اداریہ
حافظ عاکف سعیدماہ رمضان المبارک کی آمد…ضروری ذہنی تیاری!
نوٹ: سابق امیر تنظیم اسلامی حافظ عاکف سعید حفظہ اللہ نے یہ اداریہ 2015ء میں لکھا تھا جو اگرچہ رمضان المبارک کی آمد اور اُس کے لیے ضروری ذہنی تیاری کے حوالے سے لکھا گیا تھا لیکن تذکیری اور تنظیمی نقطۂ نظر سے انتہائی مؤثر ہونے کی بنا پر بطور قندِ مکرر شائع کیا جا رہا ہے۔
تنظیم اسلامی تمام دینی تحریکات میں اس اعتبار سے ممیز ہے کہ اس کی اٹھان ’’تحریک رجوع الی القرآن‘‘ کے ذریعے ہوئی ۔ اس کے بانی اور موسس محترم ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کا آج بھی بنیادی تعارف عوام الناس میں ایک عظیم ’’مدرس قرآن‘‘’’ اور داعی الی القرآن‘‘ ہی کا ہے اور بفضلہ تعالیٰ تنظیم اسلامی اور انجمن خدام القرآن کے پلیٹ فارم سے قرآن کی ابدی ہدایت اور اس کے انقلاب آفریں پیغام کو موثر انداز میں عام کیا جا رہا ہے۔ اس اعتبار سے ہمارے احباب و رفقاء کے لیے رمضان المبارک کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے ۔ حدیث رسولﷺمیں بھی رمضان اور قرآن کے تعلق کو بہت اہتمام کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ ، نبی کریم ﷺ کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ جبریل ؑ رمضان کی ہر شب آپ ﷺ سے ملاقات کرتے تھے اور آپ ﷺ اُن ؑ کے ساتھ قرآن کریم کا دور فرمایا کرتے تھے۔ ‘‘(صحیح بخاری) رسول اللہﷺ ، صحابہ کرامj اور صلحائے امت کا یہ معمول ملتا ہے کہ ماہ رمضان کی آمد سے دو ماہ قبل ہی اس کی تیاری شروع کردیتے تھے۔ چنانچہ جب رجب کا مہینہ آتا تھا تو رسولﷺ ان الفاظ میں دعا فرماتے تھے:(اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَافِیْ رَجَبَ وشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ) (مسند احمد)’’اے اللہ ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینے میں برکت فرما اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچا‘‘۔ پس رمضان المبارک کی برکات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے ہمیں چاہیے کہ خود کو ذہناًوقلباًتیار کریں ۔ اس کام کے لیے بہترین ذریعہ وہ احادیثِ مبارکہ ہیں جو فضائلِ رمضان کے عنوان سے مجموعہ احادیث میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
ہر اہم کام کرنے سے قبل اُس کی بابت ضروری علم کا حصول بھی ضروری ہے۔ چنانچہ عبادات کے حوالے سے بھی ناگزیر اُمور کا علم حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ اُنہیں صحیح شکل اور روح کے ساتھ ادا کیا جاسکے۔ لہٰذا ماہ رمضان سے متصلاًقبل اور دوران، روزے کے مسائل کا علم حاصل ہونا بھی ضروری ہے تاکہ مفسدات و مکروہات سے بچا جا سکے اور آداب و شرائط کے ساتھ اس فریضہ کی ادائیگی ممکن ہو سکے ۔ اس ضمن میں علمائے کرام اور مدرسین قرآن سے حصول رہنمائی کے ساتھ ساتھ مستند کتب مثلاً آسان فقہ، بلوغ المرام، ریاض الصالحین اور معارف الحدیث وغیرہ کے متعلقہ ابواب کا مطالعہ بہت مفید رہے گا۔ ذہنی تیاری میں یہ بات بھی اہم ہے کہ رفقاء و احباب قبل از رمضان ہی اس مہینہ کے معمولات کا تعین کریں ۔ زیادہ سے زیادہ وقت عبادات و دینی مشاغل کے لیے فارغ کرنے کی کوشش کی جائے ۔لا یعنی اُمور سے مکمل اجتناب کا عزم ہو ۔ ماہ رمضان المبارک کی دو خصوصی عبادات میں دن کا روزہ اور رات کا قیام شامل ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ نے ان کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:’’روزہ اور قرآن دونوں بندے کے حق میں سفارش کریں گے ، روزہ عرض کرے گا :اے میرے رب !میں نے اس بندے کو دن میں کھانے پینے اور نفس کی خواہش پورا کرنے سے روکے رکھا ،اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما- اور قرآن کہے گا:اے میرے رب!میں نے اس کو رات کو سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا، پس اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما، چنانچہ دونوں کی سفارش قبول ہوجائے گی ‘‘۔
ماہ رمضان المبارک کے دوران ہمیں روزہ رکھنے کے ساتھ جن امور کا اہتمام کرنا ہے ان میں فہم و تلاوتِ قرآن کا اہتمام سرفہرست ہے۔ مزید برآں روزہ افطار کروانا، سحری کو معمول بنانا، آخری عشرے میں اعتکاف کرنا، لیلۃ القدر کی تلاش، اعمال صالحہ پر خصوصی توجہ اور مناجات کی کثرت شامل ہیں۔
سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ کے ہاں رمضان المبارک صرف انفرادی برکتیں اور حصول ثواب کے مواقع ہی نہیں لاتاتھا بلکہ میدان کا رزار میں حق و باطل کی کشاکش بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ اس ماہِ مبارک میں بھی جاری رہتی تھی۔ چنانچہ غزوۂ بدرجسے اللہ تعالیٰ نے یوم الفرقان (یعنی حق و باطل میں فرق کر دینے والا دن) قراردیا، رمضان المبارک 2ہجری میں پیش آیا،جس میں فتح ِعظیم نے جزیرہ نمائے عرب کی مرکزی بستی یعنی مکہ مکرمہ پر مسلمانوں کے قبضہ کی راہ ہموار کی۔ 8ھ میں مکہ فتح ہوااور اس طرح سر زمین عرب پر غلبہ ٔدین ِحق کی صورت میں اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے’’تھمتا نہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارا‘‘ کے انداز میں اُس وقت کی معلوم دنیا کے ایک بڑے حصہ پر اسلام کا پرچم لہرانے لگا، جس کے نتیجے میں انسانیت کو بڑے پیمانے پر کامل عدل و انصاف ‘ خوشحالی اور امن و امان نصیب ہوا۔اور پھر کم و بیش آٹھ صدیوں تک سلطنت اسلامیہ کو دنیا کی واحد سپریم پاور کی حیثیت حاصل رہی۔ آج بدقسمتی سے دنیا بھر میں ستاون اسلامی ممالک ہیں لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی حقیقی اسلامی فلاحی ریاست کا روپ نہ دھار سکی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج دنیا بھر میںموجود تمام 57اسلامی ممالک اور پونے دو ارب مسلمان ذلت اور نکبت کا شکار ہیں۔ تنظیم اسلامی کے رفقاء کو رمضان المبارک کے حوالے سے سیرت کے اس پہلو کو خصوصی طور پر پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ہمیں دن کے روزے اور رات کو قرآن کی برکھا برسنے سے جو روحانی قوت حاصل ہو اس میں ہم اپنے اس عزم کو تازہ کریں کہ ہمیں پاکستان میں اقامت دین کی جدوجہد کو تیز تر کرنا ہے۔ ہمیں اپنی مالی اورجسمانی توانائیاں جس قدر ممکن ہو سکے اس کام اور اس کے تقاضوں کی ادائیگی پر لگانا ہوں گی۔ ہمیں رمضان کی راتوں خصوصاً شب قدر میں انفرادی دعائوں کے ساتھ یہ دعا بھی کرنا ہو گی کہ اے اللہ مجھے اس دینی فریضہ کی ادائیگی کے لیے ہمت اور توفیق عطا فرما! اے اللہ میرے لیے ایسے اسباب اور آسانیاں پیدا فرما کہ میں اپنا تن من دھن وطن عزیز میں اسلام کے عادلانہ نظام کے قیام و نفاذ کے لیے کھپا دوں تاکہ دنیا بھر میں رحمۃٌ للعالمین ﷺ کے لائے ہوئے نظامِ خلافت کے قیام کی بنیاد مہیا ہو سکے۔
اجتماعی سطح پر اس فریضہ کی ادائیگی کے لیے تنظیم اسلامی نے منہاج نبوی ؐ کی روشنی میں اپنے لیے جوطریقۂ کار اور منہج اختیار کیا ہے اُس کی رو سے مراحل انقلاب میں سے دعوت، تربیت، تنظیم اور صبر محض کے مراحل اس وقت ہمیں درپیش ہیں۔ الحمدللہ کہ تنظیم کے تحت پاکستان کے بہت سے شہروں میں ماہ رمضان المبارک میں منعقد ہونے والی دورۂ ترجمۂ قرآن کی محافل ہمیں اس حوالے سے کام کرنے اور ان تنظیمی تقاضوں کی ادائیگی کا بہترین موقع فراہم کرتی ہیں۔ چنانچہ اپنے احباب واقرباء کو ان محافل میں شرکت کی دعوت دینا اور خود بھی ان محافل میں شرکت کر کے قرآن مجید کی آیات کے ذریعہ اپنا ذاتی تربیت وتزکیہ کرنا، ان محافل کے ضمن میں انتظامی امور میں بھاگ دوڑ کرنا، نظم و ضبط کی پابندی کرنا، مسلسل 30 دن تک صبر واستقامت کے ساتھ ان محافل کے انعقاد کو یقینی بنانا وغیرہ، یہ سب کام نہ صرف یہ کہ ہماری بنیادی دعوت کے فروغ کا بہت اہم اور مؤثر ذریعہ ہیں، بلکہ ’’جہاد بالقرآن‘‘ کا حصہ بھی ہیں۔
انفاق کے حوالے سے ہم جانتے ہیں کہ ایک ہوتا ہے فرض انفاق یعنی زکوٰۃ----- اور دوسرا ہے نفلی انفاق۔ اکثر افراد کا معمول ہے کہ ماہ رمضان المبارک میں اس فریضے کی ادائیگی کا اہتمام کرتے ہیں۔ نفلی انفاق کی مزید دواقسام ہیں: ایک یہ کہ اپنا مال اللہ کی مخلوق پر خرچ کیا جائے، جسے عرفِ عام میں صدقات و خیرات سے تعبیر کیا جاتا ہے اور دوسری قسم وہ ہے جسے قرآن جہاد بالمال اور انفاق فی سبیل اللہ قرار دیتا ہے یعنی اللہ کے دین کی اقامت اور سربلندی کی جدوجہدمیں اورقرآن حکیم کے ابدی پیغام یا دینی علوم وافکار کی نشرواشاعت کے لیے اپنا مال خرچ کرنا۔ اس دوسری قسم کو اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے ذمہ قرض سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کا اجر بھی بے حدوحساب ہے۔ حضرت ابن عباسi رسول اللہﷺ کی رمضان المبارک میں سخاوت کا حال یوں بیان کرتے ہیں: ’’رسول اللہ ﷺ تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور خصوصاً رمضان میں آپﷺ کی سخاوت اور بڑھ جاتی تھی ۔ جبریلd بالعموم رمضان کی ہر شب آپ ﷺ سے ملاقات کرتے تھے، پس جب رسول اللہﷺجبریل ؑ سے ملاقات کرتے تو آپﷺ کی سخاوت تیز ہوا سے بھی زیادہ بڑھ جاتی تھی۔‘‘
ربّ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں رمضان المبارک کی ساعتوں سے بھر پور طور پر بہرہ مند ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور جو کچھ سطور بالا میں عرض کیا گیا اس پر ہم سب کو خلوص واخلاص کے ساتھ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024