صفیں پھٹی پھٹی ہوئی!
عامرہ احسان
رمضان کی ساعتیں تیزی سے گزر رہی ہیں۔ پوری دنیا میں اہلِ ایمان حسبِ توفیق، حسبِ ایمان یہ پرچہ حل کر رہے ہیں۔ ہر عمل کئی گنا اجر کی بشارت لیے ہوئے ہے۔ تاہم غزہ اور مغربی کنارے، قدس کے گرد ونواح کا رمضان اہلِ ایمان کی فکروں، دعاؤں، محبتوں، گریہ وزاری کا مرکز ومحور ہے۔ گلوبل ویلیج شاید اسی دن کے لیے سمٹ کر ہر ہتھیلی پر آن بیٹھا تھا، پل پل کی خبریں دیتا۔ اب سوشل میڈیا دنیائے کفر میں رمضان کی فرضیت، روزے کی تربیت کا تعارف دینے رب تعالیٰ سے لمحہ لمحہ تعلق ،فکر ونظر کی جِلا کے لیے دعوتِ دین پر ہمہ تن مامور ہے۔ لوگ بہت کچھ نیا دیکھ رہے ہیں شرق تا غرب! فٹ بال، جس کے دیوانے دنیا بھر میں کروڑوں ہیں، اب وہ بھی غزہ ہی کے فٹ بالر کو دیکھ رہے ہیں! ایک کلپ شیئر کی جاتی ہے یہ کہتے ہوئے:’یہ ویڈیو میں نے پانچ مرتبہ دیکھی ہے۔ یہ دائماً میرے حواس پر طاری رہے گی، یہ محبت میں کبھی دل سے نکال نہ سکوں گی۔‘ نظریے صداقت اور استقامت کا ایک منظر مبہوت کن ہے۔ ہم مسلمانوں نے تاریخ (جسے ہمارے نصابوں سے بصد اہتمام نکالا گیا۔ نسلوں کو جس سے بچاکر پروان چڑھایا گیا۔) میں نے ایسے کردار ازل سے دیکھ رکھے ہیں مگر اولمپکس (عالمی کھیلوں) کی شراب، جوئے، عورت، حبِ مال، حبِ جاہ کی چکاچوند، گلیمر نے فٹ بال کو گناہ کے جہنم زار میں دھکیل رکھا تھا۔ فسق وفجور سے لتھڑا۔ تاہم اسی میں کچھ ایمانی جزیرے بھی ابھرتے گئے۔ کئی فٹ بالر ایمان لائے۔ اب دیکھیے خان یونس کا ہر دلعزیز ہونہار فٹ بالر محمد برکات، اپنے آخری کلمات کے ساتھ ایک عظیم پیغام چھوڑکر رخصت ہوتا ہے۔
’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ: اے میرے اہل ِخاندان، میرے سب پیارے، میرے دوست، وطن ِعزیز اور ہماری اقصیٰ! شاید یہ میرے آخری الفاظ، آخری ہم کلامی، آخری منظر ہے جس میں آپ مجھے دیکھ رہے ہیں۔ ہم بہت مشکل حالات میں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی سلطنت میں کچھ بھی اللہ کی مرضی کے بغیر نہیں ہوتا! ایک چیونٹی تک ہاتھ پیر ہلا نہیں سکتی الاباذن اللہ! اللہ نے فرمایا: ’’ان سے کہو! تم ہمارے معاملے میں جس چیز کے منتظر ہو وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی ہے۔ (فتح یا شہادت) اور ہم تمہارے معاملہ میں جس چیز کے منتظر ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ خود تم کو سزا دیتا ہے یا ہمارے ہاتھوں سزا دلواتا ہے؟اچھا تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی تمہارے ساتھ منتظر ہیں ۔‘‘(التوبہ :52)
اللہ قادرِمطلق ہے ۔اس نے یہ بھی (ہمیں) بتایا، (قرآنی آیات شفاف جھرنوں کی طرح برکات کی زبان سے بہتی چلی جا رہی ہیں، روح میں اتری آیات!): ’’کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو زمین میں یا تمہارے اپنے نفس پر نازل ہوتی ہو اور ہم نے اس کو پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب (یعنی نوشتۂ تقدیر) میں لکھ نہ رکھا ہو۔ ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان کام ہے۔ (یہ سب کچھ اس لیے ہے) تاکہ جو کچھ نقصان تمہیں ہو، اس پر تم دل شکستہ نہ ہو اور جو کچھ اللہ تمہیں عطا فرمائے اس پر پُھول نہ جاؤ۔ اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہیں اور فخر جتاتے ہیں۔‘ ‘(الحدید: 20تا23)
