(منبرو محراب) والدین کے حقوق اور رمضان کا پیغام - ابو ابراہیم

9 /

والدین کے حقوق اور رمضان کا پیغام

 

مسجد جامع القرآن، قرآن اکیڈمی کراچی میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کے 08 مارچ 2024ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد
آج ان شاء اللہ ہم سورہ احقاف کی آیت 15کی روشنی میں والدین کے حقوق کا مطالعہ کریں گے ، آپ حضرات کے علم میں ہوگا کہ گزشتہ جمعہ کو میری والدہ کا جنازہ کراچی میں تھا ۔ اللہ کے رسولﷺ فرماتے تھے کہ میں تمہیں بھی اوراپنے آپ کو بھی اللہ عزوجل کا تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں ۔اسی پس منظر میں آج خواہش تھی کہ والدین کے حقوق کے متعلق بیان ہو ،جن کے والدین چلے گئے ہیں ان کے لیے کیا کرنا چاہیے ، اس پر بھی توجہ رہے اور جن کے حیات ہیںوہ ان کی قدر کریں اور خدمت کرنے کی کوشش کریں ۔ اسی کے ساتھ سورۃ البقرہ کی آیت 185 کی روشنی میں روزہ اور قرآن کا تعلق بھی بیانہو گا۔ ان شاء اللہ
والدین کے حقوق
سورۃ الاحقاف کی آیت 15میں فرمایا :
{وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ اِحْسٰنًاط} ’’اور ہم نے تاکید کی انسان کو اُس کے والدین کے بارے میں حسنِ سلوک کی۔‘‘
قرآن حکیم میں کم ازکم پانچ مرتبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کےفوراً بعد والدین کے حق کو بیان فرمایا ہے۔ ہاں جب محبت اور اطاعت کی بات آئے گی تو سب سے بڑھ کراللہ اور اس کے بعد اس کے رسول ﷺ سے محبت ہوگی اور ان کی اطاعت کی جائے گی ۔یہ اصولی بات ہے۔ البتہ جب حقوق کی بات آئے گی، خدمت اور حسن سلوک کی بات آئے گی تواللہ تعالیٰ کے بعد والدین کے حقوق ہیں ۔ البتہ بیوی کے لیے اللہ کے بعد شوہر کے حقوق ہیں ۔ احادیث میں آتا ہے کہ جس بیوی سے اس کا شوہر راضی ہو جائے اللہ اسے اختیار دے گاکہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے۔باقی سب کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے فوراً بعد والدین کے حق کو بیان فرمایا اور ان سے حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ اس تعلق سے climax سورہ بنی اسرائیل کی آیات 23 اور24 ہیں ۔ وہاں اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا:
’’اگر پہنچ جائیں تمہارے پاس بڑھاپے کو ان میں سے کوئی ایک یا دونوں‘تو انہیں اُف تک مت کہو اور نہ انہیں جھڑکو‘ اور ان سے بات کرو نرمی کے ساتھ۔اور جھکائے رکھو ان کے سامنے اپنے بازو عاجزی اور نیاز مندی سے‘اور دعا کرتے رہو : اے میرے رب ان دونوں پر رحم فرما جیسے کہ انہوں نے مجھے بچپن میں پالا۔‘‘
