(قابلِ غور) انصاف کے نام پر ظلم ! آخر کب تک؟ - عبدالروف

8 /

انصاف کے نام پر ظلم ! آخر کب تک؟

عبد الرؤف

 

دسمبر 2021ء کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان کی عدالتوں میں زیر التواء یا زیر سماعت مقدمات کی تعداد 21 لاکھ ہے جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے کروائے گئےایک سروے کے مطابق بہت سے سائلین اور درخواست گزار ان کو اپنی زندگی میں جائیداد کے حوالے سے دائر کئے گئے مقدمات کا فیصلہ سننے کا موقع نہیں ملتا،اس سروے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ جائیداد کے حوالے سے دائر کیے گئے مقدمات دائر ہونے سے لے کر فیصلہ ہونے تک 30 سال لیتے ہیں اور یہ سروے اُس مُلک کی سپریم کورٹ نے کرایاجو ججوں کو مراعات دینے کے حوالے سے دنیا کے 180 ممالک میں سے پہلے 10 ممالک میں آتا ہے مگر انصاف کی فراہمی میں ہماری عدلیہ کا نمبر130 ہے۔عدلیہ کی طرف سے انصاف کی فراہمی میں تاخیر کی ایک بڑی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس وقت تقریباً 1018 ججوں کی آسامیاں خالی ہیں جبکہ مقدمات کی تعداد بہت زیادہ ہونےکی وجہ سے جلدی انصاف مہیا نہیں ہو پارہا ، لیکن یہ ایک طرح کا عذر لنگ ہے کیونکہ جب تک ججوں کی بھرتی کا عمل مکمل ہوگا اس وقت تک تو مقدمات کی تعداد مزید بڑھ چکی ہوگی ، اس لیے کیا یہی بھرتی کا کھیل ہی کھیلا جاتا رہے گا یا عدلیہ کچھ کر گزرنے کا عزم بھی رکھتی ہے۔ اگر مسئلہ صرف یہی ہوتا تو اس کاحل بھی نکل سکتا تھا لیکن ہمارے ہاں اصل ظلم تو وفاقی شرعی عدالت کے ساتھ ہورہا ہے جو 26 مئی 1980ء کو ایک صدارتی حکم کے ذریعے قائم کی گئی اور بعدازاں آٹھویں ترمیم کے ذریعہ قومی اسمبلی نے دستورِ پاکستان کے حصہ ہفتم باب سوم (الف) کے طور پر اس کی باقاعدہ توثیق کردی۔ بعد ازاں اس عدالت کےاختیارات کی وضاحت اس انداز سے کی گئی کہ دستور کے مطابق عدالت خود اپنی تحریک(Suo Moto Jurisdiction)یا پاکستان کے کسی شہری، وفاقی یا صوبائی حکومت کی درخواست پر قرآن و سنت کی روشنی میں کسی قانون کو اسلامی احکام کے منافی قرار دے تو وہ اپنا فیصلہ دلائل کے ساتھ صدرِ مملکت، گورنر اور متعلقہ حکام کو بھیجے گی اور ساتھ ہی یہ یقین بھی کرے گی کہ اس کا یہ فیصلہ کس تاریخ سے موثر ہوگا۔اس کے علاوہ یہ عدالت حدود کے نفاذ سے متعلق قوانین کے تحت کسی فوجداری عدالت کی طرف سے فیصلہ شدہ مقدمے کا از خود جائزہ لے سکتی ہے اور اس کے خلاف اپیل بھی سن سکتی ہے اور عدالت اپنے دیئے گئے فیصلے یا صادر کردہ حکم پر نظر ثانی کا اختیار رکھتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی طے کردیا گیا کہ وفاقی شرعی عدالت کے کسی فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) میں متاثرہ فریق اپیل دائر کر سکتا ہے اور اس اپیل کا فیصلہ سپریم کورٹ کا شریعت اپیلٹ بنچ کرے گا جس میں سپریم کورٹ کے تین سینئر مسلمان جج ہوں گے جبکہ دو جج علمائے کرام میں سے عارضی بنیادوں پر لیے جائیں گے اور جب بھی یہ اپیلیں سماعت کے لیے مقرر کی جائیں گی تو انہیں بلا لیا جائے گا، اُن کی حیثیت مستقل جج کی نہیں ہوگی، 5 ججوں پر مشتمل اس بینچ کا سربراہ سپریم کورٹ کا سینئر جج ہوگا۔
یہاں یہ نکتہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ ’’اگر کسی فیصلے کے خلاف شریعت اپیلٹ بینچ میں اپیل دائر ہوجائے تو وہ فیصلہ معطل تصور ہوگا اور سپریم کورٹ کے فیصلے تک وہ قابل عمل نہیں ہوگا اور اس اپیل کے فیصلہ کرنے کی کوئی مدت مقرر نہیں ہے۔‘‘ لہٰذااس کے نتیجے میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے ایک عضومعطل کی حیثیت اختیارکر جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں قرآن و سنت کی بنیاد پر کئے گئے فیصلوں کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ جس کے نتیجہ میں گزشتہ 35 سال کے دوران میں شریعت کورٹ کے فیصلوں کے خلاف 29 شریعت اپیلیں اور31 فوجداری اپیلیں ابھی تک سپریم کورٹ میں زیر التواء ہیں اور یہ تمام اپیلیں مختلف اوقات میں مختلف افراد کی طرف سے شریعت کورٹ میں دائرکی گئیں اور ان پر شریعت کورٹ نے اپنا فیصلہ تو سنا دیا لیکن جن افراد یا اداروں کے خلاف یہ فیصلہ سنایاگیا وہ اُسے سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ میں لےگئے جہاں ابھی تک اُن کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ اسی طرح کا حال وفاقی شرعی عدالت کی طرف سے سود کی حرمت کے متعلق فیصلے کا ہوچکا ہے ۔ اور قوم کے کم و بیش 35 سال ضائع کئے گئے ہیں کیونکہ اگر 2022ء میں سود کی حرمت کے فیصلے کو مان کر متبادل نظام تیا ر کرنے کی مخلصانہ کوشش کی جاتی تو آج ہوسکتا ہے ہم اس دلدل سے نکل چکے ہوتے ،لیکن اس کو بھی شریعت بنچ کی چکی میں ڈال کر پیس دیا گیا۔ یہ قول تو ایک غیر مسلم برطانوی وزیر اعظم ولیم ایورٹ گلیڈ اسٹون (William Ewart Gladstone) کا ہے۔ــ" Justice Delayed is Justice Denied" یعنی’’ انصاف میں تاخیر کا مطلب انصاف سے انکار ہے۔‘‘ لیکن اس کا مفہوم وہی بنتا ہے جو چودہ سوسال قبل خلیفہ راشدحضرت علیh نے فرمایاتھا کہ ’’ حکومت کفر کے ساتھ تو رہ سکتی ہے لیکن ظلم کے ساتھ نہیں رہ سکتی‘‘ یہ ظلم عام دیوانی یا فوجداری معاملات میں روا رہے تو اس کے معاشرے میں وہی نتائج نکلتے ہیں جن کا شکار آج ہمارا پاکستانی معاشرہ ہے، جس میں عوام الناس قانون کو ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ جس کےنتیجہ میں بد امنی اور اضطراب پیدا ہوتا ہے۔ طبقاتی تقسیم میں اضافہ ہوتا ہے اور استحصالی طبقات اپنے ذاتی مفاد کے لیے عوام پر ظلم کا بازار گرم کرتے ہیں۔ نتیجتاً ہمارا معاشرے میں پولرائزیشن بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اس پر مستزاد جب عدالتی نظام حدود اللہ کو بھی چیلنج کرنا شروع کر دیتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی نصرت سے معاشرہ بحیثیت مجموعی محروم ہوتا چلا جاتا ہے۔ سود جیسے قبیح جرم کا ریاستی و عدالتی سرپرستی میں جاری رہنا اللہ اور رسول ﷺ کے ساتھ ریاست کی سطح پر اعلان جنگ تو ہے ہی جس کے نتائج ہم مختلف نوع کے عذابوں کی شکل میں جھیل رہے ہیں لیکن اس کے علاوہ بھی ہمارے آئین میں صدرِ پاکستان کو قاتل کی معافی کا اختیار دیا جانا، عائلی قوانین کی کچھ دفعات کا 1962ء سے اب تک خلاف اسلام ہونا، تحفظ خواتین بل کے نام سے زنا کو تحفظ دینے والا قانون پاس ہونا، دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینا ، ٹرانسجنڈر ایکٹ کے نام پر فعل قومِ لوط ؑ کو قانونی شکل دینا اور اس طرح کچھ اور قوانین جو خالصتاً خلاف اسلام ہیں ان کے ہوتے ہوئے نہ تو اللہ کی مدد آئے گی اور نہ ہی معاشرے میں اسلام کے حوالے سے پیش رفت ہو سکے گی جس کے نتیجے میں ظلم بڑھتا چلا جائےگا اور بزبان شاعر:
`ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا۔