چند یاددہانیاں:ذات،گھر،بجٹ اورمملکت
جامع القرآن،قرآن اکیڈمی لاہور میںامیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے 05 جولائی 2024ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص
مرتب: ابو ابراہیم
خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد
جمعہ کے خطاب کا ایک بڑا مقصد تذکیر اور یاددہانی ہے۔اللہ کےرسولﷺ کے بارے میں احادیث ِ مبارکہ میں ذکر آتا ہے کہ:
((کان یقراء القرآن ویذکر الناس))’’ اللہ کے رسولﷺ قرآن پڑھتے تھے اور لوگوں کو نصیحت فرماتے تھےاوریاد دہانی کرایا کرتے تھے۔‘‘
زندگی کے معاملات اور مسائل میں اُلجھ کر انسان اپنے اصل مقصد کو فراموش کر دیتا ہے کہ ہماری اصل محنت اپنی آخرت کو سنوارنے کے لیے ہونی چاہیے جو کہ ہمارا اصل ٹھکانہ ہے ۔ آخرت کو فراموش کیے جانے کی ایک بڑی مثال موت کو فراموش کرنا ہے ۔ ہم سب مانتے ہیں کہ موت آنی ہے۔ دنیا میں بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو خدا کاانکار کرتے ہیں لیکن موت کا انکار کرنے والا ایک بھی نہیں ملے گا۔یعنی ہر کوئی جانتاہے کہ موت اٹل حقیقت ہے مگر اس کے باوجود ہم موت کو بھول جاتے ہیں(الا ماشاء اللہ)۔ حالانکہ روزانہ اپنی آنکھوں سے جنازےاُٹھتے دیکھتے ہیں ، جنازے پڑھتے بھی ہیں ۔ اسی طرح ہم دین ، آخرت اور ایمان سے تعلق رکھنی والی بہت ساری چیزیں بھول جاتے ہیں ۔ لہٰذا جمعہ کے خطاب کا ایک بڑا مقصد ان بھولی ہوئی چیزوں کی یاددہانی ہوتا ہے ۔ آج اسی تناظر میں کچھ چیزوں کی یاددہانی مقصود ہے ۔
موت کی یاددہانی
حدیث میں آتا ہے کہ موت کی یاددہانی اور عبرت کے لیے کبھی کبھی قبرستان بھی جانا چاہیے ۔ ہم نے مخصوص کر دیا کہ عید کے موقع پر قبرستان جائیں گےیا شب برأت کے موقع پر ہی جائیں گے ۔ حالانکہ اسلام میں ایسا محدود تصور نہیں ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺنے قبرستان جانے کی تلقین فرمائی ہے ۔ آپ کسی وقت بھی جاسکتے ہیں اور جانے کا مقصد مرحومین کے لیے دعائے مغفرت اور اپنے لیے عبرت حاصل کرنا ہے ۔بعض اوقات تو اپنے لیے عبرت اور یاددہانی کا پہلو زیادہ ہوتا ہے ۔ آپ اندازہ کریں جب کسی کا انتقال ہوتا ہے تو ہم یہ جملہ ادا کرتے ہیں: انا للہ وانا الیہ راجعون ۔اس کا ترجمہ ہے کہ بے شک ہم بھی اللہ کے ہیں اور ہمیں لوٹ کر بھی اللہ کی طرف جانا ہے ۔ گویا جانے والا مجھے اور آپ کو الارم دےکر جا رہا ہے کہ تم بھی پیچھے آؤ گے۔ اسی طرح مغفرت کی دعا ہم پڑھتے ہیں :
((اَللَّھُمَّ اغفِرْلِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا))
