(اداریہ) عزمِ استحکام… مگر کیسے ؟ - خورشید انجم

9 /

اداریہ
خورشیدانجم

عزمِ استحکام… مگر کیسے ؟

ہمارا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ بیس برس قبل ایک ڈکٹیٹر نے امریکہ کی جنگ کا حصہ بن کر ملک کو تباہی کے دہانے لا کھڑا کیا ۔ ایک طویل عرصہ تک امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی بنے رہنے کے باعث ملک میں نفرتیں بڑھیں اور اتنی بڑھیں کہ پاکستان کو تقریباً دو دہائیوں تک بدترین دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان دو دہائیوں میں 80 ہزارسے زیادہ جانوں کا نذرانہ پیش کیا گیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ملکی معیشت کو 120 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ بھارت، اسرائیل اور امریکہ کے ابلیسی اتحادِ ثلاثہ نے ملک میں جنم لینے والی نفرتوں سے بھرپور فائدہ اُٹھایا۔ افغانستان میں امریکہ کی نصب کردہ کٹھ پتلی حکومتوں نے بھارت کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور پاکستان کی سرحد کے قرب و جوار میں 17 بھارتی کونسل خانے کھولے گئے جو درحقیقت دہشت گردوں کی نرسریاں تھیں۔ وہاں دہشت گردوں کو تربیت دی جاتی، اُنہیں اسلحہ فراہم کیا جاتا، روپیہ دیا جاتا اور پھر دہشت پھیلانے کے لیے سرحد پار روانہ کر دیا جاتا۔ کئی دیگر ممالک کی سرزمین بھی استعمال کی گئی۔ کلبھوشن یادیو جو متعدد بار ایران کے راستے پاکستان داخل ہوا اُس کی زندہ مثال ہے۔
بہرحال صورتِ حال انتہائی دگرگوں تھی۔ اُس دور میں عسکری اداروں کو نشانہ بنایاگیا، فوجیوں کو شہید کیا گیا اور بڑی تعداد میں عام شہری بھی شہید ہوئے۔ بہرحال 2013ء کے بعد دو فوجی آپریشن کیے گئے جس سے دہشت گردی کا خاتمہ تو نہ ہو ا لیکن لاکھوں کی تعداد میں عوام بے گھر ہوگئے اور نفرتیں بڑھتی گئیں۔ جب امریکہ کے خوف سے آپریشن کیے گئے تو نقصان ہی ہوا۔ آج چین کو خوش کرنے کے لیے کارروائیاں کیسے ملکی مفاد میں ہوسکتی ہیں؟اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی ایک ناسور ہے جس نے وطن عزیز کو بے پناہ نقصان پہنچایاہے۔ دہشت گردی کے عفریت کا دوبارہ سر اُٹھانا انتہائی تشویش ناک ہے اور دہشت گردی کا خاتمہ ملک کے امن و امان اور ترقی و خوشحالی کے لیے ناگزیر ہے لیکن کبھی فوجی آپریشنوں سے بھی دلوں اور دماغوں (Hearts and Minds) کو مسخر کرنے کی جنگ جیتی گئی ہے؟ کیا اس طرف بھی کوئی توجہ دینے کوتیارہے کہ مشرف دورسےقبل پاکستان میں دہشت گردی نہ ہونے کے برابر تھی۔ ماضی کے فوجی آپریشنز میں بھی اصل اور بڑا نقصان ملک کے پُر امن شہریوں کا ہی ہوا۔ وہ نفرتیں، جو ڈمہ ڈولہ میں مدرسہ کے 80 حفاظ طلبہ کو ڈرون حملہ میں شہید کیے جانے، سانحہ لال مسجد اور ان جیسے دیگر اندوہناک واقعات کے باعث پیدا ہوئیں، اُنہیں بارود کے استعمال سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ پھر یہ کہ آپریشن کی آڑ میں امارت اسلامیہ افغانستان کی سرزمین کو نشانہ بنانا ملکی سلامتی کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ اِس سے پاکستان کی مشرقی سرحد کے ساتھ ساتھ مغربی سرحد بھی غیر محفوظ ہوجائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ دہائی کے دوران دو فوجی آپریشنز کے باعث خیبر پختونخوا میں لاکھوں کی تعداد میں افراد بے گھر ہوئے اور بڑی تعداد میں آبادیاں صفحۂ ہستی سے مٹا دی گئیں۔
ہمارے نزدیک بڑی طاقتوں کی غیر مشروط تابعداری کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک کا رُواں رُواں سود کے جال میں جکڑا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سودی قرضہ ایک ایسا طوق ہے جو انسان اور ریاست دونوں کو اصولوں اور بڑے مقاصد سے بےپروا کر کےمحض چند لقمے حاصل کرنے کے لیے درندوں کی سطح پر جا گراتاہے۔ اپنوں، بےگانوں اور دوست دشمن کی تمیز ختم ہو جاتی ہے۔ کیا یہ کسی المیہ سے کم ہے کہ امسال ملک کے سالانہ بجٹ کا 60 فیصد صرف قرضوں پر سود کی ادائیگی پر خرچ ہوگا۔ آئی ایم ایف کے اعداد و شمار کے مطابق اگلے دو برس میں 73 ارب ڈالر واپس کرنے ہیں۔ ایسے میں سخت ترین شرائط پر مزید سودی قرضہ حاصل کرنے کی سعی کرنا قومی خود کُشی سے کم نہیں۔ آئی ایم ایف امریکی استعمار کا ادارہ ہے اور اسے استعمال کرکے ممالک کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ملکی مفاد کو تج کرکے امریکی مفاد کے مطابق فیصلے کر یں۔ اپنے ہی ملک کے لوگوں کے خلاف محاذ کھول دیں۔
لہٰذا اصل سوال یہ ہے کہ اس حالت میں جبکہ پاکستانیوں کا بال بال قرضہ میں پھنسا ہوا ہے کیا کیا جائے ؟ ہمارے نزدیک کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ اس ناپاک قرضہ سے جس کا ہم سود بھی ادا کر رہے ہیں اُس سے فوری چھٹکارا حاصل کریں۔ ہمیںہمالائی ہمت کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور ایک بڑا رسک لینا ہوگا۔ وہ یہ کہ اپنے قرض خواہان سے کہہ دیں کہ جہاں تک سود کا تعلق ہے وہ ہماری شریعت میں حرام ہے اور اب ہمارے ملک کی ایک بڑی اور اہم عدالت کا فیصلہ بھی سود کے خلاف آچکا ہے لہٰذا سود تو ہم ادا نہیں کریں گے البتہ اصل زر جب بھی اور جیسے ہی ممکن ہوا ادا کر دیا جائے گا۔ ہم جانتے ہیں دنیا میں کوئی اس کو تسلیم نہیں کرے گا اور ہمیں ڈیفالٹر قرار دے کر ہمارے خلاف عالمی سطح پر اقدامات کیے جائیں گے لیکن وہ آج نہیں تو کل ہونا ہی ہے ۔ کیا عالمی مہاجن کےپاؤں پڑنے سے وہ ہمیں معاف کر دیں گے؟وہ ہرگز ایسا نہیں کریں جبکہ اُس وقت ہم اپنا سب کچھ اُن کی خدمت میں پیش بھی کر چکے ہوں گے۔ لہٰذا ملکی مفاد میں فیصلے کیے جائیں اور عالمی سپر طاقتوں کے اشاروں پر ناچنا بند کیا جائے۔ اُن کی گریٹ گیم کا حصہ نہ بنا جائے۔
چنانچہ اب بھی وقت ہے پانی ابھی سرسے نہیں گزرا۔اس وقت ضرورت زخموں پر مرہم رکھنے کی ہے۔ ایک حقیقی Truth and Reconciliationکمیشن تشکیل دیا جائے۔ ہر فرد ، ہر ادارہ اپنی طرف سے کی گئی زیادتیوں کو تسلیم کرےاور اُس پر معافی مانگے، مظلوموں کے لیے تلافی کا بندوبست کیا جائے، آئندہ ملکی مفادمیں سب کو ساتھ لے کر چلنےکا عزم کیا جائے۔ اس بات کو سمجھا جائے کہ امریکہ،بھارت اور اسرائیل ہمارے ازلی دشمن ہیں۔ وہ پاکستان کی نظریاتی اساس کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اُن کو بری طرح کھٹکتی ہے۔ اُن کی شدید خواہش ہے کہ پاکستان میں افراتفری پھیلے۔ ان کے ایجنٹ ملک میں دہشت گردی کو ہوا دیتے ہیں لیکن ہمیں بھی اصل دشمن کی پہچان کرکے اُسے تنہا کرنا ہے۔
ہمارا ناصحانہ مشورہ ہے کہ تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کا راستہ اپنایا جائے۔ حکومت اور ریاستی اداروں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ریاست کی رٹ قائم کرنے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کبھی فائدہ مند نہیں ہوتا۔ صرف جرم میں ملوث افراد کے خلاف آئین و قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے کارروائی کی جائے۔ اپنے دوستوں کو بھی پہچاننا ہے اور ناراض لوگوں کو بھی دوبارہ ساتھ ملانا ہےتاکہ امن و خوشحالی کی طرف سفر دوبارہ شروع کیا جا سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نظریۂ اسلام کی بنیاد پر قائم کیا گیا تھا اور اس میں بسنے والے تمام لوگوں اور جغرافیائی اکائیوں کو جوڑنے والی واحد قوت آج بھی اسلام ہی ہے۔ لہٰذا نفرتوں کو ختم کرنے اور ملک میں امن وامان کی صورتحال کو بحال کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنایا جائے۔
اور اب آئیں مدین( سوات) میں ہونے والے ایک اور دل خراش واقعہ کی طرف جہاں 18 جون 2024ء کو سلمان نامی شخص کومبینہ طور پر قرآن مجید کے اوراق جلانے کے الزام میں زندہ جلا دیا گیا۔ حالانکہ ہوٹل میں مقیم اس شخص کے کمرے سے پولیس کو کوئی ایسی شہادت نہیں ملی۔ ہمیں یہاں اس واقعہ کی تفصیل بیان کرنا مقصود نہیں۔یقیناً حکومت کا فرض ہے کہ اس واقعہ کی مکمل اورشفاف تحقیقات کرکے تمام مجرموں کوقرار واقعی سزادے۔ البتہ ہم اس واقعہ کے نتائج وعواقب کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالنا بھی مناسب سمجھتے ہیں۔
اس واقعہ کا ایک خوفناک پہلو تو یہ ہے کہ شاید یہ ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے کہ آپ اگر کسی شخص کو پسند نہیں کرتے یا آپ کا کسی سے جھگڑا ہے اور اس سے انتقام لینا چاہتے ہیں تو بس صرف ایک آواز لگا دیں کہ اس شخص نے قرآن مجید کی توہین کی ہے، اس کے اوراق جلائے ہیں، اس نے نبی اکرمﷺ کی توہین کی ہے۔ ایک مجمع اکٹھا ہو جائے گا۔ تھانے پر حملہ ہوگا۔ پولیس سے اس شخص کو چھڑا کر آگ لگا دی جائے گی۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسے واقعات پےدر پے کیوں وقوع پذیر ہو نے شروع ہو گئے ہیں؟
اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آج تک مرتکبین توہین رسالت اور مرتکبین توہین قرآن کو قرار واقعی سزا نہیں ملی۔ ایسے پچھلے تمام واقعات کی تاریخ دیکھ لیں۔ یا تو گورنر صاحب نے بذات خود جیل جا کر رہا کرایا اور بیرون ملک بھجوا دیا گیا یا پھر کئی سال عدالتوں میں کیس لٹکا رہا اور سال ہا سال بعد جب لوگ اس واقعہ کو بھول گئے تو یہ مر تکبین بھی بری ہو کر بیرون ملک چلے گئے۔
اگر ابتدا ہی میں ایسے واقعات کو سنجیدگی سے لیا جاتا، تحقیق و تفتیش کا حق ادا کیا جاتا اور عدالتوں میں بھی بڑی تیزی کے ساتھ سماعت کر کے مرتکبین کو عبرت ناک سزا دی جاتی تو لوگ قانون کو ہاتھ میں نہ لیتے۔ اگر حکمرانوں کی نیت میں فتور نہ ہوتا، بیرونی آقاؤں کی خوشنودی کی خاطر ان کی ڈکٹیشن قبول نہ کی جاتی تو معاملات کو سنبھالنا کوئی مشکل کام نہ تھا۔
اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ روز بروز عوام کی بے چینی، ڈپریشن اور فرسٹریشن میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ آئے دن پٹرول اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور اشیائے ضروریہ کا لوگوں کی پہنچ سے باہر ہونا ہے۔ لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ وہ مختلف طریقوں سے اپنا غصہ نکالنا چاہتے ہیں۔ جب معاشرے میں ظلم کی انتہا ہو جائے اور لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہو جائے تو پھر معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ امام الہند شاہ ولی اللہ ؒ فرماتے ہیں کہ ’’جس معاشرے میں تقسیم ِدولت کا نظام بگڑ جائے تو وہ دو دھاری تلوار بن جاتا ہے اور اس میں دو طرح کے طبقات پیدا ہو جاتے ہیں۔ ایک مال مست اور دوسرا حال مست بن جاتا ہے۔‘‘ آج ہمارے معاشرے میں بھی بیس فیصد اشرافیہ ملک کے اسّی فیصد وسائل پر قابض ہے۔جبکہ اسّی فیصد عوام کو بمشکل بیس فیصد وسائل میسر ہیں۔
یاد رکھیں! جب ظلم کی انتہا ہو جاتی ہے اور اس سے نکلنے کا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا تو پھر اس کی مثال اس دریا کی سی ہوتی ہے جس کے پانی کو روکنے کی کوشش کی جائے تو وہ تمام بند توڑ کر اپنا راستہ بنا لیتا ہے اور پھر راستے میں آنے والی ہر شے کو بہا کر لے جاتا ہے۔
حکمران اگر اب بھی ہوش کے ناخن لے لیں، اپنا قبلہ وائٹ ہاؤس کے بجائے بیت اللہ کو بنا لیں تو ہو سکتا ہے اللہ کو اس قوم پر رحم ا ٓجائےاور یہ گھر سلامت رہ جائے۔ اگر حکمران اب بھی سنجیدہ نہ ہوئے اور عوام کے بنیادی مسائل کا کوئی فوری حل نہیں نکالا گیا تو کچھ بعید نہیں کہ غصے اور انتقام کا یہ لاوا جو اندر ہی اندر سلگ رہا ہے، وہ کہیں سب کچھ بہاکر نہ لے جائے۔ پھر عوام کا جو حال ہوگا سو ہوگا ،اشرافیہ اور مقتدر طبقات بھی اپنے مال و اسباب سمیت تباہ و برباد ہو جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں اور مقتدر طبقات کو ہوش کے ناخن لینے اور صحیح فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! 
٫