(کارِ ترقیاتی) مرے جنوں کو عدو نے دیا نیا ہیجان - عامرہ احسان

9 /

مرے جنوں کو عدو نے دیا نیا ہیجان

عامرہ احسان

 

اسرائیل جو بھی کر گزرے، پیٹھ ٹھونکنے کو امریکہ موجود ہے۔ سال ہونے کو ہے پورے خطے میں اسرائیل باؤلے کتے کی طرح کاٹتا بھونکتا پھر رہا ہے۔ اب    مشرق وسطیٰ میں جنگ پھیلانے، گریٹر اسرائیل کا نقشہ آگے بڑھانے کے لیے لبنان پر حملے کئی گنا بڑھا دیئے۔ اسی پر بس نہیں، تاک کر حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کے ساتھ 20 دیگر ممبران کو ہدف بنا کر قتل کیا۔ تقسیمِ کار مغربی طاقتوںکے مابین یوں ہے کہ امریکہ نے اسے اسرائیل کا   حق ِدفاع قرار دیا۔ اسرائیل کو 8 ارب 70 کروڑ ڈالر کی امداد جاری کی ہے۔(دنیا کو تسلی دینے کو) یورپی وزرائے خارجہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس نے اسرائیل، حزب اللہ کے مابین  جنگ بندی پر زور دیا ہے تاکہ خطے میں جنگ نہ پھیلے! یو این جنرل اسمبلی میں نتین یاہو کے جس خطاب پر      کئی ممالک واک آؤٹ کرگئے تھے (بشمول پاکستان و عرب ممالک)، اس میں یا ہو نے مشرقِ وسطیٰ میں جنگ بڑھانے کی دھمکی دی تھی۔ اسی دوران امریکی پشت پناہی سے لبنان،یمن، غزہ اور مغربی کنارے پر حملے ہوتے رہے۔ اسرائیلی حقِ دفاع بڑھتا پھیلتا جارہا ہے۔ بائیڈن نے اپنے دوسرے منہ سے فرمایا، (امریکہ 2 چہروں 2 زبانوں والی بلا ہے۔) ’امریکہ اسرائیل کے غزہ اور لبنان میں تنازعے کو کم کرنے کے لیے سفارتی ذرائع استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے‘ ۔ غزہ پر سال بھر سے ارادے کا لارا لپا چل رہا ہے۔ چینی وزیر خارجہ نے مشرقِ وسطیٰ میں جنگ روکنے کو کہا ہے۔ ان کے مطابق؛ ’’چین گلوب پر امن کا پرچارک ہے۔ فلسطین کا زخم انسانی ضمیر پر بہت بڑا ہے۔ غزہ پر ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ سے زیادہ اموات۔اور اب لبنان میں دوبارہ لڑائی چھڑ گئی ہے۔ طاقت کے ذریعے انصاف حاصل نہیں کیا جاسکتا۔   مکمل جنگ بندی میں دیر نہ ہونی چاہیے۔‘‘ ادھر یا ہو کے تکبر کا یہ عالم ہے کہ؛’’ہمارے لمبے ہاتھوں کی پہنچ سے کوئی دور نہیں ایران یا مشرقِ وسطیٰ میں۔‘‘ (یہ ہا تھ امریکہ کی بنا پر اتنے لمبے ہیں۔) دونوں ملحمۃ الکبریٰ اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے شوق میں جنگ کی آگ بھڑکائے چلے جا رہے ہیں۔ جارج بش نے افغانستان پر جب حملہ کیا تھا تو امریکہ میں ان کی خبروں میں ’آرمیگا ڈان‘ (حدیث میں ملحمۃ الکبریٰ) بہت بڑی جنگ کا تذکرہ رہا۔ عین اسی سلسلے میں شام پر بشار الاسد کے ذریعے ہو لناک جنگ چھیڑ کر وہاں یہ تیاری کی گئی۔ شام ، غزہ کی طرح بیرل بموں، امریکہ، روس کی بمباری اور وحشت ناک کیمیائی حملوں سے تباہ کیا۔ لہلہا تا شام اسی طرح ملبہ، کھنڈر، قبرستان، قیدیوں کی ڈھانچہ لاشوں کے ڈھیر بن گیا۔ آبادی مہاجر ہو کر بکھر گئی ۔
