(منبرو محراب) ہمارے مسائل کا حل : فکرآخرت - ابو ابراہیم

9 /

ہمارے مسائل کا حل : فکرآخرت

(قرآن و حدیث کی روشنی میں)


مسجد جامع القرآن، قرآن اکیڈمی ڈیفنس،کراچی میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے27ستمبر 2024ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

 

خطبۂ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد!
آج سورہ عبس کی آخری چند آیات کی روشنی میں ہم فکرآخرت کی یاددہانی کریں گے کیونکہ آج جو بھی ہمارے حالات ہیں ، جو بھی مصائب اور مشکلات ہیں، اُس کی بنیادی وجہ آخرت کو فراموش کر دینا ہے ۔ اس کے علاوہ کچھ دیگر معاملات بھی زیر بحث آئیں گے جن میں سے ایک ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا معاملہ ہے ، اِس حوالےسے بھی آج حکمرانوں اور ریاستی اداروں کو کچھ توجہ دلانا مقصود ہے۔ اسی طرح اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت بھی انتہائی تشویشناک مسئلہ ہے ، پھر آئی ایم ایف سے قرضہ ملنے پر  ہماری حکومت اور اسٹیبلشمنٹ جس طرح خوشیاں منا رہے ہیں اس حوالے سے بھی توجہ دلانا مقصود ہے کہ اللہ اور اُس کے رسولﷺ سے جنگ پر خوشیاں منانا کس قدر تباہ کن ہو سکتا ہے ۔ تاہم ایک خوش آئند معاملہ بھی ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک حکومت کی دعوت پر پاکستان آرہے ہیں اس حوالے سے بھی چند ضروری باتیں عرض کی جائیں گی ۔
فکر آخرت کی یاددہانی
آج جتنی بھی بد عملی ہے، فساد ہے، دین سے دوری ہے ، دین بے زاری ہے اور جس قدر مسائل ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے دلوں میں آخرت کا یقین نہیں ہے (الاماشاء اللہ) ۔اگر آخرت کی جوابدہی کا ہمیں یقین ہو جائے توسارے معاملات درست ہو جائیں ، یہی وجہ ہے کہ دو تہائی قرآن ہمیں فکرِ آخرت کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ ایسا ہی ایک مقام سورہ عبس کے آخر میں آتاہے جہاں قیامت اور روزِ محشر کا نقشہ کھینچا گیا ہے ۔ 
{فَاِذَا جَآءَ  تِ الصَّآخَّۃُ (33)}(عبس) ’’توجب وہ آجائے گی کان پھوڑنے والی (آواز)۔‘‘ 
قرآن مجید میں قیامت کے بہت سے نام بیان ہوئے ہیں،اُن میں سے ایک یہ بھی ہے ۔ یعنی اُس لمحہ ایسی سخت آواز آئے گی جو کانوں کو پھوڑ دے گی ۔ آج کسی گھر میں یا دکان پرخدانخواستہ سلنڈر پھٹ جائے تو کس قدر زودار آواز آتی ہے اور کس قدر کہرام مچ جاتاہے ۔ اندازہ کیجیے کہ جب پوری زمین پر بھونچال آئے گا ، پوری زمین ہلا دی جائے گی ، پہاڑ روئی کے گالوں کی مانند بکھر کر اُڑرہے ہوں گے تو اس وقت کیسی خوفناک آواز ہوگی اور اس وقت کیا کیفیت ہوگی ؟ آگے فرمایا:
{یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْہِ (34) وَاُمِّہٖ وَاَبِیْہِ (35) وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ(36)}(عبس) ’’اُس دن بھاگے گا انسان اپنے بھائی سےاور اپنی ماں سے اور اپنے باپ سےاور اپنی بیوی سے اور اپنے بیٹوں سے۔‘‘ 
آج انسان اپنے پیاروں کے لیے جان بھی دے دیتا ہے ، اپنے بھائی بہنوں ، ماں باپ ، بیوی اور اولاد کے لیے لڑتا ہے ، خود کو کھپا تا ہے مگر قیامت کے لمحات اس قدر وحشت ناک ہوں گے کہ انسان اپنے انہی پیاروں سے دور بھاگے گا ، ہر کسی کو صرف اپنی پڑی ہوگی ۔ اپنے بہن بھائی، ماں باپ ، اولاد ، بیوی سب کچھ بھول جائے گا ۔ یہ اللہ کا کلام کہہ رہا ہے ۔ سورۃ النساء میں دو مرتبہ اللہ فرماتا ہے کہ :
{وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ حَدِیْثًا(87)}(النساء) ’’اور اللہ سے بڑھ کر اپنی بات میں سچا کون ہو گا؟‘‘  

 

{وَعْدَ اللّٰہِ حَقًّاط وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ قِیْلًا(122)}(النساء) ’’ اللہ کا یہ وعدہ سچا ہے ‘اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنی بات میں سچا ہو سکتا ہے؟‘‘
آج جن محبتوں کی خاطر ہم اللہ کو بھول جاتے ہیں، اُن کی جائز اور ناجائز خواہشات اور حاجات کو پورا کرنے کے لیے اللہ کو بھی ناراض کر دیتے ہیں ، اللہ سے سرکشی اور بغاوت کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں، اللہ تعالیٰ بتا رہا ہے کہ ایسا وقت آنے والا ہے کہ انسان ان سب کو بھی بھول جائے گا اور اُسے صرف اپنی پڑی ہوگی ۔یہاں تک بھی قرآن میں بیان ہوا ہے کہ :
’’اور کوئی دوست کسی دوسرے دوست کا حال نہیں پوچھے گاحالانکہ وہ انہیں دکھائے جائیں گے، مجرم چاہے گا کہ کاش اس دن کے عذاب کے بدلے میں اپنے بیٹوں کو دے دے اور اپنی بیوی اور اپنے بھائی کواور اپنے اس کنبہ کو جو اُسے پناہ دیتا تھااور اُن سب کو جو زمین میں ہیں پھر اپنے آپ کو بچا لے۔‘‘(المعارج : 10 تا14)
 لیکن یہ صرف اس کی خواہش ہوگی ۔کہا جائے گا :
’’ہرگز نہیں !اب تو یہ بھڑکتی ہوئی آگ ہی ہےجو کلیجوں کو کھینچ لے گی ،وہ پکارے گی ہر اُس شخص کو جس نے پیٹھ موڑ لی تھی اور رُخ پھیر لیا تھا اور جو مال جمع کرتا رہا پھر اسے سینت سینت کر رکھتا رہا۔‘‘(المعارج : 15تا18)
جن کی محبت میں اورجن کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے اللہ کی اطاعت سے منہ موڑ لیا، دنیا پرست بنا رہا، آخرت کی فکر نہیں کی،کل کے نتائج کو سامنے نہیں رکھا، مقصدِ زندگی کو فراموش کیا اور دنیوی زندگی اور آئندہ نسلوں کے لیے مال جمع کرتا رہا ، اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کیا ، روز قیامت ایسے شخص کے لیے جہنم کا شدید عذاب ہوگا ۔ آگے فرمایا :
{لِکُلِّ امْرِی       ٍٔ مِّنْہُمْ یَوْمَئِذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ(37)} (عبس)’’اُس دن ان میں سے ہر شخص کو ایسی فکر لاحق ہو گی جو اسے (ہر ایک سے) بے پروا کر دے گی۔‘‘ 
 ہر ایک اپنی ذاتی حیثیت میں اللہ کی عدالت میں پیش ہو گا۔ یہاں تو عدالتوں میں جو کچھ ہورہا ہے کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ، رشوت ، سفارش ، دھونس ، دھمکی سب کام کرجاتا ہے مگر وہاں ایک ایک عمل کا حساب خود دینا ہوگا اور جوابدہی سے بچنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی ۔ اس کے برعکس جن لوگوں نے دنیا میں اللہ کے احکامات کو مانا اور ان پر عمل کیا ، سخت سے سخت حالات میں بھی دین سے سرکشی نہیں کی اُن کے لیےقرآن میں خوشخبری ہے :
’’اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ان کی پیروی کی ایمان کے ساتھ‘ ہم ملا دیں گے ان کے ساتھ اُن کی اس اولاد کواور ہم اُن کے عمل میں سے کوئی کمی نہیں کریں گے۔ہر انسان اپنی کمائی کے عوض رہن ہو گا۔‘‘(الطور:21)
