(زمانہ گواہ ہے) رمــضان المبارک کے دوران اسرائیلی ظلم وجارحیت - محمد رفیق چودھری

8 /

تنظیم اسلامی کی طرف سے خطوط لکھ کر حکمرانوں اور مسلم ممالک

کے سفارتخانوں کو احساس دلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ خدا کا

خوف کر و ، روزقیامت ایک فلسطینی بچے نے اُٹھ کر تمہارے خلاف

مقدمہ دائر کر دیا تو کیا جواب دو گے : رضاء الحق 

دینی حلقوں  کو چاہیے کہ PSLاور  اسرائیل نواز کمپنیوں کی

مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کریں ۔ ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ کیا

نماز ، روزہ یا کوئی دوسری عبادت کام آئے گی جب تک ہم برائی

کے خلاف آواز نہیں اُٹھائیں گے : ڈاکٹر حسن صدیق

رمضان المبارک کے دوران اسرائیلی ظلم وجارحیت کی تاریخ کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمد

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال: اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے حوالے سے جو مذاکرات ہونے تھے ان کی تازہ ترین صورتحال کیا ہے اور کیا آپ کورمضان میں جنگ بندی کا کوئی امکان نظر آتاہے ؟
ڈاکٹر حسن صدیق:یہ جنگ شروع ہوئے چھ ماہ سے زائد کا عرصہ ہو چلا ہے لیکن ابھی تک صرف ایک دفعہ جنگ بندی کا معاملہ ہوا ہے اور وہ بھی صرف چند دنوں کے لیے ۔ اس کے بعد سے اسرائیل کا ظلم و درندگی بدستور جاری ہے ۔ یکم رمضان المبارک کو انہوں نے رفاح پر بدترین حملے کر کے ستر کے قریب فلسطینیوں کو شہید کر دیا ۔ حالانکہ وہاں پر صرف وہ مہاجرین ہیںجنہوں نے غزہ سے نکل کر وہاں پناہ لی ہوئی ہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کی مکمل نسل کشی چاہتا ہے۔ حالانکہ امریکی صدر نے بھی کہا کہ رفاح پر حملہ ہماری ریڈ لائن ہوگی لیکن جواب میں اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارے لیے ریڈ لائن یہ ہے کہ دوبارہ سات اکتوبر جیسا واقعہ نہ ہو ۔ یعنی اسرائیلی قیادت کسی بھی صورت میں مذاکرات یا جنگ بندی کے لیے تیار نہیں ہے ۔ انہوں نے مسجد اقصیٰ میں داخلے پر بھی پابندی لگا دی ہے ۔مذاکرات کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ امریکہ چھ ہفتے کی جنگ بندی چاہتا ہے ۔ عالمی عدالت انصاف نے بھی جنگ بندی کا کہا ہے ۔ حماس کے رہنما نے بھی چین اور روس کے وفود سے ملاقات کی ہے ۔ دیکھنا یہ ہے چین اور روس اسرائیل پر کتنا اثر انداز ہو سکتے ہیں ۔ تاہم مستقبل قریب میں ہمیں جنگ بندی کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ۔
سوال:امریکہ ایک طرف چھ ہفتے کی جنگ بندی کی بات کرتا ہے اور دوسری طرف جب UNOمیں  جنگ بندی کی قرارداد آتی ہے تو اس کو ویٹو کر دیتا ہے ۔ امریکہ کی اس دو رُخی پالیسی کا مقصد کیا ہے ؟ 
