(کارِ ترقیاتی) تہذیبِ آہن وبارود - عامرہ احسان

10 /

تہذیبِ آہن وبارود

عامرہ احسان

 

امریکا کی پسِ پردہ مکمل تائید اور مدد وخواہش کے ساتھ اسرائیل نے رفح پر حملہ کردیا۔ فلسطینی آبادی کی غزہ میں مسلسل دربدریوں اور تباہی مسلط کرنے کی مہم میں آخری پڑاؤ پر بلاجواز بھرپور دھاوا بول دیا گیا۔ شہادتیں 35ہزار ہوچکیں۔ زخمی، بھوکے عورتیں بچے بوڑھے، بچے کچھے نوجوان ایک مرتبہ پھر غزہ میں کسی کونے کھدرے میں جا سر چھپانے کو آبلہ پا چل پڑے۔ دنیا کے وسط میں برپا اس درندگی کی مکمل ذمہ داری امریکا، مغربی حکمرانوں،   نام نہاد مسلمان ہمسایہ ممالک وباقی ماندہ مسلم امہ بشمول ایٹمی پاکستان اور ان کی افواج پر عائد ہوتی ہے۔ بالخصوص وہ فوج جو امت کے نام پر مزید تشکیل دی گئی تھی، کس وادی کس جنگل میں ہے، کون جانے! او آئی سی، عرب لیگ مسلم حمیت کے تابوت میں ٹھونکے گئے اس آخری کیل (رفح) پر فاتحہ پڑھنے، پرسا دینے کو بھی نہ اٹھی۔ اور یہ تو اب پوری دنیا جانتی اور برملا کہتی ہے کہ یہ جنگ امریکا/ بائیڈن جب چاہتا فوری رکوا سکتا تھا۔ مگر اس نے ایسا چاہا ہی کب تھا۔ 
اس جنگ کو جاری وساری رکھنے کے لیے ساری جنگی امداد فراہم کی جاتی رہی۔ گزشتہ ماہ مزید 26ارب ڈالر بائیڈن کے دستخطوں سے جاری ہوئے۔ جس کے فوراً بعد رفح پر حملہ کوئی اتفاقی امر نہ تھا۔ البتہ میڈیا اس دوران اپنے حصے کا کام تندہی سے کرتا رہا۔ توجہ ہٹانے کو حماس اسرائیل مذاکرات برائے جنگ بندی میں سنسنی بھرکر، امیدیں دلاتا، توڑتا، حماس کو معاہدہ نہ ہو پانے کا ذمہ دار ٹھہرانے کے لیے الفاظ سے کھیلتا خبریں چھوڑتا رہا۔ ادھر بائیڈن نے طلبہ کے مظاہروں کو پُرتشدد اور خطرناک قرار دے دیا۔ انہیں افراتفری کا ذمہ دار ٹھہراکر پولیس ان پر چھوڑ دیے جانے کا تائیدی اشارہ ہوگیا۔ ساتھ ہی مظاہروں کو یہودی مخالف (Anti-Semitic) قرار دے کر جذباتی شرارہ اور ان پر ٹوٹ پڑنے کا جواز فراہم کردیا۔ اب ایک طرف رفح المیہ ہے۔ دوسری جانب دھیان بٹانے کو یونیورسٹی در یونیورسٹی مظاہروں کی بپتا میسر آ گئی۔ غزہ کے ہسپتالوں کے گرد ونواح میں اجتماعی قبریں بھرنے کی   ذمہ داری براہِ راست بائیڈن اور عالمی اسٹیبلشمنٹ پر عائد ہوتی ہے۔ جن کی آشیرباد اور حمایت سے قتلِ عام جاری ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کے 20وکلاء نے اپنے دستخطوں سے جاری کیا ہے جس کے مطابق اسرائیل براہِ راست امریکی قوانین اور جنیوا کنونشنز سے متصادم اقدامات کر رہا ہے۔ بائیڈن رفح حملے کو ہلکا کرکے بیان کرنے کی ذمہ داری نبھاتا رہا۔ رفح پر حملے کے تناظر میں جنوبی افریقہ نے ایک مرتبہ پھر عالمی عدالت انصاف سے ہنگامی اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ مگر 7ماہ سے ہانڈی میں پانی میں پتھر ابلنے رکھے ہوئے ہیں۔ امن وآشتی کی پکاریں دیتی بھوکی پیاسی دنیا بہلائی جا رہی ہے، ڈھکنا اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ! 
