(منبرو محراب) زندگی کے دو رویے :دو ہی نتائج - ابو ابراہیم

10 /

زندگی کے دو رویے :دو ہی نتائج

(سورۃ النازعات کی آیات 37 تا 41 کی روشنی میں)


مسجدجامع القرآن، قرآن اکیڈمی، کراچی میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے10 مئی 2024ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

 

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد!
قران حکیم میں اللہ تعالیٰ نے جا بجا جنت اور جہنم کا  ذکر فرمایاہے اورنتائج کے اعتبار سے صرف یہ دوہی مقامات  ہیں جو انسانوں کا آخری ٹھکانا بننے والے ہیں ۔ ان میں سے جو لوگ جنت میں جانے والے ہیں ان کی صفات بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بیان فرمائی ہیں اورجوجہنم میں جانے والے ہیں ان کے کرتوت بھی گنوائے ہیں ۔  سورۃ النازعات کی آیات 37 تا 41 میں بھی     اللہ تعالیٰ نے  بہت ہی مختصر مگر جامع الفاظ میں واضح کر دیا ہے کہ جنت کن خوش نصیبوں کے لیے ہے اور جہنم ایندھن کون بننے والا ہے۔ 
بنیادی طور پر انسانی رویے صرف دو طرح کے ہیں۔ایک یہ کہ انسان اس احساس ذمہ داری کے ساتھ زندگی گزارے کہ مجھے پیدا کرنے والے نے کسی مقصد کے تحت اس دنیا میں بھیجا ہے اور مرنے کے بعد میں نے جواب بھی دینا ہے لہٰذا ایسا انسان اللہ کی نافرمانی ، سرکشی ، گناہ سے بچتے ہوئے زندگی گزارے گا ۔ دوسرا وہ رویہ ہے کہ انسان غفلت ، سرکشی، بغاوت اور مادر پدر آزادی میں زندگی گزارتاہے ، خواہشات کے لیے جیتا ہے اور ان کو پورا کرنے کے لیے ہر گناہ ، ظلم اور برائی میںملّوث ہوجاتا ہے۔ زیر مطالعہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے کہ ان دونوں  رویوں کا نتیجہ بھی الگ الگ اور مختلف نکلے گا ۔ یہ نہیں کہ دنیا میں اچھائی اور فرمانبرداری کے راستے پر چلنے والے اور برائی اور سرکشی کے راستے پر چلنے والے، دونوں انسانوں کے لیے آخرت میں ایک جیسا ہی نتیجہ نکلے ۔ فرمایا : 
{فَاَمَّا مَنْ طَغٰی (37) وَاٰثَرَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا(38)  فَاِنَّ الْجَحِیْمَ ہِیَ الْمَاْوٰی(39)}’’پس جس نے سرکشی کی تھی۔اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی تھی۔تویقیناً اُس کا ٹھکانہ اب جہنّم ہی ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں انسان کی زندگی کا مقصد بھی دو ٹوک انداز میں بیان کر دیا ہے ۔ فرمایا:
{وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (56)} (الذاریات) ’’اور مَیں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر صرف اس لیے کہ وہ میری بندگی کریں۔‘‘
ایک لفظ میں اللہ نے بندگی کے کل تقاضے بیان کر دیے کہ میری بندگی اختیار کرو ۔ میرا کہا مانو ، میری فرمانبرداری کرو۔ یعنی عبادت صرف عقائد چند اعمال اور رسومات تک محدود نہیں ہے بلکہ کل زندگی میں اللہ کی فرمانبرداری  مطلوب ہے ۔ بندہ نماز میں کھڑا ہے، قربانی پیش کر رہا ہے، روزہ رکھ رہا ہےیا اللہ کے گھر کا طواف کر رہا ہے۔ یہ براہ راست اعمالِ عبادت ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی شریعت کے بہت سارے احکام بندوں سے متعلق ہیں۔ جب بندہ ان پر عمل کرتاہے تو وہ بھی عبادت والے اعمال بن جاتے ہیں ۔ مثلاً اللہ کا حکم ہے کہ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو ۔ اللہ کے پیغمبرﷺکا فرمان ہے کہ بندہ ماں باپ کومحبت کی نگاہ سے دیکھے تو ایک حج کا ثواب ملتا ہے ۔یعنی ماں باپ کو محبت سے دیکھنا بھی عبادت بن جائے گا اور اس کا ثواب ملے گا ۔ اسی طرح زندگی کے تمام تر معاملات میں چاہے وہ خوشی یا غمی کا معاملہ ہو ، گھر والوں سے رویہ کی بات ہو ، کاروبار ہو ، ملازمت ہو ، ہر معاملے میں اللہ کی فرمانبرداری کرنا عبادت یعنی اللہ کی بندگی ہے۔اسی طرح  اجتماعی سطح پر چاہے سیاست ہو ، معیشت ہو یا معاشرت ہو، ہر جگہ اللہ کی فرمانبرادری ہونی چاہیے ۔ یہ نہیں کہ ابھی مسجد میں باجماعت نماز پڑھی ہےاور پارلیمنٹ میں جاکر غیرشرعی قوانین کے حق میں رائے دے رہے ہیں ۔ ہرگزنہیں بلکہ اگر مسجد میں اللہ کو بڑا مانا ہے تو پارلیمنٹ    میں بھی اللہ کو بڑا ماننا ہو گا ۔ اسی طرح عدالت میں ،   ریاستی اداروں میں ، ہر سطح پر اللہ کا حکم مانا جائے ۔ اس کا نام بندگی ہے ۔ 
ذرا سوچئے! ہمارے کام کیا ہیں ؟ اللہ کا حکم ماننے کی بجائے امریکہ کے حکم پر ہر کام کر رہے ہیں ۔ الا ماشاء اللہ ! ہمارے تعلیمی اداروں میں کیا حرکتیں ہو رہی ہیں ؟ امریکی تعاون اور فنڈنگ کے ساتھ ہم جنس پرستوں کا پورا ایک میوزیکل بینڈ پاکستان بھجوایا گیا تاکہ یہاں کے تعلیمی اداروں میں بے حیائی کو عام کیا جائے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ   بے حیائی سے منع کرتاہے ۔ پھر امریکہ کی طرف سے تقاضا آیا کہ یہاں تعلیمی اداروں میں میوزک کے ساتھ ساتھ ڈانس بھی ہوناچاہیے ۔ پھر حکم آیا کہ تعلیمی اداروں میں شطرنج کی پریکٹس کروائی جائے اور ہماری وزارت تعلیم نے فوراً حکم بجالاتے ہوئے نوٹیفیکیشن جاری کردیے ۔ مزاحمت کے خوف سے ڈانس اور میوزک کا نوٹیفیکیشن تو روک دیا گیا لیکن شطرنج سکھانے کا جاری ہوا۔ پھر پنجاب کی یونیورسٹیز میں موسیقی کے مقابلے کرانے کا پلان سامنے  آگیا ۔ ذرا سوچئے ! ہم کس کا حکم مان رہے ہیں ؟ کیا اللہ کی عبادت صرف چند نمازوں ، رمضان کے روزوں اور جمعہ کی دورکعت تک محدود ہے ؟ہرگز نہیں بلکہ اللہ کی عبادت گھر میں بھی مطلوب ہے ، باہر بھی مطلوب ہے ، پارلیمنٹ میں ،ریاست کی سطح پر ، ریاست کے ہر ادارے میں ، حکومت کے ہر ادارے میں بھی مطلوب ہے ۔  
آج ریاست کی رٹ کی باتیں ہورہی ہیں ۔  بھئی کیا یہ ریاست ہمارے بزرگوں نے امریکہ کے لیے لی تھی ، شیطنت کے لیے لی تھی ، اپنے بچوں اور بچیوں کو بھانڈ اور مراثی بنانے کے لیے لی تھی ؟ سودی نظام کو مسلط کرکے اللہ اور اس کے رسولﷺ سے جنگ کے لیے لی تھی ؟ امریکہ کے سامنے جھک کر اللہ سے سرکشی کرنے اور بغاوت کرنے کے لیے لی تھی ؟ ایسے ہی سرکش اور باغی لوگوں کو اللہ تعالیٰ سورۃالنازعات کی آیات 37 تا 39 میں تنبیہ کر رہا ہے!
خدا کی قسم یہ اللہ کا زندہ کلام ہے ۔فرمایا : 
{لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ کِتٰـبًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْ ط اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(10)}(الانبیاء) ’’(اے لوگو!) اب ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب نازل کر دی ہے‘ اس میں تمہارا ذکر ہے ۔ تو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟‘‘ 
اگر میں ایک باپ ہوں ، گھر کا سربراہ ہوں تو دیکھوں کہ اللہ کے احکامات پر گھر میں عمل ہورہا ہے یا  ایک ادارے کا سربراہ ہوں تو دیکھوں کہ ادارے کے تحت جو بھی کام ہورہے ہیں ان میں کہیں اللہ کی نافرمانی تو نہیں ہورہی ؟ اگر جج کی کرسی پر بیٹھا ہوں تو دیکھوں  کہ فیصلے اللہ کے حکم اور رسول اللہ ﷺ کے مطابق ہورہے ہیں یا نہیں ہورہے ۔ ممبر آف پارلیمنٹ ہوں تودیکھو ں کہ کوئی قانون سازی اللہ کے حکم کے خلاف تونہیں ہورہی ؟ ریاست کا حکمران ہوں تو دیکھوں کہ ریاست میں اللہ کا حکم غالب ہے یا نہیں ہے؟ یہ بندگی کا، عبادت کا تقاضا ہے ۔ اگر ہم ایسا نہیں کر رہے تو پھر فیصلہ رب کا ہے : 
دنیا عارضی ٹھکانہ ہے ۔ ہر چند دنوں کے بعد  ہم کسی کے انتقال کی خبر سنتے ہیں ، نماز جنازہ میں بھی شرکت کرتے ہیں ، اس میں ہمارے لیے بھی پیغام ہے کہ : 
{کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ ط}(آل عمران:185)  ’’ہر ذی نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔‘‘
موت عمر کی حد نہیں دیکھتی ، کسی بھی وقت، کسی کو بھی آسکتی ہے ،  روز اپنی آنکھوں کے سامنے ہم اس کا مشاہدہ کرتے ہیں ،بس اتنی سی اس دنیا کی حقیقت ہے کہ آنکھیں بند ہوئیں تو یہ دنیا ختم ۔ اصل اور ہمیشہ کی زندگی آخرت کی زندگی ہے ۔ اس عارضی دنیا میں تھوڑی سی لذتوں کے لیے ، 
 اس کی محبت میں ڈوب کرانسان آخرت کو فراموش کر دیتا ہے ، سرکشی اور بغاوت پر اُتر آتاہے ، حلال حرام کی تمیز  چھوڑ دیتا ہے۔ لیکن جتنی بھی سرکشی اور بغاوت کرلے ، آخر جانا اسے اللہ کے پاس ہی ہے ۔ فرعون اور نمرود کتنے سرکش اور باغی تھے ۔کتنی دنیا حاصل کی لیکن انجام کیا ہوا ۔ فرمایا:
{فَالْیَوْمَ نُـنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَـکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃًط}(یونس:92) ’’تو آج ہم تیرےبدن کو بچائیں گے تاکہ تُواپنے بعد والوں کے لیے ایک نشانی بنا رہے ۔‘‘
فرعون کی لاش آج بھی عبرت کے لیے موجود ہے ۔ اس سے ان لوگوں کو سبق سیکھنا چاہیے جو چند ٹکوں کی خاطر ایمان کا سودا کر لیتے ہیں ، چند دنیوی مفادات کے لیے پوری قوم کا سودا کر دیتے ہیں ، دنیوی مفادات کی خاطر امریکیوں کے سامنے جھک کر اللہ کے احکامات کو توڑ رہے ہیں ۔ عارضی دنیا کے لیے ہمیشہ کی آخرت کھوٹی کر رہے ہیں ۔ حالانکہ یہ دنیا بھی کتنی حقیر ہے ۔ ایک بکری کا مردہ بچہ کچرے کے ڈھیر پر پڑا تھا ،اللہ کے رسول ﷺ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا :’’ کون تم میں سے اس کو ایک درہم میں خریدے گا؟ صحابہ کرام ؓ نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ !   یہ تو مردار ہے ، اسے کون خریدے گا ۔ فرمایا : اللہ کی قسم جتنا یہ بکری کا مردار بچہ تمہاری نگاہوں میں کمتر ، حقیر اور ذلیل ہے، دنیا اور اس کا مال و اسباب اللہ تعالیٰ کی نگاہوں میں اس سے زیادہ کمتر ،حقیر اور ذلیل ہے ۔ دوسری حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:  ہلاک ہو گیا درہم کا بندہ اور دینار کا بندہ ۔ یعنی روپے ، پیسے اور ڈالر کا بندہ جو مالی فائدے کے لیے ، اپنا ایمان ، اپنی قوم حتیٰ کہ اپنے ملک کا مفاد بیچ دیتا ہے ۔ ہم نے کتنی مرتبہ ملک کو امریکہ کی جنگ میں جھونک دیا، کس لیے ؟ صرف ڈالر کے لیے ۔ امریکہ کو اڈے دے کر اپنے مسلمان بھائیوں پر حملے کروائے ، افغانی بھائیوں کو شہید کروایا ، چند ہزار ڈالروں کی خاطر بعضوں نے مسلمانوں کو امریکہ کے حوالے کر دیا، دنیا میں واحد اسلامی حکومت کو ختم کروایا ۔ کیا جواب دیں گے اللہ کے سامنے ؟ ہم نے کیا حاصل کیا ؟
آج تھوڑی سی گرمی کراچی میں پڑ گئی پسینے     بہہ رہے ہیں ۔ یہ دنیا کی گرمی ہے جو ہمیں پریشان کر دیتی ہے۔ بخاری شریف کی حدیث ہے جہنم کی آگ اس دنیا کی آگ سے 69 گنا زیادہ شدید ہے ۔ صرف آگ ہی نہیں بلکہ جہنم کے کئی عذابوں کی وعید سے قرآن بھرا ہوا ہے ۔ زیر مطالعہ آیات میں جہنم میں جانے والوں کی دو نشانیاں بیان ہوئیں ۔ 1۔ اللہ کے حکم کے مقابلے میںاپنی  مرضی چلانےوالے ۔ 2 ۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو ترجیح دینے والے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان علامات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ! 
اگلی دو آیات میں اہل جنت کی بھی دو نشانیاں بیان ہوئی ہیں ۔ 
{وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰی (40)}’’اور جوکوئی ڈرتا رہا اپنے ربّ کے حضور کھڑا ہونے (کے خیال) سے ‘ اور اُس نے روکے رکھا اپنے نفس کو خواہشات سے۔‘‘
اللہ کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف ایسی چیز ہے جو انسان کو اللہ کا فرمانبردار بندہ بناتی ہے ۔قرآن میں فرمایا:
{وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ (46)} (الرحمٰن) ’’اور جو کوئی اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرتا رہا اُس کے لیے دو جنتیں ہیں۔‘‘
جنت کی وسعتوں اور اس کی نعمتوں کا صحیح ادراک ہم اس دنیا میں نہیں کر سکتے ۔ حدیث میں ہے کہ آخری بندہ جس کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا اس کی جنت اس ہماری دنیا سے 10 گنا بڑی ہوگی۔ یہ کراچی کی بات نہیں ہو رہی، پاکستان اور ایشیا کی بات نہیں ہو رہی، پوری دنیا کی بات ہو رہی ہے ، اس سے 10 گنا بڑی جنت آخری جنتی کو ملے گی تو جو پہلے جنت میں داخل ہوں گے ان کی جنت کا عالم کیا ہوگا ؟ مگر یہ جنت انہیں ملے گی جن میں پہلی علامت یہ ہوگی کہ وہ اللہ کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتے رہے ۔ بچہ امتحان میں فیل ہو جائے تو باپ کا سامنا نہیں کر سکتا ، کمپنی کا منیجر کسی ورکر کو پروجیکٹ کےلیے بھیجتاہے ، ورکر ناکام ہو جائے تو واپسی میں منیجر کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتاہے ۔ ذرا سوچئے ! اللہ کا ڈر ہے کہ نہیں ؟ ہمارے حکمرانوں کو امریکہ کا ڈر ہے کہ وہ ناراض نہ ہو جائے ، امریکہ ہمیں دیکھ رہا ہے ، کیا اللہ بھی ہمیں دیکھ رہا ہے یا نہیں دیکھ رہا ؟ یہ انفرادی مسئلہ بھی ہے ، خاندان والے ناراض نہ ہو جائیں ، باس ناراض نہ ہو جائے ،اللہ کی مخلوق کا اتنا ڈر ہے ، اللہ کا بھی ڈر ہے کہ نہیں ؟ اللہ فرماتا ہے :
{اَتَخْشَوْنَہُمْ ج فَاللہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْہُ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(13)}  ’’کیا تم ان سے ڈر رہے ہو؟ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو اگر تم مؤمن ہو ۔‘‘
اللہ ہمیں پیدا کرنے والا ہے ، ساری نعمتیں اسی کی ہیں اور جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے اُسی کا دیا ہوا ہے۔ اس احساس کے ساتھ اللہ کی ناشکری سے بچنا، یہ بھی اللہ سے ڈرنا ہے ۔ قرآن کے اس آخری پارہ میں تزکیہ نفس کا بار بار ذکر آیا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰىہَا(9)}(الشمس)
 ’’یقیناً کامیاب ہو گیا جس نے اس (نفس) کو پاک کر لیا۔‘‘
{قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی(14)}(الاعلیٰ) 
’’یقیناً وہ کامیاب ہو گیا جس نے خود کو پاک کر لیا۔‘‘
تزکیہ نفس کیسے ہوگا ؟ اس حوالے سے اہل علم نے تین اہم باتیں بتائی ہیں : 
1۔ بندہ اپنے آپ کو شرکیہ عقائد ، کفریہ عقائد ، الحاد اور نفاق سے بچائے کیونکہ یہ چیزیں بندے کو جہنم میںلے جانے والی ہیں ۔ باطن کی بیماریوں میں تکبر بھی شامل ہے، تھوڑی کامیابی بندے کو مل جائے ، پیسہ آجائے تو تکبر آجاتاہے ۔ تکبر سے بچنابھی تزکیہ نفس کے لیے ضروری ہے ۔
2۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ  نے جن چیزوںکو حرام قراردیا ہے ، ان سے بچنا ، جیسا کہ شراب ، جوا ، سٹہ وغیرہ ۔ خواہش نفس کی ایسی پیروی سے بچنا جس سے رب کا حکم ٹوٹتا ہو ۔ 
 3۔ اللہ نےکوئی نعمت عطا کی ہے ، صلاحیت دی ہے ، علم یا ہنر دیا ہے ، مال و دولت دی ہے ، نیکی کی توفیق دی ہے تو ریاکاری سے بچنا ۔ کیونکہ ریاکاری بھی اعمال کو تباہ کرنے والی چیز ہے ۔ 
اللہ کی جنت سستی نہیں ہے۔بچوں کے گریڈز بھی جان لگائے بغیرنہیں آتے ، مہینے کی تنخواہ جان کھپائے بغیر نہیں ملّی ، چند ہزا ر ، لاکھ یا کروڑ کا پرافٹ رسک لیے بغیر نہیں آتا ۔ کیا اللہ کی جنت اتنی سستی ہے کہ بغیر محنت اور کوشش کے آسانی سے مل جائے گی ۔ ذرا غور کیجیے !ہم    ہر نماز کی ہر رکعت میںپڑھتے ہیں : 
{مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ0} کبھی ہوش و حواس میں رہ کر اور انہماک کی کے ساتھ غور و فکر کر کے بھی ہم نے سوچا ہے کہ ہم کیا پڑھ رہے ہیں ؟ خدا کی قسم! اگر ہم سوچ سمجھ کر دو چار مرتبہ بھی دہرا لیں کہ اللہ بدلے کے دن کا مالک ہے توہم ہر برائی کو چھوڑ دیں ، ہر گناہ سے دور ہو جائیں ، پورا معاشرہ ٹھیک ہو جائے ،یہ رشوت ستانی ، یہ کرپشن ، یہ لوٹ مار ، یہ ظلم و جبر اور قتل و غارت گری سب رُک جائے کیونکہ ہمیں احساس ہوگا کہ کل اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے ۔ اللہ کی جنت سستی نہیںہے ۔ کسی نے پوچھا جنت کا راستہ کونسا ہے ۔ جواب دیا گیا : ایک قدم اپنے نفس پر رکھو دوسرا جنت میں ۔جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی سے اپنے آپ کو روکا تو بے شک اس کے لیے جنت ہے ۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو جہنم سے محفوظ رکھے اور اپنے فضل سے جنت الفردوس کا اہل بنائے۔ آمین !