یہ وہ خاندان ہوں گے جن کے ہاں اللہ کے دین کو ہر چیز پر ترجیح حاصل ہوگی ۔ آج مالی نقصان ہوگیا ، بچوں کے رزلٹ میں نمبر کم آگئے ، چوری ہوگئی ، ڈاکہ پڑ گیا تو پریشانی ہے ، ایمان لُٹ رہا ہے ، اللہ کا دین گھروں سے نکل رہا ہے تو اِس پر بھی کوئی پریشانی ہے ؟اس کے برعکس جن لوگوں کے ہاں دین کو ہر چیز پر ترجیح حاصل ہے ، دنیوی نقصان ہوتا ہے تو ہوتا رہے مگر اللہ کا حکم نہ ٹوٹے ، اپنے ناراض ہوتے ہیں تو ہوتے رہیں مگر شریعت کے خلاف کوئی کام نہ ہو ، ایسے لوگوں کے لیے خوشخبری ہے کہ ان کے خاندان کو اللہ تعالیٰ جنت میں دوبارہ اکٹھا کر دے گا ۔ کسی کے درجات میں کمی نہیں کرے گا بلکہ جو کم درجے میں ہوں گے ان کو بھی دوسروں کے مساوی درجہ عطا فرمائے گا ۔ واللہ اعلم
اس معیار پر خود کو آج اگر ہم نے پرکھنا ہے تو دن میں پانچ مرتبہ ہمارا امتحان ہو رہا ہے ۔ اذان کی آواز آتی ہے ، ہم میں سے کتنے لوگ اللہ کی اطاعت کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور نماز ادا کرتے ہیں۔ اقرار باللسان کے لحاظ سے تو ہم سب ہی مسلمان ہیں الحمدللہ، لیکن اس کے ساتھ تصدیق بالقلب بھی مطلوب ہے، ہمارا عمل بھی اس کا ثبوت پیش کررہا ہو ۔ کیا آج ہماری زندگیوں میں ، ہمارے گھروں میں ایسے ایمان کی دولت ہے ؟اگر ہماری ترجیح اول اللہ کا دین ہے تو پھر تو ہم اس بشارت کی امید کر سکتے ہیں کہ جنت میں بھی ہمارا خاندان اکٹھا ہوگا۔ لیکن صورتحال اگر اس کے برعکس ہے تو پھر اپنی بھی فکر کرنی چاہیے اور اپنے گھروالوں کی بھی ۔ توبہ کا دروازہ کھلا ہے ، کل کے بڑے عذاب کی بجائے آج ہی رجوع کر لینا چاہیے ۔ آگے فرمایا :
{وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ مُّسْفِرَۃٌ (38) ضَاحِکَۃٌ مُّسْتَـبْشِرَۃٌ (39)}(عبس) ’’کچھ چہرے اُس دن روشن ہوں گے۔ مسکراتے ہوئے خوش و خرم۔‘‘
 ہم دنیا میں بھی دیکھتے ہیں کہ بچوں کا رزلٹ آنے والا ہوتا ہے تو جس بچے کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے وہ خوش ہوتاہے لیکن جس نےتیاری اچھی نہیں کی تھی ، رزلٹ کے آنے سے پہلے ہی اُس کا چہرہ بجھا ہوا ہوگا ۔ اسی طرح دنیا میں  جن کی ترجیح دین رہا ہوگا وہ اُس دن خوش ہوں گےاور انہیں اچھے بدلے کی امید ہوگی جبکہ دوسری طرف :
{وَوُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ عَلَیْہَا غَبَرَۃٌ(40) تَرْہَقُہَا قَتَرَۃٌ(41)}(عبس)  ’’اور کچھ چہرے اس دن غبار آلود ہوں گے۔اُن پر سیاہی چھائی ہوئی ہو گی۔‘‘(عبس)
جن لوگوں نے دنیا میں دین کو ترجیح اول نہیں بنایا ، دنیا کے حصول کے پیچھے بھاگتے رہے ، آج وہ مایوس ہوں گے اور انہیں اپنے انجام کا بہت خوف ہوگا ۔ فرمایا:
{اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکَفَرَۃُ الْفَجَرَۃُ(42)}(عبس)
’’یہی ہوں گے وہ کافر اور فاجر لوگ۔‘‘
 اللہ تعالیٰ کے احکامات کو توڑنے والے ، اللہ کے دین سے سرکشی اور بغاوت کرنے والے ۔گناہوں کی نحوست اُٹھانے  والےآخر کار اس انجام ِ بد سے دوچار ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سرکشی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ اُدھر یہ ذلت نہ اُٹھانی پڑے ۔ آمین !