اس میں بھی پہلے اپنے لیے دعا مانگی جارہی ہے کہ اے اللہ! ہمارے زندوں کی مغفرت فرمااور اس کے بعد مردوں کے لیے مغفرت کی دعا مانگی جارہی ہے ۔ اسی طرح قبرستان میں جاکر سب سے پہلے یہ دعا پڑھتے ہیں :
((اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَااَھْلَ الْقُبُوْرِ یَغْفِرُ اللہُ لَنَا وَلَکُمْ))
’’اے قبر والو تم پر سلام ہو۔ اللہ ہماری اور تمہاری مغفرت فرمائے۔‘‘
یہاں بھی مغفرت کی دعا اپنے لیے پہلے اور مرنے والوں کے لیے بعد میں ہے ۔ گویا ہر جانے والا مجھے اور آپ کو یاد دہانی کرا کر جا رہا ہے۔ لیکن کیا اس کے باوجود ہم موت کے لیے تیار ہیں ؟کیا اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے ساتھ ہمارے معاملات ٹھیک ہیں ، ہمارے ذمے جو قرض ہے اس کی ادائیگی کا بندوبست ہم نے کردیا ہے ؟ ہمارے ذمے جو وراثت کے متعلق احکامات ہیں،ان پر عمل کرلیا ہے ؟ اگر ماں باپ کا دل دکھائے بیٹھے ہیں، پڑوسی کے ساتھ ظلم کیے بیٹھےہیں، رشتہ داروں کے ساتھ قطع تعلقی کیے بیٹھے ہیں، کسی کا مال ، جائیدادخدانخواستہ ہڑپ کیے بیٹھے ہیں ، کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی کیے بیٹھے ہیں تو اس کا ازالہ کرنے کی بھی کوشش کی ہے ؟ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا: اس دن کے آنے سے پہلے اپنے معاملات حل کرلو کہ جب درہم و دینار کام نہ آئیں گے۔ وہاں صرف اعمال پر فیصلے ہوں گے ۔ جامع ترمذی میں حقوق العباد کے حوالے سے ایک بڑی سخت حدیث موجود ہے ۔ روز محشر ایک شخص آئے گا جس نے بہت عبادت کی ہوگی مگر لوگ کھڑے ہوجائیں گے کہ اس نے ہمارے ساتھ ظلم کیا ، کوئی کہے گا میرا مال ہڑپ کیا ، کوئی کہے گا غیبت کی ، کوئی کہے گا تہمت لگائی ۔ اللہ حکم دے گا کہ اس کی نیکیاں ان سب لوگوں میں بانٹ دو یہاں تک کہ اس کی نیکیاں ختم ہو جائیں گی مگر کئی حقدار ابھی بھی کھڑے ہوں گے ۔ اللہ فرمائے گا اب ان لوگوں کے گناہ اس کے اعمال نامے میں لکھ دو اور اس کو جہنم میں ڈال دو ۔ حدیث کے آغاز میں رسول ﷺ کا سوال یہ تھا: کیا تمہیں پتا ہے کہ مفلس کسے کہا جاتا ہے؟صحابہ؇ نے کہا کہ ہمارے نزدیک مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم ودینار نہ ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں ! بلکہ اس امت کا مفلس وہ ہے کہ جس کے پاس نیکیوں کے ڈھیر ہوں مگر بندوںکے حقوق ادا نہ کیے ہوں ۔لہٰذا یاد رہنا چاہیے کہ روز محشر ہر چیز کے بارے میں سوال ہوگا ۔ فرمایا :
{ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ(8)} ’’پھر اُس دن تم سے ضرور پوچھا جائے گا نعمتوں کے بارے میں۔‘‘(التکاثر)
