(منبرو محراب) مصائب اور مشکلات میں تلاوت ، نماز اور ذکر کی اہمیت - ابو ابراہیم

10 /

مصائب اور مشکلات میں تلاوت ، نماز اور ذکر کی اہمیت

(قرآن و حدیث کی روشنی میں)

مسجد جامع القرآن، قرآن اکیڈمی لاہور  میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے04اکتوبر 2024ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

 

مرتب: ابو ابراہیم

خطبۂ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد!
آج اُمت ِمسلمہ پر ہر طرف مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں ، چاہے فلسطین ہو یا کشمیر ، بھارت ہو یا میانمار اورسنگیانگ ، ہر جگہ مسلمان زیر عتاب ہیں ۔ غزہ میں ایک سال سے مسلمانوں پر صہیونی جو مظالم ڈھا رہے ہیں انہوں نے تو گویا پوری انسانی تاریخ کے مظالم کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ اب صہیونی ریاست ان مظالم میں مزید آگے بڑھتے ہوئے لبنان اور یمن میں بھی مسلمانوں کا خون بہا رہی ہے۔ اسی طرح موجودہ دور میں جو مسلمان دین کے داعی کا کام کرنے والے ہیں یا تحریکی زندگی گزارنے والے ہیں ، ان پر بھی ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ایسے حالات میں مسلمانوں کے لیے کیا رہنمائی ہے ، آج کا موضوع اسی حوالے سے ہے ۔
چنانچہ ایسے حالات میں قرآن میں پہلی رہنمائی یہ آتی ہے : 
{اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ ط}(العنکبوت:45) ’’تلاوت کرتے رہا کریں اُس کی جو وحی کی گئی ہے آپ کی طرف کتاب میں سے‘اور نماز قائم کریں!‘‘
سورۃ العنکبوت مکی دور کے پانچویں برس میں  نازل ہوئی اور یہ وہ دور تھا جب مکہ میں مسلمان کفار اور مشرکین کے ہاتھوں سخت مصائب اور تکالیف اُٹھا رہے تھے۔ جو لوگ بھی ایمان لے آئے تھے ان کی زندگی اجیرن بنا دی گئی تھی۔ اسی دور میں حضرت یاسر اور سمیہ؆ کی شہادت سخت اذیتوں کے باعث ہوئی اور حضرت بلال ؄ کو سخت گرمی میں تپتی ریت پر لٹا کر اور سینے پر بھاری پتھر رکھ کر انہیں ایمان لانے کی سزا دی جاتی تھی ۔ اسی طرح  اللہ کے رسول ﷺ سمیت تمام مسلمان کفار و مشرکین کی جانب سے سخت تکالیف اُٹھا رہے تھے۔ ان حالات میں سورۃ العنکبوت اور سورۃ الکہف جیسی سورتیں نازل ہوئیں ۔ یہ بہت ہی قیمتی مقامات ہیں ۔ انہی میں سے ایک آیت ہے جس کا اس وقت یاد دہانی کے طور پر تذکرہ کرنا مقصود ہے ارشاد ہوا :
{اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَط}(العنکبوت:45) ’’تلاوت کرتے رہا کریں اُس کی جو وحی کی گئی ہے آپ کی طرف کتاب میں سےاور نماز قائم کریں!‘‘
یہاں خطاب تو حضورﷺسے ہے لیکن اس میں اُمت کے لیے بھی تعلیم ہے ۔ آپ مسلمان ہونے کی وجہ سے تکالیف اُٹھا رہے ہیں ، اللہ کے دین کی خاطر مصائب برداشت کر رہے ہیں تو ان حالات میں پہلا کام بھی یہی ہونا چاہیے کہ جو اللہ کی طرف سے ہدایت نازل ہوئی ہے اس کو پڑھا ، سنا اور سمجھا جائے ۔یعنی قرآن سے جڑا جائے اور اس کے بعد نماز اللہ کی طرف رجوع کرنے کا بہترین ذریعہ ہے اور اس میں بھی قرآن کی ہی تلاوت کی جاتی ہے۔ مشکل حالات میں یہی دو کام اہل ایمان کے لیے سب سے بڑھ کر ضروری ہیں ۔ صحابہ کرام ؇ کا یہی معمول تھا ۔ قرآن کی تلاوت ہدایت و رہنمائی کا ذریعہ بھی بنتی ہے ، سابقہ اقوام کے معرکہ ہائے حق و باطل کا ذکر بھی آتا ہے ، انذار اور بشارت کے پہلو بھی سامنے آتے ہیں ۔ سورۃ الانفال میںفرمایا : {اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ(2)} ’’حقیقی مؤمن تو وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل لرز جاتے ہیں اورجب انہیں اُس کی آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں توان کے ایمان میں اضافہ ہو جاتا ہے‘ اور وہ اپنے رب ہی پر توکل کرتے ہیں۔‘‘
تلاوت قرآن سے ایمان اور اللہ پر توکل میں اضافہ ہوتاہے ۔ ایمان والوں کو ترغیب و تشویق ملتی ہے،جنت اور اللہ سے ملاقات کا ذوق و شوق بڑھتا ہے ۔ اس کے نتیجے میں مصائب اور مشکلات کو برداشت کرنا آسان ہوتا ہے ۔ کفار و مشرکین کے پاس جدید ٹیکنالوجی ہے ، نت نئے ہتھکنڈے اور حربے ہیں مگر جو جذبہ ، استقامت ، صبر ، ہدایت اور رہنمائی قرآن سے مل سکتی ہے وہاں باقی تمام ذرائع مات کھاجاتے ہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ کئی مرتبہ بے سروسامان اہل ایمان کفار و مشرکین کے کثیر لشکر پر غالب آ گئے ۔ اسی وجہ سے سورہ یونس میں فرمایا : 
{ہُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ (58)}(یونس)
’’ وہ کہیں بہتر ہے ان چیزوں سے جو وہ جمع کرتے ہیں۔‘‘
جو کچھ بھی دنیا والے دنیا میں مال و اسباب جمع کررہے ہیں ان سب سے بہتر اور بڑی دولت قرآن ہے ۔ یہ کلام قدر کی رات میں نازل ہوا اور یہ قوموں کی تقدیر بدل دینے والا کلام ہے ۔ ہدایت کی طلب سے جو بھی اس کلام کی تلاوت کرے گا وہ عزم واستقامت کا ایسا پہاڑ بن جائے گا کہ اس کے لیے کفر کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنا کوئی مسئلہ نہیں رہے گا، باطل کا خوف دل سے نکل جائے گا اور اللہ کا بندہ اللہ کے دین کے لیے اپنی جان کو نچھاور کردینا باعث سعادت اور کامرانی سمجھے گا ۔
اب بظاہر تو یہ باتیں سن کر اور پڑھ کر دل کو بہت اچھی لگتی ہیں لیکن کیا واقعی ہمارا معاملہ قرآن کے ساتھ ایسا ہے ؟کیا واقعی ہمارے دلوں میں یہ یقین ہے کہ یہ کتاب قوموں کی تقدیر بدل دینے والی ہے ۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ غزہ میں اپنے مکانا ت کے ملبے کے ڈھیر پر بیٹھے بچے قرآن کی تلاوت کر رہے ہیں اور ایسا لگتا ہےکہ ان کے دل سے آواز آرہی ہے ۔ یعنی قرآن ان کے دل کی آواز بن چکا ہے ۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ایک زخمی فلسطینی بچے کی ٹانگ کاآپریشن کرنے کے لیے ڈاکٹر کے پاس بے ہوشی کی دوائی نہیں ہے ، بچہ کہتا ہے میں قرآن کی تلاوت کرتاہوں آپ میری ٹانگ کاٹ دیجئے ۔ کیاایسا عزم و یقین ہمارے دلوں میں بھی ہے ؟ صحیح مسلم کی روایت ہے :(القرآن حجۃ لک او علیک) اللہ کے پیغمبرﷺفرماتے ہیں کل روزقیامت یہی قرآن یا تو تمہارے حق میں گواہی دے گا یا پھر تمہارے خلاف حجت ہو گا ۔ آج اللہ کی کتاب ہمارے پاس موجو دہے ۔ اگر ہم اس سے ہدایت اور رہنمائی نہیں لے رہے تو کل روز قیامت یہی قرآن ہمارے خلاف گواہ بن جائے گا۔ دوسری طرف یہی قرآن مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے حق میں سفارش کرے گا کہ یارب ! مشکل سے مشکل حالات میں بھی انہوںنے مجھے تھامے رکھا اورمجھ سے منہ نہیں موڑا۔ آگے فرمایا :
{ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَط}(العنکبوت:45) ’’اور نماز قائم کریں!‘‘
نماز اللہ کی مدد کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں جب مسلمانوں کو باطل کی طرف سے سخت اذیتیں دی جارہی تھیں ۔ ایسے مشکل حالات میں نماز کے ذریعے اللہ سے لو لگانے سے مومنین کو روحانی قوت ملے گی ۔ وہ باطل کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو تیار کر سکیں گے ۔قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے :
{یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِط}( البقرہ: 153) ’’اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد چاہو۔‘‘
گزشتہ دنوں کراچی میں ڈاکٹر ذاکر نائیک سے ملاقات ہوئی ، انہوں نے بھی یہی فرمایا کہ ہم نے ایک عام مسلمان کو توجہ دلانی ہے کہ وہ قرآن کو سمجھ کر پڑھے ، یعنی قرآن کے مفاہیم کو سمجھنے کی کوشش کرے اور موجودہ حالات میں اس سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔ دوسرا انہوںنے فرمایا کہ دین کا کام کرنے والوں کو تہجد کی نماز کا ضرور اہتمام کرنا چاہیے اور سجدوں میں دعاؤں کو بڑھانا چاہیے ۔ یہی نصیحت بانی تنظیم ڈاکٹر اسراراحمدؒ بھی فرمایا کرتے تھےاوراصل میں تو یہ نبی کریم ﷺ کی سنت ہے ۔ آپ ﷺ راتوں میں دعا فرمایا کرتے تھے کہ یا اللہ ! عمر بن الخطاب یا عمرو بن ہشام میں سے کسی ایک کے ذریعے اسلام کی مدد فرما۔اسی طرح تحریکی زندگی گزارنے والوں کو بھی تہجد اور دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہیے ، اللہ سے عاجزی اور انکساری کے ساتھ مدد مانگنی چاہیے ۔مسلم شریف کی روایت ہےکہ رات کے آخری پہر اللہ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور کہتا ہے کوئی ہے سوال کرنے والا، جسے میں عطا کردوں ؟ کوئی ہے بخشش چاہنے والا، جسے میں بخش دوں ؟ 
اسی طرح نماز کے اور بھی بہت سے فائدے ہیں۔ جیسے سورہ طٰہٰ میں فرمایا :
{فَاعْبُدْنِیْ لا وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ(14)} ’’پس تم میری ہی بندگی کرو‘ اور نماز قائم رکھو میری یاد کے لیے۔‘‘
انسان غافل ہو جاتاہے اور غفلت کا علاج یاددہانی ہے ۔ نماز کی صورت میں ہر چند گھنٹوں بعد یاددہانی کا موقع ملتا ہے ۔پکار لگتی ہے : 
((حی علی الفلاح ))’’ آ جاؤ کامیابی کی طرف ۔‘‘
اور جب جاکر نماز میں بندہ کھڑا ہوتاہے تواقرار کرتاہے :
{مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ0}’’اللہ بدلے کے دن کا مالک ہے ‘‘
اس سے دل میں اللہ کے سامنے پیش ہونے کا احساس تازہ ہوتاہے ۔ پھر وہ عہد کو تازہ کرتاہے :
{اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ0}’’اے اللہ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ‘‘۔
نماز کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ اقرار اور یاددہانی ہے۔ پھر یہ اللہ کی مدد کے حصول، بخشش اور نجات کا ذریعہ بھی ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا :(فجر اور عشاء کی نماز کے لیے ) اندھیری رات میں چل کر جو اللہ کے گھر کی طرف آرہے ہیں کل روز قیامت اللہ انہیں نور عطا فرمائے گا جبکہ منافقین کو کہہ دیا جائے گا:{قِیْلَ ارْجِعُوْا وَرَآ ئَ کُمْ فَالْتَمِسُوْا نُوْرًاط} (الحدید:13)’’کہا جائے گا لوٹ جائو پیچھے کی طرف اور تلاش کرو نُور!‘‘
حقیقت میں یہ ان کے لیے ایک طنز ہوگا کیونکہ وہاں سے واپسی کا کوئی امکان نہیں ہوگا ۔ لہٰذا پل صراط کے لیے نور ہم نے اِسی دنیا میں تلاش کرنا ہے اور وہ نور ہمیں نمازوں کی جماعت کے ساتھ ادائیگی سے ہی مل پائے گا ۔ آج ہم اپنی نمازوں کا جائزہ لیں۔ اول تو پانچ نمازیں جو فرض ہیں ، کیا وہ باقاعدگی سے ہم ادا کررہے ہیں؟تہجد کی نماز تو جس کو اللہ توفیق دے گا وہی پڑھے گا ، پانچ فرض نمازوں میں بھی ہماری مسجد کی صفیں خالی ہوتی ہیں ۔ پھر ہم روتے ہیں کہ آج اُمت کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے ، ظلم ہے ، باطل کا غلبہ ہے وغیرہ۔ جو اُمت فرض  نمازوں کے لیے کھڑے ہونے کو تیار نہیں ہے ، اس کے لیے اللہ کی مدد کیسے آئے گی ؟ اگر ہم اللہ کے ساتھ ہی مخلص نہیں ہیں تو باقی کس کے ساتھ مخلص ہوں گے ؟دعوت کا کام کرنا ، اللہ کے دین کے غلبے کے لیے کھڑا ہونا اور پھر اس راہ میں مشقتیں برداشت کرنا تو بہت بعد کی بات ہے ۔ نماز کے لیے کھڑے ہوں گے تو اللہ کی مدد بھی آئے گی اور پھر اللہ کے دین کے راستے میں مشقتیں اور مصائب جھیلنے کا حوصلہ بھی پیدا ہوگا اور باطل کے خلاف کھڑے ہونے کا عزم بھی پیدا ہوگا ۔ غزہ میں جب مساجد بھی شہید ہوگئیں اور رمضان آیا تو سوال پیدا ہوا کہ اب ہم اعتکاف کہاں کریں  گے ؟ اعتکاف توجامع مساجد میں ہوتا ہے ۔ پھر انہوںنے کھلے آسمان تلے بھی تہجد کا اہتمام کیا ۔ ہمارے ہاں تو فرض نمازوں میں بھی مساجد کی صفیں خالی رہتی ہیں ۔ یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔ حالانکہ حضور ﷺ تو فرمایا کرتے تھے کہ :((قرۃ عینی فی الصلاۃ))’’میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔‘‘ صحابہ کرام ؇ کے ہاں تو طے تھا کہ بے نمازی کافر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ منافقین بھی پنج وقتہ نمازی تھے ۔ انہیں بھی معلوم تھا کہ اگر نماز نہیں پڑھیں گے تو ہمارا نفاق ظاہر ہو جائے گا ۔ پھر تین ائمہ کرام ( امام شافعی، امام مالک، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہم اجمعین )فرماتے ہیں کہ بے نمازی کو تو قتل کر دینا چاہیے۔امام ابو حنیفہؒ کی رائےہے کہ بے نمازی کو تب تک قید میں رکھا جائے جب تک وہ توبہ نہ کرلے اور نماز کا پابند نہ ہو جائے ۔ آج ہمارا مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی ہے، کلمہ بھی پڑھتے ہیں لیکن پانچوں نمازیں ضائع ہو جائیں تو کوئی پریشانی نہیں ہے ۔ یہ سوالیہ نشان ہے ۔ آگے فرمایا :
{اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِط} ’’یقیناً نماز روکتی ہے بے حیائی سے اور برے کاموں سے‘‘