عربی زبان میں اُف تک نہ کہنے کے معنی ہیں کہ ناگواری کا ہلکا سا اظہار بھی والدین کے سامنے نہ ہو ۔ مفسرین نےلکھا کبھی ہم چھوٹے تھے تو والدین خصوصاً والدہ ہمارے گندے کپڑوں کو صاف کرتی تھی ، ہمارے جسم کی گندگی صاف کرتی تھی، وہ تو منہ پر ماسک نہیں چڑھاتی تھی اور نہ ہی ناگواری کا اظہار کرتی تھی ۔ اگر کبھی تمہیں ماں باپ کی اس کیفیت کو برداشت کرنا پڑ جائے تو چہرے پرناگواری کا کوئی اثر بھی نہ آئے۔ اُف بھی نہ کہنا ، نہ اُنہیں جھڑکنا بلکہ ان سے نرمی سے بات کرنا ۔ اپنے کندھوں کو عاجزی اور شفقت کے ساتھ ان کے سامنے جھکائے رکھنا ۔جیسے کہ غلام آقا کے سامنے کھڑا ہو۔یہ نہیں کہ باپ نے تو ماسٹرز کیا تھا میں پی ایچ ڈی ہوں، باپ نے تو بس بیس پچیس ہزار روپے ماہانہ کمایا، میں ڈھائی لاکھ ماہانہ کما رہا ہوں ۔ نہیں بلکہ ان کے سامنے عاجزی سے کندھے جھکائے رکھے ۔ یہ سارا کچھ کرنے کے بعداولاد والدین کا احسان چکا نہیں سکتی ۔ اس کے بعد بھی تقاضا یہ ہے کہ ان کے لیے دعا کرتے رہیں ۔ اے میرے رب! میرے ماں باپ پر رحم فرماجس طرح انہوںنے شفقت اور رحم کے ساتھ میری پرورش کی تھی ۔ ماں باپ حیات ہوں تب بھی اللہ کی رحمت کے محتاج ہیں اور دنیا سے چلے جائیں تو تب بھی اللہ کی رحمت کے محتاج ہیں۔ ان کے لیے دعا اور صدقہ جاریہ والے کام کرتے رہیں ۔ سورۃ الاحقاف میں آگے ارشاد فرمایا: {حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ کُرْہًا وَّوَضَعَتْہُ کُرْہًاط} (الاحقاف:15) ’’اُس کی ماں نے اُسے اٹھائے رکھا (پیٹ میں) تکلیف جھیل کر اور اُسے جنا تکلیف کے ساتھ۔‘‘
حالت حمل کی مشقت اٹھانا آسان نہیں ہےاور اس کے بعد بچے کو جنم دینے کی مشقت سے گزرنا بھی آسان نہیں ہے ، یہ سارا رول ماں ادا کرتی ہے ۔ بے شک باپ کا رُتبہ بڑا ہے ، لیکن اولاد کے لیے یہ تکلیف اُٹھانا ماں کا خاصا ہے ۔ آگے فرمایا:{وَحَمْلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰثُوْنَ شَہْرًاط} (الاحقاف:15)’’اور اُس کا یہ حمل اور دودھ چھڑانا ہے (لگ بھگ) تیس مہینے میں۔‘‘
ان تکالیف سے گزرنے کا باپ تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ یہ ماں کا ہی خاصہ ہے۔ اسی لیے ماں کا رُتبہ خاص ہے ۔ ایک صحابی نے اللہ کے رسول ﷺسے پوچھا : یا رسول اللہ ﷺ! میرے حسن کا سب سے بڑھ کر مستحق کون ہے، فرمایا: ’’تمہاری ماں‘‘ صحابی نے پوچھا : اس کے بعد ؟ فرمایا: ’’تمہاری ماں۔‘‘صحابی نے پھر پوچھا اس کے بعد کون ؟ آپ ﷺ نے تیسری مرتبہ بھی فرمایا : ’’تمہاری ماں۔‘‘ چوتھی مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’تمہارا باپ ۔ ‘‘
گھر کی سربراہی اگرچہ باپ کو دی گئی ہے ۔ گھر کا نظام چلانے کے لیے اتھارٹی باپ ہے کیونکہ کفالت کی ذمہ داری اس کے سر ہے ۔ مگر حسن سلوک کی بات آئے گی تو ماں تین درجے پہلے ہے ۔ پھر اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں کہ جنت تمہاری ماں کے قدموں کے پاس ہے۔اسی طرح اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیں: تمہارے ماں باپ تمہاری جنت بھی ہیں اور تمہاری جہنم بھی ہیں۔کیا مُراد ہے ؟ ان کی خدمت سے جنت مل سکتی ہے لیکن ان کی بے ادبی اور نافرمانی جہنم میں جانے کا سبب بھی بن سکتی ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺنے خود فرمایا:’’ہلاک ہو جائے وہ شخص کہ جس کے سامنے اس کے ایک یا دونوں ماں باپ بڑھاپے کو پہنچیں اور وہ خدمت کر کے جنت نہ کماسکے ۔‘‘
