(مطالعۂ کلام اقبال) ابلیس کی مجلس شوریٰ - ڈاکٹر حافظ محمد مقصود

10 /

ابلیس کی مجلس شوریٰ

ڈاکٹر حافظ محمدمقصود

(گزشتہ سے پیوستہ) 
ابلیس کی مجلس شوریٰ میں اپنے مشیروں کے تجزیات سننے کے بعد ابلیس مستقبل کےمنظر نامے کے متعلق اپنی ابلیسی ذہنیت کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے ؎
جانتا ہے، جس پہ روشن باطنِ ایّام ہے
مزدکِیّت فتنہ فردا نہیں، اسلام ہے!
ہر وہ شخص جو سیاست اور عمرانیات کی کچھ نہ کچھ سوجھ بوجھ رکھتا ہے وہ جانتاہے کہ آنے والے دور میں ابلیسی نظام کے لیے مزدکیت یا اشتراکیت ہرگز خطرہ نہیں بلکہ آنے والے دور کا اصل خطرہ اسلام ہے ۔
جانتا ہوں میں یہ اُمت حاملِ قرآں نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندہ مومن کا دیں
اگرچہ موجودہ دور میں سرمایہ دارانہ نظام ہی مسلمان کا دین بن چکا ہے ، اس کی ساری بھاگ دوڑ سرمائے کے لیے ہے، سٹیٹس کے لیے ہے کہ دنیاداری میں ، مال ودولت میں وہ دوسروں سے آگے بڑھ جائے ، وہ جو قرآن کا نظریۂ حیات ہے ، وہ جو قرآن نظامِ عدل ِ اجتماعی کا تصور دیتا ہے اس کی طرف اب مسلمانوں کی توجہ نہیں رہی ۔بقول شاعر؎
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلمان نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
جس قرآنی منشور نے اس اُمت کو عالمی طاقت بنایا تھا، اب اس کا وہ منشور نہیں رہا۔ اپنے اصل نظریہ سے ہٹ جانے کی وجہ سے اب یہ اُمت راکھ کا ڈھیر ہے ۔
جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں
بے ید بیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں
مجھے پتہ ہے کہ مشرق ایک اندھیری رات سے گزر رہا ہے اور اس اندھیری رات میں بھولی بھٹکی امت کو راستہ دکھانے والا کوئی نہیں ہے ۔ وہ حرم جو اُمت کا مرکز اور روشنی کا منبع تھا اب وہاں بھی اندھیروں کا راج ہے ، اُمت کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں ۔
عصر حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبر کہیں
مگر عصر حاضر کے کچھ تقاضے ایسے بن گئے ہیں جو لوگوں کو چارو لاچار اللہ کے پیغمبر ﷺ کے لائے ہوئے دین کی طرف لا رہے ہیں۔ لوگ ہمارے ابلیسی نظام کے ظلم و ستم سے اِس قدر تنگ آگئے ہیں کہ اب مادیت پسندی کی بجائے روحانیت کی تلاش میں ہیں ۔ہمارے سرمایہ دارانہ نظام نے انسان کو مشین بنا دیا تھا جو صبح سے شام تک اپنی دنیوی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے بھاگ رہا تھا لیکن اسے ذہنی اور قلبی سکون میسر نہیں تھا ۔ اب بعض لوگ اس کیفیت سے تنگ آکر واپس روحانی سکون کی تلاش میں نکل رہے ہیں اور یہی کیفیت ان کو دوبارہ شرع پیغمبر ﷺ یعنی اللہ کے دین کی طرف لا رہی ہے ۔ کتنے ہی غیر مسلم اس وجہ سے اسلام قبول کر رہے ہیں ۔ اسلام تیزی سے پھیلتا ہوا مذہب بن گیا ہے ۔
الحذَر! آئینِ پیغمبر سے سَو بار الحذَر
حافظِ نامُوسِ زن، مرد آزما، مرد آفریں
ابلیس اپنے مشیروں کو خبردار کرتے ہوئے کہتاہے کہ میںپیغمبر ﷺ کے آئین سے پناہ مانگتا ہوں ۔ اگر وہ آئین نافذ ہو گیا تو ہماری ساری محنت پر پانی پھر جائے گا اور ہمارا ابلیسی نظام زمین بوس ہو جائے گا ۔ ہم نے تو عورت کو گھر سے نکال کر اُسے بازار کی زینت بنایا تھا ، اسے اس کی عصمت اور ناموس سے محروم کرکے سٹیج پر نچوایا تھا ،بے حیائی اور فحاشی ہمارے نظام کی اصل کشش تھی لیکن اگر محمد رسول اللہ ﷺ کا لایا ہوا آئین نافذ ہوگیا تو عورت کو کھوئی ہوئی عصمت اور حیا دوبارہ مل جائے گی کیونکہ یہ نظام عورت کی عصمت اور عزت کی حفاظت کرنے والا ہے ۔ ایسی باحیا اور باعصمت عورتیں جری مرد پیدا کرتی ہیں جو اپنی اقدار و روایات کے لیے کٹ مرتے ہیں اور معاشرے میں ابلیسیت اور شیطنت کو پھلنے پھولنے نہیں دیتے ۔
موت کا پیغام ہر نوعِ غلامی کے لیے
نے کوئی فُغفور و خاقاں، نے فقیرِ رہ نشیں
ذرا اس انقلاب کو دیکھیے کہ ہر قسم کی غلامی کی نفی کرتاہےاور بندوں کو آزاد کرکے ایک اللہ کا بندہ بناتاہے جہاں محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ بادشاہ اور غلام کا تصور مٹ جاتاہے ۔ جہاں ایک عام آدمی بھی خلیفۂ وقت کا خطبہ روک کر سوال اُٹھاتا ہے کہ خطاب بعد میں کریں پہلے یہ بتائیں کہ آپ کا یہ لباس کہاں سے آیا ؟ جہاں اکیلی عورت ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کرتی ہےمگر کسی کو میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہیں ہوتی ۔ جہاں کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں ملتا ۔
کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک صاف
مُنعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں
ابلیس کہتا ہے کہ ہم اپنے ابلیسی نظام کے ذریعے لوگوں کو مال و دولت کے لیے ایک دوسرے سے لڑواتے ہیں ، سٹیٹس کو کے چکر میں امیر غریبوں کا استحصال کرتے ہیں ، سرمایہ دار مزدور کا لہو نچوڑتا ہے ، انسان لالچ میں انسان کا گلا کاٹتا ہے جبکہ اللہ کے پیغمبر ﷺ کادین لوگوں کو یہ سکھاتاہے کہ تمہارے پاس جو کچھ بھی ہے یہ اللہ کا دیا ہوا ہے ، تم اس کے مالک نہیں ہو بلکہ یہ تمہارے پاس امانت ہے ۔ حضرت سعدی شیراز نے کہا:
ایں امانت چند روزہ نیست ماست
درحقیقت مالک ہر شے خدا است!
ابلیسی نظام میں اور اللہ کے پیغمبر ﷺ کے لائے ہوئے نظام میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ ابلیسی نظام میں مال و دولت کو ذاتی مال سمجھا جاتا ہے، چاہے جس طرح مرضی خرچ کیا جائے جبکہ پیغمبر ﷺ کے لائے ہوئے نظام میںد ولت کو اللہ کی امانت سمجھا جاتاہے اور ناجائز تصرف ، عیش و عشرت کی سخت ممانعت ہے ۔ کوشش کی جاتی ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے، اللہ کے بندوں پر خرچ کیا جائے۔ اس طرح طبقاتی خلیج پیدا نہیں ہوتی جس سے استحصال ، ظلم اور ناانصافی کے دروازے بند ہو جاتے ہیں ۔ یہ ایک ایسا انقلاب ہے جو ابلیسی نظام کو جڑوں سے اُکھاڑ سکتا ہے ۔
اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب
پادشاہوں کی نہیں، اللہ کی ہے یہ زمیں!
ابلیس کہتا ہے کہ ہم تو لوگوں کو تاریخ اور جغرافیہ میں اُلجھا رہے تھے کہ فلاں علاقہ تمہاری ملکیت ہے ، فلاں تاریخی رومن ، فارس کی سلطنت کا علاقہ ہے ، اس کا احیاء کرو ، دوسروں کی زمینوں پر قبضے جماؤ ، دوسروں کو اپنی سرزمین سے نکال باہر کرو ، اس بنیاد پر دوسروں کی نسل کشی کرو ۔ لیکن پیغمبر ﷺ کا دین کہتا ہے کہ ساری زمین اللہ کی ملکیت ہےاورتم اس کے مالک نہیں ہو ۔ جتنا تصرف میں لاؤ گے اتناہی اللہ کے سامنے جواب دینا پڑے گا ۔(جاری ہے )