سلام کی اہمیت ، فضیلت اور آداب
فرید اللہ مروت
دنیا کی ہر قوم میں ملاقا ت کا ایک طریقہ اور سلیقہ موجود ہے ،عیسائی جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو اگر سر پر ٹوپی یا ہیٹ ہو تو اسے اٹھا کر تھوڑا سا جھکا کر کہتے ہیں ,GoodEvening,GoodMorning Good Bye یہودیوں کے ہاں سلام کا طریقہ وہی ہے جو عام طور پر سکائوٹس اور ملٹری میں رائج ہے ۔دائیں ہاتھ کی تین انگلیاں اکٹھی کر کے پیشانی تک لانا اور نیچے سے کھٹاک سے پائوں مارنا ۔ ہندو ملاقات کے وقت دونوں ہاتھ جوڑ کر پیشانی تک لا تے ہیں اور زبان سے لفظ ’’ نمستے ‘‘ ادا کرتے ہیں ۔ سکھ ملاقا ت کےوقت ’’ست سری اکال ‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں ۔ اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں ایک دوسرے کو ’’حیاک اللہ ، حیاک اللہ بالخیر اور یا انعم صباحا ‘‘ کے الفاظ استعمال کرتے تھے ۔(اللہ تجھے زندہ رکھے ، اللہ تجھے بھلائی سے زندہ رکھے ،تمہاری صبح نعمت والی ہو)۔ آج کل عرب ممالک میں صباح النور اور مساء النور کے الفاظ ملاقات کے وقت مستعمل ہیں ۔
حقیقت میں ابتدائے آفرینش سے ہی انسان کو سلام کا طریقہ سکھایا گیا ۔ایک متفق علیہ حدیث میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب اللہ نے حضرت آدم ؑ کو بنایا تو ان سے فرمایا جاؤ اور اس جماعت کو سلام کرو اور وہ جماعت فرشتوں کی تھی جو وہاں بیٹھی ہوئی تھی پھر سنو کہ وہ تمہیں کیا جواب دیتی ہے وہ جو جواب دے گا وہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا جواب ہے۔ چناچہ حضرت آدم اس حکم الٰہی کی تعمیل میں فرشتوں کی اس جماعت کے پاس گئے اور کہا کہ السلام علیکم فرشتوں نے جواب دیا: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ (یعنی تم پر اللہ کی رحمت نازل ہو) آنحضرت نے فرمایا کہ گویا آدم کے سلام کے جواب میں ورحمۃ اللہ کا لفظ فرشتوں نے زیادہ کیا۔جیسے جیسے پیغمبرو ں کی یہ تعلیمات معاشرے سے مٹنا شروع ہوئیں، سلام کا یہ طریقہ بھی جہالت کی وجہ سے کئی صورتیں بدلتا رہا ۔ بعثت نبوی ﷺ سے پہلے عرب ایک دوسرے کو ’’حیاک اللہ ‘‘ کے الفاظ سے زندگی کی دعا دیا کرتے تھے ، چونکہ عربوں میں جنگ و جدال ہر لمحہ ہر آن جاری رہتا تھا،اس لیے ایک دوسرے کو زندگی کی دعا دیتے تھے۔
سلام کے معا نی
سلام سے مراد دراصل سلامتی ، امن اور عا فیت ہے ۔ سلامتی میں انسان کی ساری زندگی ،اس کے معمولات ، تجارت ، اس کی زراعت اور اس کے عزیزو اقا رب گویا معاشرتی زندگی کے سب پہلو ، دین، دنیا اور آخرت شامل ہوتے ہیں ۔
امام راغب اصفہانی رحمہ اللہ نے المفردات میں لکھا ہے :
ظاہری اور باطنی آفات و مصائب سے محفوظ رہنا‘‘
پس جب ہم کسی کو ’’السلام علیکم ‘‘کہتے ہیں تو اس کا معنی ہوتا ہے کہ ’’تم جسمانی ،ذہنی اور روحا نی طور پر عافیت میں رہو۔‘‘تمہاری دنیا اور آخرت کی زندگی کے تمام معمولات اور انجام ،امن اور عافیت والے ہوں ۔
سلام کی اہمیت
’’سلام‘‘ کےلیے جو کلمات حضرت آدم ؑ سے لے کر رسول اکرمﷺ تک تلقین کئے گئے ہیں وہ یہ ہیں : السلام علیکم (تم پر سلامتی ہو) ،وعلیکم السلام (اور تم پر بھی سلامتی ہو ) یہ کلمات اتنے جامع ہیں کہ اس میں انسان کی ساری زندگی کا احاطہ ہو جاتا ہے ۔زندگی انسان کی دو دن ، یا چار دن یا سو سال کی ہو ،ایک مسلمان بھائی اپنے مسلمان بھائی کے لیے یہ دعا کرتا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ کرے تمہاری زندگی کے یہ دن سلامتی سے بسر ہوں ، مصیبتوں اور پریشانیوں سے نجات ہو،رنج و الم تمہارے نزدیک نہ پھٹکنے پائے ۔ گویا ’’السلام علیکم ‘‘سب آزمائشوں سے انسان کو محفوظ رکھنے کی دعا ہے ۔ اس دعا کا صرف دنیوی زندگی پر اطلاق نہیں ہوتا بلکہ آخرت کی زندگی بھی اس میں شامل ہے ۔گویا دونوں جہانوں کی سلامتی مقصود ہوتی ہے ۔
سلامتی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک کلمہ ہے جو انسانوں کی مصیبتوں کو دور کرتا ہے۔حضرت نوحd پر جب مشکل وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
﴿{سَلٰمٌ عَلٰی نُوْحٍ فِی الْعٰلَمِیْنَ(79)}(الصافات)
’’تمام جہانوں میں نوح ؑ پر سلامتی ہو۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا:{قِیْلَ یٰنُوْحُ اہْبِطْ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَبَرَکٰتٍ عَلَیْکَ } (سورۃ ہود:48)
’’حکم ہوا ،اے نوح !ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ اتر جاؤ ۔‘‘
سلام کرنے کی حکمت
سلا م سے انسان ایک دوسرے کے قریب آتا ہے ۔باہم پیارو محبت پیدا ہوتی ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا :
’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میںمیری جان ہے تم اس وقت تک جنت میں داخل نہ ہو گے جب تک ایمان نہ لاؤ گے اور اس وقت تک مومن نہ ہو گے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو گے کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤ ں کہ جس پر عمل کرنے سے تم باہم محبت کرنے لگو :یہ کے سلام کو خوب پھیلاؤ۔‘‘(رواہ المسلم)
دوسری جگہ آپﷺ کا فرمان ہے :
’’سب سے افضل ترین عمل کھانا کھلاناہے اور تو ہر ا س آدمی (مسلمان ) کو سلام کہے جسے تو جانتا ہے اور جسے تو نہیں جانتا۔‘‘
صحابہ کرام ؓ کے بارے میں آتا ہے کہ جب چلتے ہوئے راستے میں کوئی درخت یا کوئی ٹیلہ ایسا آجاتا تو وہ دائیں بائیں سے گزرنے کے بعد ملتے وقت دوبارہ ایک دوسرے کو ’’سلام ‘‘کہتے تھے ۔حضرت انس ؓ سے روایت ہے :
’’جب تم میں سے کوئی آدمی اپنے ساتھی کو ملے ، اسے چاہیے کہ اپنے ساتھی کو سلام کہے ۔‘‘(سنن ابی دائود)
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں: سلام کا جواب دینا، بیمار کی عیادت کرنا ،جنازوں کے ساتھ جانا، دعوت قبول کرنا اور چھینک کا جواب دینا۔‘‘( متفق علیہ)
حدیث میں یہ بھی آیا ہے :
’’جب تم میں سے کوئی مجلس میں آ کر بیٹھے تو (پھر ) سلام کہے اور جب رخصت ہونے کے لیے اٹھے تو سلام کہے ۔‘‘
قرآن مجید میں اس بات کا تذکرہ کثرت سے موجود ہے کہ جنت کی بولی سلام ،سلام ہو گی اور جنت کے داروغے اہل ایمان کو خوشخبریا ں سنائیں گے :
﴿{وَقَالَ لَہُمْ خَزَنَتُہَا سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْہَا خٰلِدِیْنَ(73)} (الزمر)
’’تو داروغہ جنت ان سے کہے گا ۔تم پر سلام ہو ،تم بہت اچھے رہے ۔اب اس میں ہمیشہ کے لیئے داخل ہو جاؤ۔‘‘
{ادْخُلُوْہَا بِسَلٰمٍ ط ذٰلِکَ یَوْمُ الْخُلُوْدِ(24)} ( قٓ) ’’اس (جنت ) میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ یہ ہمیشہ رہنے کا دن ہے۔‘‘
{وَنَادَوْا اَصْحٰبَ الْجَنَّۃِ اَنْ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ قف }(الاعراف:46)’’تو وہ اہل بہشت کو پکار کر کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو۔‘‘
{دَعْوٰىہُمْ فِیْہَا سُبْحٰنَکَ اللّٰہُمَّ وَتَحِیَّتُہُمْ فِیْہَا سَلٰمٌ ج} (یونس:10)’’جب وہ ان کی نعمتوں کو دیکھیں گے تو بے ساختہ کہیں گے ’’سبحان اللہ‘‘اور آپس میں ان کی دعا ’’سلام ‘‘ ہو گی۔‘‘
{لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْہَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِیْمًا (25) اِلَّا قِیْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا(26)}(الواقعہ)’’وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے اور نہ گالی گلوچ ،وہاں ان کا کلام سلام ،سلام ہو گا۔‘‘
﴿{یَـقُوْلُوْنَ سَلٰـمٌ عَلَیْکُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ (32)} (النحل)
’’فرشتے بوقت نزع مسلمانوں کو یہ خوشخبری سناتے ہیں ۔‘‘
وہ ’’السلام علیکم ‘‘ کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو عمل تم کیا کرتے تھے ان کے بدلے میں بہشت میں داخل ہو جاؤ۔‘‘
ہماری نماز بھی سلام سے بے نیاز نہیں ہے ۔(یعنی نماز کا اختتام السلام علیکم و رحمتہ اللہ دائیں ،بائیں کہنے سے ہوتا ہے ) ہم تشہد میں بھی نبی اکرم ﷺ کے لیے ، تمام صالحین کے لیے اور اپنے لیے سلامتی کی دعا کرتے ہیں :
’’التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك ايها النبي ورحمة الله وبركاته السلام علينا وعلي عبادالله الصالحين‘‘
’’تمام عبادتیں ،سا ری دعائیں اور پاکیزہ کلمات اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں ۔اے نبی ﷺ !آپ پر سلام ہو اور اللہ جل شانہ کی رحمت اور اس کی برکتیں آپ ﷺپر نازل ہوں ، سلام ہم پر اور اللہ تعالیٰ کے تمام نیک بندوں پربھی ہو۔‘‘
نبی اکرم ﷺ کے ذریعے تمام نیک بندوں کے لیے سلامتی کا پیغام یوں قرآن میں آیا ہے:
{قُلِ الْحَمْدُ لِلہِ وَسَلٰمٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی ط} (النمل)’’آپﷺ کہہ دیجیے سب تعریف اللہ جل شانہ ہی کو سزا وار ہے اور اس کے منتخب بندوں پر سلام ہے۔‘‘
’’سلام ‘‘اللہ تعالیٰ کےناموں میں سے ایک نام بھی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی سلامتی اور عافیت کا سر چشمہ ہے ،اس لیے ہر نماز کے بعد رسول اکرم ﷺ نے یہ دعا مانگنے کا حکم فرمایا :
((اللهم انت السلام ومنك السلام تباركت يا ذالجلال والاكرام))’’اے اللہ!تو سلامتی کا منبع ہے اور سلامتی تیری ہی طرف سے ہے ، اے عزت اور بزرگی کے مالک تیری ذات ہی با برکت ہے۔‘‘
ان آیات و احادیث کا احاطہ بہت مشکل ہے جن میں سلام کی اہمیت بیان ہوئی ہے ۔ معلوم ہوا کہ جنت میں ہر طرف سلامتی ہی سلامتی کی صدائیں ہوں گی تو پھر کیوں نہ ہم دنیا میں بھی انہی صداؤں کو عام کریں ۔
سلام میں پہل کرنے کی فضیلت
سلام ایک متبرک اور دعائیہ کلمہ ہے، سلام کرنے والا اپنے ساتھی کو یہ اطمینان دلاتا ہے کہ تم میرے ہاتھ پیر، اعضا وجوارح، حتیٰ کہ زبان سے بھی جانی ومالی ہر اعتبار سے مامون ہو، گویا سلام اظہار ہمدردی کے ساتھ ادائے حق بھی ہے کہ سلام کرنے والا اپنے مومن بھائی کے لیے خیر وبقا کی دعا کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ملاقات کے وقت سلام میں پہل کرنے والے کے لیے احادیث میں بہت فضیلت وارد ہوئی ہے۔ارشاد نبویؐ ہے:
حضرت ابو امامہhسے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’لوگوں میں اللہ رب العزت کی رحمت کے قریب وہ شخص ہے جو سلام میں پہل کرے۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح)
ایک اور روایت میں نبی اکرم ﷺکا ارشاد ہے: حضرت ابو امامہ ؓ سے مروی ہے کہ آپؐ سے پوچھا گیا: یارسول اللہؐ! جب دو آدمی ملاقات کریں تو ان میں سے کون سلام میں پہل کرے؟ تو آپؐ نے جواب میں ارشاد فرمایا: ’’جو ان دونوں میں اللہ کی رحمت کے سب سے زیادہ قریب ہے۔‘‘ (جامع الترمذی)
مطلب یہ ہے کہ جس آدمی کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے قرب حاصل کرنا ہو اور رحمت خدا وندی سے زیادہ حصہ چاہتا ہو، وہ ملاقات کے وقت سلام میں پہلے کرے، وہ دوسرے کی بہ نسبت اللہ تعالیٰ کی رحمت کے زیادہ قریب ہوگا، دونوں روایات میں ابتدا بالسلام کو رحمت سے قرب حاصل کرنے کا سبب بتلایا گیا ہے، جس سے سلام کی اہمیت وفضیلت ظاہر ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک روایت میں ارشاد ہے کہ سلام میں ابتدا کرنے والا کبر سے بری ہے۔ یہ روایت بھی سلام کی فضیلت کو بتلاتی ہے۔
شریعت میں سلام کرنے کا طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ چلنے والا بیٹھے ہوئے کو، سوار پیدل چلنے والے کو، تھوڑے افراد زیادہ کو اور چھوٹا بڑے کو سلام کرے جبکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ دو چلنے والوں میں سے جو پہل کرے وہ افضل ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ جو سلام میں پہل کرے وہ اللہ کے ہاں تمام لوگوں سے بہتر ہے۔ (ترمذی)
سلام کرنے کا اجر وثواب اور جواب کا طریقہ
حضرت عمران بن حصین ؒ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے ’’السلام علیکم‘‘ کہا اور بیٹھ گیا، آپؐ نے اس کا جواب دیا اور فرمایا: ’’اس کے لیے دس نیکیاں ہیں۔‘‘ پھر دوسرا آدمی آیا اور اس نے ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘ کہا۔ آپؐ نے اس کو جواب دینے کے بعد فرمایا: ’’اس کے لیے بیس نیکیاں ہیں۔‘‘ پھر ایک اور آدمی آیا، اس نے: ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ کہا تو آپؐ نے اس کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: ’’اس کے لیے تیس نیکیاں ہیں۔‘‘ (جامع الترمذی)
مذکورہ روایت میں نبی اکرم ﷺنے ہر شخص کے لیے ثواب کی ایک مقدار مقرر فرمائی اور جس شخص نے جس قدر اچھے انداز میں سلام کیا، آپؐ نے اسی کے بقدر اس کے لیے نیکیوں کی تعیین فرمائی۔ معلوم ہوا کہ سلام کرنے والے کا اجر وثواب اس کے طریقۂ سلام پر موقوف ہے، لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ اپنے ملنے والے کو اچھی طرح سلام کرے، تاکہ زیادہ سے زیادہ نیکیوں کا مستحق ہوسکے اور رہا جواب دینے والے کا معاملہ...... تو یاد رہے کہ سلام کرنا مسنون ہے، مگر اس کا جواب دینا واجب ہے اور قرآن کریم کے فرمان کے مطابق جواب یا تو سلام کے ہی مقدار اور معیار کا ہو، یعنی اس کے مثل ہو یا پھر اس سے بہتر ہو، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :’’جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے بہتر سلام کرو یا اس کو لوٹا دو۔‘‘ (النساء :86)
اس آیت کے بموجب جواب سلام سے عمدہ اور بہتر ہونا چاہیے، جواب دینے والے کو اپنے انداز، طریقے اور الفاظ کے ذریعے جواب کو عمدہ بنانا ضروری ہے، اگر اتنا نہ کرسکے تو کم از کم اسی قدر جواب دے دے جن الفاظ کے ساتھ اس کو سلام کیا گیا ہے، سلام کے جواب کے سلسلے میں علامہ شہاب الدین محمود آلوسی بغدادی نے نہایت عمدہ طریقہ بتلایا ہے، فرماتے ہیں:
’’ایسے سلام کے ساتھ جواب دو جو اس سلام سے بہتر ہو، جو تم کو کیا گیا ہے، بایں طور کہ تم کہو:وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ اگر مسلمان بھائی نے صرف اول پر اکتفا کیا ہو، اور برکاتہ بھی بڑھا دو، اگر اس نے دونوں کو جمع کردیا ہو اور یہ سلام کے الفاظ کی انتہا ہے ( اگر کوئی وبرکاتہ بھی سلام میں کہہ دے) تو جواب میں اسی پر اکتفا کافی ہوگا، اضافے کی ضرورت نہیں۔‘‘ (روح المعانی)
سلام کرنا مسنون ہے، مگراس کا جواب دینا واجب ہے اور قرآن کے فرمان کے مطابق جواب عمدہ ہونا چاہیے، جیسا کہ اس کا طریقہ اوپر بیان کیا گیا ہے۔ آج کل جواب دینے میں بڑی کوتاہی سے کام لیا جاتا ہے، جو قرآن کریم کے فرمان کی کھلی خلاف ورزی ہے، جس سے جس قدر بھی ممکن ہو احتیاط لازم ہے۔