(گوشۂ تربیت) اخلاقی شخصیت کی تشکیل - تنظیم اسلامی

8 /

اخلاقی شخصیت کی تشکیل

مرکزی شعبہ تعلیم و تربیت تنظیم اسلامی

 

خُلق اس پختہ انسانی کیفیت کو کہتے ہیں جس میں انسان اپنے ارادہ و اختیار سے اچھے یا برے اعمال بجالاتا ہے۔ اگر انسان اپنے رب کو پہچان لے اور معرفت ِرب اس کی فطرت صحیحہ بن جائے تو اس سے بلا تکلف اچھے اعمال سرزد ہوں گے۔ اور اسی کا نام حسنِ خلق ہے۔ بصورتِ دیگر برے اعمال کرے گا اور بد اخلاق کہلائے گا۔
دین کا اصل مقصود اللہ کی رضا کا حصول ہے۔جیسا کہ سورۃ الفتح آیت 29 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ ط وَالَّذِیْنَ مَعَہٓٗ اَشِدَّآئُ  عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ  تَرٰىہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّـبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًا ز} 
’’ محمد(ﷺ) اللہ کے رسول ہیں۔ اور جو ان کے ساتھ ہیں،وہ کافروں پر بہت بھاری اور آپس میں بہت رحم دل ہیںتم دیکھو گے انہیں رکوع کرتے ہوئے،سجدہ کرتے ہوئے ،وہ (ہر آن) اللہ کے فضل اور اس کی رضا کے متلاشی رہتے ہیں۔‘‘
اس مقصد کے حصول کا ذریعہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت ہے۔ یا با لفاظ دیگر ایمان اور عمل صالح ہے۔ جیسا کہ سورۃالذاریات آیت 56 میں وارد ہوا ہے:
{وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (56)}
’’ اور میں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر صرف اس لیے کہ وہ میری بندگی کریں۔‘‘
سورۃ طٰہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{وَمَنْ یَّاْتِہٖ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصّٰلِحٰتِ فَاُولٰٓئِکَ لَہُمُ الدَّرَجٰتُ الْعُلٰی(75)}
’’ اور جو کوئی آئے گا اس کے پاس مؤمن کی حیثیت سے (اور اس حالت میں کہ )اس نے نیک اعمال بھی کیے ہوں،تو یہ لوگ ہیں جن کے لیے اعلیٰ درجات ہوں گے۔‘‘
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رضا ئےالٰہی کا حصول، جنت میں اعلیٰ درجات اور تقرب الی اللہ کیسے حاصل کیا جائے؟
یہ کام اتنا آسان نہیں ہے۔ پہلی رکاوٹ تو خود انسان کا اپنا نفس ہے۔ انسانی نفس کسی قانون یا ضابطہ کی پابندی نہیں کرنا چاہتا۔وہ تو یہ چاہتا ہے کہ میری خواہشات بھرپور طریقے سے پوری کی جائیں خواہ جائز طریقہ سے پوری ہوں یا ناجائز طریقہ سے۔ پھر اس پر مستزاد شیطان اور اس کے حواریوں کا خواہشات اور شہوات کو ابھارنا۔ انہیں پورا کرنے کی ترغیب دینا جبکہ  دورِ حاضر میں تو شر کی قوتیں منظم ہوکر ہر سمت سے انسان پر اس طرح حملہ آور  ہو رہی ہیں کہ انسان کا بچنا بہت مشکل ہو گیا ہے اور   صراط مستقیم پر چلنے کے لیے بہت زیادہ تگ ودو درکار ہے۔ اندریں حالات ہمیں اپنے آپ کو ،اپنے اہل و عیال کو اور پوری امت مسلمہ کو شیطان اور اس کے حواریوں سے بچانے کی فکر کرنی ہے۔
شیطان اور شیطانی ترغیبات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنی خواہشات کو قابو میں رکھے اور اپنی روح کی غذا کا بھی سامان کرے تاکہ اس کی روح اتنی طاقتور ہو جائے کہ وہ انسانی نفس کو اس کی ناجائز خواہشات کی تکمیل سے روک سکے۔ اسی طرح ایک حسین اخلاقی شخصیت کی تشکیل ہو سکتی ہے۔ احادیث میں اعلیٰ اخلاق کی بہت ترغیب آئی ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ k سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((اِنَّ الْمُوْمِنُ لَیُدْرِکَ بِحُسْنِ خُلُقِہٖ دَرَجَۃُ قَائِمِ اللَّیْلِ وَصَائِم النَّھَارِ)) (رواہ ابوداؤد)
