(نقطۂ نظر) 7اکتوبر: تاریخ کا رخ موڑ دینےوالا دن - ایوب بیگ مرزا

9 /

7اکتوبر: تاریخ کا رخ موڑ دینےوالا دن

ایوب بیگ مرزا

 

مشرقِ وسطیٰ میں جو آتشِ جنگ کا لاوا بھڑکتا چلا جارہا ہے اِس کی اصل ذمہ دار اور مجرم تو وہ ناجائز اسرائیلی ریاست ہے جس پر صہیونی حکومت مسلط ہے۔ انسانیت سے عاری وحشی حکومت درندگی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور دنیا کو عالمی جنگ کی طرف دھکیل رہی ہے۔ یوں تو یہودیوں کی تاریخ بھی چند ادوار کو چھوڑ کر سازشوں کا پلندہ ہے اور بدترین دہشت گردی سے اَٹی ہوئی ہے، یہاں تک کہ انبیاء کو بھی ناحق قتل کر دیتے جس پر یہ امت ِمسلمہ کے منصب سے معزول کر دئیے گئے۔ لیکن اُنیسویں صدی کے اواخر میں جب صہیونیت کا ٹچ لگا تب اِنہوں نے دنیا میں شیطان کے ایلچی اور ٹائوٹ کا رول مکمل طور پر ادا کرنا شروع کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ پرانی سوچ کے یہودی جو کافی تعداد میں ہیں اِن صہیونیوں کی سیاست اور عسکریت کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔
ندائے خلافت کے قاریوں کی اکثریت تو جانتی ہوگی کہ صہیونیت کیا ہے اور اِس کا روگ انسانیت کو کب اور کیسے لگا؟ لیکن کچھ لوگوں کو اِس حوالے سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ صہیونیت (Zionism) ایک سیاسی اور قومی تحریک ہے جس کا مقصد یہودیوں کے لیے الگ قومی وطن کا قیام اور تحفظ تھا۔ یہ تحریک انیسویں صدی کے آخر میں شروع ہوئی اور اِس کا بنیادی مقصد فلسطین کی سر زمین پر یہودی ریاست کا قیام تھا جو کہ قدیم اسرائیل کی سرزمین بتلائی جاتی ہے۔ صہیونیت کا مقصد یہ بتایا گیا کہ یہودیوں کو اپنے خود مختار وطن میں بسایا جائے تاکہ وہ مذہبی، ثقافتی اور قومی لحاظ سے آزاد زندگی بسر کر سکیں۔ یہ تحریک تھیوڈور ہرزل کی قیادت میں سامنے آئی جس نے 1897ء میں پہلی صہیونی کانگرس کی صدارت کی اور یہودی ریاست (Der Judenstatt) کے عنوان سے کتاب لکھی۔ صہیونیت نے بعدازاں 1948ء میں اسرائیلی ریاست کے قیام کی صورت میں اپنے بنیادی ہدف کو حاصل کیا۔ اِس تحریک کے کئی گوشے ہیں جن میں سیاسی، مذہبی اور ثقافتی صہیونیت شامل ہے۔ اسرائیل کی سرحدیں مصر، شام اور اردن سے ملتی ہیں، لیکن آبادی کے لحاظ سے اسرائیل لاہور سے بھی چھوٹا ہے اور اُس میں بھی 18% مسلم آبادی ہے۔ سلطنت عثمانیہ میں یہودی، عیسائی اور مسلمان وہاں پُرامن زندگی گزار رہے تھے۔ مذہبی منافرت نہیں تھی۔ پہلی صہیونی کانگرس کے فوراً بعد ہی اِس ریاست کے قیام کے لیے سازشوں کا جال بچھایا جانے لگا۔ عثمانی خلیفہ سے بھی اجازت مانگی گئی کہ یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دی جائے۔ لیکن اُنہوں نے واضح کر دیا کہ میں یہودیوں کو فلسطین میں ایک انچ زمین نہیں دے سکتا۔ اِس پر عربوں کو قومیت اور آزادی کے نام پر ترکوں کے خلاف اُکسایا گیا۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران ہی وہ علاقے جو اب سعودی عرب اور اردن کہلاتے ہیں، وہاںگوریلا جنگ نما آزادی کی جنگ شروع کروا دی گئی۔ عربوں کے قبائلی لشکر ترتیب دیئے گئے۔ ان کی تربیت، تنظیم، رہنمائی اور اسلحہ بندی میں برطانیہ نے کلیدی رول ادا کیا۔ مغربی ممالک کی مدد سے عرب کے حصے بخرے کیے گئے اور توڑ پھوڑ سے نئی سرحدی حدود وضع کرکے کئی ملک بنا دیئے گئے۔
1948ء کی جنگ کے بعد آٹھ لاکھ کے قریب فلسطینیوں نے لبنان سمیت کئی ہمسایہ ممالک میں پناہ لی اور فلسطینی تحریک مزاحمت شروع کی ہمسایہ ممالک سے اسرائیل پر حملے کیے جاتے تھے۔ 1967ء میں عرب اسرائیل جنگ ہوئی جس میں عرب اپنی بزدلی اور نااہلی کی وجہ سے بُری طرح شکست کھا گئے۔ مصر صحرائے سینا اور شام گولان کی پہاڑیاں کھو بیٹھا۔ اب عربوں پر اسرائیل کی دھاک بیٹھ گئی۔ فلسطینیوں کی مزاحمتی کارروائیاں اب عربوں کو کَھلنے لگیں۔ اردن کے شاہ حسین نے اِن فلسطینی جنگجوؤں کے خلاف اقدام کا فیصلہ کیا۔ بدقسمتی سے پاکستان کے ایک بڑے فوجی افسر کی اردن نے خدمات حاصل کیں جنہوں نے اپنے فلسطینی بھائیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے۔ یہ فوجی افسر بعدازاں پاکستان کے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے۔ 1973ء کی جنگ میں عربوں خاص طور پر مصریوں نے بزدلی کے تمام طعنے مٹا دیئے۔ اسرائیل تباہ و برباد ہونے کے قریب تھا کہ امریکہ براہِ راست جنگ میں کود گیا اور مصر کی فتح کو شکست میں تبدیل کر دیا۔ اِس پر مصر کے سابق صدر انوار سادات نے کہا کہ ہم اسرائیل سے لڑ سکتے ہیں امریکہ سے نہیں لڑ سکتے، لہٰذا مصر بُری طرح سرنڈر کر گیا۔ اسرائیل سے صحرائے سینا کو واپس لینے کے لیے اُس کی حیثیت کو تسلیم کر لیا۔ وہ دن اور آج کا دن، اسرائیل ایک جارح کی حیثیت سے بڑھتا چلا آ رہا ہے اور عرب خوفزدہ ہو کر پسپا ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات نے تو اسرائیل کے سامنے مکمل طور پر سرِ تسلیم خم کر دیا ہے۔
ستمبر2023ء میں نیتن یاہو نے اقوامِ متحدہ میں غیر معمولی اہمیت کی حامل ایک تقریر کی اور کچھ نقشے پیش کیے۔ نیتن یاہو روزِ اوّل سے ہر زہریلے صہیونی کی طرح فلسطینی مسلمانوں، عربوں اور دنیا بھر کے دیگر مسلمانوں کے خلاف اِسی ترتیب سے زہر فشانی میں خاص مہارت رکھتا ہے۔ 2023ء کے نقشوں کے ذریعے اپنا ہدف بھی واضح کر دیا اور دنیا کو وارننگ بھی دے دی۔ نیتن یاہو کے پیش کردہ نقشوں میں فلسطین غائب تھا۔ گویا اسرائیل 7 اکتوبر سے قبل ہی فلسطینی مسلمانوں کی نسل کُشی کا منصوبہ بنا چکا تھا۔ پھر انڈیا مڈل ایسٹ اکنامک کا ریڈور (IMEC) کی باقاعدہ نقاب کشائی کی۔ بھارت سے شروع ہو کر، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے گزرتے ہوئے مقبوضہ فلسطین کی بندرگاہ حیفہ پر آن رکنے والے اس تجارتی منصوبہ جو بالآخر حیفہ کو یورپ سے جوڑتا تھا، اُس کی تفصیلات پیش کیں۔ بہرحال اِس میں اُس کا مذموم اور ناپاک منصوبہ بھی پنہاں تھا اور دنیا بھر کے لیے ایک پیغام بھی تھا کہ اب اسرائیل کے راستے کی رکاوٹ بننے کی کوشش نہ کرنا۔ صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ اب وہ عربوں کو امن کی مار دینے کے موڈ میں ہے اور اُنہیں سمجھا رہا ہے کہ تمہارے پاس کوئی آپشن نہیں سوائے اِس کہ جس طرح کا اور جس انداز کا اور جس قیمت پر میں تمہیں امن بخش رہا ہوں، اُس کو غنیمت جان لو اور اُسے قبول کرو۔ تمہارا زندہ رہنا اسی صورت میں ممکن ہے کہ اسرائیل کے آگے سرنڈر کر جاؤ۔
راقم کی رائے میں جو صورتِ حال نظر آ رہی تھی اُس کے مطابق سعودی عرب کسی قیمت پر اسرائیل کو ناراض کرتا نظر نہیں آ رہا تھا۔ صرف دبی زبان سے دو ریاستی فارمولے کی خواہش ظاہر ہو رہی تھی۔ پھر جو حالات سامنے نظر آئے تو اُن کی بنیاد پر کوئی صد فی صد اور حتمی بات کہنا تو مشکل ہے کہ کیا ہونے جا رہا تھا۔ لیکن ایک صحافی کی حیثیت سے راقم ڈاٹس کو جوڑ کر کوئی نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کرے تو وہ کچھ یوں دکھائی دیتا تھا کہ سعودی عرب تو اسرائیل کو تسلیم کیا ہی چاہتا تھا۔ لیکن عوامی ردِعمل سے بچنے اور اُس کو دوسرا رخ دینے کے لیے اُس کی خواہش تھی کہ کچھ دوسرے ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیں اور غیر عرب ممالک میں ایٹمی صلاحیت رکھنے والا پاکستان بھی تسلیم کرے تو پھر اُسے عوامی ردِعمل کو سنبھالنے میں آسانی ہوگی۔ کاغذی اور ذہنی تیاری ہو چکی تھی۔ سوچنے کا مقام ہے کہ آخر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کس چیز کے صلے میں پاکستان کو 25 ، 25ارب ڈالر دے رہے تھے۔ اسرائیل کے پیش کردہ امن فارمولے کا عملی طور پر آغاز ہوا ہی چاہتا تھا، سعودی عرب اور اسرائیل کے حکمران مصافحے کے لیے ہاتھ اتنے آگے بڑھا چکے تھے کہ انگلیاں ایک دوسرے کو چھو جانے والی تھیں اور وہ ایک دوسرے سے بغل گیر ہونے اور معانقہ کرنے کو تھے کہ 7 اکتوبر 2023ء کو حماس نے اسرائیل پر قیامت ڈھا دی۔ تمام منصوبے خاک میں مِل گئے۔ صرف عرب عوام ہی نے نہیں بلکہ دوسرے مسلمان ممالک کی عوام نے بھی حماس کے لیے محبت اور جوش و جذبے کا اظہار کیا۔ سب کو معلوم تھا کہ اسرائیل کی طرف سے کتنا شدید اور ظالمانہ ردِعمل آئے گالیکن عوام کے تیور ظاہر کر رہے تھے کہ وہ اِسے خاطر میں نہیں لائیں گے البتہ اسرائیل کا ردِعمل اِن خدشات سے بھی بہت بڑھ کر تھا اور جو کچھ اسرائیل نے کیا اُسے انسانوں کا عمل نہیں کہا جا سکتا۔ کسی بھی لکھاری کے لیے اِن وحشیانہ اقدامات کے لیے الفاظ نہیں ہوں گے۔ تاک تاک کر بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو نشانہ بنایا گیا، ہسپتالوں پر بمباری کی گئی، متاثرین تک راشن اور دوائیاں نہ پہنچنے دی گئیں۔ تُف ہے اُن مسلمان ممالک پر بھی جنہوں نے اسرائیل کے خوف سے غزہ جانے والے تمام راستے مسدود کر دیئے، بچے بلک بلک کر روتے رہے کوئی اُن کے منہ میں پانی کی بوند ٹپکانے کی جرأت نہیں کر رہا تھا۔ راقم کا قلم اِن مصائب اور تکالیف کا ہرگز احاطہ نہیں کر سکتا جو اہل غزہ پر برس رہی تھیں۔ لیکن سلام ہے اور پھر سلام ہے اہل غزہ کی جرأت مندانہ سوچ پر کہ کسی ایک شخص نے بھی یہ نہیں کہا کہ حماس نے اسرائیل پر حملہ کرکے ہمیں مصیبت اور پریشانی میں ڈال دیا ہے۔ اُنہوں نے اپنے زخموں کی وجہ سے چیخ و پکار تو کی لیکن کسی ایک شخص نے حماس کو موردِ الزام نہ ٹھہرایا۔ البتہ، ہمارے پاکستان میں ایسے دانشوروں کی کمی نہیں تھی جنہوں نے اِس رائے کا اظہار کیا کہ حماس نے حملہ کرکے اسرائیل کو موقع فراہم کر دیا کہ وہ مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہا دے۔ اگر نیتن یاہو امن کی بات کر رہا تھا تو عربوں کو اُس کا ہاتھ جھٹکنا نہیں چاہیے تھا۔ آہ افسوس! درحقیقت یہ لوگ یہودیوں کی تاریخ سے واقف نہیں جو انبیاء ؑ کو بھی قتل کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے جبکہ اسرائیل تو اِس وقت صہیونیوں کے زیر تسلط ہے جو اپنی زہر ناکی میں انسانی تاریخ میں کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ اصل بات یہ ہے کہ کبھی آزادی بھی خون دیئے بغیر ملی ہے؟ آزادی کبھی پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کی جاتی۔ آزادی کے لیے خون کا نذرانہ پیش کرنا ناگزیر ہے۔ ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ نیتن یاہو کا منصوبہ یہ تھا کہ دشمن اگرگُڑ دینے سے مرتا ہے تو لاٹھی استعمال کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ اُس میں تھوڑا ہی سہی کچھ نہ کچھ اپنا نقصان بھی ہو جائے گا۔ اب آگے بڑھنے سے پہلے یہ سمجھنا چاہیے کہ اگرچہ حماس کے 7 اکتوبر کے حملے سے اہل غزہ اور دوسرے فلسطینیوں کا بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا ہے۔ اِس کا اعتراف تو کرنا ہوگا۔ لیکن یہ بھی تو ہے کہ اسرائیل کے آگے یوں سرنڈر کرنے سے بچ گئے۔ وہ یہودی جو ہر وقت مظلومیت کا اوڑھنا اوڑھے رکھتے تھے، آج دنیا کی نظر میں انتہائی ظالم اور جابر قوم ہے۔ اُس کا امیج بُری طرح تباہ ہوا ہے۔ اُس کی معیشت ڈگمگا رہی ہے۔ عربوں کے اگر ہزاروں شہید ہو رہے ہیں تو یہودی بھی جہنم واصل ہو رہے ہیں۔ عرب مشرقِ وسطیٰ میں کروڑوں کی تعداد میں ہیں لیکن یہودیوں کی آبادی بہت کم ہے، وہ جلد آبادی کی کمی کا بُری طرح شکار ہو جائیں گے۔ عرب حکمران اگرچہ خوف کا شکار ہیں لیکن عوام میں جذبہ زندہ ہو رہا ہے۔ اسرائیل سمجھتا ہے فلاں فلاں عربوں کا لیڈر اگر ختم ہو جائے تو وہ محفوظ ہو جائے گا۔ راقم پورے یقین سے کہہ سکتا ہے کہ جوں جوں وہ اہم شخصیات کو شہید کر رہا ہے وہ مزید غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے۔ حماس کے سربراہ ہنیہ کو شہید کیا تو اُس کی جگہ یحییٰ السنوار نے لے لی جو غزہ کی جنگ کا اصل ماسٹر مائنڈ ہے اور اسرائیل کو ٹف ٹائم دینے کی زیادہ صلاحیت رکھتا ہے۔ اسرائیل سمجھتا ہے کہ اگر اُس نے جنگ مزید علاقوں میں پھیلا دی تو وہ جنگ میں کامیابیاں حاصل کرتا چلا جائے گا۔ لہٰذا اُس نے لبنان پر حملے کرنا شروع کر دیئے اور حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ پر ایسی ہلاکت خیز بمباری کی کہ وہ جاں بحق ہو گئے۔ جن کا بیٹا ہادی نصر اللہ 1997ء میں 18 سال کی عمر میں جنوبی لبنان میں مزاحمت کرتا ہوا جان سے گیاتھا۔ حسن نصر اللہ کی جگہ اب نعیم قاسم حزب اللہ کے سربراہ بن گئے ہیں، جن کی مشہور زمانہ کتاب ’’حزب اللہ‘‘ ایک معرکۃ الاراء کتاب ہے۔ وہ اسرائیل کے بارے میں زیادہ سخت مؤقف رکھتے ہیں۔ وہ اسرائیل کے خلاف فدائی حملوں کو مؤثر ترین ہتھیار سمجھتے ہیں۔ لہٰذا ایسا کوئی امکان نہیں کہ ہنیہ اور نصراللہ کی شہادت سے مزاحمت ختم ہو جائے گی۔ البتہ دشمن کی طاقت سے انکار کرنا بھی حماقت ہوگی اور یہ مبالغہ نہیں ہے کہ امریکہ واشنگٹن سے زیادہ تل ابیب کی فکر رکھتا ہے۔ لہٰذا امریکہ نے بحیرہ احمر میں اپنے بحری جنگی جہاز بھیج دیئے ہیں۔ نیتن یاہو کے جنگی عزائم یہ ہیں کہ دریائے اُردن کے مغربی کنارے میں آباد فلسطینیوں کو اُردن میں دھکیل کر مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کر لیا جائے اور غزہ کے فلسطینیوں کو مصر میں دھکیل کر غزہ میں یہودی بستیاں آباد کی جائیں۔ اطلاعات کے مطابق اِس منصوبے کو امریکی حمایت حاصل ہے۔ بحرین، سعودی عرب، مصر، عرب امارات اور مراکش جو امریکہ اور اسرائیل دونوں کے قریب ہیں۔ اِن کی امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے اِس منصوبے پر حمایت حاصل کرنے کے لیے زبردست کوشش کی ہے لیکن یہ کوششیں فی الحال ناکام نظر آتی ہیں۔ بہرحال مسلمان حکمرانوں خاص طور پر عربوں کو سوچنا چاہیے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ وہ گریٹر اسرائیل کے راستے کی رکاوٹ نہ بن کر زندہ رہ سکتے ہیں۔
راقم کی رائے میں یہ کسی طرح ممکن نہیں تو پھر جب مرنا ہی ٹھہرا تو پھر تیرے در پر ہی سر پٹخ کر کیوں نہ مریں۔ اُنہیں ٹیپو سلطان کا یہ ایمان افروز نعرہ کسی صورت نہیں بھولنا چاہیے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے۔ یہ تحریر اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی کہ ایران نے اسرائیل پر سینکڑوں میزائل داغ دیئے۔ اسرائیل کے نقصانات کی ابھی صحیح اطلاع نہیں ہے۔ اس جوابی کارروائی سے جنگ مزید پھیل سکتی ہے لیکن یہ حملہ ناگزیر تھا۔ کوئی تو اسرائیل کے راستے میں رکاوٹ بنے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں میں جذبۂ ایمانی بیدار کرے اور حکمران اقتدار ہی نہیں زندگی کی اِس حقیقت کو بھی سمجھیں کہ اِس دنیا میں کچھ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نہیں ہے۔