ممکن ہے زندگی اب ختم ہونے کو ہو اور وقت شاید آ گیا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ابھی کچھ باقی ہو! اس کا تعین ان لوگوں (اسرائیلیوں) کے ہاتھ میں نہیں۔ ارض وسماء اور غیب کے مالک کے ہاتھ میں ہے۔ وہی (ایک ہے جس کے پاس غیب کا حقیقی علم ہے۔
’ ’تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے زمین اور آسمان بنائے، روشنی اور تاریکیاں پیدا کیں۔‘ ‘‘ (الانعام:1)
وہی ہے جس نے طے شدہ مدت (زندگی کی) مقرر کر رکھی ہے۔ صرف اسی کا فیصلہ ہے کہ ہمیں کب مرنا ہے۔ (پس منظر میں گولیوں کی آوازیں قریب آ رہی ہیں۔) چنانچہ میں آپ سے معافی کا طلب گار اور دعاؤں کا خواست گار ہوں۔ اے میرے ماں باپ!آپ میرے محبوب ترین ہیں، نہایت بیش بہا! اور ہاں میرے بچو! میرے محبوب! میں آپ کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ وہ دعا جو مومن مسافر کو مقیم کے لیے کرنی کریم نبی ﷺ ْ نے سکھائی ہے۔ یہ راہِ آخرت کی دہلیز پر کھڑا مسافر پڑھتا ہے:’ ’میں سپرد کرتا ہوں تمہیں اس اللہ کے کہ کچھ ضائع نہیں ہوتا، اس کی سپردگی میں سونپا جانے والا۔‘‘ (احمد، ابن ماجہ) اب بات ختم کرتا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی مسافر یکم رمضان، سجی سجائی جنت کو عازمِ سفر ہوگیا!
یہیں اہل ِامت آنسوؤں سے رخسار تر کرتے ہوؤں کے لیے عبداللہ بن مبارک کے اشعار نہایت برمحل ہیں جو ابوعبیدہ حفظہ اللہ نے امت کو سجدہ گزاروں، روزہ داروں کو سنائے ہیں! ابن مبارکؒ نے طرطوس کی سرحدوں پر پہرہ دیتے جہاد ورباط میں یہ فضیل بن عیاض اور دیگر علمائے سلف کو لکھ بھیجے تھے: ’اے حرمین شریفین کے عبادت گزار! ہم کو دیکھ لو، جان لوگے تمہاری عبادت تو کھیل ہے، آنسوؤں سے گال تر کرنا بھی خوب ہے، خوب تر لیکن لہو کا سیل ہے!‘ (تمہارے رخسار آنسوؤں سے بھیگے ہیں اور ہماری گردن ہمارے لہو سے تر بہ تر ہے!) شہید فٹ بالر محمد برکات بہ زبانِ حال امت کو یہی منظر دکھاتا رخصت ہوا۔ جس پر کافرہ نے 5مرتبہ یہ پیغام پڑھا دنگ ہوکر کہ وہ سب کہہ کر اتنی سکینت واطمینان سے کیونکر رخصت ہوگیا! دعوت وتبلیغ اتنی بلند آہنگ! اتنی حقانیت سے جگمگاتی! نبیﷺ کے فرامین اور قرآن سے منور حقیقی کامیابی اعلیٰ ترین شہادت… ’ذلک ھو الفوز العظیم‘ کا مکمل پیغام دنیا بھر کے فٹ بال شائقین کو دیتا چل دیا! نبی ﷺ کا یہ فرمان زندہ کردیا: ’’یہ کہ میں ایک رات اللہ کے راستے میں سرحدوں کا پہرہ دوں مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ میں شب قدر میں حجر اسود کے سامنے پوری رات قیام میں گزار دوں۔‘ ‘(صحیح ابن حبان، الترغیب والترہیب)
تمام فلسطینی غزہ تا نواحِ قدس، اقصیٰ کے پہرہ دار، رباطی ہیں! یہودی مسجد اقصیٰ (نعوذ باللہ) گرا کر اس کی جگہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنے کو یہ ساڑھے پانچ ماہ سے قیامت ڈھا رہے ہیں۔ عقیدہ ان کا یہ ہے کہ اس سے ان کے ’مسیحا‘ الدجال کا ظہور ہوگا۔ تمام تر پابندیاں اقصیٰ پر لاگو کی گئی ہیں۔ فلسطینی تمام رکاوٹیں عبور کرتے، تشدد سہتے، موت، قید وبند کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے اقصیٰ میں نمازیں ادا کرنے ہر حال پہنچ رہے ہیں! (ہماری خالی مساجد، تین چار صفوں والی کے مقابل) اقصیٰ میں دوسری تراویح میں نمازی 35ہزار، تیسری میں 45ہزار، چوتھی میں 40ہزار اور پانچویں میں 70ہزار تھے! یہی ایمان واستقامت دنیا بھر کو مسحور کیے دے رہی ہے۔
پٹس برگ (فلاڈلفیا) یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ہنری کلاسن جو آنکھ کی اہم تحقیق کے ماہر اور موجدین میں سے ہیں، نے یکم رمضان کو اسلام قبول کیا، یہ کہتے ہوئے کلمۂ شہادت پڑھا کہ اسلام ہی الحق ہے! نام عبدالحق کلاسن رکھا گیا! سلسلہ جاری ہے۔ دو رمضان المبارک کو 5امریکی دوستوں نے اکٹھے کلمہ پڑھا اور دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے۔ ادھر سورۃ التوبۃ کی پڑھی گئی شہید محمد برکات کی آیت بھی پوری ہو رہی ہے۔ اللہ کی سزا اور مجاہدین کی عزیمت کے چرکے اسرائیلی فوج سہہ رہی ہے بیک وقت۔ پورا اسرائیل دنیا بھر میں نشانۂ نفرین ہے۔ غزہ میں 20اسرائیلی فوجیوں نے خودکشی کی ہے۔ ایک نے خود کو جلا ڈالا جو بظاہر اونچا لمبا مضبوط نوجوان تھا۔ ایک فوجی کا بیٹا رو رو کر فریاد کر رہا ہے کہ اس کے باپ نے 10سے زیادہ مرتبہ خودکشی کی کوشش کی! واویلا ہے کہ حکومت کچھ نہیں کر رہی!
نیویارک میں اسرائیلی یہودی مفادات کے تحفظ کے لیے ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جو یہود دشمنی Anti-) (Semitism کا کوڑا لے کر دنیا کو دھمکانے والوں میں سے ایک رہی ہے۔ ’اینٹی ڈیفیمیشن لیگ‘۔ اس کے لیے 5دہائیوں سے سرگرداں ڈائریکٹر ایمرٹس فوکس مین کا کہنا ہے کہ ’دو چیزوں نے اس کی نیند اڑا رکھی ہے۔ اسرائیل اور اس کے اہم ترین اتحادی امریکا کے درمیان بگڑتے تعلقات۔ دوسرا یہ کہ یہود مخالف، یہود دشمن دھماکا خیز ہنگامے جو دنیا میں بڑھ پھیل رہے ہیں، اس کا کیا بنے گا اگر یہ سب یونہی چلتا رہا!‘ تسلی رکھو، نیتن یاہو رہا تو دنیا تمہارے لیے ایک مرتبہ پھر اتنی ہی تنگ ہوگی جس نے تمہیں ہولوکاسٹ تک پہنچایا تھا۔ فرعون کا تکبر کا نشہ ڈوبتے وقت تک نہ اترا تھا۔ اور پھر جب چلایا تھا تو پانی سر سے گزر چکا تھا! غزہ کا رب عین وہی ہے جس نے فرعون کو غرق کیا تھا!
تاہم امت کے حوالے سے ایک فلسطینی نے کہا کہ بات یہ نہیں ہے کہ غزہ پر یہ بدترین (مشکل ترین) رمضان ہے، بلکہ اصلاً یہ امت ہے جس پر بھاری ترین رمضان کی آزمائش ہے کہ دو ارب مسلمان غزہ کے لیے دعا کے سوا کچھ نہیں کر رہے۔ 150فلسطینی صرف ایک آٹے کا تھیلا پانے کی خاطر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور تم چپ ہو!
مؤحدینِ کعبہ کی صفیں پھٹی پھٹی ہوئی
محبتوں کی ڈوریاں سبھی کٹی کٹی ہوئی
کلیسا، کنشت، دیر، صومعہ، سبھی بہم
…………یروشلم، یروشلم!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025