گئی ہیں۔ پھر اسے اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ان صلاحیتوں کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرے اور اسی میں اس کا امتحان ہے۔
انسان کا دل بیدار اور زندہ ہو تو وہ اچھے کام کرنے کا فیصلہ کرتا ہے اور جب دل مردہ ہوجائے تواس میں اور جانور میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ قرآن مجید بار بار کہتا ہے کہ اصل زندگی قلب کی زندگی ہے۔ اصل موت قلب کی موت ہے۔ اصل بینائی قلب کی بینائی ہے۔ اصل اندھاپن قلب کا اندھا پن ہے۔ قیامت کے روز وہی نجات پائے گا جو اللہ تعالیٰ کے پاس قلب سلیم لے کر آئے گا۔ اصل چیز انسان کا ارادہ اور اختیار ہے۔ ہمت کرنے سے زندگی سنور سکتی ہے۔
ھَمَّ کے معنی ہیں: کسی کام کا پکا ارادہ یا عزم مصمّم کر لینا اور پھر اس کو کرنے کی فکر میں لگے رہنا۔ بعض دوسری روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ بندہ جب کسی نیکی کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس کو نیکی کے طور پر لکھ لیتا ہوں۔ کر لے تو دس گنا یا اس سے زیادہ دیتا ہوں۔ جب وہ کسی برائی کا ارادہ کرتا ہے تو جب تک وہ کر نہ لے تو میں اس کے ارادے کو معاف کرتا رہتا ہوں۔ جب وہ برائی کر لیتا ہے تو اس کو برابر لکھتا ہوں۔ فرشتے کسی بندے کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے کہتے ہیں کہ اے اللہ ! یہ تو برائی کا ارادہ کیے ہوئے ہے، برائی کرنا چاہ رہا ہے۔ اس پر حدیث کے الفاظ ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے زیادہ جانتا ہے۔ وہ دیکھ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس پر نگاہ رکھو اور اگر یہ کر لے تو اس کے بعد اس کو لکھ لو اور اگر یہ میری جزا کی امید میں اور میرے خوف سے اس برائی کو چھوڑ دے تو پھر اسے نیکی کے طور پر لکھ لو۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی خاطر کسی برائی کو چھوڑ دینا بذات خود ایک نیکی ہے۔
اجر حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ نیکی مقبول بھی ہو۔ لہٰذا ہمیں دیکھنا ہوگا کہ نیکی کی مقبولیت کی کیا شرائط ہیں؟ نیکی کی قبولیت کی شرطِ اوّل ایمان ہے۔ کافر اور مشرک بھی بعض اوقات نیکی کا کام کرتے ہیں مگر ان کی وہ نیکی قبول نہیں ہوتی۔ سورۃ البقرہ آیت 177 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’ نیکی یہی نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے مشرق اور مغرب کی طرف پھیر دو ’بلکہ نیکی تو اُس کی ہے’جو ایمان لائے اللہ پر‘ یومِ آخرت پر‘ فرشتوں پر‘ کتاب پر اور نبیوں پر۔اوروہ خرچ کرے مال اس کی محبت کے باوجود‘‘’قرابت داروں‘ یتیموں‘ ‘محتاجوں‘ مسافروں اور مانگنے والوں پر اور گردنوں کے چھڑانے میں۔اور قائم کرے نماز اور ادا کرے زکوٰۃ۔اور جو پورا کرنے والے ہیں اپنے عہد کو جب کوئی عہدکرلیں۔اور خاص طور پر صبر کرنے والے فقر و فاقہ میں تکالیف میں اور جنگ کی حالت میں۔یہ ہیں وہ لوگ جو سچے ہیں۔اور یہی حقیقت میں متقی ہیں۔‘‘
