سفید فام مہذب دنیا کا سیاہ بھیانک چہرہ
ڈاکٹر ضمیر اختر خان
22جون 2024ء کو ایک مقامی اردو روزنامے میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق ٹیکساس (امریکہ) میں ایک مسلم خاتون کے کمسن بچوں کو ایک سفید فام امریکی خاتون نے سوئمنگ پول میں ڈبونے کی کوشش کی۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق نقاب پوش خاتون کو دیکھ کر سفید فام خاتون پول میں کودی اور کمسن بچوں کو ڈبو دیا۔مذہبی منافرت کا واقعہ فلسطینی امریکی خاتون اور اس کے بچوں کے ساتھ پیش آیا، افریقی مرد نے مسلم امریکی خاتون اور اس کے بچوں کو سفیدفام خاتون سے بچایا۔مسلم خاتون کا 6 برس کا بیٹا بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا جبکہ 3 برس کی بچی کو بمشکل بچایا گیا۔مسلم خاتون نے بچوں کو بچانےکی کوشش کی تو سفید فام امریکی خاتون نے اس کا حجاب نوچ لیا اور اسے تشد دکا نشانہ بنایا۔مسلم خاتون اور اس کے بچوں کو مارنے کی کوشش کرنے والی سفید فام عورت کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔اس حوالے سے ٹیکساس کے رکن اسمبلی سلمان بھوجانی نے کہا ہے کہ نسل پرستی اور اسلاموفوبیا کے اس واقعے نے دل دہلا دیا ہے، متاثرہ خاندان کی ہر ممکن خدمت کے لیے تیار ہوں۔
متذکرہ بالا خبر پڑھ کر کسی کو تعجب نہیں ہو نا چاہیے اور نہ ہی اسے صرف ایک خاتون کا انفرادی فعل قرار دینا چاہیے۔ ایسا آج کی دنیا میں ہر طرف ہورہاہے۔ 8اکتوبر 2023ء سے اس کا آغاز ہوا اور اب جولائی 24 ء شروع ہو گیا ہے۔ اسی مہذب دنیا،جس کا سرخیل امریکہ ہے، کی بھرپور مدد اور مسلسل تعاون سے فلسطین پر ناجائز طور پر قابض ایک قوم، جس نے ناجائزطریقے سے اسرائیل نامی ملک فرنگی استعمار کی مدد سے حاصل کیاتھا، غزہ کے نہتے مسلمانوں پردن رات اس سے بھی زیادہ بھیانک مظالم ڈھا رہی ہے ،جس کا ارتکاب ٹیکساس کی سفید فام عورت نے کیا ہے۔ اس قوم پر اللہ نے انبیاءf کی زبان سے لعنت کی تھی اور فلسطین پر اس کا ناجائز قبضہ اس کو مزید لعنتی بنانے کا سبب بنا ہے۔اسی لیے اسرائیل نامی اس ملک کو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے مغرب کا ناجائز بچہ ــillegitimate child of the West" "An کہا تھا ۔ سفید فام عورت کی جس ظالمانہ حرکت کا اوپر ذکر ہوا وہ تواس ملک کی شہری ہے ،جس نے اس دور میں بے شمار ظلم کیے ہیں۔ عراق میں"Weapons of mass destruction" کی موجودگی کا جھوٹ بول کر یہ حملہ آور ہوا اور لاکھوں بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور بڑی ڈھٹائی سے اپنی ظالمانہ و سفاکانہ درندگی کو غلط فہمی کا نتیجہ قرار دیا۔ افغانستان اور دیگر ممالک میں اس نے جو مظالم ڈھائے وہ بھی سب کے سامنے ہیں۔کون نہیں جانتا کہ دور حاضر کایہ فرعون (امریکہ ) جس کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے، پوری دنیا کو ڈبونے کی کوشش میں ہے ۔ اس کے کسی شہری سے اس طرح کی حرکت غیر متوقع نہیں ہے۔ ہمیں اس سے کوئی گلہ شکوہ نہیں ہے کیونکہ ہمیں اللہ جل جلالہ نے اپنے مقدس کلام میں اور اپنے آخری نبیﷺ کے توسط سے بتا دیا ہے کہ ہر دور کے نماردہ وفراعنہ ایک ہی طرح کی نفسیات رکھتے ہیں۔ ان سے خیر کی توقع رکھنا عبث ہے۔ اسی لیے تو جناب موسیٰ dنے بہت سخت الفاظ میں ان کے خلاف بددعا کی تھی۔’’اے ہمارے رب ، تو نے فرعون اور اس کے سرداروں (Allies) کو دنیا کی زندگی میں زینت اور اموال سے نواز رکھا ہے۔ اے رب ، کیا اس لیے ہے کہ وہ لوگوں کو تیری راہ سے بھٹکائیں؟ اے رب، ان کے مال غارت کر دے اور ان کے دلوں پر ایسی مہر کردے کہ ایمان نہ لائیں جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں۔‘‘(سورۃ یونس:88)
ہمیں اصل شکایت ان سے ہے جو فراعنہ وقت کے خوف سے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہے ۔ ہمیں شکوہ ان سے ہے جو ان ظالموں کے ٹھا ٹھ ، شان و شوکت اور تہذیب وتمدن کی ظاہری خوش نمائی پر ریجھے ہوئے ہیں اور سوائے افغانستان کے سارے ہی چاہتے ہیں کہ انہی جیسے بن جائیں۔ ایسی صورت حال میں حماس کے مجاہدین کی مثال تو موسیٰd کی قوم کے ان نوجوانوں کی طرح لگتی ہے، جنہوں نے اس وقت ان کا ساتھ دیا تھا جب پوری قوم نےفرعون کے خوف سے ان کا ساتھ دینے سے انکار کردیا تھا۔ آج ویسی ہی صورت حال ہے کہ صرف امریکہ کے ڈر وخوف سے 57 مسلمان ممالک میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو مظلوم فلسطینیوں کے حق میں زبان کھول سکے۔ آج کے 57 مسلمان ممالک کا رویہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ موسیٰd کی قوم بنی اسرائیل کا تھا۔ وہ حضرت موسیٰd پر ایمان تو رکھتے تھے مگر فرعون کے خوف کی وجہ سے ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ مسلم دنیا کے حکمرانوں اور نام نہاد مقتدر طبقات پر مصلحت پرستی اور دنیوی اغراض کی بندگی اور عافیت کوشی اس طرح چھا رہی ہے کہ وہ حق کا ساتھ دینے کی بجائے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ کاش ہمارے حکمران اور بالخصوص مسلم افواج اس حقیقت کا ادراک کرتیں کہ یہ صرف فلسطینی قوم کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ امت مسلمہ کا اجتماعی معاملہ ہے اور اس کا تعلق ہمارے بنیادی نظریات سے ہے۔ آئیے تھوڑا سا جائزہ لیتے ہیں شاید کہ کچھ حقائق سمجھ میں آجائیں۔
نبی ﷺ کا سفر معراج مسجد اقصیٰ سے شروع ہوا تھا۔ اسی مقام پر آپ نے انبیاءf کی امامت فرمائی،جو دراصل اعلان تھا کہ جملہ انبیاء کے امام اب عالمی امامت پر فائز کر دیئے گئے ہیں۔ یہ ارض جہاد ہے ، مسیحd کا دوبارہ نزول یہیں ہونا ہے ، اس کی بہت سی فضیلتیں آئی ہیں۔ یہ انبیاء کامسکن و مدفن ہے، یہاں بہت سارے آثار ومقدسات ہیں ، اس کی آزادی پوری امت پر فرض اور قرض ہے، یہ پوری امت کی امانت ہے۔ یہ مسئلہ صرف فلسطینیوں یا عربوں کا نہیں ہے فی الحقیقت اس کے دفاع اور اس کی آزادی و حفاظت کی ذمہ داری پوری دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کی ہے ۔ خواہ وہ کہیں بستے ہوں ، اقلیت میں ہوں یا اکثریت میں ، طاقتور ہوں یا کمزور، حاکم ہوں یا محکوم ، چنانچہ ضروری ہے کہ پوری امت کو اس قضیہ سے جوڑا جائے ، پوری امت میں اس کے لیے حساسیت پیدا کی جائے، کوئی کہیں ہو اور کسی حال میں ہو اور کسی بھی شعبۂ حیات میں مشغول ہو ، ضروری ہے کہ وہ اس مسئلہ کو اپنا ذاتی مسئلہ سمجھے اور ایک لمحہ کے لیے بھی اس سے غفلت نہ برتے ، اس مسئلہ کی اہمیت و حساسیت کا یہ سب سے بنیادی تقاضا ہے۔ اہل اسلام اپنے تمام تر فقہی ، مسلکی اور نظریاتی اختلاف کے باوجود اس پر متفق ہیں کہ القدس کی بڑی اہمیت ہے، اس کا دینی مقام ہے، اس کے دفاع اور اس کے سلسلے میں دینی غیرت کو سب واجب جانتے ہیں اس کے مقدسات کے تحفظ اور زیادتی کرنے والوں کو باز رکھنے کے وجوب پر سب کا اتفاق ہے۔
یہاں اس نکتے پر بھی غور کرلیا جائےکہ کیا وجہ ہے کہ اتنی تیزی سے عرب ممالک اسرائیل سے مصالحت کر رہے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ امریکہ اسرائیل کے لیے اس طرح بچھا جارہا ہے، وہ اس کا اس قدر استحکام کیوں چاہتا ہے؟یہود و نصاریٰ کے درمیان شدید اختلافات، بلکہ مخالفت کے باوجود مسیحیت صہیونیت کی چاکری میں کیوں لگی ہوئی ہے؟ اس کا ایک ہی سبب سمجھ میں آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ عالم کفرکے امام امریکہ کو معلوم ہے کہ اسلام کا عادلانہ نظام اگر کہیں قائم ہو گیا تو وہ ہر طرح کے ظالمانہ نظام کے لیے موت کا پیغام ثابت ہو گا۔ اس لیے وہ ایڑی چوٹی کا زور لگا کراسلام کے قیام و غلبے کی راہ مسدود کرنے میں لگاہواہے۔ مگر ان شاء اللہ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔ کاش اس کا ادراک اہل اسلام کو ہوجائے۔
ہم تمام مسلم حکمرانوں اورمسلم افواج سے درخواست کرتے ہیں کہ خدا را سوچیں کہ اس نازک موقع پر فلسطینیوں کی مدد نہ کر کے جس بڑی کوتاہی کا وہ ارتکاب کر رہے ہیں ،اس کی تلافی کیسے ہو سکے گی۔ مرنا سب نے ہے۔ آج کے حکمران، افواج کے سربراہان کل زیر زمین جانے والے ہیں اور یہ نہ بھولیے گا کہ کل قیامت کے دن رب کے سامنے کھڑا بھی ہونا ہے۔ اپنا محاسبہ کیجیے، اس سے قبل کہ بڑے محاسبے کا دن آ جائے۔ اس سے پہلے کہ فرعون وقت امریکہ سب مسلمانوں کو ویسے ہی ڈبونے کی کوشش کرے جیسے اس کی شہری خاتون نےفلسطینی مسلم خاتون کے بچوں کو ڈبونے کی کوشش کی ۔ ہم سب کوفلسطین کاقرض اور فرض ادا کرنے کی کوششوں کا آغاز کرنا چاہیے۔ مہلت عمر ختم ہو گئی تو تلافی کا موقع نہیں ملے گا۔ اللہ توفیق دے۔