(امیر سے ملاقات ) امیر سے ملاقات 25 - آصف حمید

8 /

اس وقت عموم کے اعتبار سے مسلمانان فلسطین کی مدد کے لیے

قتال فرض ہو چکا ہے، جس کے ہاتھ میں جتنی طاقت اور جتنا

اختیار ہے وہ اسی حساب سے مکلف ہوگا ۔

اگر یہ پاکستان واقعتاً اسلامی پاکستان بن جائے تو کشمیر

اور ہندوستان کے مسلمانوں کا حوصلہ بھی بڑھے گا ۔

ڈاکٹر اسراراحمدؒ تجویز فرمایا کرتے تھے کہ دجالی تہذیب کے

فکری غلبے کو توڑنے کے لیے جدید علم الکلام کو مرتب

کرنے کی ضرورت ہے۔

8مارچ کے پشتی بان ہمارا ایمان چھیننے کے لیے حیا سے ہمیں

محروم کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہم ان کے آلہ کار بن جائیں ۔

امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کے رفقائے تنظیم و احباب کے سوالوں کے جوابات

میز بان :آصف حمید

سوال:آ پ کی والدہ کا انتقال ہوا ہے اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین۔ان کے بارے میں کچھ فرمائیں؟
امیر تنظیم اسلامی:جزاک اللہ !آپ کی طرف سے اور دیگر تنظیم اسلامی کے رفقاء اورڈاکٹر اسرار احمدؒ سے محبت کرنے والے لوگوں کی طرف سے بھی محبت بھرے پیغام پہنچے ۔میں نے ان کا امکانی حد تک جواب بھی دیا اور اب بھی آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں  جنہوں نے بھی دعا کی ہے۔ والدین تو ایک بڑی نعمت ہوا کرتے ہیں۔ والدین اپنے آپ کو کھپاتے ہیں تب جاکر ایک بچہ جوان ہوتاہے ۔ آج ہم جہاں پہنچے ہیں اس میں سب سے بڑا کردار ماں باپ کا ہی ہوتاہے ۔ اُن کے چلے جانے کے بعد بھی ہمارا ان سے رشتہ ختم نہیں ہوتا ۔ ہمارا دین بڑا پیارا ہے ، اس حوالے سے ہمیں دعائیں سکھائی ہیں ۔ بس یہی التجا ہے کہ سب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے والدین کے لیے صدقہ جاریہ بنائے اور ہماری اولادوں کو ہمارے لیے صدقہ جاریہ بنائے ۔جزاک اللہ خیرا!
سوال:کیاوہ آپ کے اس کام سے خوش تھیںاور سمجھتی تھیں کہ میرا بیٹا بالکل صحیح کام کر رہا ہے؟
امیر تنظیم اسلامی: بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان دین کے کام کی طرف بڑھتا ہے تو والدین کی طرف سے رکاوٹ آجاتی ہے ، کچھ لمٹس کا تقاضا آجاتا ہے ، لیکن اللہ گواہ ہے کہ میرے والدین کی طرف سے حوصلہ افزائی ملی اور بہت ہی شفقت کا معاملہ رہا۔ میری فیلڈ چارٹڈ اکاؤٹنسی تھی اس کو چھوڑ کر میں دین کے کام کی طرف آیا ۔ حالانکہ گھر کی ذمہ داریاں بھی مجھ پرعائد تھی اور بڑے چیلنجز تھے لیکن اس کے باوجود میرے والدین نے خوشی اور اطمینان کا ہی اظہار کیا اورجب کبھی کہیں سے خبر آتی تھی کہ آپ کے بیٹے کا درس قرآن سنا ہے تو ان کو بڑی خوشی ہوتی تھی اوراطمینان حاصل ہوتا تھا کہ اللہ نے ہمارے بیٹے کو دین کے لیے قبول فرمایا ۔ یہ اللہ کا فضل ہی ہے ۔ پھر امیر تنظیم اسلامی کی ذمہ داری اُٹھائے کم و بیش ساڑھے تین سال ہوا چاہتے ہیں ، اس ذمہ داری کی بدولت تقریباً چار مہینے تو گھر سے باہر سفر کا معاملہ رہتا ہے ، اس کے علاوہ بھی جب کراچی میں ہوتا ہوں تو تنظیم اور دینی مصروفیات بہت زیادہ ہوتی ہیں ، لیکن اس کے باوجود میری کوشش ہوتی تھی ہر دن یا دوسرے دن والدہ صاحبہ کے پاس حاضری دوں ۔ ان کی طرف سے کبھی کوئی تقاضا نہیں رہا کہ انہوں نے دنیوی مال و دولت کی خواہش کی ہوبلکہ جو اللہ نے مناسب حال والد محترم کو عطا فرمایااور پھر آگے ہمیں جو توفیق دی اس پر قناعت اور اطمینان کا معاملہ رہا۔یہی ہمارے لیے خوشی کا مقام ہے کہ والدین اس اطمینان کے ساتھ دنیا سے گئے ۔ باقی دل کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں شب جمعہ عطا فرمائی اور جمعہ کی صبح ان کا جناز ہوا ۔ اس وقت رحمت کی بارش بھی برسی ہے ۔ اہل علم فرماتے ہیں کہ یہ قبولیت کی علامت ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ایسے ہی معاملہ ان کے ساتھ فرمائے۔ امین۔
سوال: فلسطین کی موجودہ صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک عام مسلمان کا فرض کیا ہے ۔ کیا جہاد ہر مسلمان پر فرض ہو چکا ہے۔ اگر ہاں تو آپ اپنے پلیٹ فارم سے فتویٰ جاری کیوں نہیں کرتے۔ جب دنیا خاموش ہے اور مسلم ممالک بھی کچھ نہیں کر رہے تو تنظیم اسلامی مسلم رہنماؤں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو متحد کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتی ؟(محمد ابراہیم )
امیر تنظیم اسلامی: اللہ تعالیٰ ہمارے ان بھائی کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔ ان کے علم میں ہوگا کہ تنظیم اسلامی نے ضرور کوشش کی ہے جتنی بھی اللہ نے توفیق عطا فرمائی ہے خواہ وہ خطابات جمعہ میں کلام ہو، خواہ مظاہروں اور کارنر میٹنگز کی صورت میں ہو ، چاہے سوشل میڈیا یا الیکٹرانک میڈیا پر آواز اٹھانے کی صورت میں ہو یا اخبارات میں اشتہارات دے کر توجہ دلانے کی صورت میں ہو ۔ اس کے علاوہ مقتدر طبقات تک بات پہنچانے کے لیے بھی ہم نے ہر ذریعہ استعمال کیا ہے ۔ ان کو پرسنلی خطوط بھی لکھے ہیں ۔ چند پہلو ئوں کو سمجھنا چاہیے۔ہمارے بھائی نے کہا کہ کیا جہاد بمعنی قتال فرض ہو چکا ہے ؟یہ بات ہم نے پہلے بھی بیان کی اور دیگر اہل علم اور علماء و مفیان نے بھی واضح کیا کہ اس وقت عموم کے اعتبار سے مسلمانان فلسطین کی مدد کے لیے قتال کرنا فرض ہو چکا ہے۔ سب سے زیادہ یہ فرضیت فلسطین کے پڑوسی مسلم ممالک پر ہے اس کے بعد پھر اگلوں کی بحث آتی ہے ۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ جس کے ہاتھ میں طاقت ہے، جس کے ہاتھ میں اختیار ہے وہ زیادہ مکلف ہوگا۔ کیا عوام کے پاس یہ طاقت ہے کہ وہ وہاں جا سکیں اور جنگ میں حصہ لے سکیں ؟ قطعاً نہیں !اس اعتبار سے ہم دعا بھی کریں گے، آواز بھی بلند کریں گے اور جس قدر ہو سکا ان کے ساتھ مالی تعاون بھی کریں گے ۔ مسلم حکمرانوں کو بھی بیدار کرنے کے لیے ہم بھرپور کوشش کریں گے ۔ یہ سب ہمارے بس میں ہے اور ہم یہ کریں گے ان شاء اللہ ۔ آج کے اخبار کی اطلاعات کے مطابق کچھ ممالک نے پیراشوٹس کے ذریعے امدادی سامان غزہ پر گرایا ہے جس سے بعض مسلمانوں کی شہادتیں بھی ہوئی ہیں ۔ یہ مسلم ممالک جو بارڈر کے قریب جاکر سامان گرا رہے ہیں وہ اسرائیل سے براہ راست بات نہیں کر سکتے کہ وہ انہیں امدادی سامان پہنچانے دے ؟ چھوڑ دیجیے کافروں کو، 2 ارب مسلمان، 57 مسلم ممالک، تیل کی دولت ان کے پاس موجود ہے، ایٹمی صلاحیت ہمارے پاس موجود ہے، کیا یہ ایک آواز بلند کرکے پریشر ڈالنے کی کوشش بھی نہیں کر سکتے ؟ ہم سمجھتے ہیں کہ تمام دینی اجتماعیتوں کو مل کر حکمرانوں پر پریشر ڈالنا چاہیے کہ وہ خاموشی توڑیں اور غزہ کے مسلمانوں کی کچھ نہ کچھ مدد کریں ۔ یہ ہمارے بس میں ہے۔
سوال: پچھلے کچھ سالوں سے رمضان المبارک میں اسرائیل ظلم و ستم مزید بڑھا دیتا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟
امیر تنظیم اسلامی:آخری عشرے میں مسجد اقصیٰ میں مسلمان نمازیوں پر شیلنگ اور فائرنگ ہوتی رہی ہے اور اس سال تو رمضان سے پہلے اعلان کیا گیا کہ مسجد اقصیٰ کو بالکل بند کیا جائے گا ۔ یعنی اسرائیل ظلم کی انتہا پرپہنچ گیا ہے ۔ جبکہ دوسری طرف اُمت مسلمہ کی بے بسی اور بے حسی بھی انتہا کو پہنچ چکی ہے ۔ میں نے جمعہ کے خطبات میں بھی یہ بات اُٹھائی ہے تمام مقتدر حلقوں کو متوجہ کرنے کے لیے کہ آپ لوگوں نے بھی مرنے کے بعد اللہ کو جواب دینا ہے ۔ بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ مستقبل کامنظر نامہ بیان کرتے ہوئے آرمیگاڈان کا ذکر کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ مسلمانوں بالخصوص عربوں پر بڑی تباہی آنی ہے ۔ مستقبل کا یہ منظر نامہ بھی ہمارے سامنے رہے ۔ احادیث رسول میں ہے کہ جب عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہو گا اور اس سے قبل امام مہدی تشریف لائیں گے تو خراسان سے لشکر ان کی مدد کے لیے جائیں گے۔ اگر یہاں نظام خلافت کے قیام کی طرف قدم بڑھیں گے تو کل کوئی فوجیں یہاں سے جا سکیں گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ یہاں اقامت دین کی جدوجہد کو بڑھایا جائے ۔
سوال:جس طرح تنظیم اسلامی کے زیر اہتمام مساجد میں خطاب جمعہ میں سیاست (حالات حاضرہ) پر بات ہوتی ہے اور قرآن و سنت پر عمل کرنا بتایا جاتا ہے بالکل اسی طرح دوسری مساجد میں جمعہ کے خطابات کیوں نہیں ہوتے ؟ تنظیم اسلامی تمام مکاتب فکر کے خطباء و ذمہ داران سے بات کر کے ان کو بھی اس طرف لےکر آئے ۔ ( عبدالرافع )
امیر تنظیم اسلامی:سیاست عربی زبان کا لفظ ہے ۔اس کا مطلب ہے انتظام کرنا ۔ جو کچھ ہماری ملکی سیاست میں ہوتا ہے اس سے تو ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں مگر ملک کا انتظام چلے ، اللہ کی زمین پر اللہ کا حکم نافذ ہو ، یہ ملک اسلام کے نام پر ہم نے حاصل کیا یہاں شریعت اسلامی کا نفاذ ہونا چاہیے ، اس کے لیے ہم آواز بلند کرتے رہیں گے اور خود ہمارے ذمہ ہے کہ ہم عملی طور پر اپنی زندگیوں پر اسلام کو نافذ کریں ، پھر دوسروں کو اس کی دعوت دیں اور اس کے ساتھ بندگی والے نظام کو قائم کرنے کی جدوجہد کریں ۔ ان ذمہ داریوں کا تذکرہ ہم ضرور کرتے ہیں۔ دیگر دینی اجتماعیتوں سے بھی آواز بلند ہوتی ہے مگر اس کام کو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ جہاں تک سوال کے دوسرے حصے کا تعلق ہے تو ہم مختلف دینی اجتماعیتوں ، علماء ، اور دیگر شخصیات سے رابطے کرتے ہیں ، ان کو گزارشات بھی بھیجتے ہیں اور جب ہم منکرات کے خلاف کوئی مہم چلاتے ہیں تو اس حوالے سے بھی دیگر دینی جماعتوں ، علماء اورخطباء کو رائٹ اپ بھیجتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ممبرز آف پارلیمنٹ ، ججز ، وکلاء میڈیا پرسنز، صحافیوں تک بھی اپنی گزارشات پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کیونکہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضہ کو ادا کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے ۔ ہم سب کویاددہانی کرواتے ہیں ۔
سوال: جب ہمارا کوئی خط یا رائٹ اپ علماء یا خطباء کو جاتا ہے تو ان کی طرف سے کیا فیڈ بیک رہتا ہے ، کیونکہ اراکین اسمبلی وغیرہ کی طرف سے ہمیں کوئی نتیجہ نظر نہیں آیا؟
امیر تنظیم اسلامی:نیشنل اسمبلی کے ساتھ ساتھ ہمارے پاس سینٹ بھی ہے۔ اکا دکا حضرات کی طرف سےمانا بھی جاتاہے اور دو تین مرتبہ بعض حضرات کی طرف سے تعریف کی بات بھی آئی ۔ اگرچہ وہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں۔ جہاں تک مساجد کے آئمہ کا تعلق ہے تو اللہ کا بہت احسان ہے کہ اس میں بہتری آئی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے سابق امیر تنظیم محترم حافظ عاکف سعید صاحب نے اپنے دور امارت میںاس حوالے سے بڑی محنت کی ہے ۔ انہوں نے کوشش کی ہے کہ دیگر مکاتب فکر کے علماء سے ہمارا تعلق بڑھے ۔ اب اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے رفقائے تنظیم مختلف علاقوں میں مساجد کے آئمہ سے، علماء سے رابطہ بھی رکھتے ہیں، ان تک نہ صرف مواد پہنچاتے ہیں بلکہ جب میرا بطور امیر تنظیم مختلف علاقوں میں جانا ہوتا ہے تو ان علماء سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی رہتا ہے۔ اس کے بہت اچھے نتائج ہیں ۔ خطباء تنظیم اسلامی کے رفقاء سے تعاون کرتے ہیں اور تنظیم کے لٹریچر کی تقسیم میں معاونت کرتے ہیں اور اکثر اپنی مساجد سے اعلان بھی کر دیتے ہیں کہ تنظیم اسلامی اس مسئلہ پر کام کر رہی ہے ۔ کراچی کے ایک بڑے ادارے کے تحت 500 مساجد ہیں ۔ اس ادارے نے تنظیم کی دعوت پر اپنی تمام مساجد میں خطبات جمعہ میں انسداد سود کے مسئلے پر آواز اٹھائی ۔ اسی طرح کئی دوسری اجتماعیتوں کی طرف سے تنظیم کی دعوت پر کسی مسئلہ پر آواز اٹھائی جاتی ہے ۔ اسی طرح کبھی ہم بھی اُن کے کہنے پر کسی مسئلہ پر آواز اُٹھاتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں یہ اچھی بات ہے ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
{وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی ص وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ص}(المائدۃ:2) ’’اور تم نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کرو ‘اور گناہ اور ظلم و زیادتی کے کاموں میں تعاون مت کرو۔‘‘
بعض مرتبہ ہم ملکی ایشوز پر یا امہ کے ایشوز پر سیمینارز کرتے ہیں تو اس سیمینارز میں ہم دیگر اجتماعیتوں کے ذمہ داران کو بھی مدعوکرتے ہیں ، علماء اور سکالرز کو بلاتے ہیں ۔ اللہ کا شکر ہے کہ یہ سلسلہ بڑھ رہا ہے الحمدللہ۔
سوال:ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی ویڈیوز میں سنا ہے کہ انبیاء کے بعد صدیقین اور ان کے بعد شہداء اور ان کے بعد صالحین کا مرتبہ ہے۔ صدیقین سے مراد کون لوگ ہیں جن کا رُتبہ شہداء سے بھی بڑا ہے ۔ ہم لوگ ایسا کون سا کام کریں جس سے ہم صدیقین میں شامل ہو جائیں؟ ( ایم ڈی زکریا ، انڈیا)
امیر تنظیم اسلامی: سورۃ الفاتحہ میںانعمت علیہم( انعام یافتہ) لوگ کون ہیں؟اس کا جواب سورۃ النساء کی آیت 69 میں دیا گیا ہے جہاں انعام یافتہ لوگوں کا ذکر ہے ۔ اسی تناظر میں ڈاکٹر صاحب ؒ یہ بات کرتے تھے ۔ اس آیت میں چار گروہوں کا ذکر آیا: انبیاء، صدیقین ،شہداء اور صالحین۔اس حوالے سے ڈاکٹر صاحب ؒیہ نکتہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ صالحین تو تمام نیک لوگ ہیں ،البتہ نیک لوگوں میںسے جو حق کی تلاش میں زیادہ غوروفکر کرتے ہیں تو وہ گویا صدیق مزاج کے لوگ ہوتے ہیں ۔ اسی طرح نیک لوگوں میں سے بعض وہ ہوتے ہیں جن میں آگے بڑھ کرحرکت اور جدوجہد کرنے کا جذبہ زیادہ ہوتاہے وہ شہداء کے مزاج کے لوگ ہوتے ہیں ۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ جو صدیق مزاج کے لوگ ہوں گے ان میں حرکت کا مادہ بالکل نہیں ہوگا یا شہداء کے مزاج کے لوگوں میں صدیقیت کا مادہ نہیں ہوگا ، ہرگز نہیں بلکہ مزاج میں کوئی شے نمایاں ہو جاتی ہے ۔ صحابہ کرامؓ میں رحمت کے عنصر میں صدیق اکبرؓ بہت آگے ہیں اور دین کی حمیت و غیرت اور جلال کے اعتبار سے سید ناعمرؓ بہت آگے ہیں۔ اسی طرح حیا کے اعتبار سے سیدنا عثمانؓ بہت آگے ہیں۔ معاملہ فہمی اور فیصلے کی صلاحیت کے اعتبار سے سیدنا علی ؓبہت آگے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو معاملہ فہمی میں آگے ہیں وہ حیامیں خدانخواستہ کم ہوں گے۔ بہرحال بنیاد نیک ہونا ہے اور نیک ہونا ایمان کی شرط کے ساتھ ہے ۔ نیک ہونے کے بعد کوئی صدیق مزاج کی طرف جائے گا، کوئی شہداء کے مزاج کی طرف جائے گا ۔ یہ سب اللہ کی عطا سے ہوتا ہے ۔ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگنا چاہیے اور توفیق مانگ کر آگے سے آگے بڑھنا چاہیے ۔
سوال: کیا افغانستان میں صحیح اسلامی حکومت قائم ہو گئی ہے اور اگر ہو گئی ہے تو کیا ہم پر یہ فرض ہے کہ جہاں اسلامی نظام قائم ہو گیا ہو وہاں ہجرت کریں یعنی ہمیں افغانستان ہجرت کر جانا چاہیے ؟( سفی اللہ صاحب ، انڈیا)
امیر تنظیم اسلامی:یہ سوال اُس وقت بھی اُٹھا تھا جب پہلی مرتبہ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تھی ۔ پاکستان سے بعض لوگوں نے پوچھا کہ کیا ہم بھی افغانستان میںہجرت کر جائیں ۔ ملاعمرؒ نے اس کا جواب یہ دیا تھا کہ ابھی آپ پاکستان میں ہی رہیںکیونکہ ابھی ہم ہنگامی اور جنگی حالات سے نہیں نکلے ، اس کے بعد شریعت کی نفاذ کے مراحل آئیں گے ۔ تب تک آپ اپنے مقام پر رہیں ، وہیں پر دعوت و تبلیغ اور کلمہ کی سربلندی کے لیے کام کریں ۔ افغان طالبان کی حکومت کو دوبارہ قائم ہونے کے بعد بھی ابھی ان کے لیے بڑے چیلنجز ہیں ۔ لہٰذا ہمارا مشورہ اب بھی یہی ہے کہ ہم جہاں ہیں فی الوقت وہاں دین پر عمل کریں اور اس کے قیام کے لیے جدوجہد کریں ۔ ہمارے بھائی کا تعلق انڈیا سے ہے۔ 75 برس ہوگئے ہم پاکستان میں اسلام کو نافذ نہیں کر سکے ۔ ہمیں افغان طالبان سے اثر لینا چاہیے تھا اور اللہ پر توکل کرتے ہوئے پوری دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑا ہو کر اس مملکت خداداد میں شریعت کو نافذ کرنے کی جدوجہد کرنی چاہیے تھی ۔ اللہ فرماتا ہے : 
{اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ یَنْصُرْکُمْ } (محمد:7)
’’اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا ۔‘‘
اگر یہ پاکستان واقعتاً اسلامی پاکستان بنے گا تو کشمیر کے مسلمانوں کا حوصلہ بھی بڑھے گا ، ہندوستان کے مسلمانوں کا حوصلہ بھی بڑھے گا ۔
سوال: اگر کوئی مسلمان امریکہ یا یورپ میں کام کر رہا ہے اور حکومت اس کے ٹیکس کی رقم کو ان جنگوں کے لیے استعمال کرتی ہے جن میں ہزاروں مسلمان مارے جاتے ہیں ، تو وہ شخص کہاں کھڑا ہے؟ کیا وہ بھی اللہ کے سامنےمسلمانوں کا قاتل شمار ہوگا ؟ 
امیر تنظیم اسلامی:سچی بات یہ کہ اگر میں مسلم ملک میں بھی بیٹھا ہوں اور میرے ملک میں سودی نظام چل رہا ہے اور اس سودی نظام کے تحت بینک میں میںنے کرنٹ اکاؤنٹ بھی کھول رکھا ہے جس پہ میں سود نہیں لیتا تب بھی میں پارٹ آف سسٹم ہوں، مجھ سے گناہ سرزد ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ فرماتے تھے کہ ایسی صورت میں مجھے اس نظام سے کم سے کم فائدہ اٹھانا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ اپنے وسائل ، صلاحیتوں اور اوقات کو دین کے نفاذ کی جدوجہد میں لگانا چاہیے تاکہ نظام کا حصہ بن کر جس گناہ کے آپ مرتکب ہورہے ہیں اس کا کفارہ ادا ہو سکے ۔ یہی رہنمائی غیر مسلم ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے بھی ہے ۔
سوال:استعماری طاقتوں نے مختلف طریقوں سے امت مسلمہ میں گمراہ کن نظریات پھیلا دیے ہیں جس کی وجہ سے مسلمانوں کی وحدت فکر ختم ہو گئی اور ہم نظریاتی ٹولیوں میں بٹ گئے ہیں ۔یہ سارا خلفشار عقائد و نظریات کا ہے اس بھنور سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے؟
سوال نمبر 2:ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری نوجوان نسل کی اکثریت اسلام کے اصول و عقائد کو فرسودہ سمجھتی ہے اور ذہنی اور عملی طور پر اسے اپنانے کو تیار نہیں تو کیا نئے ذہنوں کو متاثر کرنے کے لیے اسلام کی جدید تعبیر ضروری ہے؟(راحیل گوہر صدیقی،کراچی )
امیر تنظیم اسلامی: بہت اہم فکری نوعیت کا سوال ہے اور اس کا عمل سے بھی بڑا گہرا تعلق ہے۔اس حوالے سے بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹراسرار احمدؒ کی بڑی پیاری تحریر ’’اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور کرنے کا اصل کام‘‘ کے عنوان سے ہے ۔ اس میں ڈاکٹر صاحبؒ نے واضح کیا ہے کہ غلبہ اسلام کی جدوجہد کے لیے ایک فکری سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور ایک عملی میدان میں جدوجہد کرنی کی ضرورت ہے۔ اس وقت ایک عالمی دجالی تہذیب پوری دنیا پر غالب ہےجس کی بنیاد مادہ پرستی ، عقل پرستی اور ظاہر پرستی پر ہے۔ جہاں خدا، روح اور آخرت بالکل نظر انداز کر دیے گئے۔ ہاں کائنات نظر آرہی ہے، جسم نظر آرہا ہے، دنیا نظر آرہی ہے اس پر تو خوب محنت ہے مگر خدا ، روح اور آخرت کی کوئی فکر نہیں۔ ڈاکٹر صاحبؒ تجویز کرتے ہیں اس دجالی تہذیب کے فکری سطح پر غلبے کو توڑنے کے لیے ایک جدید علم الکلام کو مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ جبکہ عملی میدان میں ایک انقلابی جماعت کے ساتھ جڑنے کی ضرورت ہے جو منہج انقلاب نبوی کی روشنی میں غلبہ دین کی جدوجہد میں مصروف ہو ۔ ڈاکٹر صاحب کی کتاب ’’جہاد بالقرآن کے پانچ محاذ ‘‘کا مطالعہ اس ضمن میں مفیدثابت ہوگا ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک جہالت قدیمہ ہے اور ایک جہالت جدیدہ ہے ۔ اسی طرح فرسودہ رسوم و رواج ہیں، ان سب محاذوں پر قرآن کے ذریعے جہاد کرنا ہے ۔ڈاکٹر صاحبؒ کی ایک اور تحریر جو بہت مختصر مگر بہت ہی جامع ہے’’قران اور جہاد‘‘ کے عنوان سے ہے ۔ تقدیروں کو بدل دینے والی کتاب قرآن مجید ہے، جس نے عربوں کو دنیا کا امام اور حکمران بنا دیا ۔ تمام دجالی فتنوں کا مقابلہ بھی اسی قرآن سے کیا جائے گا ۔ دجالی تہذیب کے اثرات کی وجہ سے آج ہمارا نوجوان سوچتا ہے کہ مولوی بے کار کی باتیں کرتا ہے ۔ قرآن کی روشنی میں جدید علم الکلام کے ذریعے ان کے ذہنوں کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔ قرآن میں وہ تاثر ہے کہ جو ایک عام انسان سے لے کر دانشوروں اور بادشاہ گروں کے ذہنوں  کو بدل سکتا ہے ، جو دیہاتی ، شہری ، ہر انسان کے ذہن کو اپیل کرتاہے جب آپ خلوص کے ساتھ قرآن کی دعوت ان کے سامنے پیش کریں گے اور آپ کا کردار اس کی گواہی پیش کر رہا ہوگا تو سامنے والوں پر اثر کرے گا اور ان کی زندگیاں بدلیں گی ۔ الحمدللہ انجمن خدام القران، قرآن اکیڈمیز اور تنظیم اسلامی کے تحت دورہ ترجمہ قرآن اور خلاصہ ٔمضامین قرآن کے عنوان سے مسلسل یہ کوشش پاکستان بھر میں ہو رہی ہے۔ ہر طبقے کے افرادچاہے وہ بزرگ ہوں ، نوجوان ہوں ، خواتین ہوں سب کے لیے موقع ہے کہ وہ قرآن سے جڑنے کی کوشش کریں ۔