درحقیقت ایمان سے نیت کا تعین ہوتا ہے کہ انسان نیکی کس لیے کر رہا ہے۔ اللہ پر ایمان کا مطلب ہے کہ وہ نیکی صرف اس لیے کر رہا ہے کہ اس کا اللہ اس سے راضی ہو جائے اور وہ اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اگر اللہ پر ایمان حقیقی نہیں ہے تو پھر یا تو ریاکاری ہوگی یا پھر کچھ اور فوائد اٹھانا پیش نظر ہوں گے۔ مثلا ًکسی نے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی فاؤنڈیشن قائم کر دی اور کسی وزیر سے اس کا افتتاح بھی کرا لیا یا آفت زدہ لوگوں کے لیے رقم کا چیک وزیراعظم کے حوالے کرتے ہوئے اخبار میں تصویر بھی چھپ گئی۔ لیکن اس شخص کے پیش نظر کچھ دوسرے فوائد بھی اٹھانا تھاتو اب اس کی یہ نیکی کسی کام کی نہیں۔
دوسری بات جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے وہ یہ کہ نیکی کی قبولیت کے لیے آخرت کا یقین بھی ضروری ہے یعنی اس نیکی کا بدلہ اس دنیا میں مطلوب نہ ہو بلکہ پورا کا پورا اجر آخرت میں مطلوب ہو۔ کیونکہ دنیا میں بدلے کے لیے کوئی بھی کام کرنا تو کاروبار یا تجارت کے زمرے میں آتا ہے۔
تیسری بات جس کی طرف اس آیت میں توجہ دلائی گئی ہے وہ یہ کہ نیکی کی قبولیت کے یہ بھی ضروری ہے کہ اس نیک کام کا حضور اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ سے ثبوت ملتا ہو۔
نیکی کا اجر حساب کتاب کی قید سے آزاد
حدیث مبارکہ میں’’ ھَمَّ ‘‘ کا لفظ آیا ہے۔ اسی سے لفظ’’ اہتمام‘‘بھی بنتا ہے اور اسی سے’’ہمت‘‘کا لفظ بھی بنا ہے۔ یعنی جس شخص نے کسی نیک کام کرنے کے لیے کمر ہمت کس لی اور اس کا اہتمام بھی کرنے کی کوشش کی مگر بعض خارجی موانع کے باعث اس کام کو پایۂ تکمیل تک نہ پہنچا سکا یا اندرونی سستی یا کیفیات کی وجہ سے ارادہ کچھ کمزور پڑ گیا تب بھی اس ارادے کو اللہ تعالیٰ ایک مکمل نیکی اپنے پاس لکھ لے گا۔ اس نے ارادہ کیا اور اس پر عمل کر لیا تو اللہ تعالیٰ اس نیکی کا اجر دس گنا سے لے کر 700 گنا تک دے گا۔ بلکہ بعض اوقات یہ اتنی بار بڑھے گا کہ حساب کتاب کی قید سے آزاد ہو جائے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’ اور اللہ تعالیٰ بڑھا چڑھا کر دے گا جس کے لیے چاہے گا اور اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘
نیکی کی حفاظت کرنا:
صرف نیک کام کرنا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی حفاظت کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ بات قرآن مجید نے بہت اچھی طرح واضح کردی ہے۔کہ کسی کا کوئی نیک عمل ضائع نہیں ہو سکتا۔ الا یہ کہ وہ اس کو خود اپنے ہاتھوں برباد کردے۔ خود ہی کنواں کھودے اور اس میں گر جائے۔ جیسا کہ اس آیت 262 میں اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے:
’’ جو لوگ اپنے مال خرچ کرتے ہیں اللہ کی راہ‘میں‘‘ پھر جو کچھ وہ خرچ کرتے ہیں اس کے بعد نہ تو احسان جتاتے ہیں اور نہ تکلیف پہنچاتے ہیں‘‘’’ان کا اجر اُن کے ربّ کے پاس محفوظ ہے۔ اور نہ تو ان کے لیے کوئی خوف ہو گا اور نہ ہی وہ کسی رنج و غم سے دوچار ہوں گے۔‘‘
یعنی نیکی تو کی مگر جس کے ساتھ نیکی کی اس پر اپنا احسان بھی جتلا دیا ، اس کو طعنہ بھی دے دیا یا نیکی میں اخلاص نہ رہا اس میں ریا کاری شامل ہوگئی تو گویا اس نے نیکی کو خود اپنے ہاتھوں برباد کر دیا۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہوتا ہے؟‘‘ صحابہ کرامؓ نے جواب دیا:’’ ہم میں سے مفلس وہ ہے جس کے پاس کوئی روپیہ پیسہ اور سازو سامان نہ ہو۔‘‘
اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰۃ جیسے اعمال لے کر آئے گا۔تاہم اس نے کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پر تہمت دھری ہو گی، کسی کا مال(ناحق) کھایا ہو گا اور کسی کا خون بہایا ہو گا اور کسی کو مارا ہو گا۔چنانچہ اس کی نیکیاں ان لوگوں کو دے دی جائیں گی۔پھر اگر اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں اور اس پر واجب الاداء حقوق ابھی باقی رہے تو ان لوگوں کے گناہ لے کر اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔‘‘
(رواہ مسلم)
گویا نیک کام کرنے کے ساتھ ہمیں اپنی نیکیوں کی حفاظت بھی کرنی ہے۔ وہ حفاطت اسی طرح ہو سکتی ہے کہ ہم کسی کا دل نہ دکھائیں، کسی کا ناحق مال نہ کھائیں ، اپنی زبان کی حفاظت کریں اور لوگوں کے واجب الادا حقوق بھی ادا کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔
برائی کا معاملہ
اللہ تعالیٰ کے قوانین بھی بڑے عجیب ہیں۔ یہ کسی منطق کے تابع نہیں بلکہ سراسر فضل و کرم اور رحمت پر مبنی ہیں۔ برائی کے بارے میں فرمایا گیا کہ اگر کسی نے برائی کا ارادہ کیا اور اس پر عمل نہ کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو ابھی اپنے ہاں ایک نیکی لکھ لے گا اور اس پر عمل بھی کر لیا تو صرف ایک ہی گناہ لکھا جائے گا۔ اب اس برائی سے باز رہنے کی بھی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ہو سکتا ہے چوری کے ارادے سے جا رہا تھا مگر وہاں پر پولیس کا پہرہ تھا۔ اب منطقی تقاضا تو یہ ہے کہ اس کے بدلے اسے کچھ نہیں ملنا چاہیے، اس لیے کہ اگر پولیس کا پہرا نہ ہوتا تو وہ چوری کر گزرتا، لیکن اس کے باوجود چوری نہ کر سکنے کی وجہ سے بھی اس کے نامہ اعمال میں ایک نیکی لکھی گئی۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس نے برائی کا ارادہ کیا مگر اس پر اللہ کا خوف غالب آگیا اور وہ باز آگیا۔ اس صورت میں یقیناً اللہ تعالیٰ اسے ایک نیکی کا درجہ دے دے گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو اپنے دامن رحمت میں لے لے۔
یاد رکھیے کہ سب سے بڑی اور سب سے پہلی نیکی اللہ کے دین کے خلاف ہونے والی بغاوت کو روکنے کا ارادہ کرنا ہے اور پھر اس میں بالفعل جدوجہد کرنا، تن من دھن لگانا یہ سب سے بڑی نیکی ہے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اگر تم میرے وفادار ہو تو طاغوت کے کیسے وفادار ہو گئے؟ یہ دو باتیں تو اکٹھی نہیں ہو سکتیں۔
سورۃ البقرہ کی آیت 256 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{فَمَنْ یَّـکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْم بِاللہِ } ’’ تو جو کوئی بھی طاغوت کا انکار کرے اور پھر اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے۔‘‘
گویا پہلے طاغوت کا کفر اور انکار ہے اور پھر اللہ پر ایمان کا مرحلہ ہے۔
یعنی اللہ کے دین کے خلاف ہونے والی بغاوت کو روکنے کا ارادہ کرنا کم سے کم نیکی ہے اور بلند ترین نیکی یہ ہوگی کہ اپنا سب کچھ تن، من، دھن اس راہ میں قربان کر دیاجائے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نیکیوں کا ارادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور خاص طور پر ہم طاغوت سے بغاوت اور اللہ کے نظام کو قائم کرنے کی جدوجہد کا ہم نہ صرف ارادہ کریں بلکہ اس پر عملاً کار بند بھی ہو جائیں ۔آمین یا رب العالمین