ڈاکٹر حسن صدیق:امریکہ کی منافقت دنیا میں کھل کر سامنے آچکی ہے ۔ UNO کے 200 کے قریب ورکرز ، ڈاکٹرز ، انجینئرزکو بھی اسرائیل نے غزہ میں قتل کر دیا ہے اور حال ہی میں UNO کی انسٹالیشن پر بھی اسرائلیوں نے حملہ کیا ہے جس میں UNOکے پانچ ورکرز کو مار دیا گیا ۔ ایسی صورتحال میں جبکہ اسرائیل کھلی دہشت گردی پر اُترا ہوا ہے تو امریکہ رائے عامہ کو دیکھتے ہوئے کوئی بیان دے دیتا ہے یا کوئی امداد بھیج دیتا ہے ، صرف دنیا کو دکھانے کے لیے اور اپنے عوام کو مطمئن کرنے کے لیے ۔جو بائیڈن نے یہ بھی کہا کہ نتن یاہو جو کچھ کررہا ہے اس سے اسرائیل کو نقصان پہنچ رہا ہے ۔ لیکن پس پردہ وہ اسرائیلی دہشت گردی کو کھل کر سپورٹ کرتاہے ۔ مطلب امریکہ اگر جنگ بندی کی بات کرتا بھی ہے تو وہ فلسطینیوں  سے ہمدردی کی وجہ سے نہیں کرتا بلکہ وہ اس strategy کے مدنظر کرتا ہے جس سے اسرائیل کو فائدہ ہو ۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ کسی مسلمان ملک نے نہیں کہا رمضان میں جنگ بند کر دینی چاہیے ۔
سوال: گزشتہ کئی برسوں سےاسرائیل کا یہ ٹریک ریکارڈ ہے کہ وہ رمضان میں مسجد اقصیٰ پر حملہ کرتاہے اور نمازیوںکو شہید کرتاہے ۔ اب تو باقاعدہ جنگ جاری ہے ایسی صورت میں اسرائیل رمضان میں مسجد اقصیٰ پر کوئی شرمناک حملہ کرنے تو نہیں جارہا ؟ 
رضاء الحق:ناجائز ریاست اسرائیل قائم کر نے کے بعد صہیونیوں کا چار نکاتی ایجنڈا ہے ۔ 1۔ آرمیگاڈان یعنی ایک عالمی جنگ جس کا آغاز میرے خیال سے ہو چکا ہے۔ 2۔ گریٹر اسرائیل کا قیام جس میں دریائے نیل سے لے کر فرات تک کا علاقہ وہ شامل کرتے ہیں ۔ 3۔ مسجد اقصیٰ  کو شہید کرکے اس کی جگہ تھرڈ ٹمپل کو تعمیر کرنا ۔ یہ پورا ایریا ہے جس کو ٹمپل ماؤنٹ بھی کہتے ہیں ۔ اس میں مسجد عمر سمیت سات مساجد ہیں ۔ تھرڈ ٹمپل کی تعمیر کے لیے ان سب کو شہید کیا جائے گا ۔ 4۔ یہ سب کرنے کا مقصد ان کے نزدیک یہ ہے کہ اس کے بعد ان کا مسایاح (دجال )  آئے گااور پوری دنیا پر حکومت کرے گا ۔ مسجد اقصیٰ میں  جانے سے اسرائیل پہلے بھی مسلمانوں کو روکتا رہا ہے جب باقاعدہ جنگ نہیں تھی ۔خاص طور پر رمضان میں وہ حملہ اس لیے کرتا تھا تاکہ زیادہ لوگ مسجد اقصیٰ میں جمع نہ ہوجائیں  اور کوئی تحریک کی صورت اختیا رنہ کرلیں ۔ اس لیے اب بھی وہ پابندی لگا رہا ہے کہ صرف 60 سال سے زائد عمر کے افراد ہی مسجد اقصیٰ جا سکتے ہیں ۔ میرے خیال میں وہ مسلمانوں کی نسل کشی کرنے کے بعد خدانخواستہ مسجد اقصیٰ کو شہید کرے گا ۔یہ بات حتمی طور پر تو نہیں کہی جا سکتی کہ یہ اندوہناک سانحہ کب ہو گا، لیکن قرآن سے لگتا ہے کہ زیادہ دور نہیں۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ اُمت مسلمہ اس وقت بھی خاموش ہے جبکہ اسرائیل کا ایجنڈا کھل کر سامنے آچکا ہے ۔
سوال: نیتن یاہو نے حال ہی میں ایک انٹرویومیں کہا ہے کہ عرب حکمران ظاہری طور پر اسرائیلی بمباری کے خلاف ہیں لیکن پس پردہ وہ چاہتے ہیں کہ غزہ جلد از جلد خالی ہو جائے ؟ 
ڈاکٹر حسن صدیق:عرب حکمرانوں کی طرف سے 1967ء اور 1973ء کی جنگ میں کچھ نہ کچھ مزاحمت ہوئی تھی لیکن اس بار زبانی جمع خرچ کی حد تک بھی انہوں نے زحمت گوارہ نہیں کی بلکہ کھل کر اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں ۔ UAEاور کچھ دیگر عرب ممالک نے تو باقاعدہ طور پر اسرائیل کو تسلیم کیا ہوا ہے ۔ سعودی عرب بھی تسلیم کرنے کے دہانے پہ تھا اور پاکستان کے حوالے سے بھی باتیں ہو رہی تھیں ۔ عین اس وقت جنگ چھڑ گئی تو گویاان کے خواب چکنا چور ہوگئے ۔ویژن2030ء تھا جس کے مطابق وہ نیوم سٹی بنانا چاہتے ہیں اور جو دجالی تہذیب کا گڑھ ہے وہ وہاں لانا چاہتے ہیں۔ اس میں ان کو رکاوٹ حماس نظر آتی ہے ۔ نتین یاہو نے بالکل ٹھیک کہا کہ عرب حکمران غزہ کو خالی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس میں مسلمانوں  کے لیے بھی میسج ہے کہ ہمیں عرب حکمرانوں کے بھروسے پر نہیں رہنا چاہیے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ مسلم عوام کی جانب سے جو ردعمل آنا چاہیے تھا وہ بھی نہیں آیا ۔ مغربی ممالک میں غیر مسلموں نے جس قدر بڑے مظاہروں کا اہتمام کیا ہے اُمت مسلمہ سے اتنا بھی نہیں ہوسکا ۔مسلم ممالک میں کہیں کرکٹ پر فوکس ہے ، PSLہورہا ہے ، کہیں سیاست کے کھیل میں عوام کو الجھا رکھا ہے ، کہیں کسی اور چیز پر فوکس ہے ۔ مسلم حکمرانوں اور عوام کی اس خاموشی کو دیکھتے ہوئے اسرائیل کو مزید شہہ ملے گی اور اس کو یہی پیغام جائے گا کہ اب اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے ۔ جب تک مسلم عوام میں جذبہ ایمانی پیدا نہیں ہوگااور پاکستان ، ترکی ، مصر جیسے مسلم ممالک اسرائیل کو دھمکی نہیں دیںگے وہ کبھی باز نہیں آئے گا ۔ حماس کے رہنما نے کہا تھا کہ پاکستان اسرائیل کو دھمکی دے گا تو وہ جنگ سے باز آئے گا لیکن دھمکی دینا تو دور کی بات ہے فلسطین کا جھنڈا اُٹھانے پر بھی یہاں پابندی ہے ۔
سوال: مصر کے حالات یہ ہیں کہ وہ فلسطینیوں کو پناہ دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے جبکہ پاکستان کے حالات بھی آپ نے بیان کردیے ۔ البتہ ترکی کے صدر کے متعلق اسرائیلی وزیر خارجہ نے حال ہی میں کہاہے کہ طیب اردگان اس صدی کے سب سے بڑے anti-Semite ہیں۔ کیا اسرائیل کی مخالفت یہود دشمنی کے مترادف ہے؟
رضاء الحق: anti-Semite کا لفظ تو اسرائیل ہمیشہ ایک ہتھیار کے طور پہ استعمال کرتا ہے۔ لوگوں کی زبان بندی کے لیے ان کے پاس ایک ہولو کاسٹ کا کارڈ بھی ہے ۔ ترکی کے صدر نے کہا تھا اسرائیل غزہ میں اس وقت جو کچھ کررہا ہے وہ تاریخ کا سب سے بڑا ہولو کاسٹ ہے ۔ اس کے جواب میں اسرائیلی وزیر خارجہ نے یہ بیان دیا ہے ۔ اس وقت میڈیا یہود کے ہاتھ میں ہے ، حکومتیں ان کے ہاتھ میں ہیں ۔ فرانس کے اخبار La Liberation نے غزہ کے مسلمانوں کی حالت زار کو کارٹون کی صورت میںدکھایا ہے ۔ یعنی ان کے لیے تفریح کا مقام ہے ۔ آپ اندازہ کرلیں کہ ان کی سوچ کس حد تک گراوٹ کا شکار ہو چکی ہے ۔ اس سے زیادہ افسوسناک صورتحال اُمت مسلمہ کی ہے ۔ ہمیں جو ہدایت دی گئی ہے:{وَمَا لَــکُمْ لَا تُـقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئِ وَالْوِلْدَانِ}(النساء:75) ’’اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم قتال نہیں کرتے اللہ کی راہ میں‘اور ان بے بس مردوں‘ عورتوں اور بچوں کی خاطر جو مغلوب بنا دیے گئے ہیں۔‘‘
جہاں ایک طرف غزہ کے مسلمانوں کے لیے آزمائش ہے وہیں پر ساری اُمت مسلمہ کے لیے بھی یہ بڑی آزمائش ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط}(الملک:2)’’جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے۔‘‘
جو یہودی اور عیسائی ہیں ان کے بارے میں قرآن میں ارشاد ہوتا ہے :{وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَہُوْدُ وَلَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَــتَّبِعَ مِلَّـتَہُمْ ط}(البقرۃ:120) ’’اور(اے نبیﷺ! آپ کسی مغالطے میں نہ رہیے) ہرگز راضی نہ ہوں گے آپؐ سے یہودی اور نہ نصرانی جب تک کہ آپؐ پیروی نہ کریں ان کی ملت کی۔‘‘
مکمل پیروی کی ایک سطح تو وہ ہوگی کہ اپنا دین اور مذہب چھوڑ کر ان کے گمراہ عقائد اختیار کرلیے جائیں لیکن اس کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ ان کی تہذیب کو اپنا نا شروع کردیں  جیسا کہ بدقسمتی سے آج مسلمان ممالک مغربی تہذیب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ۔ خاص طور پر حکمران طبقہ تو مکمل ان کے رنگ میں رنگ چکا ہے اور اسرائیل سے دوستیاں ، تعلقات او ر تجارت سب کچھ چل رہا ہے ۔ ترکی ایک طرف غزہ پر اسرائیلی حملے کے خلاف بیان بھی دیتا ہے جبکہ دوسری طرف اسرائیل کے بمبار جہازوں کو فیول بھی مہیاکرتاہے ، سویڈن میں قرآن کی گستاخی کے خلاف آواز اٹھاتا ہےا ورپھر اسی سویڈن کو نیٹو میں شامل ہونے کی اجازت بھی دیتاہے ۔ یہ دہرا معیار ختم کرنا ہوگا کیونکہ دوسری طرف یہود ونصاریٰ تو کسی صورت مسلمانوں کے خیر خواہ نہیں ہیں ۔ امریکی صدر ٹرمپ کی ہی مثال لیجئے جس نے امریکی مفاد میں عراق اور افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء میں کردار ادا کیا لیکن اسی ٹرمپ نے اسرائیل کا دارالحکومت یروشلم میں منتقل کیا ۔ یہ اسلام دشمنی میں ایک ہیں ۔ سوچنے کی بات ہے کہ ہم مسلمان کیا کررہے ہیں ؟ 
سوال: اسرائیلی مظالم کے خلاف پانچ ماہ میں پوری دنیا میں بڑے مظاہرے ہوئے ہیں ، خاص طور پر مغربی ممالک کے عوام بہت بڑی تعداد سڑکوں پر نکلے ہیں  جبکہ دوسری طرف مغربی حکمران اسرائیل نوازی کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں ۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ مغربی عوام کا رویہ ان کے حکمرانوں کی پالیسیوں پر اثرانداز ہو سکے گا ؟ 
ڈاکٹر حسن صدیق:مغربی ممالک میں طاقت کے مختلف سینٹرز ہوتے ہیں جیسا کہ پارلیمنٹ ہوتی ہے ، فارن آفس ہوتا ہے اور فوج ہوتی ہے ۔ کسی ایک شخص کی پالیسی وہاں نہیں چل سکتی ۔ لیکن وہاں یہ تمام سنٹرز آف پاور ایک بات پر متفق ہیں کہ اسرائیل جو بھی کہے گا ہم نے وہ ماننا ہے ۔ لیکن جب اتنی بڑی تعداد میں عوام مظاہرے کر رہیں تو ان کو مطمئن کرنے کے لیے بھی یہ کچھ نہ کچھ بیانات دے دیتے ہیں لیکن اب یہ منافقت ان کی کھل کر سامنے آگئی ہے ۔ وہ جو اُن کے انسانی حقوق ، انصاف اور جمہوریت کے نعرے تھے ان کی حقیقت ان کے عوام پر کھل کر سامنے آگئی ہے ۔ اسرائیل کو بچاتے بچاتے ان کی اپنی کرسی خطرے میں پڑ گئی ہے ۔ تاہم ان مظاہروں کا کتنا اثر ہوگا یہ کہنا قبل از وقت ہے ۔ لگتا یہی ہے کہ فی الحال اسرائیل اپنے عزائم سے باز آنے والا نہیں ہے ۔
سوال:ایک طرف اسرائیلی مظالم کی انتہا ہو چکی ہے ، 31 ہزار مسلمان شہید ہو چکے ہیں ، لاکھوں زخمی ہیں ، اس وقت رمضان میں بھی وہاں خوراک اور ادویات کی شدید قلت ہے ۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں مسلم ممالک میں ویلنٹائن ڈے بھی منایا جاتاہے ، 8 مارچ کو عورت مارچ بھی ہوتاہے ، ہمارے ہاں PSLہورہا ہے جس کی سپانسرشپ KFCکر رہا ہے جو کہ اسرائیلی افواج کو کھلے عام سپورٹ کر رہا ہے اور ہماری حکومت نے رمضان کی مبارک ساعتوں میں لوگوں کو PSLدیکھنے میں لگایا ہوا ہے ۔ کیا ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ ہم مسلمانوں کا ضمیر مردہ ہو چکا ہے ؟
رضاء الحق: جس پستی میں اس وقت مسلمان گر چکے ہیں اس سے زیادہ گرنے کی شاید اب گنجائش نہ ہو ۔ غیر مسلم ممالک میں بڑے بڑے مظاہرے ہورہے ہیں ، واشنگٹن ، لند ن ، ایمسٹرڈیم ، ناروے ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، بلجیم ، یہاں تک کہ جرمنی میں بہت بڑا مظاہرہ ہوا جس میں لاکھوں لوگوں نے حصہ لیا حالانکہ جرمنی سرکاری سطح پر اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی ہے ۔ ایک چیز صاف نظر آرہی ہے کہ مغربی عوام ایک طرف ہیں جبکہ مغربی حکمران دوسری طرف ہیں ۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق ناروے میں 94 فیصد عوام اسرائیلی مظالم کے خلاف ہیں ۔جس کا ضمیر ذرا سا بھی زندہ ہے وہ اسرائیل کے خلاف آواز ضرور اٹھا رہا ہے ۔ امریکی ایئر فورس کے ایک اہلکار نے احتجاجی طور پر خود کو آگ لگا دی اور مر گیا ۔ یہ دو ارب مسلمانوں کے منہ پر طمانچہ تھا ۔ اسی طرح ایک امریکی قیدی نے جیل کی صفائی کرکے جو رقم حاصل کی وہ غزہ کے مسلمانوں کی امداد کے لیے بھیجی۔ دوسری طرف مسلمان ممالک کا یہ حال ہے کہ سعودی عرب کاسو بلین ڈالر کا منصوبہ ایک جگہ چل رہا ہے ، ایک ٹریلین ڈالر کاسٹی علیحدہ بنا رہے ہیں ، 2 بلین ڈالر فٹبال کے لیے اور2 بلین ڈالر ٹینس اور سنوکر کے لیے مختص کیے ہیں ۔لیکن جب غزہ کی بات ہو تو ولی عہد بتاتے ہیں کہ سعودی عوام نے کچھ سو کروڑ ریال غزہ کے لیے چندہ اکٹھا کر لیا ہے۔ کیا یہ ڈوب مرنے کا مقام نہیں۔ جبکہ اوآئی سی کے چارٹر میں موجود ہے کہ فلسطینی مسلمانوں کی عسکری اور مالی مدد کرنا ہر مسلمان ملک کا فرض  ہے لیکن کوئی بھی ان کی مدد نہیں کر رہا ہے ۔ پاکستان میں عوامی سطح پر بھی کوئی خاص احتجاج دکھائی نہیں دے رہا ۔ حالانکہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا تھا لیکن عوام کے اندر سے شاید وہ فکر ہی ختم ہو گئی ہے ۔ یہ سیاسی لیڈرشپ کا کام تھا کہ وہ مسلمانوں کو اس حوالے سے بیدار کرتے لیکن وہ خود سب سے زیادہ بے حس ہو چکے ہیں ۔ یہ انتہائی خوفناک صورتحال ہے ۔
سوال:یہ بات واقعی قابل تشویش ہے کہ پاکستان میں عوامی سطح پر اور نہ ہی حکومتی سطح پر فلسطینیوں کے حق میں اس طرح آوازاٹھائی گئی جس طرح اُٹھانی چاہیے تھی۔ جہاں تک تنظیم اسلامی کا تعلق ہے تو اس نے 7 اکتوبر کے بعد اہل غزہ کے حق میں ملک گیر مہم بھی چلائی ، اسی فورم سے متعدد پروگرامز بھی نشر ہوئے ۔ یعنی فلسطینیوں کے حق میں آواز اُٹھانے کے لیے اور لوگوں کو احساس دلانے کے لیے ہم ہرطرح سے کوشش کر رہے ہیں۔ فلسطین کا مسئلہ سب مسلمانوں کا مسئلہ ہے ،صرف دینی جماعتوں کا کام نہیں ہے۔ دینی جماعتیں بھی چند متحرک ہیں، باقی لوگ کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں اور یہ طرز عمل کیا ہمیں زیب دیتا ہے ؟
ڈاکٹر حسن صدیق: ہمارا دین اس حوالے سے بہت واضح ہے کہ جہاں بھی حق و باطل کا معاملہ ہوگا تو ہم نے حق کے لیے آواز اُٹھانی ہے ۔ یہاں تک کہ نماز ، روزہ یا کوئی بھی عبادت کام نہیں آئے گی جب تک کہ ہم برائی کے خلاف آواز نہ اُٹھائیں ۔ فلسطین کے معاملے میں بھی جس قدر کسی کے پاس طاقت اور اختیار ہے وہ اتنا ہی مکلف ہے اور اس سے روزقیامت سوال ہوگا ۔ اگر کوئی دوکاندار ہے وہ اسرائیلی منصوعات فروخت کر رہا تو اس کو بھی جواب دینا ہے ۔ فلسطینی تو امتحان میں سرخرو ہوکر جنتوں کے مہمان بن رہے ہیں اصل امتحان تو باقی اُمت کا ہے ، وہ کیا کررہی ہے ؟ پاکستان میں عوام اس وقت اپنی آمدن کا آدھا حصہ ٹیکس ادا کررہے ہیں ، ان کا حق بنتا ہے کہ حکومت پر پریشر ڈالیں کہ وہ اہل غزہ کے لیے کچھ کریں، کم ازکم امداد پہنچانے کے لیے ہی راستے کھلوادیں ۔ اگراتنا بھی نہیں کرسکتے تو پھر انڈیا اور پاکستان میں کیا فرق رہ گیا ؟  پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے ، یہ اسرائیل پر پریشر بھی ڈال سکتاہے ۔ ہمارے کئی مذہبی حلقے جن کی بہت بڑی followingہے ان کی طرف سے بھی کوئی خاص آواز نہیں اُٹھ رہی ۔ ان کو چاہیے کہ لوگوں کو اپیل کریں ، PSLکے بائیکاٹ کا اعلان کریں ، اسرائیلی کمپنیوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کریں ، اتنا تو وہ کر سکتے ہیں ۔
سوال: فلسطین کے مسلمانوں کی آزادی اور صہیونی ریاست کے حوالے سے تنظیم اسلامی کا پالیسی موقف کیا ہے؟
رضاء الحق: تنظیم اسلامی کا ان دونوں چیزوںکے حوالے سے موقف بالکل وہی ہے جو کہ ہمیں اسلام نے دیا ہے اور جو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے ہمیں دیا ہے۔ دینی طور پر فلسطینی ہمارے بھائی ہیں۔ تمام مسلمانوں کی مدد کرناہم پر فرض ہے ۔ فلسطین کے حوالے سے فتویٰ بھی موجود ہیں ۔ تاہم جیسا کہ قرآن میں ہے :
{لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَاط} (البقرۃ:286)’’اللہ تعالیٰ نہیںذمہ دار ٹھہرائے گا کسی جان کو مگر اس کی وسعت کے مطابق۔‘‘
جس کے پاس جتنی استطاعت ہے ، جتنا اختیار ہے وہ اتنا ہی مکلف ہے ۔ سب سے بڑی ذمہ داری پاکستان پر عائد ہوتی ہے ۔ یہ ایک نظریاتی ریاست ہے اور ایٹمی طاقت بھی ہے ۔ پھر یہ کہ بانی پاکستان نے روز اول سے ہی پاکستان کی اسرائیل کے حوالے سے پالیسی کا تعین کر دیا تھا ۔ انہوں نے اسرائیل کو مغرب کا ناجائز بچہ قرار دیا تھا اور ایک انٹرویو میں یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ ہم فلسطینیوں کی اخلاقی اور عسکری مدد کریں گے ۔ امت کے لحاظ سے بھی مسئلہ فلسطین ہمارے لیے اہم ہے ۔ مسجد اقصیٰ  کی تولیت مسلمانوں کے ذمہ ہے جسے خود عیسائیوں نے خلیفہ دوم حضرت عمرh کے حوالے کیا تھا ۔ کوئی بھی اس ذمہ داری کو مسلمانوں سے چھینتا ہے تو اس کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ مسلمان کسی صورت اس ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہو سکتے ۔ سابقہ اُمت مسلمہ کو مغضوب علیھم اسی لیے کہا گیا کہ ان پر جو ذمہ داری ڈالی گئی تھی وہ انہوں نے پوری نہیں کی اور ہمارے بارے میں یعنی اس امت مسلمہ کے بارے میں جو کہا گیا ہے: {وَجَاہِدُوْا فِی اللہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ط ہُوَ اجْتَبٰـىکُمْ} (الحج:78) ’’اور جہاد کرو اللہ کے لیے جیسا کہ اُس کے لیے جہاد کا حق ہے۔اُس نے تمہیں چُن لیا ہے۔‘‘
یعنی ہم پر جو ذمہ داری ڈالی گئی ہے اسے ہم نے ہر صورت میں پورا کرنے کی کوشش کرنی ہے ، جس کے پاس جتنی طاقت اور اختیار ہے اس کے حساب سے وہ اپنی سی کوشش ضرور کرے ۔ الدین نصیحۃ کے مصداق ہم خیرخواہی کے جذبے کے تحت حکمرانوں سے یہی کہیں گے کہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں ۔ تنظیم اسلامی کی طرف سے حکمرانوں کو خطوط بھی لکھے گئے تاکہ ان کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا جا سکے ۔ اسی طرح مسلم ممالک کے سفارتخانوں کو بھی خطوط لکھے ہیں اور انہیں احساس دلایا گیا ہے کہ خدا کا خوف کر و ، روزقیامت ایک فلسطینی بچے نے اُٹھ کر تمہارے خلاف مقدمہ دائر کر دیا تو کیا جواب دو گے ؟