پون صدی کی تاریخ گواہ ہے کہ ملک کے ہرشعبہ میں مافیاز کا
راج ہے جو مل کر ملکی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کرتے ہیں۔ گندم ہو
یا چینی انہی مافیاز کی ملی بھگت سے بحران پیدا ہوتے ہیں: رضاء الحق
آٹا ، چینی سمیت جتنے بھی بحران ملک میں آتے ہیں ، ان کے
پیچھے حکمرانوں کی نااہلی ، نیت کا کھوٹ اور منصوبہ بندی کا فقدان،
جیسےعوامل ہوتےہیں : عبدالرحمٰن معظم
گندم سکینڈل: کیا مجرموں کو کٹہرے میں لایا جائے گا؟ کے موضوع پر
حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال
میز بان :وسیم احمد
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال: ملک میں جب سرپلس گندم موجود تھی تو مزید امپورٹ کی کیوں ضرورت پیش آئی اور اگر امپورٹ کر ہی لی ہے تو اب متعلقہ لوگ اس کی ذمہ داری لینے سے کیوں گریزاں ہیں ؟
عبدالرحمٰن معظم: آپ نے بالکل درست کہا کہ گندم اس وقت گوداموں میں موجود تھی ، یہ بھی پتا تھا کہ گندم کی نئی فصل بھی تیار ہے اور اس مرتبہ کسانوں نے کافی مقدار میں گندم کاشت کی ہے اس کے باوجود اتنی بڑی مقدار میں گندم امپورٹ کی گئی اور ملک کو 1ارب 10 کروڑ ڈالرز کا نقصان پہنچایاگیا ۔ جس طریقے سے گندم امپورٹ ہوئی ہے وہ بھی غور طلب ہے ۔پرائیویٹ اداروں کو امپورٹ کی اجازت دی گئی اور اس وقت کی صوبائی گورنمنٹ اور منسٹری آف کامرس نے منظوری دی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ 3.5ملین میٹرک ٹن گندم امپورٹ ہوئی لیکن اس کے اوپر ڈیوٹی چارجز بھی نہیں لگائے گئے اور ملک کو 35 لاکھ ڈالر کا نقصان تو صرف ڈیوٹی نہ لگانے کی صورت میں پہنچا ۔ پورٹ پر اس گندم کی قیمت 31سو روپے فی من پڑی اور پنجاب گورنمنٹ نے ان اداروں سے 42سو روپے پر من خریدی ہے۔ یعنی 11سو روپے فی من پرائیویٹ لوگوں نے کمایا ہے اور اس طرح ہرجہاز پرانہوں نے تقریباً50 سے 60 کروڑ روپے کمائے ہیں ۔ بہت لمبے ہاتھ مارے گئے ہیں ۔ اب اس پر آہستہ آہستہ انکوائریز ہوں گی تو شاید چیزیں سامنے آئیں گی لیکن تب تک یہ قصہ ماضی بن کر دفن ہو چکا ہوگا ۔ البتہ آئندہ کے لیے روک تھام بہت ضروری ہے ۔
سوال: سنا ہے کہ جیسے ہی منظوری ملی آٹھ دن کے اندر اندر جہاز کراچی پہنچ گئے ۔ یہ کرشمہ کیسے ہوا ؟ کیا یہ سارا کچھ پہلے سے طے شدہ تھا اور ہماری فوڈ سکیورٹی کی وزارت کی ملی بھگت سے ہوا ہے ؟
رضاء الحق: پاکستان کی پون صدی کی تاریخ میں ہمیشہ مافیاز یعنی اشرافیہ کا راج رہا ہے ۔ اس مافیا میں پہلے صرف جاگیر دار تھے لیکن رفتہ رفتہ سرمایہ دار اور سیاستدان بھی شامل ہوتے گئے ، پھر اس میں ریاستی اداروںکے اعلیٰ عہدیدار بھی شامل ہوگئے اور اب ہر سیکٹر، ہر شعبہ میں یہ مافیاز مل کر کھیل رہے ہیں۔ ان مافیاز کی اگر آپ نے ترکیب دیکھنی ہوتو SIFCدیکھ سکتے ہیں جہاں ملک کی معیشت کے حوالے سے تمام فیصلے ہوتے ہیں ۔ وہاں یہ سب مافیاز مل بیٹھ کر فیصلے کرتے ہیں اور انہی کی ملی بھگت سے ملک میں ہر قسم کا بحران آتاہے چاہے وہ آٹے کا بحران ہو یا چینی کا۔ یہ مصنوعی بحران پیدا کرکے قوم سے اربوں کھربوں روپے لوٹتے ہیں ۔ یہی لوگ حکومتوں میں بھی موجود ہیں لہٰذا ان کے خلاف کوئی ایکشن بھی نہیں لیتا ۔ مشرف دور سے اسٹیبلشمنٹ بھی اس میں ملوث ہے ، لہٰذا چاہے کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو یا اپوزیشن ہو ،ان لوگوں کی نمائندگی ہرجگہ موجود ہوتی ہے ۔ خبریں یہ آرہی ہیں کہ IMFسے قرضہ لینے کے لیے امریکہ نے دو شرائط رکھی تھیں ۔ ایک یہ کہ یوکرائن کو اسلحہ فراہم کیا جائے اوریہ معاملہ میڈیا میں رپورٹ بھی ہوا۔ دوسرا پاکستان یوکرائن سے گندم امپورٹ کرے ۔ اس کے بعد جو گندم کا مصنوعی بحران پیدا کیا گیا ، پھر گندم امپورٹ کی گئی اور اس میں لمبے ہاتھ مارے گئے، اس سارے کھیل سے ملک کو 1ارب 10کروڑ ڈالرز کا نقصان پہنچایا گیا ۔ یہ اتنی ہی رقم ہے جو ہم نے IMF سے بطور قرض لینی تھی اور اس کے لیے ہم ان کی تمام شرائط ماننے پر مجبور تھے ۔ یوکرائن سے بحری جہاز کو کراچی پہنچنے میں تقریباً 23 دن لگتے ہیں ، اگر منظوری کے صرف 8دن کے اندر جہاز کراچی کھڑے تھے تو اس کا واضح مطلب ہے کہ یہ سارا کام ملی بھگت سے ہوا ہے ۔
سوال: اس وقت ہمارے پاس سرپلس گندم موجود ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم اس کو ہنگامی بنیادوں پر ایکسپورٹ کریں تاکہ ہمارے کسانوں کو بھی ریلیف مل جائے اور ہماری اکانومی بھی بہتر ہو ؟
عبدالرحمٰن معظم:اس وقت عالمی منڈی میں گندم کا ریٹ 28سو روپے فی من ہے ۔ انڈیا میں اس وقت گندم پاکستان سے 1.5گنا سستی ہے ۔ اس لیے ہم ایکسپورٹ میں مقابلہ نہیں کر پائیں گے اور نہ ہی اس ریٹ پر گندم ایکسپورٹ کرکے کسان کو کچھ بچے گا بلکہ اُلٹا اس کا نقصان ہوگا کیونکہ یہاں کسان کا خرچہ ہی اتنا زیادہ ہوتاہے ۔ دو سال پہلے یوریا کی قیمت 45سوروپے فی من تھی آج تین گنا بڑھ چکی ہے ، اسی طرح ٹریکٹر کے لیے ڈیزل کا خرچہ ، پانی لگانے کے لیے بجلی کا خرچہ ، لیبر کا خرچہ، یہ سارے اخراجات جمع کر یں تو28سو روپے فی من میں تو یہ اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے۔گورنمنٹ نے ریٹ نکالا ہے کہ کسان کو 39 سور وپے فی من کے حساب سے پیسے ملنے چاہئیں جبکہ یہاں آرھتی 25 سو روپے من کی آفر دے رہے ہیں ۔کسان بے چارا کب تک گندم روک کر رکھے گا ۔ اس نے کھاد بھی ادھار پر لی ہوتی ہے ، زمین کا کرایہ بھی دینا ہے ، قرض جو لیا ہوا ہے وہ بھی واپس کرنا ہے ، لیبر کو بھی دینا ہے ۔ بعض اوقات آڑھتی سے بھی ایڈوانس رقم لی ہوتی ہے ۔ اس کے پاس نہ تو گودام ہیں اور نہ ہی وہ زیادہ دیر روک کر رکھ سکتا ہے، ذرا بارش ہوئی تو ساری گندم خراب ہو جائے گی ۔ اس لیے وہ خسارے پر آڑھتی کو دینے پر مجبور ہے اور اگر آڑھتی ایکسپورٹ بھی کرے گا تو اس کا کسان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ کسان کو نقصان نہ ہو ۔ ورنہ اگلے سال وہ گندم نہیں اُگائے گا اور ملک کو گندم امپورٹ کرنا پڑے گی جس سے آٹے کی قیمت میں مزید اضافہ ہوگا اور پھر یہ سرکل مسلسل نقصان کی طرف بڑھتا جائے گا کیونکہ یہ چیزیں پھر دیر سے ہی جا کر درست ڈگر پر آتی ہیں ۔ ایکسپورٹ کے لیے آپ کو لاگت کم کرنا پڑے گی ۔ یہاں کیمیکلز اور مشینری سمیت ہر چیز کسان کو بہت مہنگی پڑ رہی ہے ۔ لاگت کم کرنے کے لیے آپ کو کچھ بنیادی کام کرنے پڑیں گے ۔ جن میں ایک ری جنریٹیو فارمنگ (Regenerative Farming)ہے ۔
سوال: ری جنریٹیو فارمنگ کا تصور کیا ہے ؟
عبدالرحمٰن معظم:یہ جو چاول کی پرالی وغیرہ جلائی جاتی ہے جس کی وجہ سے سموگ پیدا ہوتا ہے ، آپ اسی پرالی کو ری جنریٹیو فارمنگ کے لیے استعمال کر سکتے ہیں ۔ اس کے لیے بیڈز بنائے جاتے ہیں، ڈرل کے ذریعے گندم کو بویا جاتاہے اور اس کے اوپر اس پرالی کو بچھایا جاتاہے ۔ اس وقت درجنوں کسان پاکستان میں یہ تجربہ کر رہے ہیں ، اس میں کھاد اور پانی کا استعمال بہت کم ہوتا ہے ، گوبر کا استعمال ہوتا ہے ۔ پیداوار بڑھانے کے لیے آپ بائیو گیس کا استعمال کر سکتے ہیں ۔
سوال: کیا فارمنگ کے اس طریقہ سے فی ایکڑ گندم کی پیداوار بڑھائی جا سکے گی ؟
عبدالرحمٰن معظم:اگرروایتی طریقے سے 40 من گندم پیدا ہورہی ہے تو ری جنریٹیو فارمنگ سے 50-45 من ہو رہی ہے مگر اس مقدار کو مزید بڑھایا جاسکتاہے ۔ فرض کریں روایتی طریقہ میں بیجائی کے لیے چھٹا مارا جاتا ہے ۔ ڈرل سے بیجائی کی جائے تو 5 من سے 10 من گندم کی پیداوار میں فی ایکٹر اضافہ ہو گا ۔ اس طریقے سے زرعی زمینی کی زرخیزی بھی محفوظ ہو جاتی ہے ۔ آپ دیکھیں اوکاڑہ وغیرہ جو بڑے فارمنگ کے علاقے ہیں وہاں سال میں چار چار فصلیں بھی اُگائی جاتی ہیں جس سے زمین کی زرخیزی ختم ہو تی جاتی ہے اور پیداوار کم ہوتی جاتی ہے ۔ جبکہ ری جنریٹیو فارمنگ سے ہماری زمین کی زرخیزی کے ساتھ ساتھ پیداوار بھی بڑھے گی مزید یہ کہ اخراجات بھی کم ہوں گے ۔ یہ جدید ٹیکنیکس ہمیں کسانوں کو سکھانا پڑیں گی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ مستقبل میں ہماری پیداوار اور ایکسپورٹ بڑھے تو اس کے لیے گورنمنٹ کو ذمہ داری ادا کرنا پڑے گی کہ وہ کسانوں کو جدید ٹیکنیکس سکھانے کا انتظام کرے ۔
سوال: ہمارے کسان رہنما کہہ رہے ہیں کہ اگر حکومت نے زرعی ایمرجنسی نافذ نہ کی اور کسانوں سے گندم خریدنا شروع نہ کی توہم احتجاج کریں گے۔ا گر یہ احتجاج ہوتاہے تو اس کے کیاا ثرات ہوں گے ؟
