(قابلِ غور) موبائل فون خواتین کے لیے مفیدیا، مضر؟ - ایمن ثناء

9 /

موبائل فون خواتین کے لیے مفیدیا، مضر؟

ایمن ثناء

 

جہاں موبائل نے دور دراز کے رشتوں کو جوڑ رکھا ہے،وہیں ایک کمرے میں بیٹھے باپ بیٹے،ماں بیٹی، بھائی بہن اور میاں بیوی کو ایک دوسرے سے الگ اور ساتھ ہونے کے باوجود تنہا کرنے میں بھی اس کا اہم کردار ہے۔یوں تو بیوی اپنے خاوند سے اور خاوند اپنی زوجہ سے بہت محبت کرتے ہیں،لیکن اس محبت کے تقاضے کو پورا کرنے،یعنی ایک دوسرے کو وقت دینے میں رکاوٹ کی بڑی وجہ یہی موبائل فون ہے۔صورت حال یوں ہے کہ عموماً میاں اپنے فون پر مشغول اور بیوی اپنے فون پر مصروف ہے۔
ایجادات کے اس دور میں موبائل فون نامی اس ایجاد سے کافی زیادہ نقصان شادی شدہ جوڑے کو ہوا ہے۔پہلے ہوتا یوں تھا کہ جب بیٹی شوہر سے لڑ جھگڑ کر یا ناگفتہ بہ حالات میں طلاق لے کر گھر کی دہلیز پر آ جاتی، تب ماں باپ حیران ہو کر پوچھتے کہ کیا ہوا؟ اس سے پہلے انہیں اس کی کوئی خبر نہیں ہوا کرتی تھی۔
اب موبائل فون کے ذریعہ میکے کو ایک ایک بات رپورٹ کر کے وہاں سے ہدایات وصول کرنے کا مزاج بن چکا ہے،جہاں مائیں یا بڑی بہنیں سمجھ دار ہوتی ہیں وہاں رشتے کو ٹھیک کرنے اور اسے نبھانے پر زور دیا جاتا ہے،لیکن معاملہ اگر اس کے بر عکس ہوا تو وہ پٹیاں پڑھائی جاتی ہیں کہ الامان الحفیظ! نتیجتاً رشتوں میں تلخی در آتی ہے،جس سے رشتے یا تو بس زبردستی نام کو گھسیٹے جاتے رہتے ہیں،یا پھر انہیں ہمیشہ کےلیے ختم کر لیا جاتا ہے، جس کا خمیازہ صرف میاں بیوی کو ہی نہیں،بلکہ ان دونوں کی فیملی؛اور اگر اولاد ہوئی تو اسے بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ موبائل فون کے دور سے پہلے،لینڈ لائن فون کے زمانے میں بھی چونکہ شکایتیں لگانے کو مطلوبہ پرائیویسی دستیاب نہیں ہوتی تھی،اس لیے میاں بیوی کے درمیان کہا سنی ہو بھی جاتی تو کچھ دیر کے بعد خود ہی آپس میں معاملے کو حل کر لیا جاتا تھا،لیکن اب صورتحال اس کے برعکس ہے۔
ادھر شوہر سے تو تو میں میں ہوئی، ادھر بیٹی ،ماں کو فون کر کے رونارونے لگتی ہے کہ میرے خاوند نے مجھے ڈانٹا ہے،ماں بھی غصے میں آکر بیٹی کی ساس کو فون ملاتی ہے کہ آپ کے بیٹے نے میری بیٹی کو ڈانٹا ہےاور یوں چھوٹا سا جھگڑا بڑھ کر طلاق تک پہنچ جاتا ہے۔اب اس معاملے میں قصوروار کون؟صرف اور صرف موبائل۔آدھے سے زیادہ مسئلے صرف اور صرف موبائل کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور آئے دن ہو رہے ہیں۔
شوہر تھکا ہارا گھر آیا ہے،بیوی اپنے فون پر لگی ہوئی ہے،شوہر گھر آتے ہی کسی نہ کسی سے فون پہ لگاتار مصروف۔او بھئی! گھر میں ہو تو ایک دوسرے کو ٹائم دو،لیکن نہیں،موبائل سے جان چھوٹے تب ناں۔عورت ہو یا پھر مرد،دونوں کو چاہیے کہ گھر کے اندر بھی ضرورت کے سودا موبائل کو خود سے دور کر دیںاور رشتوں کو ٹائم دیں۔اس سےرشتوں میں مضبوطی آتی ہے،کیونکہ ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں،جہاں ایک دوسرے کو دینے کے لیے یوں تو بہت کچھ ہے،اگر نہیں ہے تو بس ٹائم اور توجہ۔
ایک کمرے میں پوری فیملی موجود ہے،اور سب کے ہاتھ میں ایک ایک فون ہے،ذرا ان کی جانب دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان فرینڈز سے چیٹ چل رہی جن سے کبھی ملاقات نہیں ہے،ان ہی فرینڈز سے ملاقات کی باتیں بھی چل رہی ہیں اور سامنے موجود لوگوں سے بھرپور بات کیے ہوئے کتنے دن ہوئے، یہ پتہ نہیں۔
یہ کیسا دور آگیا کہ بظاہر تو سب اپنے ہیں،لیکن موبائل فون پر مصروف جنریشن کے پاس اپنوں کو دینے کےلیے وقت نہیں ہے۔آج کل کی ماؤں کے پاس بھی بچوں کی تربیت کا ٹائم نہیں،جہاں بچہ رویا وہیں ماں نے ایک فون اُسے پکڑا دیا اور خود بھی فون پرمصروف ہو گئی۔ بچوں کے ہاتھوں میں کتاب کے بجائے موبائل دیا جا رہا ہے،بچہ سارا دن دیکھ رہا ہے کہ ماں باپ بچے کے بجائے فون کو زیادہ ترجیح دے رہے ہیں،تو بچہ بھی وہی سیکھ رہا ہے۔اس لیے خداراموبائل سے زیادہ رشتوں کو اہمیت دیں،ورنہ اس نسل کے ہاتھ ایک دن رشتوں سےخالی رہ جائیں گے،رشتے دور،بہت دور ہو تے چلے جائیں گے؛اور ہاتھ میں صرف موبائل رہ جائےگا۔