(اداریہ) ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کی تاریخ - خورشید انجم

10 /
اداریہ
خورشید انجم
ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کی تاریخ
(حصّہ دوم، گزشتہ سے پیوستہ)
 
روتھ شیلڈ خاندان سولہویں صدی کے اواخر میں جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں اپنے آبائی گھر کے حوالے سے مشہور ہوا۔خاندان کا سربراہ مائر امشیل روتھ شیلڈ اشکنازی یہودی تھا۔موصوف کے پانچ بیٹے تھے۔ روتھ شیلڈ خاندان نے ابتدا ہی سےعالمی معیشت، سودی بینکاری اور بین الاقوامی فنانس کو تختۂ مشق بنایا۔ 1690ء میں برطانیہ کو فرانس کے ہاتھوں عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ برطانوی بحریہ مکمل طور پر تباہ و برباد ہوگئی۔ 1.2ارب پاؤنڈ تعمیر ِنو کے لیے درکار تھے۔برطانوی حکومت کے پاس یہ رقم حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔سودی قرضہ تک نہ مل رہا تھا۔ ایسے میں اس صہیونی خاندان نے بینک آف انگلینڈ قائم کرنے کی تجویزدی۔ جب 1694ء میں برطانوی پارلیمنٹ نے ایک قانون کے ذریعے بینک آف انگلینڈ کا چارٹر منظور کیا تو اس حکم نامے کے ساتھ ہی اس بینک کو یہ اختیار بھی دے دیا گیا کہ وہ کاغذ کے نوٹ جاری کر سکے گا۔ بینک آف انگلینڈ کا چارٹر ملتے ہی روتھ شیلڈ خاندان کے سربراہ نے اپنے بچوں کو یورپ کے تمام بڑے بڑے شہروں میں بینک قائم کرنے کے لیے روانہ کیا۔ پانچ بیٹوں نے یورپ کےپانچ بڑے شہروں لندن، پیرس، ویانا، نیپلزاور فرینکفرٹ میں سود پر قرضہ دینے کا دھنداشروع کیا۔ وہ خاص طور پر فنانس کے حوالے سے برطانیہ، جرمنی اور سلطنت روم کی باقیات میں اہم مقام بنانے میں کامیاب ہوگئے اوراہم حکومتی عہدوں پر فائزہو گئے۔ ان بچوں میں سے ناتھن مائر روتھ شیلڈ کو انگلینڈ کے مرکزی بینک کا سربراہ بنا دیا گیا۔ اس وقت سے لے کر اب تک یہ خاندان بینکاری، انوسٹمنٹ اور دیگر معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے دنیا بھر میں سب سے بڑا خاندان سمجھا جاتا ہے۔مغرب میں اپنے قدم جمانے کے بعد روتھ شیلڈخاندان نے پسِ پردہ بادشاہ گری کا بیڑہ اٹھایا اور عالمی ڈیپ سٹیٹ کے اہم ترین کردار کے طور پر ابھرا۔کہا جاتا ہے کہ ان کی بینکاری نے یورپ کی سیاسی تاریخ کو تراشا ہے۔ برطانیہ کواسی خاندان کے قرض نے ایک بڑی عالمی قوت بنا دیا اور یوں (کالونیل ازم )کے دور کی بنیاد رکھی گئی۔
        ایک واقعہ ،جو تاریخ میں انتہائی مشہور ہے ،قارئین کی دلچسپی کے لیے بیان کئے دیتے ہیں۔ ناتھن مائر روتھ شیلڈ نے نپولین کے خلاف جنگ میں برطانوی فوج کی خوب مدد کی۔ سونے اور چاندی کے سکوں کے انبار سودی قرضہ کے طور پر دیے۔ بے تحاشا اسلحہ فراہم کیا۔ 1815 ءمیں نپولین کو واٹرلو کے میدان میں برطانوی فوج کے ہاتھوںشکست ِفاش ہوئی۔ روتھ شیلڈ خاندان کےفرانس میں موجود نمائندے نے نپولین کی شکست کی خبر لندن میں بیٹھے ناتھن مائر روتھ شیلڈ کو فوراً پہنچا دی۔ ناتھن مائر روتھ شیلڈ نے لندن میں یہ افواہ عام کردی کہ برطانوی فوج کو نپولین کے ہاتھوں شکست ہو گئی ہے۔نتیجہ یہ نکلا کہ برطانیہ کی سٹاک مارکیٹ شدید مندی کا شکار ہو گئی۔ روتھ شیلڈ خاندان نےکوڑیوں کے بھاؤ سٹاک مارکیٹ کے تمام بڑے شیئرز خرید لیے گویاپوری برطانوی معیشت خرید لی۔اگلے روز جب اصل حقیقت سامنے آئی کہ شکست درحقیقت نپولین کو ہوئی ہے توسٹاک مارکیٹ میں قیمتیں ایک دم آسمان سے باتیں کرنے لگیں اور یوں یہ خاندان راتوں رات کھربوں پاؤنڈ اور برطانوی معیشت کا مالک بن گیا۔پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران روتھ شیلڈ خاندان کے افرادایک طرف اتحادیوں کو سودی قرضہ اور اسلحہ فراہم کرتے تودوسری طرف جرمنوں کو۔خاندان کا تیسرا نمائندہ راک فیلر خاندان کی صورت میں امریکہ میں بھی موجود تھا جس نے امریکی صدرکےتذبذب کے باوجود امریکہ کو جنگ میں گھسیٹنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر دور کا بڑا سرمایہ دار،معیشت اور سیاست دونوں پر اثر رکھتا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ اشکنازی یہودی ہونے کے ناطے روتھ شیلڈ خاندان کی مذہب (یہودیت) اور خاص طور پرارض مقدس یعنی فلسطین سے خاص دلچسپی رہی ہے۔ وہ اپنی دولت اور طاقت کو مذہبی مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال بالفور ڈیکلریشن ہے۔ گزشتہ ایک صدی میں انسانی تاریخ پر خوفناک اثرات مرتب کرنے والا بالفور ڈیکلریشن، جس کے باعث مسلمان اُمت گزشتہ پچہتر سال سے آگ اور خون میں نہا رہی ہے، اُسے 2 نومبر 1917ء کو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے ایک خط کی صورت میں روتھ شیلڈ خاندان کے اُس وقت کےسربراہ لیونل والٹر روتھ شیلڈ کو لکھا تھا۔ اس خط میں یہ تحریر کیا گیا تھا کہ برطانوی حکومت اپنی تمام قوتیں اس مقصد کے حصول کے لیے لگائے گی کہ فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کے لیے ایک وطن تخلیق کیا جائے۔ بالفور ڈیکلریشن سے قبل سوئٹزرلینڈ کے شہرباسل میں عالمی صہیونی تنظیم کے بڑوں کے اہم ترین اجتماع میں گریٹر اسرائیل کا مکمل روڈ میپ منظور کیا گیا۔
1904ء میں دنیا بھر کےصہیونی نمائندوں نے برطانیہ کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا اور ساتھ ہی یروشلم کے آس پاس کے علاقوں میں جا کر آباد ہونے کی خفیہ کوششیں شروع کر دیں۔ خلافتِ عثمانیہ میں فلسطین کے علاقے میں یہودیوں پر زمین خریدنے کی پابندی تھی۔ سید ابو الاعلیٰ مودودیؒاپنی تصنیف ’’القدس ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’طویل سالوں کی سازشوں اور منصوبہ بندی کے بعد 1901ءمیں تھیوڈور ہرزل نے سلطان عبدالحمید خان، سلطانِ ترکی کو باقاعدہ پیغام بھجوایا کہ یہودی ترکی کے تمام قرضے ادا کرنے کو تیار ہیں، آپ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کی اجازت دے دیں مگر سلطان عبدالحمید خان نے اس پیغام پر تھوک دیا اور صاف کہہ دیا کہ ’’جب تک میں زندہ ہوں اور جب تک ترکی سلطنت موجود ہے اس وقت تک اس کا کوئی امکان نہیں ہے کہ فلسطین یہودیوں کے حوالے کیا جائے۔ تمہاری ساری دولت پر میں تھوکتا ہوں۔‘‘ جس شخص کے ہاتھ یہ پیغام بھیجا گیا تھا اس کا نام تھا حاخام قرہ صوآفندی۔ یہ سالونیکا کا یہودی باشندہ تھا اور ان یہودی خاندانوں میں سے تھا جو سپین سے نکالے جانے کے بعد ترکی میں آباد ہوئے تھے۔سلطان عبدالحمید خان کا یہ جواب سُن کر ہرزل کی طرف سے ان کو صاف صاف یہ دھمکی دے دی گئی کہ تم اس کا بُرا نتیجہ دیکھو گے۔ چنانچہ اس کے بعد فوراً ہی سلطان عبدالحمید کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازشیں شروع ہو گئیں جن میں فری میسن، دونمہ(سباتائی یہودی) اور وہ مسلمان نوجوان شریک تھے جو مغربی تعلیم کے زیر اثر آ کر ترکی کی قوم پرستی کے علمبردار بن گئے تھے۔ ان لوگوں نے ترک فوج میں اپنے اثرات پھیلائے اور سات سال کے اندر ان کی سازشیں پختہ ہو کر اس منزل پر پہنچ گئیں کہ سلطان عبدالحمید کو معزول کر دیں۔ اس موقع پر جو انتہائی عبرتناک واقعہ پیش آیا وہ یہ تھا کہ 1908ءمیں جو تین آدمی سلطان کی معزولی کا پروانہ لے کر ان کے پاس گئے تھے ان میں دو ترک تھے اور تیسرا وہی حاخام قرہ صوآفندی تھا جس کے ہاتھ ہرزل نے فلسطین کو یہودیوںکے حوالے کرنے کا مطالبہ سلطان کے پاس بھیجا تھا۔ (بحوالہ: القدس از سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ)
روتھ شیلڈ کے شاطرانہ ذہن نے ایک خفیہ ترکیب سوچی اور اس نے اس پر عمل درآمد شروع کر دیا۔ 1909ء میں روتھ شیلڈ دنیا بھر سے ساٹھ یہودی سرمایہ داروں کو لے کر خلافتِ عثمانیہ کے علاقے یروشلم سے تقریباًساٹھ کلو میٹر دُورپہنچا اورتِل ابیب شہر کو بسایا جو آج ناجائزصہیونی ریاست اسرائیل کا دار الحکومت ہے۔ صہیونیوں نے 1917ء سے 1948ء تک دہشت گردی اور دھونس سے فلسطینیوں کے علاقے چھینے۔ تِل ابیب کی سب سے قدیم سڑک کا نام روتھ شیلڈ بلیوارڈ ہے۔اسی سڑک پر موجود ایک ہال میں 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کی آزادی کا اعلامیہ پڑھا گیا اور اس پر دستخط ہوئے۔ اسے اپنی لونڈی اقوامِ متحدہ سے تسلیم کروایا گیا۔ روتھ شیلڈ کے ہمراہ آنے والے ساٹھ خاندان اسی سڑک اور صہیونیت کے بانی تھیوڈورہرزل کے نام والی سڑک پر آباد ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ روتھ شیلڈ خاندان نے صہیونیت کے فروغ اور صہیونی عزائم کے راستے میں رکاوٹیں دور کرنے کا بیڑا اُٹھائےرکھا۔ دنیا بھر کے مالدار صہیونیوں نے مغربی ممالک کے سرمایہ اور سیاست پربتدریج قبضہ جما لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کی پون صدی کی تاریخ فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام، نسل کشی اوردرندگی و بہیمیت سے بھری پڑی ہے۔ دنیا بھر سےصہیونی آباد کاروں کو لاکراور فلسطینیوں کی بستیوں کو مسمار کرکے یہودی آباد کاری کا وہ سلسلہ ، جس کا آغاز 1948ء کے نکبہ سے کیا گیا تھا آج تک جاری ہے۔ 1967ء میں شام، اردن اور مصر کے علاقے چھینے اور مشرقی یروشلم و مغربی کنارہ پر قبضہ جمایا۔ 1947ء میںارضِ فلسطین کے  7فیصد رقبہ پر یہودی قابض تھے آج 80 فیصد سے زیادہ پر قابض ہیں۔ 1982ء میں لبنان کے صابرا اورشاتیلا کے کیمپوں میں تین دن تک سابق اسرائیلی وزیراعظم ایریل شیرون کی سرکردگی میںہر رات 3 ہزار بچوں کو شہید کیا گیا۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ، اوسلو معاہدہ اور ماضی قریب میں ابراہام اکارڈز کے ذریعہ مصر، اردن، امارات، بحرین، مراکش،  اومان اور سوڈان کو رام کیاگیا۔ پھر یہ کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے مابین تعلقات کے قیام پر تیزی سے کام آگے بڑھ رہا تھا۔ غزہ کو 20 سال سے دنیا کی سب سے بڑی اوپن ایئر جیل بنایا ہوا ہے۔ جس میں محصور25 لاکھ فلسطینیوں کا آج قتل ِعام جاری ہے۔ مغربی کنارےاور دیگر فلسطینی علاقوں میں ہر سال سینکڑوں فلسطینیوں کو شہید کر دیا جاتا ہے۔2017ء میں بنیادی یہودی شہریت کا قانون پاس کیا گیا ہے جس کے تحت اسرائیل کے مکمل شہری صرف یہودی ہوں گے اور فلسطینی عربوں کو دوسرے درجے کا شہری قرار دیا گیا۔ 2023ء کے پہلے 9 ماہ کے دوران مسجد اقصیٰ کی حرمت کو 23 مرتبہ پامال کیا گیا ہے اور7 اکتوبر سے چند روز قبل 5000 صہیونی آباد کار، جو تربیت یافتہ فوجی ہوتے ہیں اور اُنہیں فوج کے reservist کا درجہ حاصل ہوتا ہے، اُنہوں نے مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کی۔ یہ وہ پس منظر تھا جس میں دہائیوں سے پِسے ہوئے غزہ کے مظلوم و لاچار مسلمانوں نے 7 اکتوبر 2023ء کا اقدام کیا۔ 8اکتوبر 2023ء سے اسرائیل نے غزہ پروحشیانہ بمباری کا آغاز کیا جو گزشتہ سات ماہ سے مسلسل جاری ہے۔ آئندہ اداریہ میں مسجد ِاقصیٰ کی حرمت ،اہلِ فلسطین کی عملی مدد اور صہیونیوںکی ناجائز ریاست اسرائیل کے حوالے سے مسلمان ممالک کےبالعموم اور پاکستان کے بالخصوص کرنے کے کاموں پر گفتگو ہو گی۔ ان شاء اللہ!  (جاری ہے)