سوال:باطل نظریات خود بخود نہیں پھیل رہے ہیں بلکہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذرائع سے پوری طاقت اور منصوبہ بندی کے تحت پھیلائے جا رہے ہیں۔ جیسا کہ 8مارچ کو عورت مارچ کا انعقاد ہوتاہے ۔اس حوالے سے ہم نوجوان نسل کو کیا رہنمائی دے سکتے ہیں کہ وہ ان فتنوں سے بچیں ؟ 
امیر تنظیم اسلامی:ایک طرف توشیطانی پارٹی سارا کفر اور باطل لیے سارے وسائل اور ذرائع کے ساتھ ہمارا ایمان اور ہم سے ہماری حیاچھیننے کے لیےٹوٹ پڑی ہے ۔ دوسری طرف ہمارے پاس قرآن ہے جو ان تمام فتنوںکا مقابلہ کر سکتا ہے ۔ اس قران کی تعلیم کو اپنے گھروں، اپنی گلیوں،تعلیمی اداروں ،مساجد اور ہر جگہ عام کرنا ہے ۔ ارشاد ہوتاہے : ’’اور (اے نبیﷺ!) آپ تلاوت کیجیے جو آپ کی طرف وحی کی گئی ہے آپ کے رب کی کتاب میں سے۔اُس کی باتوں کو بدلنے والا کوئی نہیں ہے ‘اور آپ نہیں پائیں گے اُس کے سوا کوئی جائے پناہ۔‘‘(الکہف:27)
پناہ دینے والی ذات تو اللہ کی ہے مگر اللہ نے اپنی رسی عطا کی جس کو تھامنے کا ہم سے تقاضا ہے ۔دوسری اہم بات یہ کہ نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ ڈاکٹر صاحبؒ مثال دیا کرتے تھےکہ ایک میدان میں لوگ جمع ہیں اور ایک پہاڑ سے کافر فوج ان پرگولے پھینک رہی ہے ، لوگ مررہے ہیں اور زخمی ہورہے ہیں ۔ باقی لوگ مردوں کو دفناتے ہیں اور زخمیوں کو ہسپتال پہنچاتے ہیں ۔ دوبارہ پھر اوپر سے بمباری ہوتی ہے اور لوگ مرتے اور زخمی ہوتے ہیں انہیں دفنایا یا ہسپتال پہنچایا جاتا ۔ یہ سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ پھر ایک اللہ کا بندہ انہیں بتاتا ہے کہ کب تک ظلم سہتے رہو گے ، یہاں مرنے سے بہتر ہے دوچار لوگ پہاڑ پر جاکر بمباری کرنے والوں کو ہی مارڈالوتاکہ فتنہ ہی ختم ہو جائے ۔ اسی طرح باطل نظام حق کو پھلنے پھولنے نہیں دے رہا ۔ بہتر ہے کہ اس نظام کو ہی بدل ڈالو ۔ جہاں تک عورت مارچ کاتعلق ہے ۔ عورت کے معنی عربی زبان میں پوشیدہ چیز کے ہیں لیکن دجالی تہذیب ان کو نمایاں ہو کر برائی کی دعوت دینے پر اُکساتی ہے ۔ اسی عورت مارچ میں نکاح سے انکار کی باتیں بھی ہوتی ہیں ۔ حالانکہ نکاح  عورت کو تحفظ دیتاہے ۔ اسلام نے عورت کو جو حقوق دیے ہیں وہ کسی اور نظام نے نہیں دیے ۔جبکہ دجالی تہذیب عورت کو کھلواڑ بنا کر پیش کرنا چاہتی ہے اور اسے سڑک پرلا کر ذلیل کرنا چاہتی ہے ۔ اسلام عورت کو بہن ، بیٹی ، بیوی ، ماں ، خالہ ، پھوپھی وغیرہ جیسے رشتوں میں پرو کر اس کو عزت و تکریم دیتاہے جبکہ دجالی تہذیب چاہتی ہے کہ عورت دن میں آفس میں جاب کرے ، مردوں کی ہوس بھری نگاہوں کا مقابلہ بھی کرے ، ہر چند ریپ کے کیسز بھی ہوں ، حیا کا جنازہ بھی نکلے ۔ کیا این جی اوز وہ گندی تہذیب ہم پر مسلط کرنا چاہتی ہیں ؟ ان کو پتہ ہے کہ اگر مسلمانوں میں ایمان باقی رہا تو یہ باطل کے مقابلے میں کھڑے ہوجائیں گے ۔ اس لیے وہ بے حیائی پھیلانا چاہتے ہیں تاکہ ایمان ختم ہو جائے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’حیا اور ایمان ہمیشہ ساتھ ساتھ رہتے ہیں، اگران میں سے کوئی ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا خود بخود اٹھ جاتا ہے۔‘‘(مشکوٰۃ)
دوسری حدیث میں اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا :
’’جب تم حیا چھوڑ دو تو جو دل چاہے کرو!‘‘(بخاری)
