(گوشۂ تربیت) اَسرار کا کھوج - عبدالروف

10 /

اَسرار کا کھوج


عبد الرؤف

اعلیٰ نصب العین کا وہ میدان ،جوآج سے کم و بیش نصف صدی قبل اُس دور کی ایک عبقری شخصیت نے احساس فرض کے تحت  منتخب کیا تھا ،وہ پیشے کے اعتبارسے تو طبیب تھااور طبیب بھی اس دور کاجب پیشہ ٔ طبابت ایک معزز پیشہ سمجھا جاتا تھا اور طبیب حضرات آج کی طرح اپنی اسناد ہاتھوں میں لیے در بدر نہیں بھٹکتے پھرتے تھے، گویا ’’پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں‘‘
وہ چاہتاتو زر کی اس منڈی میں اپنا مول بڑھا کر دنیاوی لحاظ سے ایک اونچی اڑان اُڑ سکتاتھالیکن اس کا شمار ان لوگوں میں نہیں تھا جو طالبِ دنیا بن کر اپنی ساری توانائیاں چند روزہ عیش و عشر ت میں ضائع کردیتے ہیں بلکہ قرآن کاطالب ِعلم ہونے کے ناطے اس کے سامنے یہ حقیقت روز ِروشن کی طرح عیاں تھی کہ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے، اور یہ دنیا دارالاامتحان ہے جس میں رہ کر ہم نے ہمیشہ رہنے والی زندگی کے لیے تیاری کرنی ہے۔ اس لیے’’ بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں‘‘ کے مصداق اس نے اپنا اوڑھنا بچھونا ہی خدمت ِقرآن  جیسے عظیم مشن  کو بنا لیا تھا اور یہ کام اس نے اپنا پیشہ یا شوق سمجھ کر اختیار نہیں کیا تھا بلکہ امت کی گزشتہ ایک سو سال کی تاریخ کے گہرے مطالعہ اور زوال و انحطاط کے اس عمیق مشاہدے کے بعد ،جس کے متعلق مولانا حالی کے بقول ؂
اے خاصہ خاصانِ رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے 
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغرباء ہے
اس کے نزدیک آج دین کی اس غربت یا مغلوبیت  کی اصل وجہ ایمان ِحقیقی کا ناپید ہونا ہے، جبکہ قرآن میں اللہ کا وعدہ ہے کہ ’’اور تم ہی سربلند ہو گے اگر تم مومن ہو گے۔‘‘  ( آل عمران )۔ امت کے اس ضعفِ ایمان کی اصل وجہ اس کے نزدیک قرآن  سے دوری اور بحیثیت امت ہمارا قرآن سے زندہ تعلق ٹوٹ جانا ہے۔ اس مردِ خداکا کہنا تھا کہ جب تک امت کا قرآن سے ٹوٹا ہوا تعلق بحال نہیں ہوگا اس وقت تک امت زوال سے عروج کی طرف نہیں بڑھ سکے گی۔ لہٰذا اس بندہ خدا نے ،جس کا نام اس کے والدین  نے ’’اِسرار احمد‘‘ رکھا تھا ، زوال امت کے اَسرار کا کھوج لگاتے ہوئے بفجوائے فرمانِ نبوی ﷺ :     (( فِیْہِ نَبَاُ مَا قَبْلَکُمْ وَخَبَرُ مَا بَعْدَکُمْ )) ’’ اس میں  تمہارے پہلوں کی خبر یں بھی ہیں اور تمہارے بعد پیش آنے والے واقعات کی اطلاعات بھی) قرآن میں اس انداز سے غوطہ زنی کی کہ وہ کتاب عظیم جو اس سے پہلے صرف ’’خواص‘‘ کے حلقے تک محدود تھی ،عوام الناس اور دنیاوی تعلیم یافتہ حضرات کی اس تک رسائی نہ ہونے کے برابر تھی ،اس کتاب کی روشنی میں نہ صرف حالات حاضرہ کے مسائل کا حل دنیا کے سامنے پیش کیا بلکہ عوام الناس اور جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے ایک بہت  بڑے طبقہ کا اس کے ساتھ تعلق اس انداز سے جوڑ ا کہ ان کی متاع ِگم گشتہ  دوبارہ ان کے ہاتھوں میں آگئی۔ وہ لوگ ،جن کی زندگی  کا بیشتر حصہ مغربی نظام تعلیم کے زیرِ سایہ گزرا تھا جب ان کا تعلق اس خادم ِقرآن  کے ذریعہ قرآن عظیم  کے ساتھ جڑا تو وہ بزبانِ اقبال یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ؎
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی
جو اماں ملی تو کہاں ملی
میرے جرمِ خانہ خراب کو 
تیرے عفوِ بندہ نواز میں 
علاوہ ازیں اس بندہ خدا نے خدمتِ قرآن کے لیے جس ادارے کے بنیادی رکھی ،اس کا نام انجمن خُدام القرآن  اسم با مسمّی ہوگیا کیونکہ بعد ازاں اسی انجمن  کے بطن سے ارضِ لاہور میں پہلی قرآن اکیڈمی کا قیام عمل میں آیا  تھااور قرآن کی روشنی پھیلانے کے جس سفر کا آغاز لاہور سے ہوا تھا ،کراچی ، ملتان، فیصل آباد، پشاور، کوئٹہ ، جھنگ، سرگودھا اوراسلام آباد سے ہوتا ہوا نہ جانے کس کس مقام تک جا پہنچے۔ اس  کے سامنے اپنے دورِ طالب علمی میں ہی قرآن حکیم کے  منتخب مقامات  کے ذریعہ یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوچکی تھی کہ ’’ہمارا دین کیا ہے؟‘‘ اور’’ہماری دینی ذمہ داریاں کیا ہیں؟‘‘ لہٰذا ان سوالات کے جوابات کی تلاش میں وہ اس نتیجہ تک بھی پہنچ گیاکہ نبی اکر م ﷺ کے اسوہ ٔ حسنہ کی روشنی میں آج کے جدید تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے غلبۂ دین کے اہم ترین فریضہ کی ادائیگی کے لیے ایک منظم اسلامی انقلابی جماعت کا وجود ناگزیر ہے جو تو  حید پر مبنی نظریہ کو اس انداز میں پیش کرے کہ وہ مروّجہ  طاغوتی نظام کے خود ساختہ سیاسی، معاشی اور معاشرتی گوشوں پر تیشہ بن کر گرے اور منہج نبوی ﷺ کے نشان راہ پر چلتے ہوئے ایک ایسا عظیم انقلاب بر پا کردے جس کے ذریعہ بنی نوع انسان ہر قسم کے ظلم ، جبر اور استحصال سے آزادی حاصل کر کے مساوات، حرّیت اور اخوت کا وہ عملی نمونہ جدید دنیا کے سامنے پیش کر سکے جو آج سے چودہ سو برس قبل محمد رسول اللہ ﷺ نے دنیا کو دکھایا تھا۔ لہذا اس مقصد کے حصول کے لیے اس بطل جلیل نے ایک منظم جماعت قائم کی جو آج ’’تنظیم اسلامی‘‘ کے نام سے نہ صرف پاکستان بلکہ باقی دنیا میں بھی ایک پہچان رکھتی ہے اور اوّل دن سے اپنی اصل فکر کے ساتھ جڑ کر غلبۂ دین کی جدوجہد میں مصروف عمل ہے۔ 
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جو خواب ’’ڈاکٹر اسرار  احمد m‘‘نامی اس مردِ درویش نے دیکھا تھا اور اس کے لیے اپنی پوری زندگی کھپادی، اس خواب کو اللہ تعالیٰ شرمندۂ تعبیر کردے،اس مردِ جلیل کو فردوسِ اعلیٰ میں جگہ عطا فرمائے اور اسے متقیوں کا امام بنائے۔ آمین یارب العالمین!
ززز