رضاء الحق: جہاں تک احتجاج کا تعلق ہے تو آئینی لحاظ سے ہر کسی کا حق ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے پرامن احتجاج کر سکتا ہے ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کسان کی مشکل حل ہو لیکن اگر اس کو سیاسی رنگ دیا گیا تو پھر مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اگر ہم نے اپنے مسائل کو حل کرنا ہے تو پھر ہر شعبہ میں ، ہر ادارے میں اہل لوگوں کو ذمہ داریاں دی جائیں ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں حکم دیا گیا ہے:
{اِنَّ اللہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُــؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَہْلِہَالا}(النساء : 58) ’’اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو‘‘
اس کی ایک زندہ مثال قرآن میں یہ بھی بیان ہوئی ہے کہ جب عزیز مصر کو خواب میں قحط کی صورتحال دکھائی گئی تو حضرت یوسف علیہ السلام نے اس کی تعبیر بتائی۔ پھر اُنہوں نے عزیز مصر کو کہا کہ یہ ذمہ داری میرے سپرد کر دو کیونکہ میں حفیظ اور علیم ہوں۔ اہلیت میں یہ دو چیزیں ہوتی ہیں ۔ ایک تو آپ امانت دار ہوں (کرپشن نہ کریں ) ، عہدے کا غلط استعمال نہ کریں ۔ دوسرا یہ کہ آپ کو جو ذمہ داری دی جارہی ہے اس کا آپ کے پاس علم بھی ہو ۔ اگر ایک ایسے شخص کو آئی ٹی منسٹر بنا دیا جائے جو کمپیوٹر چلانا بھی نہ جانتا ہو تو پھر پورا شعبہ برباد ہو جائے گا ۔ یہ ہمارے ہاں ہوتا رہا ہے اور ہورہا ہے ۔ ان چیزوں کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر کسانوں کے مسائل کو حل کرنا ہے تو حکومت اور اپوزیشن کو سیاست سے بالا تر ہو کر صرف ملکی مفاد میں فیصلے اور اقدامات کرنے ہوں گے ۔
سوال: گندم کا بحران ہویاچینی کا بحران ،ہمارے متعلقہ ادارے کھپت کا صحیح اندازہ لگا کر اس کے مطابق پیداوار یا تقسیم کے عمل کو ممکن کیوں نہیں بنا پاتے ؟ کیا یہ نیت کی کھوٹ کا معاملہ ہے یا واقعی اہلیت کا فقدان ہے ؟
عبدالرحمٰن معظم:دونوں چیزیں ہیں ۔ نیت کا کھوٹ بھی ہے اور اہلیت کا فقدان بھی ہے ، پلاننگ کا بھی فقدان ہے ۔ ہمیں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ہمارے کونسے صوبے میں، کونسے گودام میں کتنی گندم پڑی ہے ؟ آیا امپورٹ کی ضرورت بھی ہے یا نہیں ؟جب ہمارے پاس ڈیٹا ہی نہیں ہوگا تو ہم اندازہ کیسے لگائیں گے ۔ جبکہ باہر کے ممالک میں آپ دیکھ لیں ، حتیٰ کہ انڈیا میں حکومت کی سطح پرسال پہلے پلاننگ کر لی جاتی ہے کہ گندم کی کھپت کتنی ہوگی ، کپاس کتنی درکار ہوگی ، چاول کی ڈیمانڈ کتنی ہوگی اور اس کے حساب سے وہ پیداوار کو کنٹرول کرتے ہیں ۔ ہمارے ہاں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ آئندہ کس چیز کی ڈیمانڈ بڑھنی ہے اور کس کی کم ہونی ہے ۔ اگر ایک سال پیاز کا ریٹ بڑھ گیا ہے تو سارے پیاز ہی کاشت کرنا شروع کر دیں گے ، نتیجہ یہ ہوگا کہ اگلے سال پیاز کی مارکیٹ کریش کر جائے گی اور کسان کو نقصان ہو گا ۔ ہر سال یہی مسئلہ ہمارے ساتھ ہوتا ہے ، کبھی کہتے ہیں گندم کا بحران ہے ، جب کسان گندم کاشت کرتا ہے تو آپ امپورٹ کر لیتے ہیں اور کسان بے چارا مارا جاتاہے ۔ لہٰذا نہ تو ہمارے پاس وہ لیڈرشپ ہے جو پلاننگ کر سکے اور نہ ہی اہلیت ہے ۔