دنیا کے ان عالمی دہشت گردوں کو، ان ظالموں اور جابروں کو جو لوگوں کا خون نچوڑ کر اپنی تجوریاں بھرتے اور اپنی حکومتیں چلاتے ہیں ان کو اگر کوئی خوف ہے تو اسلام کے عادلانہ نظام سے ہے۔ چنانچہ ہم سے ہمارا ایمان چھیننے کے لیے حیا سے ہمیں محروم کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہم ان کے آلہ کار بن جائیں ۔
سوال:تنظیم اسلامی کا ایک طرہ امتیاز رہا ہے کہ اللہ کے فضل و کرم سے اس نے رمضان میں دورہ ترجمان قرآن اور خلاصۂ مضامین قرآن کے ذریعے لوگوں کو قرآن سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔بانی تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹر اسراراحمدؒ نےجو یہ شمع جلائی تھی آج کہاں کھڑی ہے اور اس رمضان میں یہ شمع کتنی روشنی پھیلائے گی؟
امیر تنظیم اسلامی: الحمدللہ !1984 ءمیں ڈاکٹر اسرار احمدؒنے لاہور سےیہ سلسلہ شروع کیاتھا اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ رمضان تو ہے ہی قرآن کا مہینہ ۔ جیساکہ قرآن میں بھی اللہ فرماتاہے :
{شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ} ’’رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔‘‘
آیت کے آخر میں فرمایا:
{ وَلَـعَلَّـکُمْ تَشْکُرُوْنَ (185)}(البقرۃ) ’’اور تاکہ تم شکر کر سکو۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے یہ سمجھایا کہ رمضان کے سارے فضائل قرآن مجید کے ذریعے ہیں لہٰذا شکر بجا لانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم رمضان قرآن کے ساتھ گزاریں ۔ لوگ تراویح میں قرآن سنتے تھے اور گھروں کو چلے جاتے تھے ، ان کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ ہم تراویح میں کیا سن کر آئے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ اس کا ثواب تو مل جاتاہے مگر قرآن محض ثواب حاصل کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا ، یہ پوری زندگی کا لائحہ عمل ہے اس کو جب تک ہم سمجھیں گے نہیں تو عمل کیا کریں گے ؟ لہٰذا ڈاکٹر صاحبؒ نے نماز تراویح کے دوران ہر چار رکعت کے بعد ان میں تلاوت کیے گئے قرآن کے ترجمہ اور تفسیر کا دورہ شروع کیا۔گویا جو قرآن ہم تراویح میں سنتے ہیں اس کا ترجمہ اور تشریح بھی ہمیں سننے کا موقع مل رہا ہے ۔ پورے رمضان میں تقریباً 150 گھنٹے اس میں صرف ہوتے ہیں ۔ اس کے بہت اچھے نتائج سامنے آئے ۔ ہم نے اس کے ذریعے لوگوں کی زندگیاں بدلتی ہوئی دیکھی ہیں۔ اب بعض دوسری جماعتوں  نے بھی یہ سلسلہ شروع کر دیا ہے ، کچھ کا بیس پچیس منٹ بیان ہوتاہے اور کچھ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بیان کر لیتے ہیں ۔ تنظیم اسلامی ، انجمن خدام القرآن اور قرآن اکیڈمیز کے تحت اس وقت تقریباً 100 مقامات پر دورہ ترجمہ قرآن ہو رہاہے اور تقریباً 50 مقامات پر خلاصہ مضامین قرآن ہو رہا ہے ۔ اللہ کا احسان ہے کہ ہزاروں افراداس سے مستفید ہورہے ہیں ۔ مزید یہ ہے کہ تنظیم کے رفقاء نے ایک ایپ بھی تیار کرلی ہے جس کو سمارٹ فون میں آپ ڈاؤنلوڈ کرکے قریب ترین مقام پردورہ ترجمہ قرآن میں شریک ہو سکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ لائیو ٹیلی کاسٹ بھی ہورہی ہے اس کو لوگ آن لائن سن سکتے ہیں ۔ رمضان میں حضور ﷺ اور صحابہ کرامؓ کا معمول تھا کہ وہ رمضان کی راتیں قرآن کے ساتھ گزارتے تھے ۔ ہمارے لیے بھی ضروری ہے کہ ہم رمضان میں قرآن سے جڑنے ، اس کو سیکھنے ، سمجھنے کی کوشش کریں تاکہ ہماری زندگیوں میں بھی تبدیلیاں آئیں ، ہمارے معاشرے میں تبدیلی آئے ۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین!