(زمانہ گواہ ہے) ’’غزہ پر اسرائیلی جارحیت کا ایک سال‘‘ - محمد رفیق چودھری

9 /

غزہ کے مجاہدین اہل قرآن اور اہل ایمان ہیں ۔ ان کے شب و روز

قیام اللیل اور جہاد میں گزرتے ہیں ،ڈاکٹر خالد قدومی

فلسطینی جس جذبہ کے ساتھ مسجد اقصیٰ کی حفاظت کی جنگ لڑ

رہے ہیں، اُس جذبہ کو شکست نہیں دی جاسکتی : خورشید انجم

مسلمانوں کو یہ حقیقت سمجھ لینی چاہیے کہ انہیں اپنے حقوق

اور دفاع کے لیے خود ہی کھڑا ہونا ہوگا : ڈاکٹر فرید احمد پراچہ

’’غزہ پر اسرائیلی جارحیت کا ایک سال‘‘کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمد

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال: سات اکتوبر 2023 ءکو غزہ کے مجاہدین نے اسرائیل کے خلاف طوفان الاقصیٰ آپریشن شروع کیا۔اس کے بعد سے اسرائیل کی غزہ پر مسلسل بمباری اور بدترین درندگی جاری ہے اور اب تو لبنان اور یمن پر بھی حملے شروع کر دئیے ہیں۔ گزشتہ ایک سال کے حالات و واقعات پر آپ کیا تبصرہ فرمائیں گے؟
ڈاکٹر خالد قدومی: طوفان الاقصیٰ شروع ہونے سے ٹھیک دو ہفتے پہلے مجرم نیتن یاہواقوام متحدہ میں نئی تجارتی گزرگاہ کا نقشہ دکھا رہا تھا جو کہ ممبئی سےشروع ہو کر عمان اور سعودی عرب سے ہوتی ہوئی اسرائیل کے راستے یورپ تک جائے گی اور اس کے راستہ میں غزہ آرہا تھا جس کو مٹانا مقصود تھا۔ یہ سارا پلان اوسلو معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنایا گیااور اس کے مطابق وہ فلسطینیوں کو اسرائیل سے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح  مارچ 2023ء میں اسرائیل کے وزیر خزانہ نے گریٹر اسرائیل کا نقشہ دکھایا جس میں اردن ، لبنان ، عراق اور شام بھی شامل ہیں اور سعودی عرب کا شمالی علاقہ بھی شامل ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگا لیں کہ حالات کس طرف جارہے تھے اور ان حالات میںکوئی سفارتی یا سیاسی حل موجود نہیں تھا سوائے اس کے کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن شروع کیا جاتا جو حماس نے شروع کیا اور یہ آپریشن ایسا نہیں ہے کہ آپ گولیاں چلائیں اور جب گولیاں ختم ہو جائیں تو واپس چلے جائیں بلکہ یہ مسلسل جنگ ہے اور یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام آکر مسیح دجال کو ختم نہ کردیں ۔مومنین کے سامنے احادیث بھی موجود ہیں اور ان کا نصب العین بھی واضح ہے ۔ طوفان الاقصیٰ کے بعد دنیا میں بہت تبدیلی آئی ہے ۔ فلسطینیوں کو اخلاقی اور سفارتی فتح حاصل ہوئی ہے جبکہ اسرائیل کی اخلاقی شکست ہوئی ہے ۔ آپ نے دیکھا کیمبرج ، آکسفورڈ اور دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں  فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے ہورہے ہیں جبکہ اسرائیل کی ہر جگہ مخالفت ہورہی ہے ۔ اب صورتحال یہ ہےخود اسرائیل کے عوام صہیونی حکومت کے خلاف ہوگئے ہیں اور وہ بہت بڑی پریشانی کا شکار ہیں ۔
سوال: 7اکتوبر 2023ء کو طوفان الاقصیٰ برپا کرکے فلسطینی مجاہدین نے کچھ سٹریٹجک فائدے بھی حاصل کیے ہیں ؟
فرید احمد پراچہ : 7 اکتوبر 2023ء سے حماس نے طوفان الاقصیٰ کے نام سے جو جہاد شروع کیا ہے اس کی سٹریٹجک کامیابیاں بہت زیادہ ہیں۔اس ایک سال میں اسرائیل نے اہل غزہ پر جو مظالم ڈھائے ہیں انسان ان کا تصور کرکے کانپ اُٹھتا ہے ۔ غزہ کو کھنڈر بنا دیا گیا ، مساجد شہید کی گئیں ، مدارس ، ہسپتال ، سکول تباہ کر دیے ، حتیٰ کہ ڈسپنسریاں اور ایمبولنس سروسز ختم ہوگئیں، پانی ختم ہو گیا ، خوراک ختم ہوگئی لیکن اس کے باوجود اسرائیل کی بے بسی دنیا پہ واضح ہوگئی۔ اس کا دعویٰ تھا کہ حماس کو ختم کردیں  گے لیکن الحمد للہ حماس تو موجود ہے۔ جو اپنے آپ کو ناقابل شکست کہتا تھااور دنیا کی چوتھی بڑی فوج کا مالک تھامگر ایک سال میں وہ اپنا ہدف حاصل نہیں کر سکا۔ اسی طرح اسرائیل کا دعویٰ تھا کہ ہم فلسطین کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے ختم کردیں گے لیکن وہ پہلے سے زیادہ اُجاگر ہو گیا ہے۔ کئی ممالک جو پہلے فلسطین کو تسلیم نہیں کرتے تھے انہوں نے بھی تسلیم کرلیا اور مسئلہ فلسطین عالمی ایجنڈے میں سرفہرست آگیا ۔ یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں کیمپ لگ گئے ، لاکھوں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکلے ۔ اسی طرح وہ یہودی بھی جو صہیونی نہیں ہیں انہوں نے بھی اسرائیل اور نیتن یاہو کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے کیے ۔ یہ واضح طور پر اسرائیل کی شکست تھی ۔ پھر یہ کہ وہ اپنے قیدیوں کو حماس سے رہا نہیں کروا سکا۔ اسی طرح جو مسلم ممالک اسرائیل کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھا رہے تھے، اُن کو بھی اسرائیل کے خلاف بیانات دینے پڑے ۔ ان ساری ناکامیوں کے بعد اب اسرائیل دنیا میں ایک وحشی درندے کے طور پر پہچانا جارہا ہے ۔ یہ حماس کی سٹریٹجک کامیابی ہے ۔ آج دنیا پر یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے ۔ عالمی عدالت انصاف نے بھی اس کے خلاف فیصلہ دے دیا ہے ۔ ان شاءاللہ یہ کامیابیاں اسی طرف آگے بڑھ رہی ہیں کہ پتھر اور جھاڑیاں بھی یہودیوں کے خلاف گواہی دیں گی ۔
سوال: گزشتہ ایک سال کے دوران غزہ کے مظلوم و محصور مسلمانوں نے اسرائیلی درندگی کے خلاف اور مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لیے بڑے پیمانے پر قربانیاں پیش کی ہیں ۔ فلسطینی مجاہدین کب تک صہیونی درندگی کا مقابلہ کر پائیں گے ؟
خورشید انجم: اصل بات یہ ہے کہ فلسطینی ایک عظیم مقصد کے لیے لڑ رہے ہیں لہٰذا ان میں جو جذبہ ہے اس کو شکست نہیں دی جاسکتی ۔
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
اب تک 45 ہزار کے قریب فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں 17 ہزار بچے ہیں ، ہسپتالوں کا پورا انفراسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے۔ ایک لاکھ کے قریب زخمیوں کے علاج کےلیے سہولیات میسر نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود وہ مقابلہ کر رہے ہیں اور ابھی تک کسی ایک فلسطینی نے بھی نہیں کہا کہ حماس نے ہمیں کس مصیبت میں ڈال دیا بلکہ ان کے جذبے جوان ہیں ۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم آخری دم تک لڑیں گے، آخری شخص تک لڑیں گے۔
سوال: گزشتہ ایک سال کے دوران غزہ کے مظلوم ومحصور مسلمانوں نے اسرائیلی درندگی کے خلاف اور مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لیے بڑے پیمانے پر قربانیاں پیش کیں ہیں اور قرون اولیٰ کی یاد تازہ کر دی ہے ۔ مسجد الاقصی کے ان ہیروز کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
ڈاکٹر خالد قدومی:یہ اہلِ قرآن اور اہلِ ایمان لوگ ہیں۔ ان کی تربیت قرآن، قیام اللیل اور تہجد کے ذریعے ہوئی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے تعلیم پر بھی بہت زور دیا ہے ۔ 95 فیصد فلسطینی تعلیم یافتہ ہیں ۔ کیونکہ تعلیم واحد ہتھیار ہے جو ہمیں جدید ٹیکنالوجی کے دور میں لڑنا سکھاتاہے۔ آپ دیکھ لیں سائبر حملوں میں اسرائیل غزہ کے مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا ۔ الحمد للہ ہم صرف گوریلا وار لڑ سکتے ہیں ، اس لیے ہم سب سے پہلے اپنے بچوں کی اور گھرو الوں کی دینی تربیت کرتے ہیں کہ آپ نے کس طرح جہاد کرنا ہے ۔ ہم انہیں سکھاتے ہیں کہ آپ نے اگر قبلہ اول اور مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لیے لڑتے ہوئے جان دے دی تو آپ شہید ہیں اور شہید مرکر بھی زندہ رہتا ہے۔ ساتھ ساتھ ہم انہیں ٹیکنالوجی کی تربیت بھی دے رہے ہیں۔ آج ہمارے مجاہدین کے پاس ڈرونز ، راکٹس اور میزائلز ہیں جن کی رینج 75 کلومیٹر سے زیادہ ہے ۔ پھر ہمارے مجاہدین نے سرنگوں کا جدید نظام بنایا ہے ۔ حماس کے بانی شیخ یاسین کے نام پر راکٹ بنایا ہے ۔ پھر مرقافہ ٹینک ٹیکنالوجی کا توڑ نکالا ہے ۔ یہ سارے کام اللہ کی مدد کے بغیر ممکن نہ تھے ۔ شیخ احمد یاسین نے بچوں کو حافظ قرآن بھی بنایا ہے اور ساتھ ساتھ عسکری تربیت بھی دی ہے ۔
فرید احمد پراچہ : دنیا میں لوگ تو جہاد سے معذرت کرتے پھرتے ہیں لیکن فلسطینیوں نے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کر دیاہے کہ وہ جو کہا گیا ہے کہ قیامت تک جہاد جاری رہے گا وہ سچ ہے ۔ جہاد بھی جاری ہے اور اس کے نتیجہ میں اللہ کی رحمتیں بھی نازل ہورہی ہیں۔ غزہ کی عورتوں ، بچوں ، بوڑھوں سب نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں ، سخت ترین اذیتیں برداشت کرنے کے باوجود ان کے حوصلے بلند ہیں اور ایسے پلان بناتے ہیں کہ جن کے ذریعے اسرائیل کو شکست ہی شکست ہورہی ہے ۔ کیا ہم بھول سکتے ہیں اس بچے کو جو اپنے مکان کے ملبے کے ڈھیر پر بیٹھا ہوا ہے اوریہ آیت تلاوت کررہا ہے : 
{وَلَـنَـبْلُوَنَّــکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ (155)}(البقرہ)’’اورہم تمہیں لازماً آزمائیں گے کسی قدر خوف اور بھوک سے‘اور مالوں اور جانوں اور ثمرات کے نقصان سےاور(اے نبیؐ) بشارت دیجیے ان صبر کرنے والوںکو۔‘‘
یہ ہدایت اللہ نے ہی ان کو عطا کی ہے اور وہ جہاد اور آنے والی آزمائشوں اور تکلیفوں کی اہمیت سے واقف ہیں ۔ دوران ڈیوٹی ڈاکٹر کے سامنے اس کے بیٹے کی لاش آتی ہے ، پھر زخمی حالت میں اس کو اپنی بیٹی نظر آتی ہے لیکن اس کے باوجود وہ ڈیوٹی دے رہا ہے ۔ پھر ایک باپ مٹھائی لے کر پھر رہا ہے کہ میرا بیٹا شہید ہوا ہے ۔ سرجری کے دوران بے ہوشی کی دوائی نہیں ہے بچہ کہتا ہے میں قرآن کی تلاوت کرتاہوں ، آپ میرا آپریشن کردیں ۔ ایسا لگتا ہے جیسے قرون اولیٰ کی یادیں ایک مرتبہ پھر تازہ ہوگئی ہیں ۔ اسرائیل جدید ترین انٹیلی جنس سسٹم کا دعویٰ کررہا تھا مگر 7 اکتوبر کو مجاہدین نے یلغار کی ، میزائل داغے اور اسرائیل کے اندر داخل ہوکر سینکڑوں اسرائیلی فوجیوں اور اعلیٰ  افسروں کو یرغمال بنا کر لے گئے ۔ یہ بات پھر ثابت ہوگئی کہ جہاد کے اندر زندگی اور برکت ہے ۔ قرآن میں جو کہا گیا کہ :{سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ} (آل عمران :151) ’’ہم عنقریب کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے‘‘
{کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَـبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃًم بِاِذْنِ اللّٰہِ ط} (البقرہ:249)’’ کتنی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ ایک چھوٹی جماعت بڑی جماعت پر غالب آگئی اللہ کے حکم سے۔‘‘
یہ ساری باتیں جہاد کی برکت سے آج ثابت ہورہی ہیں ۔
سوال:اسرائیلی مظالم کے خلاف اقوام متحدہ میں ایک قرارد اد پیش ہوتی ہے تو اس کو بھی امریکہ ویٹو کر دیتاہے۔ کیا امریکہ نے عالمی ادارے کو بے وقعت نہیں کردیا ؟
خورشید انجم:یہ بات بالکل ٹھیک ہے۔ اس وقت اقوام متحدہ امریکہ کی ایک لونڈی بن کر رہ گیا ہے۔ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ عالمی اداروں کا دہرا معیار بھی کھل کر سامنے آگیا ہے ۔ اگر کسی مسلم ملک کا معاملہ ہو تو پوری دنیا اکٹھی ہوکر ٹوٹ پڑتی ہے جیسے افغانستان ،لیبیا، عراق اور شام کو انہوں نے تباہ کردیا ۔ کشمیر کا مسئلہ 1947ء سے ہے ، فلسطین کا مسئلہ 1948ء سے ہے، وہ حل نہیں ہورہے جبکہ مشرقی تیمور کا مسئلہ چھ ماہ میں حل کر دیا گیا ۔ آج اسرائیل کے اس قدر ظلم اور خلاف ورزیوں کے باوجود امریکہ ، برطانیہ ، جرمنی سمیت پوری دنیا کی حکومتیں اور عالمی ادارے اس کے ساتھ ہیں ۔ لہٰذا یہ عالمی ادارے ، انسانی حقوق کے دعوے ، جمہوریت کے چیمپئین سب بے نقاب ہو چکے ہیں۔ سلامتی کونسل میں ویٹو پاور بذات خود جمہوریت کی نفی ہے، اس کے ذریعے کسی کو بھی امتیازی سلوک کی اجازت دے دی گئی ہے۔ حسن نصراللہ کی شہادت کو بھی امریکی صدر جوبائیڈن نے اسرائیل کا منصفانہ اقدام کہہ دیا ہے ۔ 1973ء میں اسرائیل جنگ ہار رہا تھا لیکن اس وقت بھی امریکہ اس کی پشت پر کھڑا ہوگیا اورجنگ کا پانسہ ہی پلٹ گیا۔ اور تو اور اب خود اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے انٹرویو دیتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ یہ ادارہ ناکام ہو چکا ہے۔جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں ترکیہ کے صدر طیب اردوگان نے بھی یہ کہا ہے کہ ویٹو کا حق چند ممالک کے پاس نہیں ہونا چاہیے۔
سوال: گزشتہ ایک سال کے دوران کیا یہ ثابت نہیں ہوگیا کہ اقوام متحدہ اور اس جیسی دیگر عالمی اور علاقائی تنظیمیں اور ادارے اپنی رہی سہی افادیت بھی مکمل طور پر کھو چکے ہیں ؟
فرید احمد پراچہ : اقوام متحدہ ہو ، سلامتی کونسل ہو ، عالمی عدالت انصاف ہو ، سب ناکام ثابت ہو چکے ہیں ۔ ایک دن کے لیے بھی ان میں سے کوئی جنگ بندی نہیں کروا سکا ۔ اس دوران رمضان آیا ، سحریوں اور افطاریوں  میں بھی بمباریاں ہوتی رہیں ، عیدین کے موقع پر بھی بمباریاں ہوتی رہیں ۔ اس سارے عرصہ میں اقوام متحدہ کے کارکنوں کو بھی ہلاک کیا گیا ، لیکن اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے بے بسی سے منہ دیکھتے رہ گئے ۔ عالمی عدالت انصاف نے بھی فیصلہ دے دیا مگر اس پر عمل درآمد نہیں کروایا گیا ۔ جبکہ دوسری طرف مسلمانوں کے خلاف معاملہ کرناہوتو فوراً عمل درآمد ہو جاتاہے جیسا کہ جنوبی سوڈان میں ہوگیا ، کوسووو میں ہوگیا ۔ مسلمانوں کے لیے عالمی اداروں  کا معیار کچھ اور ہے، یہودیوں کے لیے کچھ اور ہے ۔ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے تو مغرب سمیت عالمی ادارے خاموش ہیں لیکن اگر ایران نے میزائل حملہ کردیا تو وہ ان کے نزدیک زیادتی ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سلامتی کونسل کی بناوٹ کے اندر ہی ظلم شامل ہے ۔ اس میں یہ طے کر دیا گیا کہ مستقل رُکن ممالک ویٹو کر سکتے ہیں تو یہ ویٹو کرنا ہی جمہوریت کی نفی ہے ۔ ثابت ہوگیا یہ تمام عالمی ادارے ایک دھوکہ ہیں۔ مسلمانوں کو یہ حقیقت سمجھ لینی چاہیے کہ انہیں اپنے دفاع اور حقوق کے لیے خود ہی کھڑا ہونا ہوگا ۔
سوال: اسرائیل کے منصوبے بڑے واضح ہو چکے ہیں مجاہدین کی آئندہ حکمت عملی کیا ہو گی اور پھر یہ کہ پاکستان سمیت مسلم دنیا کو آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے
ڈاکٹر خالد قدومی:طوفان الاقصیٰ آپریشن جاری ہے اور جاری رہے گا ۔ اگر دشمن بات چیت کرتا ہے تو ہم بھی کریں گے لیکن اپنی شرائط پر کریں گے ۔ ہم ایسی کوئی ڈیل نہیں کریں گے کہ ہمارے بچے خیموں میں رہیں ۔ ہم عزت کے ساتھ جئیں گے اور دشمن کے خلاف لڑتے ہوئے جان دے دیں گے ۔ ساری دنیا کہہ رہی ہے کہ اسرائیلی فورسز قابض ہیں ، انہیں فلسطین کی سرزمین سے نکلنا ہوگا ۔ ہم نے جو جنگ شروع کی ہے اس کا مقصد ہی یہ ہے کہ فلسطین میں یا تو ہم رہیں گے یا پھر وہ رہیں گے ۔ جو دشمن ہمیں ختم کرنا چاہتا ہے اس سےکیا بات چیت ہوگی۔ ہمارا دین یہ کہتا ہے کہ بچوں اور عورتوں کو قتل نہیں کرنا ، ہم تو اس اصول پر قائم ہیں لیکن اسرائیل ہمارے بچوں اور عورتوں کو شہید کررہا ہے۔ پھر اسرائیلیوں کی اخلاقی حالت یہ ہے کہ پیجرز دھماکوں میں پانچ ہزار لبنانی شہریوں کو شہید کردیا ۔ وہ ہمارے ہسپتالوں کو بھی تباہ کر رہا ہے ۔ زخمیوں کے علاج کی سہولیات نہیں ہیں ، غذا اور پانی کی قلت ہے مگر اس سب کے باوجود غزہ کے عوام پُرعزم ہیں مگر وہ انتظار میں ہیں کہ کب اُمتِ مسلمہ اُٹھے گی اور انہیں اس ظلم سے نجات دلائے گی ۔ ہم فلسطینی پوری اُمت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اسرائیل کی جنگ صرف فلسطینیوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ سب مسلمانوں کے خلاف ہے ۔ لبنان اور یمن پر اسرائیلی حملہ کے بعد بھی اگر کوئی سمجھتا ہے کہ جنگ نہیں پھیلے گی تو وہ خوابِ غفلت میں ہے ۔اُمت مسلمہ کے لیے میرا پیغام یہی ہے کہ دنیا میں کمزوروں کو عزت نہیں ملتی ۔ اس کے لیے طاقت پیدا کرنی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ہمیں حکم دیا ہے :
{وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ}(الانفال :60) ’’اور تیار رکھو اُن کے (مقابلے کے ) لیے اپنی استطاعت کی حد تک طاقت اور بندھے ہوئے گھوڑے‘‘
تاریخ گوا ہ ہے کہ اکثر جنگوں میں ہماری تعداد کم تھی اور اسلحہ کم تھا مگر اللہ نے ہمیں فتح دی ہے ۔ اب جنگوں کا نیا دور شروع ہو چکا ہے جس میںدنیا کا امن تباہ کرنے کے لیے  ٹیکنالوجی اور AI کا استعمال زیادہ ہوگا ۔ اسرائیل کی جنگ پوری اُمت کے خلاف ہے اور پوری امت کو اب ہوشیار ہو جانا چاہیے۔
سوال: اسرائیلی جارحیت رکنے کا نام نہیں لے رہی، اسرائیل جنگ بندی کا بھی نام نہیں لے رہا ، اب لبنان ، یمن اور ایران کے ساتھ بھی جنگ چھیڑ دی ہے ۔ پورا عالم ِکفر اس کی مدد کررہا ہے جبکہ دوسری طرف 57 مسلم ممالک اور پونے دو ارب مسلمان بھی متحد ہو کر کوئی پریشر نہیں ڈال رہے ، کوئی مشترکہ پالیسی نہیں بنا رہے ۔ آپ مسلم حکمرانوں اور عوام کو کیا پیغام دیں گے ؟
خورشید انجم:مشہورحدیث ہے جس میں  آپﷺ نے فرمایا کہ ایک زمانہ آئے گا جب غیر مسلم اقوام تم پر ایسے ٹوٹ پڑیں گی جیسے کہ دسترخوان بچھا کر کھانے پر دعوت دی جاتی ہے ۔ پوچھاگیا: کیا اس وقت ہم بہت تھوڑے ہوں گے؟ فرمایا : نہیں، تم کثرت میں ہو گے لیکن تم میں وہن کی بیماری پیدا ہو جائے گی۔ پوچھا گیا : وہن کیا چیز ہے ؟ فرمایا: دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔ آج ہم مسلمانوں نے اس دنیا کو ہی جنت بنا لیا ہے ۔ ہر طرح کی سہولیات سے مزین عالی شان سوسائٹیاں بنا کر ان کے داخلی دروازوں پر ہم نے لکھ رکھا ہے : {اُدْخُلُوْهَا بِسَلٰمٍ اٰمِنِیْنَ(46)}یعنی وہ الفاظ جو جنت کے لیے تھے ہم یہاں اپنے لیے استعمال کر رہے ہیں ۔ حکمرانوں کے لیول پر تو کوئی ضابطہ و قانون ہی نہیں ہے ۔ کونسی جمہوریت اور کونسا آئین، سب سامنے آچکا ہے ۔ مصر میں صدر مرسی کی جمہوریت کا تختہ الٹ دیاگیا لیکن باقی عرب میں سب بادشاہتیں ہیں ، کسی کو جمہوریت یاد نہیں آرہی ۔ سارا کچھ عالمی قوتوں کی آشیر باد سے ہورہا ہے ۔
حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے
ایمان کے لیے ، دین کے لیے ، غیر ت کے لیے مر مٹنا جو ایک مسلمان کا وصف تھا طبقہ اشرافیہ میں نظر نہیں آرہا ۔ پورا عالم کفر آپس میں متحد ہے مگر مسلمان متحد نہیں ہورہے ۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے بھی کہا ہے مسلم ممالک مل کر نیٹو کے طرز پر اپنا ایک ادارہ بنائیں۔ یہ بہت اچھی تجویز ہے جس پر عمل ہونا چاہیے ۔خاص طور پر پاکستان کی اہمیت ہے کیونکہ پاکستان ایک نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا اور پھر ایک ایٹمی قوت بھی ہے۔ ڈیوڈ بن گوریان نے 1967ء کی جنگ کے بعد کہا تھا کہ ہمیں اصل خطرہ پاکستان سے ہے عربوں سے نہیں ۔ اسماعیل ہنیہ نے بھی یہی کہا تھا کہ پاکستان اگر دھمکی دے تو اسرائیل جارحیت سے رُک جائے گا ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے اور مسلمانان پاکستان کو بھی آخرت کی جوابدہی کا احساس کرنا چاہیے ۔
سوال: ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟
خورشید انجم: پہلی بات یہ ہے کہ دعا تو ہر کوئی کر سکتاہے اور اس میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں ہے۔ نماز کے بعد اور تہجد میں دعا کریں اور خاص طور پر قنوت نازلہ کا اہتمام کریں ۔ اس کے بعد اسرائیل نواز کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ ہم کرسکتے ہیں ، اس میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ اس حوالے سے جس قدر بائیکاٹ ہوا ہے اس کا اثر بھی ہوا ہے ۔ کئی مقامات پرفاسٹ فوڈ کی اسرائیل نواز کمپنیاں بند ہوئی ہیں ۔ فلسطینیوں کی مالی مدد بھی کرنی چاہیے۔ پُرامن مظاہروں کے ذریعے ، احتجاجی جلوسوں  کے ذریعے ہم اپنی حکومتوں پر پریشر ڈال سکتے ہیں کہ وہ کم ازکم سفارتی سطح پر تو کوشش کریں ۔ اس کے علاوہ ہم اخبارات ، ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا پر فلسطینیوں  کے حق میں بات کرسکتے ہیں ، ان کے موقف کو دنیا تک پہنچا سکتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم اللہ سے توبہ استغفار کریں۔ توبہ سے اللہ کی رحمت جوش میں آتی ہے ، اللہ کی مدد اور نصرت حاصل ہوتی ہے ۔ اجتماعی سطح پر بھی توبہ کی ضرورت ہے کہ ہم نے یہ ملک اسلام کے نام پر لیا مگر 77 سال ہوگئے یہاں اسلام کو نافذ نہیں کرسکے ۔ کسی ایک مسلم ملک میں بھی خلافت کا نظام قائم ہو جاتا تو کسی دشمن کی جرأت نہ ہوتی کہ مسلمانوں پر ظلم کر سکے ۔ خلافت عثمانیہ کے آخری دنوں میں صہیونیوں نے بہت کوشش کی کہ فلسطین میں زمین حاصل کی جائے مگر وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ اسی طرح فرانس اور برطانیہ میں گستاخانہ پروگرامز کی تیاری کی گئی تو خلیفہ کی ایک دھمکی سے وہ پروگرام کینسل کر دیے گئے۔حالانکہ اس وقت خلافت عثمانیہ انتہائی کمزور تھی۔ بحیثیت مسلمان ہمیں سب سے بڑھ کر خلافت کے احیاء کے لیے کوشش اور جدوجہد کرنی چاہیے ۔