رضاء الحق: جو جدید معاشی منصوبہ بندی ہے اس میں آپ کو اپنے قومی مفاد کے تحت اپنی اکانومی کے بعض سیکٹرز کو تحفظ دینا پڑتا ہے ۔ اس کے لیے پیداوار کی لاگت کو کم کرنے اور رسد کو بڑھانے کے جدید طریقے اپنانا ہوں گے۔ اگرچہ آج کارپوریٹ فارمنگ کا کلچر دنیا میں آیا ہوا ہے اور اس امر کو یقینی بنا کر کہ چھوٹے کسان کی بجائے اشرافیہ اجارہ داری نہ بن جائے۔ اس کو بھی استعمال میں لایا جا سکتاہے ۔ دوسری طرف آپ کو کسان کو بھی مقابلے سے بچانا ہوگا ۔ یہ ساری منصوبہ بندی کرنا حکومت کا کام ہے ۔ اس کے لیے اگر آپ کو امپورٹ پر کچھ ڈیوٹیز بھی لگانی پڑیں تو وہ بھی لگائیں ۔ یقیناً IMFایسے فیصلوں سے خوش نہیں ہوگا لیکن ہمیں اپنے ملکی مفاد میں یہ سب کرنا ہوگا۔
سوال: پاکستان کے زرعی شعبے میں آڑھتی کا بہت اہم کردار ہے ۔ فصل اچھی ہو یا نہ ہو آڑھتی ہمیشہ کسان کی بہ نسبت فائدے میں رہتا ہے ۔ آپ کیا سمجھتے ہیں آڑھتی کے رول کو کم کرکے کسان کو فائدہ نہیں دلایا جا سکتا ؟
عبدالرحمٰن معظم:ایسی کوششیں بہت کی گئیں کہ ہم کسان کو براہ راست مارکیٹ یا صارف تک رسائی دے سکیں اور آڑھتی کا کردار درمیان میں نہ ہو لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے ۔ آڑھتی ایک کردار ہے جس کو ہم ختم نہیں کر سکتے۔البتہ کم یا ریگولیٹ ضرور کر سکتے ہیں ۔ اس کے لیے آپ اس کو ٹیکس نیٹ میں لا سکتے ہیں ، اس کا جو حصہ ہے اس کی حد مقرر کرسکتے ہیں لیکن آڑھتی کا کردار بہرحال رہے گا کیونکہ وہ کسان کوبروقت قرض دیتاہے ، بیج دیتاہے ۔ پھر یہ کہ کسان کے پاس گودام نہیں ہیں جبکہ آڑھتی کے پاس گودام ہوتے ہیں ۔ مجبوراً کسان کو آڑھتی کے پاس جانا ہی پڑتاہے ۔ اب یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ آڑھتی کو ریگولیٹ کرے ۔ ان کی کمپنیزکی باقاعدہ رجسٹریشن کرے ، ان کے منافع کی بھی حد مقرر کرے ، ان کو ٹیکس نیٹ کے اندر لے کر آئے ۔ ہمارے سامنے مثال موجود ہے کہ جب حکومت نے گاڑیوں کی خریدو فروخت پر ایکشن لیا تو اُون ختم ہو گیا اور ان کی قیمتیں ریگولیٹ ہو گئیں ۔ اسی طرح کا اقدام حکومت کو اس شعبے میں بھی کرنا ہو گا کیونکہ اس کو بھی ریگولیٹ کرنا ضروری ہے ۔
سوال: جب سے گندم سکینڈل منظر عام پر آیا ہے تو حکومت بھی حرکت میں آئی ہے کہ ہم ذمہ داران کا تعین کریں گے اور ان کو قرار واقعی سزا دیں گےوغیرہ ۔ نوازشریف نے وزیراعظم کو طلب کیا ہے اور وزیراعظم اس حوالے سے کمیٹیاں تشکیل دے رہے ہیں ، کابینہ کے خصوصی اجلاس بلائے جارہے ہیں جبکہ دوسری طرف ذمہ داران کہہ رہے ہیں کہ ہمارا کوئی قصور ہی نہیں ہے ۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ حکومت واقعی ذمہ داران کا تعین کرکے انہیں قرار واقعی سزا دے پائے گی ؟
رضاء الحق: ذمہ داران کا تعین کرنا جنتا اس کیس میں آسان ہے اتنا شاید کسی اور کیس میں نہ ہو کیونکہ آپ کے پاس پورا ٹریل موجود ہےکہ کون کس وقت موجود تھا، کس نے فیصلے لیے اور کس نے کس کے کہنے پر کتنے پیسے دے کرLCکھلوائی ؟ ظاہر ہے یہ کام فوڈ سکیورٹی کا تھا اور اس کا قلمدان نگران وزیراعظم کے پاس تھا ۔ گندم امپورٹ کرنے کا فیصلہ کابینہ اور SIFCکا تھا ۔ لہٰذا تعین کرنا کوئی مشکل نہیں ہے لیکن جہاں تک سزا کا معاملہ ہے تو پاکستان کی پون صدی کی تاریخ بتاتی ہے کہ آج تک کسی قومی مجرم کو سزا نہیں ہوئی۔ سیاسی اشرافیہ کے لوگ جب اپوزیشن میں جاتے ہیں تو سکینڈل سامنے آتے ہیں ، میڈیا پر واویلا ہوتاہے ، انکوائریاں شروع ہوتی ہیں ، پھر وہی لوگ حکومت میں آجاتے ہیں اور بات آئی گئی ہو جاتی ہے ۔ گندم سکینڈل کے معاملے میں اس سے کچھ مختلف ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ۔ جب تک کہ وہ نظام قائم نہ ہو جس کے لیے اس ملک کو قائم کیا گیا ہے ۔ اسلام میں کرپشن کی سخت ترین سزا ہے ۔ یہاں تک کہ ایک شخص نے مال غنیمت میں سے صرف ایک رسی اضافی اُٹھالی تو اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا کہ جس نے جہنمی کو دیکھنا ہے اس کو دیکھ لو۔ یعنی قومی اثاثے ، قومی خزانے میں معمولی کرپشن کی بھی اتنی سخت وعید ہے ۔قومی خزانے میں کرپشن کو بعض فقہا نے مال یتیم کو ہڑپ کرنے کے مترادف قراردیا ہے کیونکہ ملک کا جو مجموعی اثاثہ ہوتا ہے وہ بنیادی طور پر لوگوں کا ہے ، وہ کسی سرکاری آفیسر کا مال نہیں ہے ۔ سرکاری ملازمین کی حیثیت محض اس کے رکھوالے کی ہوتی ہے نہ کہ مالک کی اور جتنے اعلیٰ عہدیدار ہیں چاہے وہ فوجی ہوں ، سول ہوں ، حکمران ہوں ان کے پاس عہدے اللہ کی امانت ہیں۔ وہ امانت میں خیانت کریںگے تو اللہ کے سامنے بھی سخت مجرم قرار پائیں گے اور قومی مجرم بھی قرار پائیں گے ۔ اسی طرح اسلام میں بے جا منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کی بھی سخت سزائیں ہیں ۔ یہاں تک کہ اگر آپ غیر مسلم ممالک میں بھی دیکھیں ، جیسے امریکہ، برطانیہ ، چائنہ وغیرہ تو وہاں بھی کرپشن پرسخت سزائیں نافذ ہیں ، چائنہ اور روس میں تو باقاعدہ سزائے موت ہے ۔بہرحال جب تک ہم ملک کو صحیح معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست نہیں بناتے ہمارا بحیثیت قوم نظریہ نہیں بدلتا، حکمران اور مقتدر طبقات دنیا کے مقابلے میں آخرت کو ترجیح نہیں دیتے اُس وقت ملک میں سزا وجزا کا معاملہ ٹھیک نہیں ہو سکتا۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024