آج کا مسلمان نماز بھی پڑھتا ہے ، جھوٹ بھی بولتاہے ، فراڈ کرتاہے ، کم تولتاہے اور بھی بہت سے جرائم کرتا ہے ۔ اس میں نماز کا کوئی قصور نہیں ہے بلکہ بندوں کے ایمان کی کمزور ی کا معاملہ ہے ۔ جس قدر ایمان اور یقین پختہ ہوگا ، اسی قدر نماز برائی سے روکنے کا ذریعہ بنے گی ۔ نماز کو اس کے تقاضوں کے مطابق ادا کرو، اس کے آداب کے مطابق ادا کرو تو نماز فائدہ دے گی ان شاءاللہ۔ خاص طور پر نماز میں بندہ جو کچھ پڑھتا یا سنتا ہے اس پر دھیان دے کہ میں کیا پڑھ یا سن رہا ہے ، اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرے ۔ مثال کے طور پر سورۃ الفاتحہ میں حمد بھی ہے ، توحید کا بیان بھی ہے ، اللہ کی بندگی کا اقرار بھی ہے اور روز حساب کی یاددہانی بھی ہے ۔ اگر بندہ ہوش و حواس میں رہتے ہوئے پڑھے گا تو وہ گویا اللہ سے اپنا عہد و پیمان تازہ کرے گا اور اس پر عمل کی کوشش بھی کرے گا ۔ اس کے نتیجہ میں وہ خود کو برائی سے روکے گا اور اللہ سے اس کا تعلق اور رجوع بھی بڑھے گا ۔ پھر یہ کہ موت کا پتا نہیں ہے کب آجائے۔ بندہ یہ سوچ کر پڑھے کہ شاید میری آخری نماز ہو اور یہ موقع ہے میں اپنے رب کو منا لوں ، اپنے عہد کو تازہ کرلوں ۔ یقیناً اس کا بہت بڑا فائدہ ہوگااور ایسی نماز کا اثر بھی ہوگا ۔ پھر نماز کے بعد کے اذکار بھی ہیں : 
((اللهم أعني على ذكرك وشكرك وحسن عبادتك)) ”اے اللہ! اپنے ذکر، شکر اور اپنی بہترین عبادت کے سلسلہ میں میری مدد فرما۔‘‘
اگر بندہ ہوش و حواس میں رہتے ہوئے یہ دعا مانگے گا تو اس کا لازمی اثر ہوگا ۔ معلوم ہوا کہ جب بندہ نماز کے آداب اور تقاضوں کے مطابق نماز ادا کرے گا تو اس کا اثر نماز کے بعد بھی ہوگا اور مسجد سے باہر نکل کر انسان اپنے سارے معاملات میں اللہ کے احکامات کو مدنظر رکھنے کی کوشش کرےگا اور اس کے دل میں جوابدہی کا احساس بھی رہے گا ۔ اس کا انفرادی زندگیوں پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی معاشرے پر بہت اچھا اثر پڑے گا ۔جب لوگ دیکھیں گے کہ ایک نماز پڑھنے والا بندہ جھوٹ نہیں بولتا ، ناانصافی نہیں کرتا ، دوسروں کا حق نہیں مارتا ، کرپشن نہیں کرتا ، رشوت نہیں لیتا تو لوگ اس کی بات کو تسلیم بھی کریں گے اور اس پر عمل بھی کریں گے۔ اس کے کردار کی برتری سے اسے اخلاقی برتری حاصل ہوگی جو اسےاخلاقی طور پر باطل پر غالب کر دے گی ۔ اگر کسی دینی تحریک میں شامل لوگوں کے یہ اوصاف ہوں  گے تو انہیں لوگوں کی اخلاقی حمایت حاصل ہوگی ۔ اگر ان کی نماز واقعی نماز ہوگی تو ان کے کردار بھی چلتی پھرتی گواہی ہوں گےجو باطل پر ان کی اخلاقی برتری ثابت کریں گے اور لوگ ان کی طرف متوجہ ہوں گے ۔ اس کے برعکس اگر معاملہ ایسا ہو جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا :
{یٰٓــاَیـُّـھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(2) کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(3)} (الصف)’’اے مسلمانو! تم کیوں کہتے ہو وہ جو کرتے نہیں ہو؟‘بڑی شدید بےزاری کی بات ہے اللہ کے نزدیک کہ تم وہ کہو جو تم کرتے نہیں۔‘‘
یہ طرز عمل اللہ کی سخت ناراضگی کا باعث بنتا ہے ۔ احادیث میں یہاں تک بھی بیان ہوا ہے کہ جس کی نماز اس کو بے حیائی اور برائی سے نہ روکےاس کی نماز نماز نہیں ہے۔ ایسی نماز اللہ کے ہاں مطلوب نہیں ہے ۔ آگے فرمایا :
{وَلَذِکْرُ اللّٰہِ اَکْبَرُط} ’’اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے۔‘‘
حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں ، انسان کے لیے سب سے بڑی چیز اللہ کا ذکر ہے کیونکہ اللہ ہی کے اختیار میں سب کچھ ہے ۔ اس ضمن میں پہلی بات یہ ہے جو قرآن میں بھی بیان ہوئی کہ :{فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ}( البقرہ : 152 ) ’’پس تم مجھے یاد رکھو‘ میں تمہیں یاد رکھوں گا‘‘
تم نماز ادا کررہے ہو ، قرآن کی تلاوت کر رہے ہو ، اللہ سے دعا کررہے ہو ،توبہ استغفار کر رہے ہوتو انہی لمحات میں اللہ بھی تمہیں یاد کر رہا ہے ۔اللہ کا ذکر کسی بھی وقت کیا جاسکتاہے ۔ جیسا کہ قرآن میں بھی تقاضا آیا : {وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ(45)} (ـالانفال )’’اور اللہ کا ذکر کرتے رہوکثرت کے ساتھ تاکہ تم فلاح پائو۔‘‘
تلاوت اور نماز کے علاوہ بھی اللہ کا ذکر جاری رکھنا چاہیے ۔ اس حوالے سے آسان ترین اللہ کے نبی ﷺکے بتائے ہوئے اذکار ہیں ۔ آپ ﷺنے ہر صبح بیدار ہونے سے لے کر رات کو سونے تک ہر موقع کے لیے اذکار اور دعائیں سکھائی ہیں ، ان کا اہتمام کرنا چاہیے ۔ خاص طور پر تحریکی زندگی گزارنے والے مسلمانوں کو ان اذکار کا لازماً اہتمام کرنا چاہیے ۔ اس سے فلاح اور کامیابی ملتی ہے ۔ آج غزہ کی مسلم خواتین کے کردار و عمل کو دیکھ کر آسٹریلیا کی 50 عورتوں نے اسلام قبول کرلیا ۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ غزہ کی خواتین اور مردوں نے قرآن کی تلاوت، نماز اور اذکار کا خاص اہتمام کیا ہے جو انہیں ایمان پر ثابت قدم رکھتا ہے اور یہی ثابت قدمی دیکھ کر لوگ متاثر ہوتے ہیں ۔ آج باقی اُمت بھی اپنا جائزہ لے کہ ان کے کردار کو دیکھ کر کون متاثر ہوگا ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((ان اللہ یرفع بھذاالکتاب اقواما ویضع بہ آخرین ))’’ بے شک اللہ اس قرآن کی بدولت قوموں کو عروج عطا فرمائے گا اور اس کو ترک کر دینے کی وجہ سے قوموں کو ذلیل اور رسوا کردے گا۔‘‘اس قرآن کی بدولت مسلمانوں نے عروج دیکھامگر وہ مسلمان تھے جو مصائب سے گزر رہےتھے، مشکلات کو جھیل رہے تھے مگر صبر و استقامت کے پہاڑ تھے اور اللہ کے دین کے لیے جان دینے کو تیار تھے ۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر
آج ہم تنہائی میں بیٹھ کراپنا جائزہ لیں ۔ بڑے ٹھنڈے ٹھنڈے ماحول میں بڑے پُرسکون انداز سے ہماری زندگی گزر رہی ہے۔ جب ذرا سخت حالات آئیں گے تو کیا ہم کھڑے رہ سکیں گے ؟ زیر مطالعہ آیت میں آخری بات یہ بیان ہوئی : 
{وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ(45)} ’’اور اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو۔‘‘
ذکر کا مطلب ہے دل میں اللہ کو حاضر رکھنا۔ برائی کا موقع ہے ، کوئی بھی دیکھ نہیں رہا مگر دل میں احساس ہو کہ اللہ دیکھ رہا ہے ۔ یہ بھی اللہ کا ذکر ہے ۔ اس کی بدولت تم برائی سے بچ جاؤ گے ۔ جہاں لکھا ہوتا ہے :’’ کیمرے کی آنکھ تمہیں دیکھ رہی ہے۔‘‘ وہاں ہم محتاط ہو جاتے ہیں ۔ کوئی ایسی حرکت نہیں کرتے کہ نوٹس میں آجائے۔یہ کیمرے خراب ہو سکتے ہیں ، میموری ڈیلیٹ ہو سکتی ہے مگر خالق کائنات نے جو کیمرے لگا رکھے ہیں ان کی میموری کبھی ضائع ہونے والی نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !