(English) شہادتِ حسین ؓ کا اصل سبق - حافظ عاکف سعید

9 /

شہادتِ حسین ؓ کا اصل سبق

حافظ عاکف سعید

10محرم الحرام کو ہماری تاریخ میں ایک بہت بڑا سانحہ پیش آیا، جسے واقعہ کربلا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ سانحہ کربلا کے میدان میں حضرت حسینh اور اُن کے اعزہ و اقارب کی المناک شہادت کا سانحہ ہے۔ اِس ضمن میں پہلی بات یہ ہے کہ شہادت سے مراد کیا ہے؟ اور اللہ کی راہ میں جان دینے کا کیا مقام و مرتبہ ہے؟ آئیے سورۃ البقرہ کی روشنی میں سمجھیں۔ فرمایا:
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ  ط  اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ o}(153)  
’’اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد لیا کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
یہاں اہل ایمان کو دو چیزوں سے مدد لینے کا حکم دیا گیا ہے،۔ ایک صبر ہے اور دوسری نماز۔ یعنی اِن دو چیزوں کے اہتمام سے مومنوں کو تقویت اور تائید ملے گی۔ اس موقع پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ مدد اور سپورٹ کس کام میں درکار ہے؟ اِس کا جواب بھی واضح ہے۔ امت مسلمہ ایک عظیم مشن کے لیے برپا کی گئی ہے۔ یہ شہادت حق کا مشن ہے۔ اس کو آگے بڑھانے کے لیے مدد اور تقویت درکار ہے۔ یہ تقویت صبر اور نماز سے حاصل ہوگی۔ امت مسلمہ کے اس عظیم مشن کا تذکرہ مذکورہ آیت سے چند آیات پہلے (سترہویں رکوع میں) آیا ہے، جہاں سابقہ اُمت مسلمہ بنی اسرائیل کو اُس کے کرتوتوں اور جرائم کے سبب اللہ کی نمائندگی کے منصب سے معزول کرنے کے بعد اِس منصب پر اُمت محمدیہؐ کو فائز کرنے کا اعلان ہوا۔ فرمایا:
{وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًاo }(البقرہ:143)    
’’اور اسی طرح ہم نے تم کو امت معتدل بنایا ہے، تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر (آخر الزماں ﷺ)  تم پر گواہ بنیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرما دیا کہ اُمت مسلمہ کا مشن شہادت علی الناس ہے۔ اللہ نے ہمیں اُمت وسط بنایا، اس لیے تاکہ ہم دنیا والوں پر گواہ بنیں اور رسول ہم پر گواہ ہوں۔ شہادت کے اصل معنی گواہی کے ہیں۔   اِسی معنی میں یہ لفظ اردو زبان میں استعمال ہوتا ہے۔ اُمت محمدیہ کے اُمت وسط ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ اُمت اللہ اور اُس کی مخلوق کے درمیان واسطہ کا کام دے گی۔ نبوت و رسالت کا دروازہ اب ابدالآباد تک بند کردیا گیا ہے۔ اب رہتی دنیا تک نوع انسانی تک اللہ کا پیغام پہنچانے کی ذمہ داری اِس امت کے کندھوں پر ہے۔ افراد اُمت کا کام ہے کہ شہادت کی یہ ذمہ داری ادا کریں اور دنیا والوں تک اسلام کا پیغام پہنچائیں۔ ’’شہید‘‘ کے معنی گواہی دینے والے کے ہیں۔ یہ لفظ اللہ کی راہ میں جان قربان کرنے والے شخص کے لیے بھی آتا ہے۔ تو اس کی بھی اپنے اصل معنی سے گہری مناسبت ہے۔ دیکھئے، شہادت اور گواہی کے کئی مدارج ہیں۔ ابتدائی درجہ تو یہی ہے کہ زبان سے دین کی دعوت دی جائے۔ اس کی تبلیغ کی جائے۔ قلم سے اس کی نشر و اشاعت کی جائے۔ یہ قولی گواہی ہے۔ گواہی کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ دین کوبالفعل قائم کرکے دنیا کے سامنے اس کے نظام عدل و قسط کا نقشہ پیش کردیا جائے۔ ظاہر ہے یہ کام آسان نہیں۔ اس کام میں باطل کے ساتھ براہِ راست تصادم ہوتا ہے اور جانیں نچھاور کرنی پڑتی ہیں اور خون کا نذرانہ دینا پڑتا ہے۔ تو جو شخص اللہ کے دین کے غلبہ یا اُس کی بقاکی جدوجہد میں قتل ہو جائے وہ شہادت کے بلند ترین درجے پر فائز ہوجاتاہے۔ اس لیے کہ وہ دین حق کی گواہی دیتے ہوئے اپنی جان تک قربان کر دیتا ہے جو اُس کی عزیز ترین متاع ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی بھی شہادت کی بڑی آرزو تھی۔ آپؐ فرماتے تھے: میری یہ آرزو ہے کہ اللہ کی راہ میں (لڑتے ہوئے) قتل ہو جائوں، پھر زندہ کیا جائوں، پھر قتل ہو جائوں۔ پھر زندہ کیا جائوں، پھر قتل ہو جائوں۔ لیکن چونکہ رسول اللہ کا نمائندہ ہوتا ہے، لہٰذا اللہ نے اُس کے حق میں یہ فیصلہ فرمادیا ہے کہ وہ مغلوب نہیں ہو سکتا۔ حالات کتنے بھی کٹھن کیوں نہ ہوں، آخری غلبہ اور کامرانی اُسی کو عطا ہوتی ہے۔ 
    رسول اپنے قول اور عمل دونوں سے دین کی گواہی بتمام و کمال دیتا ہے۔ چنانچہ ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ نے دین کی دعوت و تبلیغ کا فریضہ بھی انجام دیا اور جزیرئہ نما عرب کی حد تک اللہ کے دین کو بالفعل غالب کرکے  عملی شہادت کا حق بھی ادا فرمادیا۔ شہادت حق ایک نہایت کٹھن ذمہ داری ہے۔ لہٰذا اِس کی ادائیگی کی جدوجہد میں صبر اور نماز سے مدد حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اہل ایمان کو بتایا گیا کہ تم صبر و مصابرت ہی سے اِس راہ میں پیش آنے والی تکالیف اور مصائب کا مقابلہ کرسکو گے، اور نماز ہی سے تمہارے ایمان کی بیٹری چارج ہوگی اور تمہیں روحانی قوت حاصل ہوگی۔ اللہ کے رسول ﷺ اور آپؐ کے صحابہj نے اِس عظیم فریضے کو ادا کرتے ہوئے بے پناہ صعوبتیں برداشت کیں، سختیاں جھیلیں اور ہر قسم کی مشکلات کا سامنا کیا، لیکن استقامت کی چٹان بنے رہے۔ 
شہادت مومن کا مطلوب و مقصود ہے۔ ہر سچے صاحب ایمان کی یہ آرزو ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں مارا جائے اور شہادت کے رتبہ جلیلہ پر فائز ہو۔ ہمارے دین میں شہادت کا معاملہ کوئی رنج و غم والی بات ہے ہی نہیں۔ یہ تو ایک مرد مومن کے لیے فوز و فلاح اور نجات و کامیابی کا اعلیٰ ترین مقام ہے۔ چنانچہ اگلی آیت میں فرمایا:
{وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ ط  بَلْ اَحْیَآئٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ(154)} ’’جو اللہ کی راہ میں قتل کیے جائیں، انہیں مردہ نہ کہو، بلکہ یہ لوگ (تو حقیقت میں) زندہ ہیں، مگر تمہیں اِن کی زندگی کا شعور حاصل نہیں۔‘‘
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کی راہ میں گردن کٹا کر دین کی گواہی کا حق ادا کردیا۔ تم انہیں مردہ نہ کہو، یہ زندہ ہیں۔ اللہ نے انہیں حیات جاوداں عطا کی ہے۔ ہاں تمہارا فہم وشعور اس درجے کا نہیں کہ اُن کی زندگی کی کیفیت کا ادراک کرسکو۔یہی بات سورۃ آل عمران میں اور بھی پُر جلال انداز میں کہی گئی ہے۔ فرمایا: 
 ’’جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں، اُن کو مردہ خیال نہ کرو، بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس سے روزی پارہے ہیں، جو کچھ اللہ نے انہیں اپنے فضل سے بخش رکھا ہے، اُس پر شاداں و فرحاں ہیں اور (یہی نہیں) جو لوگ اُن کے پیچھے رہ گئے اور (شہید ہوکر) اُن میں شامل نہیں ہوسکے اُن کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں کہ (قیامت کے دن ) اُن کو بھی کچھ خوف نہ ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے۔‘‘(آل عمران)
کربلا کے میدان میں نواسۂ رسولﷺ کی شہادت کا جو سانحہ پیش آیا، یہ ہماری تاریخ کا بہت بڑا سانحہ ہے، تاہم یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ ہماری پوری تاریخ شہادتوں سے بھری پڑی ہے۔ دور نبوی اور دور خلافت راشدہ میں شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو جس میں کوئی نہ کوئی عظیم شہادت و قوع پذیر نہ ہوئی ہو۔ شہادت ہرگز رنج و الم سوگ اور ماتم کرنے والی چیز نہیں ہے۔ اگر شہادت ماتم والی شے ہے تو پھر حضرت سمیہ ؓ کی المناک شہادت کا دن بھی ماتم کے طور پر منایا جانا چاہیے۔ یہ عظیم شہادت توحید کے لیے پہلا خون ہے جس سے مکہ مکرمہ کی زمین لالہ زار ہوئی۔ پھر اِن کے شوہر حضرت یاسر ؓ کی بیہمانہ انداز سے شہادت کا دلدوز واقعہ ہے۔ پھر میدان احد میں نبی کریم ﷺکے چچا حضرت حمزہ ؓ کی المناک شہادت کا سانحہ ہے۔ اُن کی نعش مبارک کا حال یہ تھا کہ اعضا بریدہ ہیں، پیٹ چاک ہے، کلیجہ نکال کر چبانے کی کوشش کی گئی ہے۔ پھر حضرت زید بن حارثہؓ، حضرت جعفر بن ابی طالبؓ، حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ، حضرت مصعب بن عمیرؓ اور بے شمار دوسرے جاں نثارانِ محمد ﷺ دور نبوت میں شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔ سوگ کا دن منایا جاتا تو اُن کا منایا جاتا۔ اِسی طرح اسلامی کیلنڈر کا جو پہلا دن ہرسال آتا ہے یعنی یکم محرم الحرام یہ بھی ایک عظیم شہادت کا دن ہے۔ اُس روز دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر فاروق ؓ کی شہادت ہوئی۔ اگر سوگ منانے کا سلسلہ جاری رہے تو بتایا جائے کہ کون سا دن ہوگا جب سوگ نہ منایا جائے گا۔ 
     نواسۂ رسول سیدنا حضرت حسین ؓ اور آپؓ کے ساتھ آپ کے خاندان کے اکثر افراد نے 10 محرم سن 61 ہجری میں دشت کربلا میں شہادت پائی۔ حضرت حسین ؓ کی شہادت کے واقعات کے بیان سے قطع نظر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ یہ اچانک ظہور پذیر ہونے والا حادثہ نہیں تھا، بلکہ یہ اِس سبائی سازش کا مظہر تھا جو پچیس سال قبل ایک اور المناک حادثے کو جنم دے چکی تھی یعنی نبی کریم ﷺ کے داماد اور تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان ذوالنورین ؓ کی مظلومانہ شہادت۔ قبل ازیں حضرت عمر فاروق ؓ کی شہادت ہوئی۔ یہ اہلِ فارس کی سازش تھی۔ 
       اہل فارس کا خیال تھا کہ اسلام کو جو شان و شوکت حاصل ہوئی ہے، اگر اس شخص کو راستے سے ہٹا دیا جائے تو اسلامی اقتدار کے غلبہ و توسیع کو کنٹرول کیا جاسکے گا۔ چنانچہ ابولولو فیروز فارسی مجوسی کے ذریعے اس سازش کو عملی جامہ پہنایا گیا۔ آپ ؓ کی شہادت کے بعد خلافت کی ذمہ داری حضرت عثمان غنی ؓ کے کندھوں پر آگئی۔ آپؓ کا دور خلافت 12 سال کا ہے۔ یہ خلفائے اربعہ میں سے سب سے طویل دور ہے۔ آپؓ کے دور ِخلافت کے ابتدائی 10 برس اُسی شان کے ہیں، جیسے دور فاروقی کے تھے۔ دور عثمانی میں اسلامی سلطنت کی سرحدیں ماوراء النہر تک پھیل گئیں۔ لیبیا، تیونس، الجزائر اور مراکش اسلام کے پرچم تلے آگئے۔ اسلام کا یہ سیل رواں دشمنوں کی تمام تر سازشوں کے باوجود تھمتا نہ تھا۔ اس کو روکنے کے لیے یہودیوں نے Disinformation کا ہتھیار استعمال کیا، جو آج بھی وہ بڑی مہارت سے استعمال کررہے ہیں۔ عبد اللہ بن سبا یہودی نے اسلام کا لبادہ اوڑھا اور مدینے میں آگیا۔ اُس نے لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالنے شروع کردیئے۔ اُس نے کہا کہ ہر نبی کا ایک وصی ہوتا ہے، خلافت اُسی کا حق ہوتا ہے اور حضرت محمدرسول اللہ ﷺ کے وصی حضرت علیؓ ہیں، لہٰذا خلافت اُن کا حق ہے۔ مدینہ کے بعد وہ بصرہ اور پھر مصر گیا۔ وہاں بھی اُس نے اپنا ایک ایک مرکز قائم کیا اور یہی پروپیگنڈا کرتا رہا۔ اُس نے اپنے ہم خیالوں کی ایک جماعت پیدا کرلی۔ جس کے نتیجے میں امام مظلوم حضرت عثمانؓ کی شہادت وقوع پذیر ہوئی۔ اُس زمانے میںبھی دشمنان اسلام نے Disinformation کا سہارا لیا، آج بھی وہ میڈیا کے غلط پروپیگنڈا کے ذریعے سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرتے اور مسلمانوں میں تفریق پیدا کرتے ہیں۔ اس کے بعد حضرت علی ؓ کا عہد خلافت آیا۔ آپؓ کے عہد خلافت کے پونے پانچ برس باہم خانہ جنگی میں گزرے۔ جنگ جمل ہوئی، جنگ صفین ہوئی، جنگ نہروان ہوئی۔ مسلمان کی تلوار سے ہی مسلمان کا خون ہوتا رہا۔ جلیل القدر صحابہ ؓ شہید ہوئے۔ اِس دوران جب بھی مصالحت آخری مرحلے پر پہنچتی تو ایک سازشی ٹولہ معاملے کو بگاڑ دیتا۔ سازشوں کا سلسلہ چلتا رہا۔ ایک خارجی کے ہاتھوں حضرت علی ؓ کی شہادت کے بعد کوفہ میں حضرت حسن ؓ کے ہاتھ پر بیعت خلافت ہوئی۔ اُن کا حضرت معاویہ ؓ سے اختلاف ہوا، اور اُن کی فوج سے تصادم ہوا۔ لیکن بالآخر صلح ہوگئی۔ 
حضرت معاویہ ؓ کی جانب سے یزید کو امیر نامزد کیا گیا تو حضرت حسین ؓ نے اِس سے اختلاف کیا۔ اہلسنت اس معاملے میںیہ رائے رکھتے ہیں کہ آنجناب پوری نیک نیتی سے یہ سمجھتے تھے کہ اسلام کے شورائی اور جمہوری مزاج کو بدلا جارہا ہے۔ حالات کے رُخ کو اگر ہم نے تبدیل نہ کیا تو وہ خالص اسلام جو حضرت محمدﷺ لے کر آئے تھے اور جسے آپؐ نے قائم فرمایا تھا، اس میں کجی کی بنیاد پڑ جائے گی۔ لہٰذا اِسے ہر قیمت پر روکنا ضروری ہے۔ پھر یہ کہ کوفہ کے لوگوں کی جانب سے برابر پیغامات آرہے تھے کہ آپؓ کوفہ آئیں، ہم بیعت کرنے کو تیار نہیں۔ اس لیے آپؓ کوفہ روانہ ہوگئے۔ کوفیوں نے اس موقع پر غداری کی۔ یہی وہ سازشی عنصر ہے جس کے سبب کربلا کا سانحہ پیش آیا۔ 
سانحۂ کربلا کے حوالے سے غور طلب سوال یہ ہے کہ اِس واقعے میں ہمارے لیے سبق کیا ہے؟ حضرت حسین ؓ کس بنیاد پر یزید کے خلاف اُٹھے؟ ایک تاثر یہ ہے کہ دور خلافت راشدہ کے بعد اسلام کی شاید پوری عمارت ہی ایک دم زمین بوس ہوگئی۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ والد محترمؒ فرمایا کرتے تھے کہ اسلام کی عمارت کو اگر چھ منزلہ عظیم الشان قصر سے تعبیر کیا جائے تو یوں سمجھئے کہ سب سے بالائی منزل یعنی سیاسی سطح پر اس میں ایک دراڑ آگئی تھی۔ چنانچہ{اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ } کا تقاضا پورا ہونے اور مسلمانوں کا امیر ان کی مشاورت سے طے ہونے کی بجائے نامزدگی ہوگئی۔ حضرت معاویہ ؓ صحابیٔ رسولﷺ ہیں۔ نامزدگی سے اُن کے پیش نظر بعض مصلحتیں تھیں۔ انہوں نے یہ نامزدگی اس اندیشے اور مصلحت کے تحت کی کہ کہیں اُمت دوبارہ اس سازش کا شکار نہ ہو جائے۔ افسوس کہ حضرت امیر معاویہؓ کے دور کو ہماری نگاہوں سے اوجھل کردیا گیا، حالانکہ آپ کے 20 سالہ عہد میں امن وامان کا دور دورہ رہا، اور فتوحات کا وہ سلسلہ جو رک گیا تھا، پھر آگے بڑھا۔ بہرکیف اہل سنت و الجماعت کا اس بات پر اجماع ہے کہ ہم یزید کی نامزدگی کو بدنیتی نہیں کہیں گے۔ کسی صحابی کے بارے میں اِس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں، اجتہادی غلطی ہوسکتی ہے۔ انہوں نے نامزدگی کا فیصلہ اس لیے کیا کہ سازشی کہیں دوبارہ نہ آجائیں۔ لیکن اصولی اعتبار سے اس سے تقرر امیر کے لیے شورائیت کے حوالے سے اوپر کی منزل میں ایک دراڑ پڑگئی۔ چنانچہ اس کے خلاف حضرت حسین ؓ اُٹھے، اس خیال سے کہ یہ معاملہ آگے بڑھ کر اور بگاڑ کا سبب نہ بن جائے۔ اسلام کے اجتماعی نظام میں اتنا سا فرق آیا تو انہوں نے اس پر بھی سٹینڈ لیا۔ یہ ہے عظمت اور عزیمت نواسۂ رسول ﷺ کی۔ وہ اس نامزدگی کے خلاف اُٹھے۔ بہت سے اور لوگوں کو بھی اس نامزدگی سے اختلاف تھا، لیکن وہ اُٹھے نہیں بلکہ وہ حضرت حسین ؓ کو بھی سمجھاتے رہے کہ کوفیوں کی باتوں میں نہ آئیے گا۔ یہ انتہائی ناقابل اعتبار لوگ ہیں۔ کیونکہ وہاں سے تاثر مل رہا تھا کہ لاکھوں لوگ حضرت حسین ؓ کو اپنا امام تسلیم کرنے اور آپؓ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو تیار بیٹھے ہیں اور آپؓ کے ساتھ مل کر اس نامزدگی کے خلاف جہاد کریں گے۔ یہ لوگ حضرت حسین ؓ کو آخری وقت تک روکتے رہے کہ یہ قدم نہ اُٹھائیں، اس سے معاملہ سنبھلے گا نہیں۔ مگر حضرت حسین ؓ نے اُن کے روکنے کے باوجود اس معاملے پر سٹینڈ لیا اور کوفیوں پر اعتبار کر کے کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ راہ حق میں انہوں نے اپنی اور اپنے اعزہ و اقارب کی گردنیں کٹادیں۔ 
حضرت حسین ؓ نے اپنی اور اعزہ و اقارب کی جانوں کی قربانی کس مقصد کے لیے دی تھی؟ اُن کے پیش نظر صرف یہ بات تھی کہ اُس دین پر ذرا بھی آنچ نہ آنے پائے، جو نبیﷺ قائم کرکے گئے تھے۔ آج ہم میں سے ہر ایک کو یہ سوچنا چاہیے کہ اللہ کا دین کس حال میں ہے۔ حضرت حسینؓ نے اسلام کی ایک منزل کے کسی درجے میں گرنے پر سٹینڈ لیا تھا، جبکہ آج دین کی ساری عمارت زمین بوس ہوچکی ہے۔ ساری منزلیں گر چکی ہیں۔ پورا ڈھانچہ غائب ہوگیا ہے۔ لیکن ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے اور اِس مسئلہ کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے۔ ہمارے لیے سانحۂ کربلا میں اصل سبق یہ ہے کہ اسلام کے قیام و بقا کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔ افسوس کہ آج دین چاروں شانے چت ہے، اور ہم سارے مل کر اِسے قائم کرنے کی بجائے اسلام دشمن قوتوں کی صف میں کھڑے ہیں۔ ہمارےحکمران اور اسٹیبلشمنٹ اس سانحہ سے سبق نہیں سیکھتے۔ اِس سانحہ میں ہمارے لیے جو اصل سبق ہے، اس کی طرف نہیں آتے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ خطۂ زمین عطا کیا ہے، ہم یہاں 96 فی صد مسلمان ہیں۔ مسلمانوں کی حکمرانی ہے۔ مگر پھر بھی ہم اللہ کا دین قائم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ روش  فلسفۂ حسینیت کے یکسر خلاف ہے۔ یہ اللہ اور اُس کے دین سے کھلی غداری ہے اور بے وفائی ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ہماری دینی قیادت اور مذہبی سیاسی جماعتیں بھی مصلحتوں کا شکار ہیں۔ استقامت اور عزیمت کا نام ہی ہماری قومی لغت سے غائب ہوچکا ہے۔ ہم نے بحیثیت قوم مفادات کے سامنے جھک جانا اپنا شعار بنالیا ہے۔ الا ماشاء اللہ۔ 
10 محرم کا اصل سبق یہ ہے کہ ہم عزیمت اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے آگے ڈٹ جائیں۔ امریکہ بڑی طاقت سہی، مگر اللہ کی طاقت کے مقابلے میں اُس کی حیثیت ہی کیا ہے۔ بے سروسامان طالبان افغانستان نے اللہ کی نصرت کے سہارےامریکہ اور اس کے متحدہ لشکر نیٹو کو افغانستان سے بھاگنے پرمجبور کر دیا۔ کفریہ طاقتیں افغانستان میں لگے زخم ابھی تک چاٹ رہی ہیں۔ پس واضح ہوگیا ہے کہ اللہ کی طاقت کے سامنے اُن کی کوئی حیثیت نہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا اللہ پر یقین ہی نہیں ہے۔ ہم اللہ کے دیئے ہوئے دین اور اُس کی عطا کی ہوئی شریعت کو نافذ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پھر اللہ کی مدد کیسے ہمارے شامل حال ہوسکتی ہے۔ ہمیں اللہ کو منانا ہوگا۔ اُس کے دین کا پرچم بلند کرنا ہوگا۔ یہی طرز عمل ہمیں مصائب و مشکلات اور غیروں کی غلامی سے چھٹکارا دلائے گا۔ ان شاء اللہ !