اداریہ
ایوب بیگ مرزاہماری جعل سازیاںدجل، فریب، جعل سازی، جھوٹ اور قول و فعل کا تضاد آج اُس دنیا کا اہم ترین ہتھیار ہے جو خود کو مہذب دنیا کہتی ہے۔ البتہ وہ یہ سب کچھ اپنے ملک اور قومی مفاد کو بنیاد بنا کر دوسروں اور غیروں کے ساتھ کرتے ہیں۔ اپنے ملک اور قوم کے لیے یہ سب کچھ اُنہوں نے قانونی لحاظ سے حرامِ مطلق کے مترادف قرار دیا ہوا ہے اور وہاں شاذ کے درجہ میں ایسے واقعات ملکی اور قومی سطح پر ہوتے ہیں۔ لیکن پاکستان کی مصیبت یہ ہے کہ ہم دوسروں اور غیروں سے تو شاید کچھ بلکہ کافی بہتر چلتے ہیں لیکن ملکی اور قومی سطح پر عوام، ادارے، حکومت یہاں تک سیاسی اور مذہبی جماعتیں اوصاف ہائے بالا سے بخوبی متصف ہیں۔ ہیر پھیر اور جعل سازی تو ہماری رگ رگ میں رچ بس گئی ہے۔ (الا ماشا اللہ) ہم سب ہر طرف ہاتھ مارتے ہیں، یہاں تک کہ قومی تہواروں کو بھی نہیں بخشا۔ یہ جو 23 مارچ ہم یومِ پاکستان کے طور پر جوش و خروش سے مناتے ہیں اُس کی دلخراش اور تکلیف دہ حقیقت بھی سن لیجئے۔
پہلا سوال یہ ہے کہ 23 مارچ اگر یوم پاکستان ہے تو14 اگست کیا ہے؟اگر ہم 23 مارچ کو یوم پاکستان اس لیے قرار دیتے ہیں کہ1940ء میں اس دن منٹو پارک لاہور میں ایک قرار داد منظور ہوئی تھی جو پاکستان کی آزادی کی بنیاد ثابت ہوئی، تو ہم بات کو اس حد تک تسلیم کر لیتے ہیں۔ یقیناً یہ قرار داد تحریک آزادی کی بنیاد بنی۔ اگرچہ یہ قرار دادِ لاہورکے عنوان سے پیش کی گئی تھی اور اس قرار داد میں پاکستان کا نام تک نہیں ہے اور اس میں آزاد ریاست Independent state کا نہیں بلکہ آزاد مسلم ریاستوں کا ذکر ہے یعنی State کی بجائےStatesکا لفظ لکھا ہوا ہے۔ یہ اضافی’’ S‘‘ 1946ء میں کاٹا گیا۔ اسے قرار داد پاکستان تو ہندو پریس نے طنزیہ انداز میں کہا تھا۔ لیکن اور یہ بہت بڑا لیکن ہے کہ اگر23مارچ ہی یوم پاکستان ہے اوریہ اس لیے منایا جاتا ہے کہ 1940ء میں اس دن قیام پاکستان کے لیے قرار داد منظور ہوئی تھی تو قیامِ پاکستان کے بعد1948ء سے لے کر 1955ء تک ہم یہ دن منانے کے حوالہ سے بالکل خاموش کیوں ہیں؟ حکومتی ریکارڈ کے مطابق مذکورہ 8سالوں میں نہ یہ دن منایا گیا، نہ قومی تعطیل، نہ کوئی جشن، نہ کوئی پریڈ وغیرہ آخر کیوں؟
تاریخی حقیقت یہ ہے کہ 23 مارچ1956ء کو اُس وقت کے وزیراعظم پاکستان چودھری محمد علی نے پاکستان کو پہلا آئین دیا تھا۔ پاکستان تخت برطانیہ کی ماتحتی سے اعلانیہ طور پر الگ ہو گیا تھا اور اِس دن کو یوم جمہوریہ قرار دیا گیا تھا۔ 1957ء اور1958ء میں بھی23 مارچ کو بطور یوم جمہوریہ پاکستان منایا گیا۔ قومی تعطیل ہوئی اور تمام تقریبات منعقد ہوئیں۔ اکتوبر 1958ء میں جنرل ایوب خان نے ملک بھر میں مارشل لاء لگا دیا اور 1956ء کے آئین کو منسوخ کر دیا۔ گویا خاکی وردی والوں نے جمہوریت اور آئین سب کچھ اپنے بھاری بوٹوں تلے روند ڈالا۔ 1959ء میں جب23مارچ کی آمد آمد تھی تو فوجی حکمرانوں
کے سامنے یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ وہ یومِ جمہوریہ کس طرح منائیں؟ وہ اُس آئین کے بننے کا دن کیسے اور کیوں منائیں جسے وہ کفنا اور دفنا چکے ہیں۔ دوسری طرف اِن فوجی حکمرانوں کے سامنے اصل مسئلہ یہ تھا کہ اس روز عوام چھٹی منانے اور مختلف تقریبات منعقد کرنے کے عادی ہو چکے تھے۔ لہٰذا اِس کا کیاکیا جائے؟ سول بیورو کریسی جس کی ذہانت اور فطانت ہمیشہ آڑے وقت میں ہر قسم کے حکمرانوں کے کام آئی۔ اُسی کا مشورہ ہو گا کہ فکر مند ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ خوش قسمتی سے(حکمرانوں کی خوش قسمتی اکثر عوام کی بد قسمتی بن جاتی ہے) اسی روز یعنی 23 مارچ 1940ء کو منٹو پارک میں وہ قرار داد بھی تو منظور ہوئی تھی جسے سب مانتے ہیں کہ وہ تحریک پاکستان کی بنیاد بنی تھی۔ لہٰذا 23 مارچ کی تعطیل اور تقریبات کا تعلق1956ء کے آئین سے ختم کر کے 1940 ء کی قرار داد سے جوڑ دیا جائے اور پہلے سے بڑھ کر زور و شور سے تقریبات منعقد کی جائیں۔ عوام کا تعلق تو تعطیل اور رنگ برنگی تقریبات سے ہے۔ اُنہیں اس سے کیا فرق پڑے گا کہ23مارچ جو یوم جمہوریہ تھا، اب یوم پاکستان بن گیا ہے۔ عوام یقیناً اس غم میں دبلے نہیں ہوں گے کہ جمہوریت کی سالگرہ جمہوریت کی برسی کیوں بن گئی ہے؟ نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ اڑھائی سالہ نو خیز کلی کو کِھلنے سے پہلے زندہ درگور کرنے پر جمہوریت کے کسی چیمپیئن کا ضمیر نہ جاگا۔ ہمارے لیے تو جمہوریت نا محرم ہے، لہٰذا ہم نے اگر غض بصر سے کام لیا تو غلط نہیں کیا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے وہ سیاست دان جو دن رات جمہوریت کی رٹ لگاتے ہیں، جمہوریت کی خاطر اپنی قربانیوں کا ڈھول پیٹتے رہتے ہیں۔ وہ23مارچ کو یوم پاکستان قرار دے کر جمہوریت کے مزار پر چادر کیوں چڑھاتے ہیں ؟ عاشقانِ جمہوریت یہ مسئلہ لے کر میدان میں کیوں نہیں نکلتے کہ23مارچ 1956ء کو اس سر زمین کو پہلا آئین ملا۔ تخت برطانیہ کی بالواسطہ غلامی بھی انجام کو پہنچی تھی۔ پاکستان کا گورنر جنرل پاکستان کا صدر بن گیا تھا۔ لہٰذا ہم اس دن کو بطور یوم جمہوریہ منائیں گے۔ ہم تاریخ کو درست کریں گے اور فوجی طالع آزما کی عیاری اور چالاکی کا پردہ چاک کریں گے کہ اُس نے اپنے غیر آئینی غیر قانونی اقدام کو جواز فراہم کرنے کے لیے یومِ جمہوریہ کو یومِ پاکستان میں کیوںبدل ڈالا؟ لیکن یقین مانیے کہ وہ کبھی ایسا نہیں کریں گے۔ اس لیے کہ اصل الاصول یہ ہے کہ ہر شے اپنے اصل کی طرف لوٹتی ہے۔ پاکستان میں صف اوّل کا کوئی لیڈر بھی ایسا نہیں ہے جو عوام کی پیداوار ہو اور جس نے حکمران بننے کے لیے G.H.Q کا سہارا نہ لیا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ نام نہاد لیڈر جمہوریت سے مخلص نہیں ہیں۔ انہیں تو اقتدار اور قوت چاہیے تاکہ حکمرانی کے مزے لیں اور اس کے ذریعے اپنی دولت میں اضافہ کر سکیں۔ اُن کے لیے جمہوریت نظریہ نہیں ہے حصولِ اقتدار کا زینہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نام نہاد لیڈر جمہوریت سے بھی مخلص نہیں ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت یوں تو پاکستان میں آغاز سے ہی مظلوم ہے انتخابات کرانا اور حکمرانی کے لیے عوام کی رائے لینا جمہوریت کی اساس ہے، اُس کی جڑ اور بنیاد ہے لیکن کبھی ایسا نہ ہو سکا کہ پاکستان میں ہونے والے کسی ایک الیکشن کو بھی صاف اور شفاف کہا جا سکے۔ 2024ء کے انتخابات تو جعل سازی اور فراڈ کے حوالے سے تاریخ کا ایک ریکارڈ شِکن الیکشن تھا۔ گویا یوں کہا جا سکتا ہے کہ ماضی میں ہر الیکشن میں کبھی کم کبھی کچھ زیادہ دھاندلی ہوئی لیکن 2024ء کے انتخابات میں تو محض دھاندلی ہوئی تھوڑی تھوڑی کہیں نہ کہیں الیکشن کی جھلک سی نظر آتی ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ جعل سازی سے جو حکومت عوام پر تھوپی گئی اُس کے حمایتی اینکر بھی سوشل میڈیا پر فارم 45 اور فارم 47 دکھا کریہ ثابت کر رہے ہیں کہ فارم 47 والا اسمبلی کے اندر اور فارم 45 والا عدالتوں کے چکر کاٹ رہا ہے۔ قارئین کو یقیناً معلوم ہوگا کہ الیکشن رُولز کے مطابق صرف فارم 45 کی بنیاد پر ہی فارم 47 بن سکتا ہے اُس فارم 47 کی کوئی حیثیت نہیں جو فارم 45 کی بنیاد پر نہ بنا ہو۔
معاشی سطح پر بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ کبھی ہمارے کسی وزیر خزانہ کے فراڈ اعداد و شمار پیش کرنے سے ہم بین الاقوامی سطح پر جعل ساز ٹھہرائے جاتے ہیں، جس کے نتیجہ میں ہم جرمانہ ادا کرتے ہیں۔ آج ہم IMF سے چوبیسواں پروگرام لینے کے خواہش مند ہیں۔ اِس حوالے سے ہماری ذلت اور رسوائی اِس سطح پر پہنچ گئی ہے کہ پہلے پروگراموں میں مختلف معاملوں میں IMF حکومتی سطح پر پاکستان کو ڈکٹیٹ کرتا تھا۔ اب یہ عالمی ادارہ ہماری نا اہلی، ہمارے ضعف اور ہمارے دجل و فریب کی وجہ سے اِس نتیجہ پر پہنچا کہ حکومت کی بجائے براہِ راست اداروں کو ڈکٹیٹ کر رہا ہے۔ FBR سے پوچھ گچھ کر رہا ہے اور دوسرے حکومتی اداروں سے بھی براہِ راست رابطہ کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ IMF سے تعلق اور سودی قرضہ ماضی میں بھی ہماری ملکی سلامتی اور خودمختاری کے لیے زہر قاتل ثابت ہوا۔ 1980ء میں آئی ایم ایف کے پروگرام کا حصہ بننے سے لے کر آج تک کی تاریخ دیکھ لیں یہ قرضہ بڑھتا گیا اور آج ہم اس دلدل میں مکمل طور پر دھنس چکے ہیں۔ لیکن اِن چار دہائیوں کے دوران ملکی ترقی کا پہیہ اُلٹا گھومتا رہا۔ جیسے جیسے قرضہ آتا گیا اُسے مالِ مفت جان کر ہماری سول اور ملٹری اشرافیہ کی بدعنوانیاں اور اللے تللے بھی بڑھتے گئے اور آج پاکستان اقتصادی اور معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ سیاسی سطح پر بھی بیرونی دباؤ بلکہ دکٹیشن قبول کرنا ہمارا قومی شیوہ بن چکا ہے۔ معاشرتی سطح پر مغرب کا شیطانی ایجنڈا مسلط کرانے کے لیے امریکہ IMF جیسے اداروں کو استعمال کرتا ہے۔ شنید ہے کہ جس طرح GSP+ کی شرائط پر عمل کرتے ہوئے ہماری عدالتیں سزائے موت کے اب نزدیک بھی نہیں جاتیں، اسی طرح خدانخواستہ 295C کے خاتمے اور قادیانیوں کو مذہبی آزادی دینے کے حوالے سے بھی شدید دباؤ آ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ خیر فرمائے۔ جان پر کنز نے اپنی کتاب "Confessions of an Economic Hitman" میں واضح طور پر بتایا ہے کہ IMF کو کیسے تیسری دنیا کے ممالک کو دبوچنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اب سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ 3ارب ڈالر کے پروگرام کے خاتمہ پر پاکستان، مصر کے ماڈل کی تقلید کرتے ہوئے IMF سے 8 ارب ڈالر کا ایک طویل المعیاد معاہدہ کرے گا۔ اگر یہ چیزیں درست ثابت ہوئیں تو پاکستان کی رہی سہی عزت نفس اور سالمیت و خود مختاری کا بھی سودا کر دیا جائے گا۔ آج مصر امریکہ اور اسرائیل کا واضح طور پرغلام بن چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایٹمی پاکستان جس کی بنیاد نظریۂ اسلام پر رکھی گئی تھی، اُسے اِس المناک حادثہ سے بچائے۔
ژژژ
tanzeemdigitallibrary.com © 2024