’’بے شک مومن اپنے اچھے اخلاق سے ان لوگوں کا درجہ حاصل کرلیتا ہے جو رات بھر نفلی نمازیں پڑھتے ہیں اور دن کو ہمیشہ روزہ رکھتے ہوں۔‘‘
مطلب یہ کہ اللہ کے جس بندہ کا حال یہ ہو کہ وہ عقیدہ اور عمل کے لحاظ سے سچا مومن ہو اور ساتھ ہی اس کو حسن ِ اخلاق کی دولت بھی نصیب ہو تو اگرچہ وہ رات کو زیادہ نفلیں نہ پڑھتاہو اور کثرت سے نفلی روزے نہ رکھتا ہو، لیکن پھر بھی اپنے حسنِ اخلاق سے ان شب بیداروں عبادت گزاروں کا درجہ پالے گا جو قائم اللیل اور صائم النہار ہوں یعنی جو راتیں نوافل میں گزارتےہوں اور دن کو عموماً روزہ رکھتے ہوں۔
حضرت جابرh نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں:
((اِنَّ مِنْ اَحَبَّکُمْ اِلَیَّ وَ اَقْرَبِکُمْ مِنِّی مَجْلِسًا یَّوْمَ الْقِیَامَۃِ اَحْسَنَکہُ اَخْلاَقاً))
’’تم میں سے مجھے زیادہ محبوب وہ ہیں اور قیامت کے دن ان ہی کی نشست بھی میرے زیادہ قریب ہو گی جن کے اخلاق تم میں زیادہ بہتر ہیں۔‘‘
گویا رسول اللہ ﷺ کی محبوبیت اور قیامت کے دن آپ کا قرب نصیب ہونے میں حسن اخلاق کی دولت کو خاص دخل حاصل ہے۔
      ابو درداء h روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ  نے فرمایا:
((ما من شَيءٍ أَثْقَلُ في ميزَانِ المُؤمِنِ يَومَ القِيامة من حُسْنِ الخُلُقِ))(ابودؤد و ترمذی)
’’قیامت کے دن مومن کی میزان عمل میں اچھے اخلاق سے زیادہ وزنی چیز کوئی نہ ہوگی۔‘‘
عَنْ اَبیِ ھُرِیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ :(( اَکمَلَ المُومِنِینَ اِیمَانَا اَحسَنُھُم خُلُقَاً))
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول  اللہﷺ نے فرمایا:
’’ایمان والوں میں زیادہ کامل ایمان والے وہ لوگ ہیں جو اخلاق میں زیادہ اچھے ہیں۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ ایمان اور اخلاق میں ایسی نسبت ہے کہ جس کا ایمان کامل ہوگا، اس کے اخلاق لازماً اچھے ہوں گے۔ اسی طرح جس کے اخلاق بہت اچھے ہوں گے۔ اس کا ایمان بھی کامل ہوگا۔ البتہ واضح رہے کہ ایمان کے بغیر اخلاق ہی نہیں بلکہ کسی عمل کا بھی کوئی اعتبار نہیں ہے۔ ہرعمل اور ہر نیکی کے لیے ایمان بمنزلہ روح کے ہے۔ اس لیے اگر کسی شخصیت میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان کے بغیر اخلاق نظر آئے تو وہ حقیقی اخلاق نہیں ہے۔ کہیں نہ کہیں کوئی خرابی ضرور ہے ۔ اس لیے اللہ کے ہاں اس کی کوئی قیمت نہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے ایمان کے بعد جن چیزوں پر بہت زیادہ زور دیا ہے اور انسان کی سعادت کو ان پر موقوف بتایا ہے، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آدمی بُرے اخلاق سے اپنی حفاظت کرے اور اخلاق حسنہ اختیار کرے۔ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے جن مقاصد کا قرآن مجید میں ذکر کیا گیا ہے،  ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ نے لوگوں کا تزکیہ کرنا ہے۔ (وَیُزَکِّیْھِمْ) ۔ اس تزکیہ میں اخلاق کی اصلاح اور درستگی کی خاص اہمیت ہے۔ آپ ﷺ کا فرمان گرامی ہے:
((بُعِثْتُ لِاُ تَمِّمَ حُسْنَ الْاَخْلَاقِ))’’میں اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ اخلاقی خوبیوں کو کمال تک پہنچادوں۔‘‘ (رواہ احمد عن ابی ہریرہh)
یعنی اصلاح اخلاق کا کام میری بعثت کے اہم  مقاصد میں سے ہے۔ ہونا بھی یہی چاہیے تھا کیونکہ انسان کی زندگی اور اس کے نتائج میں اخلاق کی بڑی اہمیت ہے۔ اگر انسا ن کے اخلاق اچھے ہوں تو اس کی اپنی زندگی بھی قلبی سکون اور خوشگواری کے ساتھ گزرے گی اور دوسروں کے لیے بھی اس کا وجود رحمت اور چین کا باعث ِسامان  ہوگا۔ اس کے برعکس اگر آدمی کے اخلاق بُرے ہوں    تو وہ خود بھی زندگی کے لطف ومسرت سے محروم رہے گا   اور جب سے اس کا واسطہ اور تعلق ہوگا، ان کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔ یہ تو خوش اخلاقی اور بداخلاقی کے وہ نقد دنیوی نتائج ہیں جن کا ہم سب روزمرہ مشاہدہ اور تجربہ کرتے رہتے ہیں، لیکن مرنے کے بعد والی ابدی زندگی میں ان دونوں کے نتیجے ان سےبدرجہا زیادہ اہم نکلنے والے ہیں آخرت میں خوش اخلاقی کا نتیجہ ارحم الراحمین کی رضا اور جنت  ہے جب کہ بد اخلاقی کا انجام خداوند قہّار کا غضب اور دوزخ کی آگ ہے۔ 
اَللّٰھُمَّ احْفَظْنَامِنۡھَا ۔ اَللّٰھُمَّ إنَّا نَسۡألُكَ الۡجَنَّةَ وَنَعِيۡمَهَا وَنَعُوۡذُ بِكَ مِنَ النَّار ِوَجَحِيۡمَهَا
خود کو اعلیٰ اخلاق سے آراستہ کرنے کے لیے ہمیں قرآن اور سنت کی روشنی میں اپنا جائزہ لینا ہوگا کہ ہمارے اندر کون کون سی بری عادتیں ہیں۔ برے اخلاق ہیں۔ ان سے کنارہ کشی اختیار کرنی ہوگی۔ اسی طرح یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ مجھے کون کون سی اچھی عادتیں اپنانے کی ضرورت ہے؟ تبھی ہم اللہ کی نظر میں ایک اچھے اور مطلوب مومن بن سکیں گے۔
جب ہم دیانتداری سے خود اپنا محاسبہ شروع کر دیں گے تو معلوم ہوگا کہ میرے اندر تو یہ ساری برائیاں موجود ہیں۔ ایک طرف تو یہ احساس بہت مفید ہے مگر بعض اوقات دوسری طرف یہی چیزیں انسان کو مایوسی کی طرف لے جاتی ہے۔ اور جھنجلاہٹ میں مبتلا کر دیتی ہیں کہ میں اتنی ساری برائیوں سے کیسے نجات پا سکتا  ہوں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم مایوس نہ ہوں۔ اس کے لیے پہلا کام تو یہ کریں کہ اپنی اصلاح کا عزم مصمّم کریں۔ یہ عزم کرنا بذات خود ایک نیکی ہے ۔ دوسرا ضروری کام یہ ہے کہ آج اور ابھی اسی وقت سے اس ارادہ پر کام بھی شروع کر دیں۔ آج کا کام کل پر نہ ٹالیں۔ ان برائیوں کو دور ہوتے ہوتے اور اندر سے نکلنے میں وقت لگے گا۔ بس ہمارا کام یہ ہے کہ ہم برائیوں کے خلاف مسلسل جدوجہد جاری رکھیں۔ شعوری طور پر یہ بھی جان لیں کہ نہ تو ہم فرشتہ بن سکتے ہیں اور نہ ہی ہم سے فرشتہ بننے کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔ ہم سے صرف یہ مطالبہ ہے کہ ہم اپنا تزکیہ کا عمل مسلسل جاری رکھیں۔ برائیوں پر نظر رکھیں۔ انہیں پہچانیں اور انہیں دور کرنے کی مسلسل کوشش کرتے رہیں۔ جس طرح اپنی برائیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح اپنے اندر اچھے اخلاق کو بھی پروان چڑھانے کے لیے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ تزکیہ کا عمل شروع کرنے کے لیے توانائی درکار ہے۔یہ توانائی ایمان میں اضافہ سے حاصل ہوتی ہے اور اللہ کی آیات پڑھ کر ایمان میں گرمی اور حلاوت پیدا ہوتی ہے۔
ترجمہ کے ساتھ سمجھ کر قرآن مجید کی تلاوت کرنے سے ہمارے اندر ایسی پوشیدہ توانائی پیدا ہوتی ہے جو ہمیں ہمارے دین پر چلنے، برائیوں کو چھوڑنےاور اچھے اخلاق اپنانے کے جذبہ کو پروان چڑھاتی ہے۔ اللہ کی آیات پڑھنے سے دل نرم ہوتا ہے اور دل کے اندر گداز پیدا ہوتا ہےاور انسانی نفس نیک کام کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ 
انسانیت کا اس بات پر اجماع ہے کہ اصلاح معاشرہ کے لیے وعظ وتذکیر، معاشرتی دباؤ اور اصلاحی تحریکات ایک حد تک تو مفید ثابت ہو سکتی ہے ہیں لیکن ان کے ذریعہ جرائم سے مکمل تطہیر عملاً ناممکن ہے۔ 
جرائم سے مکمل تطہیر صرف اسی معاشرہ میں ممکن ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ کا عطاکردہ نظام ِ عدل و قسط نافذ ہو۔  ہر شخص کے حقوق کا تحفظ  ہو رہا ہو۔ حکومت کفالتِ عامہ کی ذمہ دار ہو ہر انسان کی بنیادی ضروریات پوری ہورہی ہوں۔  حدود اور تعزیرات کا نظام قائم ہو۔ لہٰذا ایک صالح معاشرہ وجود میں لانے کے لیے ہمیں غلبۂ دین کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ 
اعلیٰ اخلاق اقدار اور پاکیزہ خصلتیں اس معاشرہ میں پروان چڑھتی ہیں جہاں انہیں قدر کی نگاہ سے  دیکھا جا تا ہو اور ایسے لوگوں کو عزت واحترام عطا کیا جاتا ہو، لیکن جب سے ہم ہر پابندی سے آزادسوشل میڈیا کے دور میں داخل ہوئے ہیں، ہماری اقدار و معیارات بدل گئے ہیں۔ دوسری طرف کاروباری ، تشہیری اور پروپیگنڈا کی صنعت نے تمام ترجیحات بدل کر رکھ دی ہیں۔ ہر چیز کو لذّتِ نظر، لذّتِ سماع ، ذہنی آوارگی اور شہوت رانی کے معیار پرپرکھا جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں چند پاکیزہ فطرت انسانوں کا وجود بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ لیکن اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایسا پاکیزہ معاشرہ قائم کرنے کی جدوجہد کریں جہاں نیکی پر چلنا آسان ہوجائے۔  ایسا معاشرہ نظام عدل و قسط کے نافذ ہونے ہی سے ممکن ہوگا۔ جہاں ہر شخص کی بنیادی ضروریات پوری ہو رہی ہوں ، جہاں کسی کا حق نہ مارا جارہا ہو اور  جہاں عدل وانصاف ہورہا ہو۔ تب اللہ تعالیٰ بھی آسمان اور زمین سے  ہمارے لیے خوشحالی کے تمام دروازے کھول دےگا۔ خوشحالی اور امن کا ایسا دور دورہ ہوگا جس سے انسانیت کو اب تک واسطہ ہی نہیں پڑا۔ 
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے قلوب کی  اصلاح اور تزکیہ فرمادے۔ہمیں دین کو قائم کرنے کی جدوجہد میں حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم دوسروں کے لیے بقول حضرت عیسیٰd پہاڑی کے ایسے چراغ بن جائیں جن سے لوگ راہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ ہمارے لیے بھی اور دوسرے لوگوں کے لیے بھی دین پر چلنا آسان ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایک خوبصورت اخلاقی شخصیت بننے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم اللہ کی نظر میں ایک ایسا مومن بن جائیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے محبت کرنے لگے۔ 
حسن اخلاق کے سلسلہ میں ہمیں رسول اللہ ﷺ کی درج ذیل مسنون دعائیں بھی ہمیں پڑھتے رہنی چاہیے۔ (( اللَّهُمَّ أَحْسَنْتَ خَلْقِي فَأَحْسِنْ خُلُقِي))(رواہ احمد عن عائشہ ؓ)
’’اےمیرے اللہ ! تونے اپنے کرم سے میری جسم کی ظاہری بناوٹ اچھی بنائی ہے، اسی طرح میرے اخلاق بھی اچھے کر دے۔ ‘‘
نبی اکرم ﷺ تہجد کی نماز میں اکثر یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔
((اللَّهُمَّ اهْدِنِي لاَحْسَنِ الاَخْلاقِ ، فَاِنَّهُ لا يَهْدِي لاَحْسَنِهَا اِلا اَنْتَ ، وَاصرفْ عَنِّي سَيِّئَهَا لَا يَصرفُ عَنِّي سَيِّئَهَا اِلَّا اَنْتَ)) (صحیح مسلم عن حضرت علی ؓ)   ’’اے میرے اللہ! تو مجھ کو بہتر سے بہتر اخلاق کی طرف رہنمائی کر، تیرے سوا کوئی بہتر اخلاق کی طرف رہنمائی نہیں کر سکتا، اور بُرے اخلاق کو میری طرف سے ہٹا دے، ان کو تیرے سوا کوئی ہٹا بھی نہیں سکتا۔‘‘
آمین یا رب العالمین!