دوسری روایت میںہے کہ حضور ﷺ منبر کی سیڑھیوں پرقدم رکھ رہے ہیں اور ہر سیڑھی پر آمین کہتے ہیں ۔ صحابہ کرام ؓ نے پوچھا :حضورﷺ! یہ کیا ماجرا تھا ؟ فرمایا: جبرائیل ؑ آئے اور کہنے لگے جو شخص رمضان کا مہینہ پالے اور اس کی مغفرت نہ ہوتو اللہ تعالیٰ اسے رسوا کرے ، میں نے کہا : آمین ، پھر جبرائیل ؑنے کہا جو اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو پالے ، پھر ( ان کی نافرمانی کرکے جہنم میں داخل ہوا تو اللہ تعالیٰ اسے رسوا کرے ، میں نے کہا : آمین ۔ پھر جبرائیلؑ نے کہا اور وہ شخص جس کے پاس آپؐ کا نام لیا جائے پھر وہ آپؐ پر درود نہ بھیجے تو اللہ تعالیٰ اسے رسوا کرے ، میں نے کہا: آمین۔
اندازہ کیجئے فرشتوں کے سردار کی بددعا ہو اور آمین کہنے والے حضور ﷺ تو وہ بددعا قبول کیوں نہ ہوگی؟ اسی طرح ایک صاحب حضور ﷺکے پاس آئے اور عرض کی یا رسول اللہ ﷺ! مجھ سے بڑا گناہ ہو گیا ۔ فرمایا: تمہاری ماں ہے؟ کہا :نہیں ، فرمایا : تمہاری خالہ ہے؟ فرمایا:ہاں، فرمایا: جاؤ خالہ کی خدمت کرو۔ اس سے یہ رہنمائی اخذ ہوتی ہے کہ اگر ماں دنیا سے چلی جائے تو خالہ کی خدمت کرکے اللہ کی رضا حاصل کی جاسکتی ہے ۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ اگر باپ دنیا سے چلا جائے تو بڑے بھائی کی خدمت کرو ۔ اگر چچا ہے تواس کی خدمت کرو۔ پھر اس کے ذیل میں لکھا کہ باپ کے دوست ہوں گے ، ماں کی سہیلیاں ہوں گی، ان کی خدمت کرو ۔ والدین کے جانے کے بعد ان کا حق ادا کرنے کا ایک راستہ یہ بھی بتایا گیا ۔ پھر حدیث میں آتا ہے کہ کوئی اگر اپنے والدین کی طرف سے حج ادا کردے تو ان کا درجہ بلند ہوگا اور اس کو بھی خدمت کا اجر ملے گا ۔ احادیث میں آتا ہے کہ اگر ماں باپ نے کسی سے کوئی وعدہ کیا تھا تو پورا کر لو، کوئی قرض رہ گیا تھا تواس کو ادا کر دو ، یہ بھی خدمت ہے ۔ پھر اس کے ذیل میں لکھا ہےکہ اگر ماں باپ کسی بچے سے محبت کرتے تھے تو تم بھی اس سے محبت کرو ، وہ اگر کسی کی مددکرتے تھے تو تم بھی اس کی مدد کرو ، وہ کسی پودے کو پانی دیتے تھے تو تم بھی اس کو پانی دینا شروع کردو ۔ سب سے بڑی بات کیا ہے؟ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جب انسان کا انتقال ہو جاتا ہے تو اس کا نامہ اعمال بندکر دیا جاتا ہے۔ سوائے تین کاموں کے جن کا اجر اس کو ملتا ہے ۔ 1۔ صدقہ جاریہ ۔ یعنی ایسے امور سرانجام دینا جن کا اجر مستقل طور پر ملتا رہے ، جیسے مسجد ، مدرسہ بنا دینا ، درخت لگا دینا ، پانی کا کنواں بنوا دینا یا کفالت کا کوئی کام جس سے مخلوق کو فائدہ پہنچتا رہے ۔ 2۔ وہ علم جو دوسروں کو سکھایا اور دوسرے اس سے مسلسل فائدہ اٹھارہے ہیں ۔ 3۔ نیک اولاد جو ماں باپ کے لیے دعا کرے۔حدیث میں آتا ہے کہ اولاد والدین کے لیے مغفرت کی دعا کرتی ہے تو ان کا درجہ بلند کیا جاتاہے اور ان کو بتایا جاتاہے کہ اولاد نے ان کے لیے دعا کی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو والدین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جن کے والدین چلے گئے ہیں ان کے لیے صدقہ جاریہ اور درجات کی بلندی کا ذریعہ بنائے ۔ آمین یا رب العالمین!
رمضان المبارک کی اہمیت
اللہ تعالیٰ نے مجھے اور آپ کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ۔یہ بات بارہا ہم پڑھتے ہیں اور ہر نماز کی ہررکعت میں اقرار بھی کرتے ہیں:{اِیَّاکَ نَعْبُدُ}
’’(اے پروردگار) ہم تیرے ہی عبادت کرتےہیں۔‘‘
یہ عبادت چوبیس گھنٹے مطلوب ہے، صرف جمعہ کے دن یا پنج وقتہ نماز میں یا صرف رمضان میں مطلوب نہیں ہے ۔ البتہ ہم بھول جاتے ہیں یا کچھ رکاوٹیں آجاتی ہیں ۔ ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے اللہ نے بڑی بڑی عبادات ہمیں عطا فرمائیں جن کوmodes of worship کہتے ہیں۔مثلاً نماز کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ہر چند گھنٹوں بعد ہمیں اللہ کے حضور لا کر کھڑا کر دیتی ہے اور ہمیں یاد آتاہے کہ : { مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ(0)}
اللہ بدلے کے دن کا مالک بھی ہے ۔ اس دن کی سرخروئی کے لیے ہم پھر اللہ سے دعا مانگتے ہیں :
{اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ(0) }
اسی طرح زکوٰۃ ہے ۔ انسان کو مال سے بڑی محبت ہوتی ہے لیکن جب اللہ کی رضا کے لیے اس میں سے نکالے گا تو مال کی محبت کم ہوگی ۔ صرف زکوٰۃ ہی نہیں بلکہ اللہ کے نام پر تھوڑا بہت ہر بندہ خرچ کر سکتا ہے ۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا تو اللہ کی راہ اور آخرت سے لگاؤ بڑھے گا ۔ اسی طرح روزہ بھی عبادت ہے جو انسان کے اندر تقویٰ پیدا کرتاہے ۔ تقویٰ انسان کو گناہوں سے بچاتاہے اور اللہ کے قریب کرتا ہے ۔
تزکیۂ نفس
یہ جو نفس ساتھ لگا ہوا ہے یہ برائی کی طرف انسان کو اُکساتا ہے ۔ جیسے فرمایا:
{لَاَمَّارَۃٌ م بِالسُّوْٓ ئِ} (یوسف:53)
’’(انسان کا) نفس تو برائی ہی کا حکم دیتا ہے‘‘
روزہ انسان کو سکھاتا ہے کہ نفس کی بات نہیں ماننی بلکہ اللہ کی بات ماننی ہے ۔ آج دجالی فتنے عام ہیں انسان خدائی کا دعویٰ کرتے ہیں ، میرا جسم میری مرضی کے نعرے لگتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے خلاف اعلان بغاوت ہے ۔ روزہ انسان کو سکھاتاہے کہ تمہارے جسم پر تمہاری نہیں بلکہ اللہ کی مرضی چلے گی ۔ بھوک پیاس لگتی ہے ، نفس کھانا پینا چاہتا ہے مگر روزہ کہتا ہے نہیں ۔ جب تک اللہ کا حکم نہیں آجاتا تم کھاسکتے ہو نہ پی سکتے ہو ۔ روزہ نفس کو کنٹرول کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے ورنہ یہ نفس انسان کو بہت بڑی گمراہی میں ڈال سکتاہے ۔ جیسے قرآن کہتا ہے : {اَرَئَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہٗ ہَوٰىہُ ط} (الفرقان:43)’’کیا تم نے دیکھا اُس شخص کو جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے؟‘‘
روزے کے ذریعے اللہ اپنے نفس کو کنٹرول کرنے کی مشق کرواتاہے ۔ حج جامع العبادات ہے ۔ اس میں نمازکی طرح اللہ کا ذکر بھی ہے، زکوٰۃ کی طرح مال کا خرچ بھی ہے، روزے کی طرح مشقت بھی ہے۔
یہ بڑی عبادات اللہ کی بندگی کے راستے میں موجود رکاوٹوںکو دور کرتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انسان کو محض بھوکا پیاسا نہیں رکھنا چاہتا ۔ حدیث میں آیا کتنے روزے دار ایسے ہیں جن کو بھوک اور پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ حلال چھوڑ دیا حرام نہیں چھوڑتے، جھوٹ بھی چل رہا ہے، غیبت بھی چل رہی ہے ، ملاوٹ بھی چل رہی ہے ،پی ایس ایل کا ہلہ گلہ بھی چل رہا ہے ،نیٹ فلیکس پر فلمیں بھی چل رہی ہیں، سوشل میڈیا دھڑا دھڑ چل رہاہے ، روزہ رکھ کر یہ سب چل رہا ہے تو پھر روزہ نہ ہوا ، صرف بھوک پیاس کا نام روزہ نہیں ہے ۔
روح کی بیداری
اللہ تعالیٰ نے مجھے اور آپ کو جسم بھی دیا ہے، روح بھی دی ہے ، جسم تو مٹی میں چلا جائے گا ، اصل چیز روح ہے جو باقی رہتی ہے ۔ مگر آج اس قدر مادہ پرستی کا دور ہے کہ بس جسم پر ہی فوکس ہے ۔ روح کہیں اندر ہی اندر دب چکی ہے ۔ روزے کی ایک بہت بڑی فضیلت یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں ہم اپنی روح کو بیدار کر پاتے ہیں۔ بھوکےپیاسے رہتےہیں ، جسم کمزور پڑتا ہے تو روح کو انگڑائی لینے کا موقع ملتا ہے ۔ روح میں اللہ سے ملاقات کی، اللہ کی طرف رجوع کرنے کی تڑپ ہے ، طلب ہے ۔ روزہ فرض ہو یا نفل ، آدمی کی کیفیت تھوڑی بدلتی ہے ،ذکر کا دل چاہتاہے، نماز کا دل چاہتا ہے، خیر کی طرف دل بڑھتا ہے۔ سال بھر کا بے نمازی نماز کی طرف آ جاتا ہے۔ اسی لیے روزے کا ایک بہت بڑا حاصل یہ بتایا گیا ، حدیث قدسی میں اللہ فرماتا ہے :
((الصوم لی وانا اجزی بہ ))’’یہ روزہ میرے لیے ہے میں ہی اس کا بدلہ ہوں ۔‘‘
اللہ کہتا ہے کہ میں خود روزہ دار کو مل جاؤں گا ۔ مگر وہ روزہ جس میں انسان اپنے آپ کو گناہوں سے بچائے ، نافرمانیوں سے بچائے ، روح کو بیدار کرکے قرآن سے اُس کو جوڑے ۔ بہرحال روح کی بیداری روزے کا بہت بڑا حاصل ہے جس کے نتیجہ میں خدا بندے کو مل سکتا ہے ۔
مجاہدانہ تربیت
یہ جو رمضان کا مہینہ ہے یہ محض ایک مشقت نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ ایک مجاہدانہ تربیت سے گزار رہا ہے ۔ عرب جب اپنے گھوڑوں کو جنگ کے لیے تیار کرتے تھے تو انہیں بھوکا پیاسا رکھتے تھے ، تیز آندھیوں میں ان کا رُخ آندھی کی طرف کرکے کھڑا کر دیتے تھے تاکہ ان میں قوت برداشت بڑھے ،اس تربیت کو وہ صوم کہتے تھے ۔ قرآن مجید میں لفظ صیام آیا ہے :
{کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ }(البقرۃ:183)
’’ تم پر بھی روزہ رکھنا فرض کیا گیا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ ایک مہینہ مجھے اور آپ کو سخت مشقت سے گزار کر میدان میں اُتارنا چاہتا ہے، کیوں ہم عام انسان نہیں ہیں بلکہ محمدمصطفیٰﷺ کے امتی ہیں ۔ اللہ نے ساری انسانیت کے لیے کھڑا کیا۔اللہ تعالیٰ نے اس امت کو اُمت وسط بنایا ہے کہ تم انسانوں پر اللہ کے دین کی گواہی دو گے اور رسول اللہﷺ تم پر اللہ کے دین کی گواہی دیں گے۔ ہمیں انسانیت کے لیے کھڑاکیا گیا ہے۔ سورۃ البقرۃ کی آیت153 میں فرمایا:
{ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِط} ’’ صبر اور نماز سے مدد چاہو۔‘‘
اللہ کے دین کی گواہی پیش کرنے کے لیے مدد چاہیے وہ صبر اور نماز سے حاصل کرو۔البقرہ کی آیت 193 میں قتال کی فرضیت کا بیان ہے :
{وَقٰـتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَـکُوْنَ فِتْنَۃٌ }
’’اور لڑو ان سے یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے ۔‘‘
ایسے حالات جہاں اللہ کی کامل بندگی ممکن نہ ہو ، کفر کا نظام ہو ،شرک کا نظام ہو ان کے خلاف مسلمانوں نے جنگ کرنی ہے ۔ تھوڑا آگے جا کر اللہ فرماتا ہے:{وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلہِ ط} (البقرۃ:196)’’اور حج اور عمرہ مکمل کرو اللہ کے لیے۔‘‘
جب تک کفار خانہ کعبہ کے منتظم تھے تو مسلمانوں کے لیے حج اور عمرہ ادا کرنا ممکن نہ تھا اس لیے پھر کفار کے خلاف جنگ کرنا پڑی تب جاکر جج اور عمرے کی عبادت کی سعادت مسلمانوں کو حاصل ہوئی ۔ اسی طرح جہاں باطل کا نظام ہوگا اس کے خلاف کھڑا ہونا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے ۔ اس جنگ کے لیے صبر اور صلوٰۃ سے مدد حاصل کرنی ہے ۔ روزہ انسان کو صبر سکھاتا ہے ۔ آج اُمت کے ذمے ہے فلسطین کی آزادی ، کشمیر کی آزادی ، برما کے مسلمانوں کی مدد کرنا ، مسجد اقصیٰ کی حفاظت کرنا ۔ اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے تربیت چاہیےاور اس کا بہت بڑا ذریعہ روزہ ہے ۔ یہ رمضان ٹرانسمیشن کے نام پر سرمایہ داروں کے معاشی مفادات پورے کرنے کے لیے نہیں ہے ۔ یہ ناچ گانے اور کرکٹ کے لیے نہیں ہے ۔ یہ رنگے برنگے کھانوں کے لیے نہیں ہے۔ یہ رمضان دن کو روزہ رکھ کر رات کو موجیں اُڑانے کے لیے نہیں ہے ۔ یہ مجاہدانہ تربیت اور روح کی بیداری کے لیے ہے تاکہ تم اللہ کی راہ میں کھڑے ہو سکو ۔
رمضان اور قرآن
رمضان نزول قرآن کا مہینہ ہے۔اس وجہ سے بھی اس کی فضیلت زیادہ ہے ۔ اس میں عبادت کا ثواب بھی ستر گنا بڑھ جاتاہے ، نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر فرضوں کے برابر ہو جاتاہے ۔ اس ماہ میں عشرہ رحمت بھی ہے ، عشرہ مغفرت بھی ہے ، جہنم سے آزادی کا عشرہ بھی ہے ۔ جنت کے دروازے کھلےہیں اور جہنم کے دروازے بند ہیں ۔ یہ ساری فضیلت اس وجہ سے ہے : 
{شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ}(البقرۃ:185)
’’رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا‘‘
قرآن نظام زندگی کا مکمل دستور ہے ، سراپاہدایت ہے مگر آج ہم تراویح میں سن لیں گے ، ایک دفعہ تلاوت بھی کرلیں گے ۔ بے شک اس کا بھی ثواب ہے مگر یہ قرآن صرف ایک مرتبہ پڑھ کر ثواب حاصل کرنے کے لیے نہیں آیا ۔ یہ تو ہدایت کی کتاب ہے ۔ قدر والی رات میں نازل ہوئی اور تقدیروں کو بدل دینے والی کتاب ہے۔ یہ معاشرے میں انقلاب لانے والی کتاب ہے ۔ عربوں کی کایااس نے پلٹ دی تھی ۔ان کی سوچ ، فکر ، عقائد ، رسومات ، دن اور رات کے معمولات اور آپس کے معاملات تک بدل دیے تھے ، ان کا نظام معیشت ، نظام سیاست اور معاشرتی نظام سب کچھ بدل دیا تھا ۔ آج ہم رمضان میں پورا قرآن پڑھ اور سن لیتے ہیں لیکن نہ ہماری زندگیوں میں کوئی تبدیلی آتی ہے اور نہ معاشرے میں کوئی فرق پڑتا ہے ۔ کیوں؟ اس لیے کہ ہم قرآن کے پیغام کو سمجھنے اور اس سے ہدایت لینے کی کوشش ہی نہیں کرتے ۔ محض ثواب کی نیت سے پڑھ لیا اور چاند رات آتے ہی بند کرکے سال بھر کے لیے رکھ دیا اور پھر وہی معمولات زندگی شروع ہوجاتے ہیں جن میں سب کچھ ہوتا ہے سوائے قرآن کے احکامات پر عمل کے ۔ صحابہؓ قرآن کی زبان کو سمجھتے تھے ، وہ رمضان میں پوری رات قرآن کے ساتھ گزارتے تھے ، ان کا سب کچھ اس قرآن نے بدل دیا کیونکہ انہوں نے قرآن سے ہدایت حاصل کی تھی ۔ آج بھی یہ کلام تقدیروں کو بدل سکتا ہے بشرطیکہ ہم اس سے ہدایت حاصل کریں ۔ بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے 1984ء سے دورہ ترجمہ قرآن شروع کیا تھا ، اس کا مقصد یہی تھا کہ ہم قرآن کے پیغام کو سمجھ سکیں ، اس کے احکامات کو جان سکیں ۔
رمضان کے روزے
{ وَلَـعَلَّـکُمْ تَشْکُرُوْنَ (185)}(البقرۃ) ’’اور تاکہ تم شکر کر سکو۔‘‘
قرآن کریم کا شکرانہ ادا کرنے کے لیے اتنی مشقت والی عبادت تم پرلازم کی گئی۔ دن کو روزہ رکھو اور رات کو قرآن سنو ، سمجھو اور پڑھو ۔ دنیا کی ہر کتاب کو ہم نے سمجھ کر پڑھا ہے ۔بغیر سمجھے ہم دنیا کا کوئی ٹیکسٹ نہیں پڑھتے۔ اگرچہ قرآن بغیر مطلب سمجھے اور جانے بھی عبادت ہے اور مسلمان ثواب حاصل کرتا ہے لیکن سمجھ کر اور اُس کے مطلب جان کر پڑھنا سونےپر سہاگا ہے اور درحقیقت یہی مطلوب ہے لہٰذا اللہ پوچھے گا میرا قرآن ہی تمہیں بغیر سمجھ کر پڑھنے کے لیے ملا تھا ، کیوں اس کو تم نے سمجھا نہیں ، مانا نہیں اور عمل نہیں کیا ؟ یہ رمضان آج ہمیں موقع فراہم کر رہاہے کہ ہم قرآن کو سمجھ سکیں ، اس کے احکامات کے بارے جان سکیں اور ان پر عمل شروع کرسکیں ۔ تنظیم اسلامی کے تحت پاکستان بھر میں تقریباً 150 مقامات پر دورہ ترجمہ قرآن اور خلاصہ مضامین قرآن ہوتاہے ۔ تنظیم اسلامی کی طرف سے ایک ایپ بھی بنا دی گئی ہے جس کو ڈاؤنلوڈ کرکے آپ اپنے قریب ترین مقامات کے بارے میں  جان سکتے ہیں جہاں دورہ ترجمہ قرآن ہو گا اور گوگل میپ کے ذریعے اس مقام تک رسائی آپ کو ہو جائے گی ۔ اس کے علاوہ لائیو ٹیلی کاسٹ بھی آپ دیکھ سکتے ہیں ۔
آج اُمت اس قدر زوال اور پستی کا شکار ہے ۔ حضور نے اس کی وجہ بھی بتا دی تھی :
(( حب الدنیا وکراہیۃ الموت ))دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔ حضور ﷺنے فرمایا یہ جب ہوگا توقومیں تم پر چڑھ دوڑنے کے لیے ایک دوسرے کو ایسی دعوت دیں گے جیسے کھانے پر دعوت دی جاتی ہے ۔ آج فلسطین میں یہی ہورہا ہے ۔ جبکہ دوسری طرف پورا عالم اسلام کچھ نہیں کر پارہا ۔ وجہ وہی ہے کہ حب دنیا اور موت سے نفرت ۔ وہ جذبہ جو کفار سے مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے وہ ایمان سے آئے گا اور ایمان قرآن سے پیدا ہوگا ۔ فرمایا: 
{وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِیْمَانًا} (الانفال:2)’’جب انہیں اُس کی آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں توان کے ایمان میں اضافہ ہو جاتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن سے ہدایت حاصل کرنے اور اپنے اندر ایمان کو تازہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین