اداریہ
خورشید انجمسودی نظام اور طاغوت کی بحث … لمحہ ٔفکریہسود کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ 28 اپریل 2022ء بمطابق 26 رمضان المبارک 1443ھ کو جاری کیا گیا تھا۔ یہ شمارہ جب قارئین تک پہنچے گا تو اُس معرکۃ الآرا فیصلہ کو آئےہوئے811 دن یعنی تقریباً سوا دو برس گزر چکے ہوں گے۔ اس دوران کئی حکومتی ، نجی بنکوں اور افراد نے اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ انتہائی دکھ اور المیہ کی بات ہے کہ کسی دوسری عدالت کا فیصلہ جب اعلیٰ عدالت میں چیلنج کیا جاتا ہے تو حکمِ امتناعی (Stay Order) لینے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے اور باقاعدہ عدالتی کارروائی کے بعد حکم امتناعی جاری ہوتا ہے لیکن آئین و قانون کی موشگافیوں نے فیڈرل شریعت کورٹ کو ایسا یتیم وبےکس بنا دیا ہے کہ اُس کے فیصلوں کے خلاف حکم امتناعی لینے کے لیے محض سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنا کافی ہے۔ نہ کسی حکم نامہ کی حاجت اور نہ عدالتی کارروائی کی ضرورت۔ ہم جنس پرستی اور جنسی بےراہ روی کا راستہ کھولنے والے ٹرانس جینڈر قانون کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک جاری ہے ۔ گویا اسلام کے نام پر قائم ہونے والی مملکت میں اول تو شرعی تقاضوں کے مطابق قانون سازی کرنا ہدف ہی نہیں بلکہ اس کے برعکس اسلامی تعلیمات کی دھجیاں اُڑا کر آئےدن نت نئے قانون بنا دیے جاتے ہیں۔ پھر یہ کہ جب ایسے غیر اسلامی قوانین کے حوالے سے وفاقی شرعی عدالت سے رجوع کیا جاتا ہے کہ انہیں کالعدم قرار دیا جائے تو نہ صرف ریاستی مشینری اپنی تمام تر قوت کے ساتھ اُس کے مدعین کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوتی ہے اور اُن کا میڈیا ٹرائل بھی کیا جاتا ہے، بلکہ آئین و قانون میں موجود چور دروازوں (Loop Holes) کو استعمال کرتے ہوئے معاملہ کو سالوں تک لٹکا دیا جاتا ہے۔ گویا اس فرسودہ نظام کو جب تک تلپٹ کرکے ایک متبادل نظام رائج نہیں کیا جاتا، کسی خیر کی توقع کرنا دیوانے کا خواب ہے۔
بہرحال 1446ھ کے آغاز پر مسلمان دنیا کو بے پناہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس وقت امت ِمسلمہ (جو بالفعل محض مسلم اکثریت والے ممالک کی حیثیت رکھتی ہے) بدترین ذلت و رسوائی کا شکار ہے۔ کم ہمتی اور پستی کی یہ حالت اس قدر واضح اور ظاہر و باہر ہے کہ کسی مفصل خطبہ کی ضرورت نہیں۔ مملکت ِخداداد پاکستان کی بات کریں تو نظریۂ اسلام پر قائم ہونے والی مسلم دنیا کی واحد ایٹمی قوت ، جو پون صدی سے اشرافیہ کے قبضہ میں ہے ،اپنی بقاء اور سلامتی کی جنگ لڑ رہی ہے۔ ہمارے نزدیک ملک کی سمت درست کرنے اور اُسے صحیح رخ پر ڈالنے کے لیے ناگزیر ہے کہ اس کی اصل کی طرف لوٹا جائے۔ یہ ملک اسلام کی بنیاد پر قائم کیا گیا تھا۔ اس کی بقاء اور سلامتی بھی اسلام کو قائم اور نافذ کرکے ملک کو صحیح معنی میں ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے میں مضمر ہے۔ ایک ایسی ریاست جو دین کے مسلمہ اصولوں کے مطابق حق داروں کو اُن کا حق دے اور ظلم کا خاتمہ کرے، حکومت اور ریاستی اداروں کے عہدیداران و کارکنان کو اپنے فرائض ادا کرنے میں ممدومعاون ثابت ہو اور جو بھی اپنے فرائض کی ادائیگی میں غفلت برتے اُس کا کڑا احتساب کیا جائے۔ عوام کی فلاح و بہبود جس میں اہم ترین مقام اُخروی فلاح کو حاصل ہے اُس کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں۔ لیکن ہماری پون صدی کی تاریخ کا حاصل یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں سے اس کی امید رکھنا شاید بے معنی ہو چکا ہے کیونکہ ملک کو اس دلدل سے نکال کر اس کو صحیح راستے پر ڈالنا اُن کے اوّلین اہداف میں شامل ہی نہیں۔ ہمارے نزدیک علماء کرام کو حقیقی لیڈر شپ کا کردار ادا کرنا ہوگا کہ وہ عوام کو ساتھ ملا کر ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اور ملک میں شریعت محمدی ﷺ کے قیام اور نفاذ کے لیے ایک بھرپور تحریک برپا کریں۔ یاد رہے کہ جب 1974ء میں علماء کرام کی رہنمائی میں عوام نے قادیانیوں کے خلاف بھرپور تحریک چلائی تھی تو پارلیمان اُنہیں غیر مسلم قرار دینے پر مجبور ہوگئی تھی۔ ملک میں اسلامی نظام کے قیام و نفاذ کے لیے بھی ایسی ہی بھرپور تحریک برپا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم ملک و ملت کو صحیح راستے پر گامزن کر سکیں۔ دنیا میں بھی امن و خوشحالی حاصل ہو اور آخرت میں اللہ کے حضور کامیاب و کامران ٹھہریں۔ اللہ تعالیٰ ہدایت پر استقامت عطا فرمائے۔ آمین!
چند روز سے ’طاغوت‘ پر بحث نے سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا پر آگ لگائی ہوئی ہے۔اگرچہ اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ چینل اور شو کی ریٹنگ حاصل کرنے کے لیے یہ پہلے سے طے شدہ پروگرام تھا اور ایک مردہ پروگرام کی ریٹنگ بڑھانا مقصود تھا مگرہمارے نزدیک ان کا اصل مقصد دینی اصطلاحات کو موضوع بحث بنا کر خلط مبحث پیدا کرنا ہے۔ مزید برآںدینی اصطلاحات اور دینی شعار کا استخفاف کرنا بھی ہے اور بہر حال اس وقت مارکیٹ کا سب سے کامیاب ہتھیار’’ عورت کارڈ ‘‘ہے۔
چنانچہ اس خاتون کا یہ کہنا کہ ’’میں تو یہاں عورتوں کے حقوق کے بارے میں سننے آئی تھی ،مجھے قرآنی آیا ت کیوں سنائی جارہی ہیں اور میں نے طاغوت کا لفظ ابھی آپ کی زبان سے دو تین سو مرتبہ سن لیا ہے۔‘‘ ایک طرف قرآنی اصطلاحات کا استخفاف ہے اور دوسری طرف عورت کارڈ کا استعمال کہ میرا ایشو تو عورتوں کے حقوق ہیں۔ مجھے قرآنی آیات سے کیا لینا دینا۔ اب تمام سیکولرز، لبرلز اور فیمینسٹس کو ایک سنہری موقع میسر آگیا ہے اور اس خاتون کی بھرپور حمایت کی جا رہی ہے اور اب آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ اس خاتون کو مختلف پروگراموں میں مدعو کیا جائے گا اور جو اس کی وجۂ شہرت بنی ہے یعنی اس کی زبان، وہ اس کا بھر پور استعمال کرے گی اور این جی اوز اس کو استعمال کریں گی اور پھر پروٹیکشن کے نام پر یورپ کے کسی ملک کا ویزہ ۔اللہ اللہ خیر سلا یہی کہانی ہے !جو مختاراں مائی سے لے کر اب تک چلی آ رہی ہے۔ یہی سوشل انجینئرنگ کا انٹرنیشنل ایجنڈا ہے جس کو این جی اوز اور میڈیا سپورٹ کرتا ہے، جس کے سامنے بہر حال بڑی حکمت اور دانائی کے ساتھ بند باندھنے کی ضرورت ہے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024