میڈیا سیاست دانوں اور قیامتیں برپا کرنے والوں  کی میک اپ انڈسٹری ہے۔ یہاں بھوتنی کو پری بناکر دکھایا جاتا ہے۔ میڈیا خوبصورت محتاط (خلافِ احوال) جملے تراش کر جنگی مجرموں کا منہ دھلاتا رہا ہے اب بھی دھلا دے گا۔ سجا سنوار دے گا۔ تاریخ انہی کارگزاریوں سے تشکیل پائی ہے کہ ہیروشیما، ناگاساکی پر ایٹمی حملے کا مجرم ایک گلوبل طاقت اور سرداری کے منصب پر فائز ہے۔ ٹوئن ٹاور میں صرف 3ہزار اموات پر 20سال دنیا تہس نہس کی جاتی رہی۔ لاکھوں اموات ہوئیں۔ 3مسلم ممالک براہِ راست تباہی کا نشانہ بنائے گئے۔ حالانکہ نائن الیون میں نہ عورتیں، ننھے بچے تھے، نہ وہ رہائشی آبادی تھی، نہ اسکول، ہسپتال، بیکریوں کو تباہ کرکے مسلسل 7ماہ انسانیت خونچکاں و قحط زدہ کی گئی۔ مگر امریکا کی مظلومیت تاریخی رہی۔ مفلوک الحال افغانستان پر پوری دنیا کے جنگجو ٹوٹ پڑے اور خزانہ خالی، افغان قبرستان آباد کرکے وہاں سے خود نکل گئے۔ مجرم افغانستان اب بھی ٹھہرا، عورت کی تعلیم ’قتل‘ کرنے کا جرم، غزہ میں اجتماعی قبروں، لاشوں کی بے حرمیتوں کا لامنتہا تسلسل، قحط مسلط کرکے بھوک کی بھینٹ چڑھتے معصوم بچوں کی اموات سے کہیںبڑا جرم ہے۔ غزہ کی 60ہزار حاملہ ماؤں کی دربدری اور کلفتوں سے زیادہ مظلوم، محفوظ گھروں میں باپ بھائی خاندان کے بیچ وقار سے بیٹھی افغان عورت ہے! یہ مغربی میڈیا اور مغربی حکومتوں کا واویلا ہے۔
تعلیم کے نام پر طوفان کھڑے کرنے والوں کو اب تعلیمی اداروں کے ہاتھوں پورے مغرب میں منہ کی کھانی پڑی ہے۔ دنیا بھر کی یونیورسٹیاں فلسطینی جھنڈوں، کفیہ اور غزہ سے یکجہتی کے لیے قائم خیمہ بستیوں کی آماجگاہ بن گئیں! حتیٰ کہ بالفور اعلامیہ جاری کرنے والی سرزمین برطانیہ پر آکسفورڈ کے طلبہ کے احتجاجی بینر پر لکھا تھا: ’آکسفورڈ والوں نے بالفور (معاہدہ) لکھا!‘ (اظہارِ ناراضی اس ’جرم‘ پر۔) عالمی نعرے مغربی حکومتوں کو عار دلاتے ہوئے: ’سرمایہ کاری بند کرو‘، (اسرائیل میں)۔ ’قتل ِعام‘،  ’اپارتھائیڈ‘، ’راز کھولو‘… (کتنا سرمایہ اسرائیل کو دیا؟) بالفور کی نسل نے لکھ رکھا تھا: ’فلسطینی عوامی یونیورسٹی میں خوش آمدید۔‘ نیز یہ انکشاف بھی تھا: غزہ میں (قتل کیے گئے): طلبہ، 5479۔ اساتذہ، 261۔ پروفیسر، 95۔ 3یونیورسٹی صدور مار دیے گئے۔ سو اسرائیل کے کارہائے نمایاں میڈیا کیا چھپائے گا، طلبہ نے برملا بیان کردیے! کیمبرج یونیورسٹی بھی بول اٹھی۔ خود یہودیوں نے فلسطینیوں کے حق میں کیمپ لگاکر مظاہروں کے ’یہود دشمن‘ ہونے سے اظہارِ برأت کردیا۔ امریکا میں پرنسٹن یونیورسٹی کے 18طلبہ نے 3مئی سے آزاد فلسطین کے لیے بھوک ہڑتال کر رکھی ہے۔ یونیورسٹی ان سے بے رحمانہ سلوک کر رہی ہے۔ ان کی صحت مخدوش حالت میں ہے سہولیات سلب ہونے سے۔ 86ہزار ڈالر سالانہ فی طالب علم لوٹنے والی یونیورسٹی غزہ کے قتلِ عام میں سرمایہ کاری سے شریک ہے اور اپنے طلبہ کو ٹینٹ لگانے کی اجازت نہیں دے رہی۔ (اب 12اساتذہ بھی بھوک ہڑتال میں شامل ہوگئے ہیں۔) اہلِ مناصب خونخوار ہوچکے۔ سبھی گویا نیتن یاہو کا عکس ہیں! ایمسٹرڈیم یونیورسٹی میں بھی طلبہ پر پولیس ٹوٹ پڑی۔ ایمسٹرڈیم ہی کا منظر ہے جہاں طلبہ کے خلاف چلتے بلڈوزر پر ایک نوجوان اپنی جان خطرے میں ڈال کر چڑھا ہوا کو درہا ہے اسے روکنے کو۔ پولیس قریب آتی ہے تو قریبی نہر میں کود جاتا ہے۔ یہ سب فلسطینیوں کی محبت میں ہے! عین انہی دنوں میں ہماری قائداعظم یونیورسٹی کے طلبہ طالبات بھیانک ہندو رنگوں میں رنگے ہولی ناچ رہے ہیں۔ نحوست زدہ مٹکتے شیطانی دانت نکوستے! حالانکہ شرمناک تو یہ ہے کہ سویڈن میں ’یورووژن‘ نامی ناچ گانے کا عالمی اکٹھ، 15ہزار اسرائیل مخالف مظاہرین، فلسطین کے لیے نعرہ زن نوجوانوں سے ہنگامہ خیز رہا! آزادیٔ فلسطین کے کافر مؤیدین اور یہاں ہندو ہولی کے نشے میں دھت مسلم جوانیاں!
ہماری سرکار نے امریکی قونصلیٹ کے تعاون سے یہاں کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی تعلیم وتربیت کا اہتمام فرمایا۔ امریکی ہم جنس پرست بینڈ کے نچیے گویے (مرد وزن) انہیں مہیا فرمائے۔ (کچھ جگہوں پر احتجاج سے یہ ممکن نہ ہوا۔) گورنمنٹ کالج لاہور کے سرکلر میں خواتین اساتذہ اور طالبات کی شرکت یقینی بنانے کا حکم تھا! یہ  نتیجہ ہے افغانستان اور غزہ کے قاتل امریکا سے دوستی کی    نئی پینگیں بڑھانے کا، ہماری بے حمیتی کا! 
خود امریکا میں وائٹ ہاؤس سے کچھ ہی دور جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں جیل سے (غزہ مظاہروں کی پاداش میں) رہا ہونے والی طالبہ سیدھی واپس مظاہرے میں آ کھڑی ہوئی شدت سے نعرہ زن ہے۔ تمام نعروں کا ہدف ظالمانہ نظام اور طلبہ تحریک کے مؤقف کا اٹل ہونا ہے۔   ’ہم ان نظاموں کو ہرگز اجازت نہ دیں گے کہ وہ ہمیں    زیر کریں، خواہ ہم پر تشدد کریں، ہمیں پیس ڈالیں، یہ تحریک مضبوط تر، قوی تر ہے۔ گرفتاریوں کو ہم رکاوٹ نہیں بننے دیں گے۔ انتظامیہ صرف ہم پر تشدد نہیں کر رہی، بلکہ فلسطین پر قبضے اور قتلِ عام میں پوری طرح شراکت کار ہے۔ جو رفح، غزہ میں ہو رہا ہے، یہ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ ہم اپنی نگاہ فلسطین سے ہرگز نہ پھریں گے۔‘ جذبوں سے بھرے تائیدی پُرجوش نعرے! یہ واشنگٹن ہے! سید مودودی نے 78سال قبل مسلمانوں کو قول وعمل سے اسلام کی سچی گواہی دینے پر ابھارتے ہوئے لکھا: ’ایک وقت وہ آئے گا جب سرمایہ دارانہ ڈیمو کریسی خود واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے تحفظ کے لیے لرزہ اندام ہوگی۔ مادہ پرستانہ الحاد خود لندن اور پیرس کی یونیورسٹیوں میں جگہ پانے سے عاجز ہوگا… آج کا دور تاریخ میں ایک داستانِ عبرت بن کر رہ جائے گا کہ اسلام جیسی عالمگیر وجہاں کشا طاقت کے نام لیوا کبھی اتنے بے وقوف ہوگئے تھے کہ عصائے موسیٰ بغل میں تھا اور لاٹھیوں اور رسیوں کو دیکھ دیکھ کر کانپ رہے تھے۔‘ (شہادتِ حق: 1946ء) امریکی جمہوریت یوں خطرے میں ہے کہ بائیڈن کا اس قتلِ عام میں حصہ ووٹر کے لیے ناقابلِ معافی ہے۔ اور ٹرمپ! وہ تو ٹرمپ ہے! (نام ہی کافی ہے! کردار کی پستی، بدقماش اول جلول شخصیت۔) دو پارٹی نظام ہے اور تیسری کوئی آپشن نہیں! مارشل لاء لگے گا؟
عذابِ وقت ہے تہذیبِ آہن و بارود
ززز