(دین و دانش) ایمانی زندگی - مولانا محمد اسلم شیخوپوریؒ

10 /

ایمانی زندگی

مولانا محمد اسلم ؒ

زندگی بھی عجیب چیز ہے اس سے ہر کوئی محبت کرتا ہے، ہر شخص زندگی کا تحفظ چاہتا ہے، ہر کوئی زندہ رہنا چاہتا ہے، انسان آخری دم تک موت سے لڑتا ہے اور زندگی کو بچانے کی کوشش کرتا ہے، دنیا کے سارے نظارے زندگی ہی کی بدولت ہیں۔ کسی کے خیال میں زندگی ایک خواب ہے اور موت اس کی تعبیر ہے۔ کسی کی سوچ یہ ہے کہ زندگی برف کی ایک سِل ہے جسے زمانے کی تپش مسلسل پگھلا رہی ہے۔ کسی نے زندگی کو ہوا کے رُخ پر رکھا ہوا چراغ قرار دیا ہے۔ کسی نے زندگی کو موت کا پہلا زینہ سمجھا ہے۔ کسی نے زندگی کو آخرت کا پل بتایا ہے۔ کسی نے زندگی کو پھول کہا، کسی نے کانٹا کہا۔ کسی نے بچے کی معصوم مسکراہٹ کو زندگی بتایا، کسی نے جہد مسلسل کو زندگی کا نام دیا۔ میں اگر زندگی کے بارے میں عقلاء ، علماء، مفکرین اور فلاسفہ کے اقوال بتانا شروع کروں تو بات بہت طویل ہو جائے گی، آئیے! میں آپ کو زندگی کے پانچ ادوار اور پانچ قسموں کے بارے میں آگاہ کروں تاکہ ہم سب یہ جان سکیں کہ ہمیں کون سی زندگی گزارنی چاہیے۔
محترم قارئین! زندگی تو ایک ہے لیکن مختلف حالات کے اعتبار سے ہم زندگی کو پانچ ادوار یا پانچ قسموں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
زندگی کا پہلا دور حیوانی زندگی ہے، اس دور میں اصل مقصد محض زندگی کو گزارنا ہوتا ہے یعنی کھانا ، پینا، گرمی، سردی کا احساس، ہم جنسوں سے محبت، کھیل کود وغیرہ۔ جب بچہ بالکل چھوٹا ہوتا ہے تو اس کے لیے سب سے زیادہ اہمیت کھانے پینے کی ہوتی ہے۔ وہ گرمی، سردی کا احساس کرتا ہے۔ اس سے محبت کی جائے تو وہ بھی محبت کرتا ہے، وہ اپنے انداز میں کھیل کود میں مصروف رہتا ہے۔ اسے ہم حیوانی زندگی اس لیے کہتے ہیں کہ یہ سب چیزیں حیوانوں میں بھی پائی جاتی ہیں وہ یہی زندگی گزارتے ہیں۔
زندگی کا دوسرا دور عقل و شعور کی زندگی ہے، گویا پہلے زندگی طبیعت کے تابع تھی، اب وہ عقل وشعور کے تابع ہو جائے گی، عقل فیصلہ کرے گی کیا کھانا ہے، کیسے کھانا ہے؟ کیا پہننا ہے، کیسے پہننا ہے؟ زندگی کا سفر کیسے طے کرنا ہے؟ آرام کا وقت کون سا مناسب ہو گا؟ کام کاج کب کیا جائے گا؟ کون سی چیز نقصان دہ ہے اور کون سی نفع بخش ہے؟ دوستی کی حدود کیا ہوں گی اور دشمنی کی حدود کیا ہوں گی؟ یہ سارے فیصلے عقل کرے گی۔
مگر یاد رکھیے کہ ہر بات میں عقل پر بھروسا کرنا نقصان دہ ہو سکتا ہے، ایسے مسائل بھی ہیں جہاں عقل کو خود اپنی عقل نہیں ہوتی، خاص طور پر ایمانیت میں ضرورت سے زیادہ عقل کی دخل اندازی کفر تک پہنچا سکتی ہے۔ عقل کے ترازو میں ایمانیت کو تولنا ایسے ہی ہے جیسے تولے اور ماشے کے ترازو میں کئی ٹن وزنی چیزوں کو تولنا۔
زندگی کا تیسرا دور ایمانی زندگی ہے یعنی پوری زندگی پر عقل اور طبیعت کی نہیں بلکہ ایمان کی حکومت ہو۔ اٹھنا، بیٹھنا، چلنا، پھرنا، سونا، جاگنا، اوڑھنا، پہننا سب کچھ ایمان کے تقاضوں کے مطابق ہو۔ لڑائی ہو تو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے، محبت ہو تو اللہ تعالیٰ کے رضا کے لیے۔ تجارت ہو تو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے، عبادت ہو تو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے۔ سیاست ہو تو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے، ہر عمل میں، ہر شعبہ میں، ہر مقام میں ایمان کے تقاضوں کو غالب رکھے، نفس کے تقاضوں کو ٹھکرا دے۔ اگر عقل ایمان سے ٹکرائے تو عقل کو بھی بے عقل کہہ کر ٹھوکر ماردے۔ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے ایک ایک حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔ ایمانی زندگی کا مطلب ہے بندگی اور بندے کا اپنا کوئی اختیار نہیں ہوتا وہ آقا کے احکام کا تابع ہوتا ہے۔
یہ بھی یاد رکھیں کہ ایمانی زندگی کھانے پینے، تجارت اور ملازمت سے منع نہیں کرتی بلکہ وہ تو صرف اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ جو کچھ کرنا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے مطابق کرو، گویا ایمانی زندگی، اعمال اور جذبات کو ختم نہیں کرتی صرف ان کا رخ موڑ دیتی ہے۔
زندگی کا چوتھا دور ہے عرفانِ زندگی۔ علماء کہتے ہیں علم کا معنی ہے جان لینا، ایمان کا معنی ہے مان لینا اور عرفان کا معنی ہے پہچان لینا۔ جسے معرفت نصیب ہو جاتی ہے وہ صرف قانون کی پابندی نہیں کرتا بلکہ قانون ساز کے منشاء کی بھی پابندی کرتا ہے۔
حضرت نانوتوی ؒ نے ساری زندگی سبز رنگ کا جوتا نہیں پہنا ،کوئی تحفے میں بھی دیتا تو قبول نہیں کرتے تھے۔ کسی نے کہا حضرت، شریعت نے تو سبز رنگ کا جوتا پہننے سے منع نہیں کیا، پھر آپ کیوں نہیں پہنتے؟ فرمایا:’’ٹھیک ہے شریعت نے منع نہیں کیا لیکن چونکہ نبی اکرم ﷺ کے روضہ کا رنگ بھی سبز ہے اس لیے اس رنگ کا جوتا پہنتے ہوئے مجھے حیا آتی ہے۔‘‘
امام مالک ؒ نے مدینہ منورہ میں ساری زندگی جوتا نہیں پہنا کہ کہیں ایسی جگہ جوتا نہ لگ جائے جہاں حضور اکرم ﷺ کے قدم مبارک لگے ہوں۔
حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ مکہ میں کالے رنگ کا جوتا نہیں پہنتے تھے کیونکہ غلافِ کعبہ کا رنگ بھی کالا ہے۔
زندگی کا پانچواں دور ہے وجدانی زندگی، یعنی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی رضا میں ایسا فنا کرنا کہ’’من تو شدم تومن شدی‘‘ والا معاملہ ہو جائے، راحت ملے تو بھی خوش، تکلیف آئے تو بھی خوش، اولاد حاصل ہو تو بھی راضی ہو، اولاد ہلاک ہو جائے تو بھی راضی، مال ملے تو بھی راضی، مال چھن جائے تو بھی راضی۔
میرے بزرگو اور دوستو! یہ ہے پانچ قسم کی زندگی اور ہم سے جس زندگی کا مطالبہ ہے وہ ہے ایمانی زندگی لیکن ہم میں سے اکثر ایمانی زندگی نہیں بلکہ شیطانی زندگی گزار رہے ہیں۔ہم شیطان کے ا شاروں پر ناچتے ہیں۔ ہم اس کے کہنے پر لڑتے ہیں۔ اسی کے کہنے پر تعلقات توڑتے اور جوڑتے ہیں۔ وہی کرتے ہیں جو وہ چاہتا ہے۔ وہی کھاتے اور پیتے ہیں جس کا وہ مشورہ دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں وہ دن دکھائے جب ہم شیطانی زندگی چھوڑ کر ایمانی زندگی گزارنے والے بن جائے۔