مسلمان احادیث کے باب الفتن کو بھلائے بیٹھے ہیں۔ صہیونی عیسائیوں،یہو دیوں نے احادیث کے  عین مطابق جنگوں کی تیاری میں انہی تمام مقامات کو نشانے پر لیا ہے جن کا تذکرہ موجود ہے! امریکہ اور روس دونوں کے فوجی اڈے اِسی سلسلے میں شام میں موجود ہیں۔ تازہ ترین حملے میں امریکہ نے شمال مغربی شام میں فضائی حملے کر کے 37 کونشانہ بنایا ہے۔ یہ اقرار موجود ہے کہ 1.3 کروڑ شامی شدید بھوک سے دو چار ہیں۔ ضروریاتِ زندگی سے 90 فی صد محروم ہیں !ہم سورہے ہیں! 
پاکستان نے یو این اجلاس میں فلسطین پر مضبوط موقف کا اظہار اور پورے وفد نے واک آؤٹ کر کے ہماری لاج رکھ لی۔ وزیر اعظم اور ڈاکٹر یونس کی ملاقات میں بھی دونوں ممالک کے ما بین اچھے تعلقات، خیر سگالی کا اطمینان بخش اظہار رہا۔ اللہ اس میں مزید خیرو برکت عطا   فرمائے اور ہمیں باہم تقویت کا ذریعہ بنائے۔
یہاں وہی مظاہروں، احتجاجوں کا دور دورہ رہا۔ راولپنڈی میں گڑ بڑ کے اثرات لا محالہ اسلام آباد پر پڑتے ہیں۔شہری خوار وزار ۔ بزنس ماند، موبائل سروس معطل، موٹر وے بندش کے لالے۔ غرض ایک افراتفری سے ’رونق‘ مچائے رکھتے ہیں۔ کام ٹھپ، معیشت بیمار! تاہم قرضوں کی ماری معیشت پر بھی کابینہ ارکان کے لیے 24 کروڑ کی 25 نئی گاڑیاں آگئیں۔ حالانکہ ہماری سیاست، جمہوریت، معیشت  کا جو حال ہے انھیں رکشے خرید کر دینے چاہئیں جو خود چلا کر تشریف لائیں۔ ساری بھیڑ چھٹ جائے اگر افغان کا بینہ والی تنخواہیں، غیرمراعاتی مناصب اس ملک میں بھی لاگو کردیئے جائیں۔ کروڑوں کی سرمایہ کاری کرکے ٹکٹ سیٹیں یو نہی تو حاصل نہیں کی جاتیں۔ لطیفہ تو یہ ہے کہ گاڑیوں کی خریداری کی منظوری کفایت شعاری کمیٹی سے لی گئی ہے! کمیٹی کے ارکان کی فہرست تو مشتہر کی جائے تاکہ قوم ہرادارے، یونٹ، گھر میں ایسی کفایت شعاری سے فیض یاب ہو سکے! اسی دوران ہمارے مالیاتی قرضوں کی منظوری پر ایسی مبارک سلامت ہوئی کہ سودی قرضوں پر خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے!
بے دلی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں
 5 نومبر کو امریکہ میں نئے صدر کے انتخاب کے لیے ووٹنگ شروع ہوگی۔ گدھے (ڈیمو کریٹ: انتخابی نشان) اور ہاتھی مابین مقابلہ (ری پبلکن)۔ انتخابی نشانوں کی تاریخ میں جو کارٹون اہم ہے اس میں ہاتھی سونڈ لٹکائے ایک کھائی کے کنارے سو رہا ہے۔ سرہا نے ری پبلکن کھڑا ہے۔ پاس ہی گدھا اسی گہری کھائی میں گرنے کو ہے اور گویا ٹرمپ دم سے کھینچ کر اسے بچانے کی زور آزمائی کر رہا ہے۔( معاشی بد نظمی گرنے کی وجہ دکھائی گئی ہے۔)
یہ 1879ء کا کارٹون آج حقائق کی تصویر پیش کر رہا ہے۔آج بھی امریکہ اسی دیوانگی سے جنگوں میں پیسہ جھونک رہا ہے۔ اسرائیل پر دھڑا دھڑ ڈالر نچھاور ہو رہے ہیں۔ پہلے افغانستان، عراق، شام،یمن میں کھربوں کھرب پیسہ لٹایا۔ بے آبرو ہو کر افغانستان سے نکلنا پڑا۔ نتیجہ جو بھی ہو فرق صرف اتنا ہے کہ بائیڈن اورامیدوارِ صدارت کمالا ہیرس کے دو منہ ہیں اور وہ مسلم ووٹ محفوظ رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ منافقانہ جملے جنگ روکنے کو کہہ کر پھر واپس اصل پر لوٹ آتے ہیں۔ ٹرمپ نے اسرائیل کی ڈٹ کر خدمت اور ہمنوائی سدا کی ہے بلا لحاظ۔ داماد کشنر کے یہودی ہونے کا اعزاز اسے حاصل ہے۔ اسی کشنر کے ذریعے مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل سے عرب ممالک کے تعلقات کا آغاز، اسرائیل کا قدس کو دارالحکومت بنا لینا ممکن ہوا۔ یروشلم پوسٹ میں ہیری رچر نے ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی کو خوش آئندبتا یا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ٹرمپ ابراہیمی معاہدے کو آگے بڑھانے میں یکسو تھا۔ وہی اپنی انتظامیہ سے فوجی اور معاشی ترغیبات (انڈونیشیا اور پاکستان کو ابراہیمی معاہد ے میں شمولیت کے لیے) دینے پر بھی تیار ہوگا۔ مقابلہ سخت ہے۔ ووٹرز کا موڈ بگڑا ہوا ہے۔ جمہوریت اور دو پارٹی نظام کے خلاف غزہ پر سال بھر سے مظاہرے کرنے والوں میں شدید غم و غصہ ہے۔ گلوبل چو دھری امریکہ جن دو پارٹیوں کا یر غمال ہے وہ خون آشام اسرائیل کی مکمل سرپرستی کر کے غزہ کے بعد لبنان اور پورے مشرقِ وسطیٰ میں وحشیانہ جنگوں کے عزائم کے حامل ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ ٹرمپ بدترین اخلاقی جرائم اور مالی بد نظمی کا شکار ہے۔ جس نے شرمناک مقدمے میں ایک اداکارہ کو ٹرمپ کی کرتوتوں پر خاموشی کے عوض ایک لاکھ تیس ہزار ڈالر زبان بندی کے دیئے۔ مگر امریکی تھی۔ پیسہ ناکافی رہا اور وہ پھر بول پڑی۔ گارڈین نے (27 ستمبر) مضمون شائع کیا کہ: ’امریکہ اپنی حیا کھو چکا‘۔ اب ایسے سکینڈل سیاست پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ پہلے ان سے سیاست دانوں کے سیاسی کیریئر ختم ہو جاتے تھے۔ نتائج انتخابات کے یکسر بدل جاتے۔ مگر بل کلنٹن کے بعد سے معیار بدل گیا۔ اب جمہوریت میں ایسے سکینڈلوں سے ماتھے پر شکن نہیں آتی! سیاستدان کھل کر خون کے پیاسے اور قتلِ عام کے حق میں ہیں، اس کا بھی کوئی اثر نہیں! ہمارے ہاں صحیح غلط کی پہچان ختم ہوتی نظر آرہی ہے۔‘ اللہ تعالیٰ از خود نوٹس لے کر مسلسل امریکہ کو طوفان، بارشوں، سیلابی ریلوں کا نشانہ بنائے رکھتا ہے، جابجا کچرے کا ڈھیر بنی بستیاںگویا جنگ زدہ علاقہ ہو!  
یواین جنرل اسمبلی میں بنگلہ دیشی وفد، ڈاکٹر یونس کی سربراہی میں توجہ کا مرکز رہا۔ نیویارک ٹائمز نے    غیر معمولی طور پر 25 منٹ کا انٹرویو نشر کیا۔ کلنٹن کی ڈاکٹر یونس کی رہنمائی میں امریکہ بھر میں غرباء کے لیے چھوٹے قرضوں سے خود کفالت حاصل کرنے کی سکیم کے حوالے سے کلنٹن نے دعوتِ خطاب انھیں دی۔ بھر پور پذیرائی اور ڈاکٹر یونس کی بے انتہا تحسین کی۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈاکٹر یونس نے بنگلہ دیش میں انقلاب کا خوبصورت نقشہ کھینچا۔ انقلاب کے ماسٹر مائنڈ طالب علم محفوظ عالم کا بھرپو ر تعارف کروایا۔ یہ دورہ نئے بنگلہ دیش کے لیے  نہایت سود مند رہا۔ 
مرے جنوں کو عدو نے دیا نیا ہیجان