یہ سوال نعمتوں کے بارے میں بھی ہوگا ، بندوں کے حقوق کے بارے میں بھی ، رب کے کلام کے بارے میں بھی ، رب کے دین کے بارے میں بھی ہونا ہے اور اُمتی کی حیثیت سے ہماری ذمہ داری کے حوالے سے بھی ہونا ہے۔ ذراسوچئے ! ہم محمد مصطفیٰ ﷺکے اُمتی ہیں۔ آپ ﷺنے یہ قرآن میرے اور آپ سب کے حوالے کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا میں جا رہا ہوں مگر تمہیں اللہ کی کتاب دیے جا رہا ہوں، اسے تھاموگے تو نہ کبھی ہلاک ہو گے نہ کبھی گمراہ ہو گے۔آج دنیا جہاں کی تعلیم ہمارے پاس ہےلیکن اللہ کے اس کلام کے ساتھ ہمارا تعلق کیسا ہے؟ہمارے بچوں نے جرمن زبان سیکھنی شروع کر دی ، چائنیز اور کورین زبانیں سیکھنی شروع کر دیں ۔ کیا قرآن کی زبان سیکھنے کے لیے بھی ہم نے توجہ دی ؟ یہاں مسجد جامع القرآن میں برسوں سے قرآن حکیم کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے ۔ قرآن اکیڈمیز اور تنظیم کے مراکز میں سمر کورسز، رجوع الی القرآن کورسز کی طرف مستقلاً توجہ دلائی جارہی ہے ۔ کتنے لوگ توجہ دے رہے ہیں ؟
ختم نبوت کے بعد حضور ﷺکے مشن کا بوجھ اس اُمت کے کندھوں پر ہے ۔ کیا یہ عظیم ذمہ داری ہم ادا کر رہے ہیں ؟ ان سب چیزوں کے بارے میں روز محشر سوال ہونا ہے ۔ یہ سب چیزیں انسان بھول جاتاہے جن کی یاددہانی کے لیے تذکیر ضروری ہے ۔ سیدنا عثمان جب کسی قبر کے قریب سے گزرتے تو زار و قطار روتے تھے ۔ لوگوں نےعرض کی: آپؓ کے سامنے جنت ، جہنم اور دیگر امور کا ذکر آتا ہے تو یہ کیفیت نہیں ہوتی، قبر کو دیکھ کر کیوں یہ کیفیت ہوتی ہے ۔ فرمایا: رسول اللہﷺ نے ارشادفرمایا کہ آخرت کے مراحل میں سے پہلا مرحلہ قبر کا ہے جو ادھر کامیاب ہو گا وہ آگے بھی کامیاب ہوگا، جو ادھر ناکام ہوگا وہ آگے بھی ناکام ہو جائے گا ۔کبھی تنہائی میں بیٹھ کر جائزہ لینا چاہیے کہ ہم نے آگے کیا بھیجا ہے ۔ جیسے قران کریم میں ارشاد ہوتا ہے :
{یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَلْـتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍج} ’’اے اہل ِایمان! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور ہر جان کو دیکھتے رہنا چاہیے کہ اُس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے!‘‘
سیدنا عمر کا قول معروف ہے: (حاسبوا انفسکم قبل ان تحاسبوا)’’اپنا محاسبہ خود کر لو اس سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے۔‘‘
ہم میں سے اکثر لوگ اپنی اپنی بیلنس شیٹ کو دیکھتے ہیں، اپنی انکم اسٹیٹمنٹ کو دیکھتے ہیں،بچوںکے رزلٹ بھی توجہ سے دیکھتے ہیں ۔ کیا ہم اپنے اعمال کی شیٹ بھی چیک کرتے ہیں جس کی بنیاد پر آخرت میں ہمارا فیصلہ ہونا ہے؟ اللہ تعالیٰ ہمیں موت کا یقین عطا فرمائے ، اسلام پر زندہ رکھے اور ایمان پر خاتمہ فرمائے ۔ آمین !
اولاد کی تربیت
قرآن حکیم تو ہمیں حکم دیتا ہے:
{یٰٓــاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا}’’اے اہل ِایمان! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے‘‘(التحریم:6)
یہاں ذرا گرمی ہو جائے ، بجلی چلی جائے ، جنریٹر بند ہو جائے توہم اولاد کے لیے کتنا تڑپتے ہیں ۔ غور کیجئے جہنم کی گرمی اور آگ دنیا کی آگ سے 69 گناہ زیاد ہ شدید ہے۔ اصل فکر اور جدوجہد اس آگ سے بچنے کے لیے ہونی چاہیے ۔ یہ غلط تصور ہے کہ کچھ دن کی سزا بھگتیں گے، اس کے بعد جنت ہماری ہے ۔ یہاں چولہے کی آگ میں تم بچے کی اُنگلی برداشت نہیں کر سکتے ،اللہ کے عذاب اور جہنم کی آگ کو برداشت کرنے کا حوصلہ کیسے ہوگا؟ پھر قران کریم فرماتاہے:
{قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِیْنَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ وَاَہْلِیْہِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِط} ’’آپؐ کہہ دیجئے کہ اصل میں خسارے میں رہنے والے وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو خسارے میں ڈالا قیامت کے دن۔‘(الزمر: 15 )
دنیا میں چند لاکھ یا چند کروڑ ڈالرز کا نقصان ہو جائے تو اس کا ازالہ ممکن ہے لیکن آخرت کا مسئلہ بہت بڑا ہے ۔ وہاں کا خسارہ بہت بڑا خسارہ ہے ۔ اس خسارے سے اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو بچائیے ۔ آج دجالی فتنوں کا طوفان ہے ، مصروفیات اتنی بڑھ گئی ہیں ، کیا آج بچوں پر کوئی توجہ ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں ؟ کیا اپنی اولاد کے ساتھ ہمارا ذاتی تعلق مضبوط ہے ؟ ہمارے گھر میں اللہ کی کتاب ،اللہ کا دین بھی ترجیحات میں شامل ہیں یا نہیں ۔ اگر ہم اپنی اولاد کو مناسب وقت نہیں دیں گے ، ان کی تربیت پر توجہ نہیں دیں گے تو دجالی فتنے ان کا سارا وقت لینے کے لیے موجود ہیں اور ان کی آخرت برباد کرنے کے لیے بہت کچھ ان کے ہاتھ میں آچکا ہے ۔ آج سوشل میڈیا کی وجہ سے ہمارے بچوں کے عقیدے ، افکار اور نظریات کس حد تک بگاڑ دیے گئے ہیں کہ خدا پر سوال اٹھا رہے ہیں ، والدین کے حقوق پر سوال اُٹھار ہے ہیں ۔ یہ وحی کی تعلیم سے دور ی کا نتیجہ ہے ۔ ذرا اُن نو مسلموں پر بھی غور کیجئے کہ وہ وحی کی تعلیم کو کتنی اہمیت دے رہے ہیں۔ہمیں ماں کی گود میں کلمہ مل گیا ۔ اس لیے کلمہ کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ کرنا ہے تو نو مسلموں کے خیالات معلوم کیجئے۔ ایک نومسلم رو رو کر اپنے بیٹوں سے کہہ رہا تھا: بیٹا ! مجھے اس بات کی فکر نہیں ہے کہ تو تھوڑا کما رہا ہے یا زیادہ ، مجھے تو فکر اس بات کی ہے کہ تو جہنم کی آگ کا نوالہ نہ بن جائے۔ذرا سوچئے ! کیا ہمیں بھی اپنے اولاد کی اتنی فکر ہے ؟ ہم تنہائی میں بیٹھ کر سوچیں کہ ہم دن میں کتنی مرتبہ اپنے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں اور کتنی مرتبہ اپنی اولاد کے لیے کرتے ہیں ۔ اس سے پتا چل جائے گا کہ ہم لوگ جہنم کے بارے میں سنجیدہ ہیں یا نہیں ؟ بچے کی انگلش کمزور ہو ، میتھ میں نمبرز کم آجائیں تو فکر ہوتی ہے ۔ بچےکی نماز ضائع ہو رہی ہو، اس کا قرآن بند ہو، خدانخواستہ اس کی اقدار کا بیڑا غرق ہورہا ہو، وہ دجالی فتنے کی طرف، شیطانی حملوں کی طرف جا رہا ہواس پر بھی ہمیں کوئی پریشانی لاحق ہوتی ہے ؟ محترم ڈاکٹر اسراراحمدؒ فرماتے تھے کہ اگر کسی کی دینداری کا اندازہ لگانا ہوتو دیکھو کہ اس نے اپنی اولاد کو کہاں لگا رکھا ہے ؟ یہ بہت سخت اور کڑوی بات ہے مگر اپنا محاسبہ کرنے کے لیے ضروری ہے ۔ دنیا میں آپ اچھی سے اچھی کالونی میں، ایو نیو میں ، بزنس میں انوسٹمنٹ کیجئے آپ کو اس کا منافع ملے گا لیکن زمین کے نیچے چلے گئے تو دو ٹکے کا فائدہ بھی اس کا نہیں ملے گا ۔ لہٰذا اصل انوسٹمنٹ وہ ہے جو آپ آخرت کے لیے کر رہے ہیں۔ اگر پیچھے نیک اولا دچھوڑ کر جارہے ہیں تو وہ آپ کا اصل اثاثہ ہے ۔ وہی اولاد صدقہ جاریہ بن جائے گی۔بصورت دیگر عذاب کا باعث بھی بن سکتی ہے ۔ پھر یہ کہ اولاد کی دینی تربیت اولاد کا حق بھی ہے ۔ روز قیامت اس کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا۔اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:((كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ)) ’’تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور اس کی رعیت میں جو لوگ ہیں ان کے بارے میں اس سے سوال ہوگا ۔‘‘ باپ ہے تو اولاد کے بارے میں سوال ہوگا، شوہر ہے تو بیوی کے بارےمیں سوال ہوگا،مالک ہے تو نوکر کے بارے میں سوال ہوگا۔ اگر حکمران ہے تو رعایا کے بارے میں سوال ہوگا ۔ہم کبھی اس پر بھی غور کریں کہ ہم نے اپنی اولاد کو کہاں لگا رکھا ہے ؟ بچوںکو دینی تعلیم دینا تاکہ اس کی آخرت سنور جائے ، بچوں کا حق ہے ۔ کیا ہم یہ حق ادا کر رہے ہیں؟ میں نے اپنی آخرت کو سنوارنے کے لیے کسی دینی تحریک میں حصہ لے لیا لیکن اپنی اولاد کوصرف دنیا کمانے میں لگا دیا ، حساب کون دے گا؟اللہ تعالیٰ ہمارے گھرانوں کو جنتی گھرانے بنائے۔ جیسےکہ قرآن فرماتا ہے:
’’اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور اُن کی اولاد نے بھی ان کی پیروی کی ایمان کے ساتھ‘ ہم ملا دیں گے ان کے ساتھ ان کی اس اولاد کواور ہم اُن کے عمل میںسے کوئی کمی نہیں کریں گے۔‘‘( طور 21)
اس آیت کا حاصل تمام مفسرین نےیہ بتایاہے کہ اگر ایک گھر کے افراد مختلف درجات پر ہوں گےتو اللہ تعالیٰ نیچے والوں کا درجہ بلند کرکے اوپر والوں سے ملا دے گا اور ان کے عمل میں کمی نہیں کی جائے گی ۔ اللہ یہ جنتی گھرانے ہم سب کو عطا فرمائے۔آمین !
بجٹ 2024ء
وفاقی اورصوبائی بجٹ آگئے ہیں ۔ اس پر اور کیا تبصرہ کیا جائے کہ ہم سب مل کر یہ بھگت رہے ہیں ۔ پچھلے بجٹ کا بھی 64 فیصد ہم نے سودی قرضوں اور سود کی ادائیگی پر خرچ کیا ہے ۔ آپ سوچئے کہ قوم کے لیے باقی کیا بچا ۔ قوم کا سارا پیسہ سود کی مدمیں جارہا ہے اور سود کی یہ نحوست مسلسل اور متواتر ہمیں تباہی اور بربادی کی طرف لے جارہی ہے ۔ اس کے باوجود ہمارے حکمران ، عدلیہ اور مقتدر ادارے سود کی لعنت کو ختم کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں۔ دعوے تو ہمارے یہ ہیں کہ قانون کے خلاف جو کچھ بھی ہوگا اس کو ہم اُڑا کر رکھ دیں گے (چیف جسٹس کا بیان)۔ جبکہ حالت یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 38-Fمیں لکھا ہوا ہے کہ حکومت جلد از جلد سودکے خاتمے کاانتظام کرے گی لیکن نہ عدلیہ سودی نظام کوختم کرنے کے لیے سنجیدہ ہے اور نہ حکومت ۔ آئین اور قانون سے بڑھ کر اللہ کی حدود ہیں ۔ کیا حدود اللہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے کہ اللہ کے ساتھ ٹکر لیے بیٹھے ہیں ۔ مصیبتیںتو آنی ہی ہیں ۔ اللہ کو چھوڑ کر جب امریکہ اور IMF کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں گے تو کیا ہمارے حالات سدھرجائیں گے؟ حضرت امیر معاویہ نےحضرت عائشہ صدیقہ کو لکھا کہ کچھ وصیت کیجئے۔ حضرت عائشہ نے رسول ﷺ کا قول لکھ کر بھیجا کہ جو مخلوق سے توقع ہٹا کر اللہ پر توکل کرے اس کے لیے اللہ کافی ہو جائے گااور جو اللہ کو چھوڑ کر مخلوق سےتوقعات رکھے گا اللہ اس کو فراموش کرکے اسے مخلوق کے حوالے کر دے گااوریہ دردر کی ٹھوکریں کھائےگا۔آج ہم بحیثیت قوم اسی طرح دردر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ۔ ہمارے وزیر اعظم صاحب فرما رہے ہیں کہ ہم IMFکی ہدایت کے مطابق بجٹ بنا رہے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہے کہ معیشت کا بیڑا غرق ہو چکا ہے ۔ ایکسپورٹرز بھی پریشان ہیں ۔ بجلی اور تیل کی قیمتیں اتنی زیادہ بڑھا دی گئی ہیں کہ فیکٹریاں اور کارخانے بند ہورہے ہیں ، کچھ بنے گا تو ایکسپورٹ بڑھے گی ۔ جبکہ اس قدر مہنگائی میں یہاں کچھ بھی کرنا آسان نہیں ہے ۔ جتنا بجلی کا بل آتاہے اس کا ایک تہائی اصل ہوتا ہے جبکہ دو تہائی ٹیکس ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ بوجھ اسی غریب طبقے پر ڈال دیا گیا ہے جو پہلے ہی پسا ہوا تھا جبکہ اشرافیہ کے لیے بجلی ، پٹرول ، گیس سب کچھ مفت ہے اور پھر قومی خزانے سے ان کو کروڑوں کی مراعات اس کے علاوہ دی جارہی ہیں ۔ ایک ایک ریٹائرڈ جج کی پنشن دس دس لاکھ روپے ہے اور اس طبقہ اشرافیہ پر ٹیکس بھی کوئی نہیں ہے ۔ اس سے بھی ان کا پیٹ نہیں بھرتا تو اربوں کھربوں روپے قوم کے لوٹ کر باہر لے جاکر جزیرے اور جائیدادیں خریدی جارہی ہیں ، آف شور کمپنیاں بن رہی ہیں ۔ یہ سارا پیسہ ان لوگوں کے پاس کہاں سے آرہا ہے ۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ، کوئی ان سے پیسہ واپس لینے والا نہیں ہے ، عدل کے ٹھیکیدار بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں ، لاکھوں کروڑوں کی مراعات لے رہے ہیں لیکن عملی طور پر نتیجہ صفر ہے ۔ اگر عدل کے اتنے ہی نام لیوا ہیں تو کوئی جج کھڑا ہو کر کہہ دے کہ آج قوم مصیبت میں ہے ، غربت اور تنگ دستی میں ہے ، میں اپنی تنخواہ میں سے پانچ لاکھ کم لوں گا ۔ کوئی جنرل کھڑا ہو کر کہہ دے ،خدا کی قسم میں اس کو سلوٹ کروں گا ۔ ایک مثال بھی ایسی نہیں ہے ۔
مسئلے کی اصل جڑ یہ ہے کہ یہ انگریز کا بنایا ہوا فرسودہ نظام ہے اور اس کو چلانے والے بھی انگریزوں کے اشاروں پر چلنے والے ہیں ، ان سے عوام کو کچھ خیر مل سکتی ہے اور نہ یہ عوام کو کچھ فائدہ دے سکتے ہیں ۔ حل صرف یہ ہے کہ جس مقصد کے لیے پاکستان بنایا گیا تھا اس مقصد کو پورا کیا جائے ۔ پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنایا جائے ۔ ہم نے یہ ملک اس لیے حاصل نہیں کیا تھا کہ یہاں امریکہ اور IMFکا حکم چلے گا بلکہ اس لیے لیا تھا کہ یہاں اللہ کے حکم کی بالادستی ہوگی ، قرآن وسنت کا نفاذ ہو گا۔ تحریک پاکستان کا مقبول نعرہ تھا پاکستان کا مطلب کیا : لاالٰہ الا اللہ ۔ لیکن ہم نے اللہ سے اور اللہ کے دین سے بے وفائی کی، اس کا نتیجہ آج ساری قوم بھگت رہی ہے۔ جب تک ہم اجتماعی توبہ نہیں کریں گے اور اپنی اصل کی طرف نہیں لوٹیں گے ہمارے قدم تباہی کی طرف بڑھتے ہی چلے جائیں گے ۔ لیکن دنیا کی تباہی سے کہیں بڑی آخرت کی تباہی ہے ۔ مرنا سب نے ہے ، عام آدمی نے بھی مرنا ہے، حکمرانوںنے بھی ، ججوں اور جرنیلوں نے بھی مرنا ہے۔ اگر ہم سب لوگ آخرت کو مدنظر رکھ کر زندگی گزاریں اور موت کو یاد رکھیں تو ہمارے سارے معاملات سدھر جائیں گے ۔ موت کو اور آخرت کو فراموش کرنے کا نتیجہ ہے کہ آج بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے ، ہر طرف چھینا جھپٹی ہے ، نیچے سے لے کر اوپر تک سب لوٹ کھسوٹ میں لگے ہوئے ہیں ۔ کہا جاتاہے کہ اگر ہم گلے کاٹتے ہیں تو یتیموں کو کھانا بھی کھلاتے ہیں ، دو بیواؤں کی کفالت بھی کرتے ہیں ۔ بھئی گلے کاٹنا چھوڑ دو کفالت ویسےہی ہو جائے گی۔ قوم کو لوٹنا چھوڑ دوتو مسجدیں آباد ہو جائیں گی۔ رمضان شریف میں دیکھنے میں آتا ہے کہ دن میں لوٹتے رہو اور شام میں دسترخوان بچھا کر پانچ لوگوں کو حرام سے افطار کرا دو۔ بجائے اس کے حرام کمانا چھوڑ دوتو ایسے دسترخوانوں کی حاجت ہی نہیں رہے گی ۔ عدل کو ہم نے چھوڑا تو آج پورا معاشرہ تباہ ہو چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو بھی ہدایت دے اور ہم سب کو بھی ہدایت دے اور دین پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !