(کارِ ترقیاتی) مسلمان بھی کیا ہیں ہم! - عامرہ احسان

9 /

مسلمان بھی کیا ہیں ہم!

عامرہ احسان

7 اکتوبر 2023ء کو 9 ماہ ہونے کو آئے ہیں۔ ہم سمجھتے تھے کہ دنیا ہمیشہ کی طرح چند شب و روز ہفتہ دو ہفتہ غزہ کی مظلومیت پر بیانات، قراردادیں داغ کر خاموش ہو جائے گی، اور بھی غم ہیں زمانے میں ’’غزہ‘‘ کے سوا! عالمی میڈیا، ہالی وڈ سیلبریٹیاں سیاست دھیان بٹالیں گی ہمیشہ کی طرح۔ امریکا، صہیونی زور آور عیسائی یہودی لابیاں ناکام کب ہوئیں۔ دنیا کی ہتھیلی کا پھپھولا تھا اسرائیل! جادو سر چڑھ کر سدا بولتا رہا، آخر 75 سال دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی ہی تھی! مگر نہیں! دنیا بدل گئی ہے۔ ہفتہ بھر خبروں کی دنیا سے بوجوہ دور رہ کر جب عالمی منظر نامہ دیکھا تو فلسطین کے لیے پورے گلوب پر ہر رنگ و نسل کے افراد کو بدستور آتش زیر پا دیکھ کر دل بھر آیا۔ دعائیں ابل پڑیں۔ اللہ ان ذی شعور حساس روحوں کو ایمان سے مالامال کر دے۔ ان کے جذبوں، ولولوں کو اعلیٰ ترین قبولیت سے نواز کر ملتِ اسلامیہ کو نئی کھیپ عطا فرمائے۔ دنیا میں عدل و انصاف اور حق کے لیے کھڑے ہونے والی امت ہمیں بنایا گیا تھا۔ (النساء، المائدۃ) مگر آج امریکا یورپ کے نوجوان فلسطین، قدس کے لیے ریاستی جبر و تشدد کے مقابل قوامین بالقسط دکھائی دے رہے ہیں! امت گونگے شیطانوں کی صورت ہے!

فتنۂ دجال میں نکلنے والے لشکروں کے حوالے سے ہم نے پڑھ رکھا تھا سیدنا ابوہریرہh سے روایت فرمانِ رسول ﷺ ’’جب جنگیں ہوں گی تو اللہ تعالیٰ نو مسلموں کا ایک لشکر کھڑا کرے گا۔ ان کے گھوڑے عرب کے بہترین گھوڑے ہوں گے اور ان کا اسلحہ سب سے عمدہ ہوگا۔ (اور وہ ہتھیار چلانے میں انتہائی ماہر ہوں گے) اللہ ان کے ذریعے دین کی مدد کرے گا۔‘‘(سنن ابن ماجہ)    نئی ابھرتی دنیا دیکھ لیجیے کھلی آنکھوں سے! ہم تو ابھی تک خواب غفلت سے غزہ بارے بیدار ہو نہ پائے۔ رمضان کے روزے، عمرے، حج، ابراہیم ِحنیف کی روح پرور پورے خانوادے کی داستان عظیم پر لبیک پکارتے قافلے، شرق تا غرب چلے۔ مگر قدس، فلسطین، خونچکاں غزہ نگاہوں سے یکسر اوجھل ہی رہا! ادھر ایک سابق برطانوی فوجی ہذیانی کیفیت لیے قابل رحم حالت میں بس پکارے چلا جارہا ہے۔ غزہ میں بچے ہیں اور ان کے سر نہیں ہیں؟ میں کیسے یقین کروں کہ یہ میں نے خود دیکھا ہے۔ خدا را اٹھ کھڑے    ہو۔ مسلسل جھوٹ بولا جارہا ہے۔ بچے! بچے! بچے! یہ    غضب ناک کر دینے والا عمل ہے، قابل نفرین ہے۔ ہم ناکام ہو رہے ہیں! 
برطانوی’جونی‘ تو پاگل ہو رہا ہے غم سے! ہم نہیں! ہم کیا کر رہے ہیں؟ ذرا دیکھیے تو! کافی عرصے سے ہمارے بڑے شہروں کے معروف چوراہوں، سڑکوں پر ایک     نیا تماشا چل نکلا ہے۔ نوجوان چہرہ پینٹ کیے جستی دھاتی رنگ میں، ویسے ہی کپڑے پہنے بے حس و حرکت بے جان مبہوت بت بنے کھڑے ہیں گردوپیش سے کلیتاً بے نیاز، بُت ہونے کی منجمد اداکاری کا شاہکار! کس لیے؟ یہ بھیک مانگنے کا معزز، مہذب طریقہ ہے! اداکاری سے متاثر ہو کر کوئی کچھ دے جائے! بھری قوی جوانی کے ہاتھ پیر پتھرا کر، پتھرائے احساسات کے ساتھ رزق کا یہ انوکھا انتظام! اصلاً تو یہ ایک فرد نہیں پوری پتھرائی قوم بلکہ ملت ہے۔ چہار جانب ہول ناک مناظرپتھرائے ہوئے کی جیب میں موبائل پر رواں دواں چل رہے ہوںگے۔ جس پر بیٹھا ایک گورا، (جس کا اقصیٰ، فلسطین، مسلمانوں سے دور دور کوئی رشتہ نہیں!) ڈبڈبائی آنکھوں سے 355 کا عدد دہرا رہا ہو۔ (اپنی مذہبی کتب کا حوالے بھی دیتا ہے)  مرکزِ گفتگو ایک ہی ہے، 6 سالہ فلسطینی بچی ہند کو 355 گولیوں سے بھون ڈالا؟ تکہ بوٹی کر دی؟ کیا تم اب بھی اسرائیل کے حق میں ہوجو سر تا سر سراپا بدی؍ شر ہے! اسرائیلی قابض فوج، ٹینک اور 355 گولیاں! یہ کافر ہے مگر ہر بنِ مو سے زندگی اور ضمیر کی سچائی بول اٹھی ہے! 
ادھر اسرائیل کی سب سے بڑی ہتھیاروں کی فرم Elbit کو فوجی سپلائی کے جرم میں ’’فلسطین ایکشن‘‘ کے کارکن ایک دفتر میں گھسے تہس نہس کر رہے ہیں۔ سب کچھ الٹ کر رکھتے ہوئے کہہ رہے ہیں: ہند رجب کی ماں (6 سالہ مقتولہ بچی) ہم نے تمہاری بیٹی کی چیخیں سنی تھیں! اسرائیل کو مسلح کرنا بند کرو ۔۔۔۔ ابھی! ابھی! فوراً! ہم اس سب کو ختم کرکے رہیں گے۔ ایک ایک اینٹ اکھاڑیں گے! یہی نعرے لگاتے میڈن ہیڈ پولیس اسٹیشن (برطانیہ) میں گرفتار ہو کر جا پہنچے! ادھر امریکا بلکہ گلوبل ولیج کے صہیونی مرکز واشنگٹن ڈی سی میں اسرائیلی وزیر دفاع گیلانٹ، فلسطین نواز کارکنوں اور کوڈ پنک کے نرغے میں ہے۔ تمہارا مقام ہیگ ہے، تم جنگی مجرم ہو۔ انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب جس نے بھوک کو بھی جنگی ہتھیار بنالیا۔ ہمارے ٹیکس ڈالروں پر چلتی سرزمین پر اسے بلانے کی جرات کیونکر کی؟ اس پر امریکی پولیس کو لعن طعن۔ بعد ازاں اس ہوٹل میں جاگھسے جہاں وزیر موجود تھا، فلسطینی جھنڈے اٹھائے۔ جنگی مجرم کی میزبانی کیونکر ممکن ہے؟ یہ قتلِ عام کا مرکزی کردار ہے۔ بس دیکھتے جائیے لامنتہا مناظر۔ اسپین نے دو بحری جہاز جو جنگی سازوسامان لیے بھارت سے اسرائیل جارہے تھے، اپنے پانیوں میں انہیں قدم رکھنے سے منع کر دیا۔ اسپینی وزیر خاجہ نے کہا: ہمارا یہ عہد ہے کہ ہم اس جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے۔ اسپین کے انکار پر مراکش حکومت نے جہازوں کو اجازت دے دی۔ اس پر مراکشی عوامی فلسطینی جھنڈے لہراتے، اپنی حکومت کو برا بھلا کہتے نکل آئے سڑکوں پر!
سینیگال میں بھی مظاہروں کے مناظر ابھر رہے۔ فلسطینی جھنڈے، بینر، نعرے! امریکا میں آزاد فلسطین کے داعی عیسائی، مذہبی جذبے سے حمدیہ نعتیہ مذہبی انداز میں ہم آواز ’فلسطین آزاد ہوگا‘، ’روٹی بھیجو بم نہیں‘ اور آزاد فلسطین کے دوپٹے گلے میں لہراتے اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ہر خطہ زمین، ہر ذی حس گواہی ثبت کروا رہا ہے! اُدھر سر تا پا غموں دکھوں سے روندا بوڑھا فلسطینی کہہ رہا ہے۔ اتقوا اللہ فینا ۔۔۔۔ ’’ہمارے بارے میں اللہ سے ڈرو!‘‘ ساری دنیا ڈر رہی ہے۔ برطانوی، امریکی، اسپینی، جاپانی (جو اسرائیلی سیاحوں کے در پے ہیں!) سب کارواں رواں وعدہ الست کی پکار پر ضرب پڑتی محسوس کرکے اپنا احساس اس عالمگیر درد میں ڈال کر حق کی آواز قوی کر رہا ہے! ان مناظر سے منہ چھپانا، نظر چرانا ممکن ہی نہیں! دو سالہ تنہا بچہ بھوکا، غنودگی کمزوری سے کھلی بند آنکھوں میں کل جہاں کا درد بے چارگی لیے خالی برتن کے ساتھ بیٹھا ہے۔ ہر طرف برتن خالی ہیں!
ہمارے ہاں مضحکہ خیز ترقی کے مظاہر ملاحظہ ہوں! دودھ (ماں کا) کے بینک قائم کیے جانے کی شروعات ہونے کو تھیں! یہ خبر مِلک بینک (Milk Bank)کا قیام اور اس پر شرعی جواز کی تلاش! آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ 1978ء کے لگ بھگ امریکا جا رہنا ہوا تو نہایت تکلیف دہ اور حیرت انگیز خبر ہمارے لیے یہی تھی کہ عیسائی یہودی عقیدے کے باوجود ایسے بینکوں کا وجود جو ڈیری فارم کی طرح رنگ برنگی مائوں کا دودھ فراہم کر سکیں! ہم بھونچکے رہ گئے کہ رضاعت کیا ہوئی؟ یعنی پہلے ہی امریکی اپنا حسب نسب بدکاریوں کے ہاتھوں کھوچکے۔ باقی کسر رضاعت کے رشتے کی بے حرمتی، پامالی کے ہاتھوں پوری ہو گئی؟ حتیٰ کہ پھر ماں کے دودھ کی بنی چاکلیٹ کا بھی چرچا رہا! پناہ بخدا ۔۔۔۔ ہم نے کبھی دیوانے خوابوں میں بھی نہ سوچا تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان، کلمہ لا الہ کی گھٹی والا، آئی ایم ایف اور عالمی ساہو کاروں کا دیا کھاتے، ان کے ایسے فرمائشی پروگراموں پر بھی فرمانبرداری دکھائے گا؟ فتاویٰ ملیں گے؟ ہمارے حالیہ قومی کردار کا نمایندہ وہ پتھرایا ہوا ’’بت‘‘ بنا کھڑا نوجوان ہے جو پیٹ کی خاطر اپنے گردوپیش، عالمی مناظر کو پتھرائی نظروں سے دیکھتا صرف نوٹوں، سکوں کی پہچان رکھتا ہے۔ اسے داد دینے والے سراہنے نوٹ دینے والے اس کے ’’فن‘‘ کی قدر کرنے والے بھی موجود ہیں۔ ہمارا اسلام؟ اک نام رہ گیا ہے! مسلمان بھی کیا ہیں ہم!
قرآنی حجتِ بالغۃ اور حکمتِ بالغہ سے محروم     من گھڑت فلسفوں کے سہارے ،ظن و تخمین مال پیسے کے پیرو! اپنی تاریخ، جغرافیہ، اسلاف سے نابلد۔ مصنوعی ذہانت (AI) کے شاہکار! تعلیمی ادارے کیا ہیں؟ بت کدے،  بت گر ۔۔۔۔ کہ ان کے واسطے تو کیا خودی کو ہلاک!
 
 

Title

Text