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا معاملہ 
اللہ تعالیٰ اُن کی حفاظت فرمائے۔ اُن کی والدہ تو دعائیں کراتے کراتے دنیا سے چلی گئیں۔ اب ان کی بہن تحریک چلا رہی ہیں ۔ ظاہری بات ہے کہ بہن ہی بہن کے غم کو زیادہ سمجھ سکتی ہے ۔ وہ علماء کو بھی خطوط لکھتی ہیں، مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کو بھی خطوط لکھتی ہیں ، آئمہ مساجد کو بھی لکھتی ہیں، حکمرانوں کو بھی لکھتی ہیں کہ خدارا ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے آواز بلند کریں ۔ 
پرویز مشرف کے دور سے اب تک ہمارے حکمرانوں نے جس بے حمیتی کا مظاہرہ کیا ہے، اس پر      ہر غیرت مند مسلمان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے ۔ ریمنڈ ڈیوس کو جب امریکہ کے حوالے کیا جارہا تھا تو اس وقت بھی بعض حلقوں کی جانب سے توجہ دلائی گئی تھی کہ کم ازکم اس کے بدلے میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کیا جائے ۔ مگر ہمارے حکمرانوں نے وہ موقع بھی کھو دیا ۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن اور جماعت اسلامی کے سابق سینیٹر مشتاق احمد اب بھی قانونی جنگ لڑ رہے ہیں ، پاکستان میں بھی مقدمہ ہے اور امریکہ میں بھی مقدمہ دائر کیا ہوا ہے ۔ وہ سڑکوں پر نکل کر مظاہرے بھی کررہے ہیں اور حکمرانوں کو غیرت دلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے حکمران امریکہ جاکر دوسرے معاملات پر بات کر سکتے ہیں تو  انہیں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حوالے سے بھی بات کرنی چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو بھی غیرت عطا فرمائے اور قوم کے دلوں میں احساس جگائے کہ وہ قوم کی بیٹی کے لیے آواز اُٹھائے ۔ 
اسرائیل کی مسلسل جارحیت 
صہیونی ریاست کی جانب سے جارحیت کا جنون بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ گزشتہ دنوں اس نے لبنان میں سائبردہشت گردی کے ذریعے درجنوں لوگوںکو شہید اور ہزاروں کو زخمی کردیا ۔ اس کے علاوہ اس نے لبنان پر اس قدر شدید بمباری کی ہے کہ گزشتہ تیس سالوں میںاتنا نقصان نہیں ہوا ۔ امریکہ ڈنکے کی چوٹ پراُس کی پشت پناہی کر رہا ہے ۔ برطانیہ سمیت کئی یورپی ممالک اسرائیل کو اسلحہ بھیج رہے ہیں ، بھارت بھی اس کی مدد کررہا ہے ۔ دوسری طرف مسلم حکمرانوں کا معاملہ یہ ہے کہ ان کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ آج غزہ اور لبنان پر جنگ مسلط ہے تو کل ان کی باری بھی آئے گی ۔ صہیونیوں نے تو گریٹر اسرائیل کا نقشہ بھی ظاہر کر دیا ہے جس میں مصر اور سعودی عرب کے علاقے بھی شامل ہیں ، لبنان ، اردن ، شام ، عراق بھی شامل ہیں اور ترکی کا کچھ حصہ بھی شامل ہے۔ لہٰذاعرب حکمرانوں کو بالخصوص ہوش کے ناخن لینے چاہئیں ۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے تو صہیونیوں کے زرخرید غلام ہیں ۔ مسلمانوں کو خود اپنی بقاء اور سلامتی کے لیے کھڑا ہونا پڑے گا اور جرأت و بہادری کا مظاہرہ کرنا پڑے گا ۔ ہمارے سامنے دو ہی راستے ہیں ،یاتو ہم عزت کے ساتھ مقابلہ کریں یا پھر ذلت کی موت مریں ۔ قتال کا راستہ ہمارے سامنے موجود ہے ۔ اللہ کے دین کا تقاضا ہمارے سامنے موجود ہے۔ مگر یہ حکمرانوں کی بے غیرتی ہے کہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات بڑھا رہے ہیں ۔ مملکت خداداد پاکستان جس کو اللہ تعالیٰ نے ایٹمی صلاحیت بھی دی ہے مگر اس کی جانب سے بھی کوئی جرأت کی بات نہیں کی جاتی ۔ ساری طاقت اور جرأت اپنے لوگوں کے خلاف استعمال ہورہی ہے لیکن جہاں طاقت اور بہادری کا اظہار ہونا چاہیے وہاں نہیں ہو رہا ۔ 7 اکتوبر کو غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو ایک سال ہو جائے گا ۔ کوئی دن منانے کی بجائے ہمیں ہر دن اہل غزہ کی مدد کے لیے کوشاں رہنا چاہیے ۔یہ صرف اہل غزہ کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پوری اُمت کا مسئلہ ہے ۔ مسجد اقصیٰ کی حفاظت پوری اُمت مسلمہ کی ذمہ داری ہے ۔ ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ اس کے بس میں جو کچھ ہے وہ کرے ، اہل غزہ کی مالی مدد بھی کریں ، ان کے لیے آواز بھی اُٹھائیں ، پُر امن جلوس نکالیں، مظاہرے کریں ، اور حکمرانوں کو بھی غیرت دلائیں ۔ اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے کہ ’’ پوری اُمت جسد ِواحد کی مانند ہے ، جسم کا ایک حصہ اگر تکلیف میں ہوتو ساراجسم درد محسوس کرتاہے ۔‘‘ کل ہم نے اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے ، اللہ کے رسول ﷺ کی شفاعت کا بھی سوال کرنا ہے لیکن کس منہ سے ہم سوال کریں گے ۔ لہٰذا غیرت ایمانی کا تقاضا ہے کہ اہل غزہ کی ہر سطح پر مدد کی جائے ۔ 
آئی ایم ایف کا جال 
آئی ایم ایف سے 7 ارب ڈالرقرضہ منظور ہوگیا ہے اور ایک ارب کی پہلی قسط جاری ہو گئی ہے جس کی خوشی میں ہماری حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پھولے نہیں سما رہے۔ کس بات کی خوشی ہے ؟ اپنی نسلوں کو مستقل غلام بنانے ، دشمن کی ہر ناجائز شرط کو پورا کرنے ، اپنی اقدار اور تہذیب کا بیڑہ غرق کرنے کی خوشی ؟ قرض کے اس جال کی وجہ سے بیرونی مداخلت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اب وہ ہمارے صوبائی معاملات میں بھی دخل اندازی کرنے لگے ہیں ۔ IMFکی شرائط مانتے مانتے ہم تباہی کے گڑھے میں دفن ہونے جارہے ہیں مگر افسوس کہ؎
وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر ہمارے تجزیہ نگار ، سیاستدان اور اداروں کے لوگ اس پر خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں کہ قرض مل گیا ۔ عقل پر ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ جاری رکھنے پر خوشیاں منائی جارہی ہیں ۔ 
یادرکھئے ! اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ جاری رکھ کر آپ پوری دنیا کو اپنا حمایتی بنا لیں ، مگر آپ کی معیشت نہیں سنبھلے گی اور نہ ہی ملکی حالات درست ہوں گے بلکہ بتدریج ہم غلامی میں دھنستے چلے جائیں گے۔ دشمن نے عراق ، لیبیااور کئی ممالک پر جنگ مسلط کرکے ان کو تباہ کردیا ۔ پاکستان ایٹمی ملک ہے ، اس پر جنگ تو مسلط نہیں کرسکتے لیکن اس کو معاشی ہتھکنڈوں کے ذریعے اس سطح پر پہنچادیا ہے کہ ہم ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود دشمن کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور ہو چکے ہیں ۔ مگر ہمارے حکمرانوں کو،ہمارے سیاستدانوں کو اور ہماری اسٹیبلشمنٹ کو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ۔ 
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کونجات 
اس غلامی اور معاشی بحران سے نکلنے کا واحد حل یہی ہے کہ سودی نظام کو ختم کیا جائے، عدالتی فیصلے بھی آچکے ہیں لیکن بدقسمتی سے نہ تو ہمارے حکمران اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ سود کو ختم کرنے میں سنجیدہ ہے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہم پر یہ تباہی IMFکی وجہ سے آرہی ہے ، اس کے باوجود اس سے اُمید لگائے بیٹھے ہیں جبکہ صورتحال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی کچھ شرائط تو میڈیا رپورٹس کے ذریعے سامنے آئی ہیں لیکن بہت ساری شرائط خفیہ رکھی گئی ہیں ۔ عوام کو پتہ ہی نہیں کہ ملک اور قوم کا کتنا بڑا سودا ہو چکا ہے ۔ اس کے بدترین اثرات آنےو الے دور میں ظاہر ہوں گے ۔ ہماری نسلیں غلام بن جائیں گی مگر اس پر بھی ہمارے حکمران اور اسٹیبلشمنٹ وکٹری کا نشان بنا رہے ہیں کہ ہم نے بڑا تیر مارا ہے ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔   اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو ہدایت عطا فرمائے ۔ آمین ! 
ڈاکٹر ذاکر نائیک کا دورۂ پاکستان 
ڈاکٹر ذاکر نائیک حکومت پاکستان کی دعوت پر پاکستان تشریف لا رہے ہیں ، یہ بہت خوشی کی بات ہے ۔ اللہ تعالیٰ اُن کا دورہ بابرکت بنائے اور اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت بھی فرمائے ۔ بھارت نے اسلام دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں دیس نکالا دیا ۔ ملائشیاکی حکومت نے  ساری دنیا کے پریشر کے باجود اُن کو شہریت بھی دی اور ان کو دین کی خدمت کے لیے سہولیات بھی فراہم کیں ۔اللہ تعالیٰ ملائشیا کے حکمرانوں کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔ اس سے قبل ڈاکٹر ذاکر نائیک 1991ء میں ڈاکٹر اسراراحمدؒسے ملاقات کے لیے پاکستان تشریف لائے تھے۔ یہاں  سے وہ ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے خطبات پر مشتمل ہزاروں  کیسٹس لے کر گئے تھے اور پھر پہلے بھارت میں کیبل کے ذریعے اور پھر اپنے پیس ٹی وی پر ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے خطبات نشر کرتے رہے ۔ اس وقت ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے ان سے کہا تھا کہ اگر آپ نے دین کا کام کرنا ہے تو میڈیکل پریکٹس چھوڑدیں اور مستقل بنیادوں پر دین کا کام کریں ۔ اس کے بعد ڈاکٹر ذاکر نائیک نےمیڈیکل پریکٹس چھوڑ دی اور صرف دین کی خدمت کو اپنا مشن بنا لیا۔ انہوں نے احمد دیدات صاحبؒ سے بھی استفادہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کی مخلصانہ جدوجہد کو قبول کیا اور پوری دنیا میں انہیں ایک مقام عطا فرمایا ۔ لاکھوں لوگوں نے ان کے ذریعے اسلام قبول کیا ۔ 
حکومت ِپاکستان سے ہم توقع رکھتے ہیں کہ  ڈاکٹر ذاکر نائیک کا شایان شان استقبال کرے اور ان کی سکیورٹی کا اعلیٰ انتظام بھی ۔ بعض حلقوں کی جانب سے ان کی مخالفت بھی سامنے آرہی ہےجس کی وجہ شاید    فرقہ واریت ہے، اللہ تعالیٰ انہیں بھی ہدایت عطا فرمائے ۔ ایسے لوگوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنا دل بڑا کریں ۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ڈاکٹر صاحب کا استقبال کریں ۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب سے بھی ہم گزارش کریں گے کہ تقابل ادیان اور عالمی حالات پر گفتگو تک خود کو محدود رکھیں ۔  خاص طور پر فقہی اور اختلافی امور پر گفتگو سے پرہیز کریں ۔ اللہ تعالیٰ ان کا آنا مبارک فرمائے اور ہم سب کو دین کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !