(اداریہ) قرض کی مے پر بھنگڑے - خورشید انجم

10 /

اداریہ
خورشید انجم

قرض کی مے پر بھنگڑے


’’پاکستان بالآخر آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔‘‘ یہ وہ خبر ہے جس پر حکومت اوراسٹیبلشمنٹ بھنگڑے ڈال رہے ہیں کیونکہ ایک ارب کی پہلی قسط وصول ہو چکی ہے۔ سودی قرض میں ملنے والی اس مے کا بہت بڑا حصہ پہلے حاصل کئے گئے سود کی ادائیگی میں استعمال ہو گا جبکہ اصل زرجوں کا توں واجب الادا رہے گا۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کے حکمران متواتر اِسی طرز پر معیشت کو چلاتے آرہے ہیں۔آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول کے لیے موجودہ حکومت کو کتنے پاپڑ بیلنے پڑے ہیں، اِس کا صحیح اندازہ یقیناً قارئین کوہوگا۔ حکومت کو ایسے کئی کام کرنا پڑے جنہوں نے پہلے سے پِسے ہوئے عوام کو مزید پہاڑ تَلے دبا دیا جیسے بجلی، گیس کی قیمت میں اضافہ، زراعت اور تعمیرات پر ٹیکس بڑھانا، کوئی نئی ٹیکس چھوٹ نہ دینا، تنخواہوں اور پنشن میں کمی کرنا، اداروں کی نجکاری وغیرہ۔ پھر یہ کہ آئی ایم ایف کو گویا ملکی داخلی معاملات پر بھی مالک و مختار بنا دیا گیا ہے۔ وفاق کی سطح پر ہو یا صوبوں کی، آئی ایم ایف کو بروقت مستند ڈیٹا فراہم کیا جائے گا، پروگرام میں رہتے ہوئے پاکستان انٹرنیشنل ادائیگیاں نہیں روکے گا۔ محصولات بڑھانے کے لیے سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی میں اضافہ کیا جائے گا، ایف بی آر نقد کی صورت میں ریفنڈ کی ادائیگیاں کرنے سے گریز کرے گا،آئی ایم ایف بنفس نفیس سرکاری اداروں کی مانیٹرنگ کرے گا، پاکستان کی نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کی سہ ماہی رپورٹ آئی ایم ایف کو منظوری کے لیے دی جائے گی۔ گویا پاکستان نے ایک دوسری ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلط کو قبول کرلیا ہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ صرف اگر گزشتہ چھ سال کے معاملات کا جائزہ لیں تو سوائے ہزیمتوں کے ہمیں اپنے لئے کچھ بھی نظر نہیں آئے گا۔ یقیناً اِس وقت کی حکومت اور آج کی اپوزیشن جو اُس وقت حکومت میں تھی سب اس میں شامل رہے ہیں۔ پسِ پردہ مطالبات اس کے علاوہ ہوں گے اور اُن کے زہریلے اثرات وقت کے ساتھ ہی ظاہر ہوں گے البتہ نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم میں تبدیلیوں کی ہوائیں ابھی سے شروع ہوتی محسوس ہو رہی ہیں۔ الغرض ماضی اور حال کا ہر حکمران کشکول اُٹھا کر ایڑیاں رگڑتے ہوئے آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر سجدہ ریز رہا ہے۔
آ ئی ایم ایف وہ بین الاقوامی مالیاتی ادارہ ہے جو دوسری جنگ عظیم کے دوران 1944ء میں برٹن ووڈ کا نفرنس کے نتیجے میں وجود میں آیا۔امریکہ برطانیہ اور سوویت یونین سمیت 44 ممالک نے کانفرنس میں شرکت کی اور طے پایا کہ عالمی معاشی بحران کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک مستحکم ایکسچینج ریٹ نظام کو اپنایا جائے گا اور جنگ سے متاثرہ ممالک کی معیشت کی بحالی کے لیے معاشی امداد دی جائے گی۔ آج آئی ایم ایف کے رکن ممالک کی تعداد190 ہے اوراِس کے پاس ایک ہزار ارب ڈالرز کا مالیاتی فنڈ موجود ہے۔ہر رکن ملک اپنی مالی سبسکرپشن کے بدلے سودی قرض لینے کے حقوق حاصل کرتا ہے۔کسی بھی ملک کو قرض دینے سے پہلے آئی ایم ایف تین اہم کام کرتا ہے۔اول:معاشی و مالی معاملات کی ٹریکنگ، یعنی یہ دیکھنا کہ ایک ملک کی معاشی کارکردگی کیسی ہے اوراُسے کِن کِن خطرات کا سامنا ہے۔ دوم:رکن ممالک کی معیشت کا جائزہ لینے کے بعد اُسے معیشت کو بہتر بنانے کی تجاویز دی جاتی ہیں۔سوم:مالی مشکلات کے شکاررکن ممالک کو مختلف شرائط پرقلیل مدتی اور طویل مدتی قرضوں کی فراہمی کی جاتی ہے۔ البتہ ان خوشنما نعروں کے پیچھے دجل کا ایک پورا کارخانہ مصروف ہے۔
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف، ایسے ممالک کو جو پہلے ہی سودی قرض کے بوجھ تَلے بُری طرح دبے ہوتے ہیں اور یہ بات تقریباً طے شدہ ہے کہ وہ کبھی اِس قرض کو ادا نہیں کر سکیں گے، اُن کو مزید قرض کیوں دیا جاتا ہے۔اِس سوال کا جواب معروف معیشت دان اور آئی ایم ایف کے سابق اعلیٰ عہدیدار جان پرکنز نے اپنی کتاب ''Confession of an Economic Hitman'' میں دیا ہے کہ آئی ایم ایف سرمایہ دارانہ نظام کا وہ آلہ ہے جس کے ذریعہ ترقی پذیر ممالک کو مقروض بلکہ غلام بنایا جاتا ہے۔ ہماری پون صدی کی تاریخ بھی معاشی اعتبار سے اِس غلامی کی کہانی سناتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف مغربی تہذیب اور تمدن کو پوری دنیا پر مسلط کرنے بلکہ اُسے اپنا غلام بنانے کے ابلیسی پیکیج کا اہم حصہ ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کسی ملک کی معیشت کا اُس کی سیاست اور معاشرت کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اگر معیشت کمزور ہے تو اس کے اثرات ملک کے سیاسی حالات پر بھی پڑیں گے۔ پاکستان ایک عرصہ سے معاشی بدحالی اور سیاسی انتشار و افتراق کا شکار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ احتجاج اور دھرنے ہر جمہوری ملک میں دیکھنے میں آتے ہیں اور خود ہمارے آئین میں اس کی اجازت موجود ہے۔ لیکن یہ بھی دیکھا جائے کہ پہلے سے تباہ حال ملک کو مزید انتشار میں مبتلا کرنے سے فائدہ کس کا ہوگا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقع پر داخلی اتحاد کا بھرپور مظاہرہ کیا جانا چاہیے۔ پھر یہ کہ حکومت اور ریاستی اداروں کو بھی اپنی طاقت کا ناجائز استعمال کرنے اور عوام کے بنیادی حقوق کو پامال کرنے سے ہر حال میں گریز کرنا چاہیے تاکہ امن و امان اور بھائی چارے کی فضاء قائم ہو اور ملک سیاسی و معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔
حقیقت یہ ہے کہ اِس وقت ہمیں ایک ایسے مردِ قلندر کی ضرورت ہے جو ہرچہ بادا باد کا نعرہ لگا کر میدان میں اُترے اور تمام ملکی اور غیر ملکی سود کی ادائیگی یہ کہہ کر بند کر دے کہ ہمارا دین، ہماری شریعت سودی لین دین کی اجازت نہیں دیتے۔لہٰذا ہم حال یاماضی کا کوئی سود ادا نہیں کریں گے۔البتہ اصل زرواپس کرنے کے ہم پابند ہیں۔یاد رہے کہ امریکہ نے ایف 16 طیاروں کی پوری رقم پاکستان سے ایڈوانس وصول کرکے ہمیں طیارے دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ پریسلر ترمیم اب ہمیں پاکستان کو طیارے دینے میں رکاوٹ ہے تو ہم کیوں نہیں کہہ سکتے کہ ہماری شرعی عدالت نے سود کو حرام مطلق قرار دیا ہے لہٰذا ہم سود ادا نہیں کریں گے۔ پھر حکمران اور عوام ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو جائیں خواہ پیٹ پر پتھر ہی کیوں نہ باندھنے پڑیں۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اللہ اوراس کے رسول ﷺ سے جنگ جاری رکھ کرپوری دنیا کو بھی اگر اپنا حمایتی ہی کیوں نہ بنا لیا جائے ،معیشت کو بہتر نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اِس سے ملکی حالات درست ہوسکتے ہیں بلکہ بتدریج ہم غلامی میں ہی دھنستے چلے جائیں گے۔ دشمن نے عراق، لیبیااور کئی ممالک پر جنگ مسلط کرکے اُن کو تباہ کردیا۔ پاکستان ایٹمی ملک ہے،اس پر جنگ تو مسلط نہیں کی جا سکتی لیکن اس کو معاشی ہتھکنڈوں کے ذریعے اِس سطح پر پہنچادیا گیا ہے کہ ہم ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود دشمن کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ مگر ہمارے اربابِ اختیار کو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ ؎
یہ ایک سجدہ جسے تُو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات!
اِس غلامی اور معاشی بحران سے نکلنے کا واحد حل یہی ہے کہ سودی نظام کو ختم کیا جائے، عدالتی فیصلے بھی آچکے ہیں لیکن بدقسمتی سے نہ تو ہمارے حکمران اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ سود کو ختم کرنے میں سنجیدہ ہے۔ حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس معاملے میں اپوزیشن بھی اُن کے ساتھ ایک پیج پر ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہم پریہ تباہی آئی ایم ایف کی وجہ سے آرہی ہے، سب اُس سے اُمید لگائے بیٹھے ہیں کہ؎
تم ہی نے درد دیا ہے، تم ہی دوا دینا!پاکستان کی معیشت بے شک اللہ اور اُس کے رسولﷺ سے جنگ کرتے ہوئے چل رہی ہے ۔ یہ بات حکمرانوں کو نجانے کب سمجھ آئے گی کہ اللہ اوراُس کے رسول ﷺ سے جنگ کرتے ہوئے وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔چند ارب ڈالروں کے حصول پر جو خوشیاں منائی جارہی ہیں یہ دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈھیل ہے۔یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی سے ناراض ہوتا ہے تو اُس کو ڈھیل دیتا رہتا ہے، حتیٰ کہ وہ خود اُس مقام پر جا پہنچتا ہے جہاں سے اُس کا بچاؤ ممکن ہی نہیں ہوتا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں معیشت کی بربادی کا اصل ذمہ دارسودی نظام ہے۔
اب غلامی کا قلادہ صرف اِس صورت میں اُتار پھینکا جا سکتا ہے کہ ہم شریعت محمدی ﷺ پر سختی سے عمل کرتے ہوئے سودی معیشت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!