(زمانہ گواہ ہے) احتجاجی سیاست : فوائد اور نقصانات - ابو ابراہیم

10 /

جب سیاسی جماعتیں احتجاج میں تشدد کا راستہ اختیار

کرتی ہیں تو ان کا اپنا بھی نقصان ہوتا ہے اور

ملک و قوم کا بھی : ڈاکٹر سید عطاء الرحمان عارف

ریاستی اداروں کا فرض ہے کہ جبر کی بجائے آئین

اور قانون کے مطابق کردار ادا کریں : رضاء الحق

جب تک قانون اور انصاف کا معیار ایک نہیں ہوگا امیر

اور غریب میں جنگ جاری رہے گی : ڈاکٹر اشرف علی

احتجاجی سیاست : فوائد اور نقصانات کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمد

سوال: عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ احتجاج، ہڑتال اور دھرنے وغیرہ جمہوریت کا حسن اور عوام کا آئینی حق ہیں ۔ آپ پاکستان کے معروضی حالات کے تناظر میں بتائیں  کہ اس انداز سیاست سے پاکستان میں آج تک کوئی خیر برآمد ہوئی ہے ؟
عطاء الرحمان عارف:اگرپاکستان کے معروضی حالات کے تناظر میں بات کی جائے تو عمومی طور پر یہاں احتجاجی سیاست کے فوائد ہمیں نظر نہیں آتے بلکہ ملکی معیشت پر منفی اثر پڑتاہے ، عوام بھی متاثر ہوتے ہیں اور بعض اوقات حکومتی اقدامات پر بھی اثر پڑتاہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پوری دنیا میں اپنے حق کے لیے لوگ مظاہرے اور احتجاج کرتے ہیں مگر پاکستان کے حالات تھوڑے مختلف ہیں ۔ یہاں 1980ء کی دہائی میں ہم نے ایک احتجاج کو کامیاب ہوتے دیکھا ہے جب اہل تشیع نے زکوٰۃ کے حوالے سے اپنے فیصلے کو منوا لیا۔ پھر 2009ء  میں جب حقوق نسواں بل پاس ہورہا تھا تو اس وقت مذہبی جماعتوں نے متحد ہو کر کراچی اور لاہور میں دو پروگرام کیے اور ان کو کامیابی ملی۔اس کے بعد ناموس رسالت کے قانون میں جب ترمیم کا بل پیش ہوا تو اس وقت بھی مذہبی جماعتوں نے متحد ہو کر دو جلسے کیے ، تیسرا جلسہ پشاور میں ہونا تھا لیکن اس سے پہلے ہی حکومت نے بل واپس لے لیا ۔ ان تینوں واقعات میں کامیابی اس وجہ سے ملی کہ ان میں تشدد کا عنصر شامل نہیں تھا ۔ سیاسی جماعتوں کو بھی اس پر غور کرنا چاہیے کہ جہاں تشدد شامل نہیں ہوگا وہاں ان کو فوائد ضرور ملیں گے ۔ جیسا کہ جماعت اسلامی نے کچھ عرصہ قبل IPPsکے حوالے سے ایک احتجاجی پروگرام شروع کیا تو اس کے فوائد اب سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں لیکن جب سیاسی جماعتیں احتجاجی مظاہروں میں تشدد کا راستہ اختیار کرتی ہیں تو پھر ان کا اپنا بھی نقصان ہوتا ہے اور ملک اور قوم کا بھی نقصان ہوتا ہے۔ ماضی میں اس طرح کے واقعات ہوئے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے دھرنوں وغیرہ کی وجہ سے اہم ملکوں کے سربراہوں کے دورے منسوخ یا ملتوی ہوگئے۔ پارلیمنٹ کو چاہیے کہ وہ سیاسی جماعتوں کے لیےاس حوالے سے کوئی ضابطہ کار بنائے تاکہ احتجاجی دھرنوں کے منفی اثرات اور تشدد کا سَدِّباب ہو سکے ۔
سوال: گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت میں عدم برداشت کا کلچر عام ہو رہا ہے ۔ ان کے کارکن بھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑنے مرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں ۔یہ کلچر کیسے اور کیوں پیدا ہوا اور آج تک اس کا فائدہ کس کو ہوا؟
رضاء الحق:ایک دور تھا جب پاکستان میں نظریاتی سیاست ہوتی تھی ، اس وقت پاپولزم کا اتنا زیادہ غلبہ نہیں تھا۔ ہر سیاسی جماعت نے نظریاتی بنیادوں پر اپنا منشور بنایا ہوتا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ اقتدار کی ہوس نے ہماری سیاست کو پاپولزم کی طرف دھکیل دیا۔ یعنی جماعتی نظریات اور منشور کی بجائے سیاسی نظریہ ضرورت اور عوام کے مزاج کا رُخ دیکھ کر اپنے اقتدار کے لیے سیڑھی بنانے کا رواج چل پڑا ۔ مروجہ سیاسی نظام میں ہماری سیاسی قیادتوں کا اصل مطمع نظر یہی ہے کہ کسی طرح بھی اقتدار حاصل ہو جائے ۔ اپوزیشن بھی موقع کی تلاش میں ہوتی ہے کہ حکومت کو کسی طرح گرا کر خود حکومت بنائی جائے۔ جائز و ناجائز ، صحیح اور غلط ، نظریات اور منشور کا تصور کہیں بہت پیچھے رہ گیا ہے ۔ اس کا منفی اثر کارکنوں پر بھی پڑا ہے اور اخلاقی انحطاط اپنے عروج پر ہے ۔ حالانکہ سیاسی جماعت کاکام ہے کہ وہ کارکنوں کی نظریاتی بنیادوں پر تربیت کرے، جائز اور ناجائز کی تمیزسکھائے ۔ جو چیز ملکی مفاد کے خلاف ہو اس سے روکے۔ پھر یہ کہ بہرحال پاکستان اسلامی نظریاتی ریاست ہے ۔ اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے۔ اس کا شعور سیاسی جماعتوں اور ان کے کارکنوں میں بھی ہونا چاہیے تھا۔ مگر یہ ساری چیزیں مفقود نظر آتی ہیں جس کا منفی اثر ہر جگہ نظر آرہا ہے ۔ حالانکہ احتجاجی دھرنے اور مظاہرے مغرب میں بھی ہوتے ہیں  لیکن وہ کسی بڑے قومی مقصد کے لیے یا معاشی پالیسیوں  کے خلاف ہوتے ہیں۔ جب بین الاقوامی فورمز پر اس حوالے سے کوئی اجلاس ہورہا ہوتا ہے یا کوئی پالیسی بنائی جارہی ہوتی ہے تو جن لوگوں کو اختلاف ہوتاہے وہ پلے کارڈز اور بینرز اُٹھا کربڑے منظم اور پُرامن انداز سے احتجاج ریکارڈ کروا رہے ہوتے ہیں ۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے پاپولزم زیادہ ہے ، ملک و ملت کا نفع و نقصان دیکھے بغیر ہمارے لوگ ہوا کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں جیسا کہ عرب سپرنگ میں ہوا اور پھر اس کا نقصان قومی سطح پر اُٹھانا پڑتاہے ۔ اس وجہ سے شام ، عراق ، لیبیا ، یمن سمیت کئی مسلم ممالک تباہ ہوگئے اور نوبت خانہ جنگی تک آگئی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میںسیاسی جماعتوں کا اصل ہدف یہ ہونا چاہیے کہ ہم نے پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی نظریاتی ملک بنانا ہے ، اسی تناظر میں کارکنوں کی تربیت بھی ہونی چاہیے لیکن بجائے اس کے یہاں صرف حکومتیں گرانا مقصود ہوتا ہے جس کا نتیجہ بداخلاقی اور بدتہذیبی کی انتہا کی صورت میں نکل رہا ہے ۔ دوسری طرف مقتدر قوتیں جبر کا ماحول پیدا کر دیں توتب بھی ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے ۔
سوال:پاکستان میں کسی مذہبی یا دینی ایشو پر لوگ احتجاج کریں تو انہیں انتہا پسند، مذہبی جنونی وغیرہ کہاجاتاہے جبکہ اگر کسی سیاسی جماعت کے کارکن احتجاج کریں تو وہ انسانی حقوق کے چیمپئن اور انقلابی کہلاتے ہیں، ہماری سوچ میں یہ فرق و تفاوت کیوں پایا جاتا ہے؟
ڈاکٹر اشرف علی: بدقسمتی سے ہمارے ہاں ہر چیز کا دہرا معیار ہے ۔ غریب کو انصاف خریدنا پڑتا ہے ، عدالتوں میں دھکے کھانے پڑتے ہیں اور امیر کو انصاف اس کی دہلیز پر تھما دیا جاتا ہے۔ اسی طرح غریب کے لیے قانون کچھ اور ہے ، امیر کے لیے کچھ اور ہے ۔ ہمارے ہاں جو قوانین بنائےجاتے ہیں وہ اصل میں اشرافیہ کے مفادات کے تحفظ کے لیے بنائے جاتے ہیں ۔ ابھی جو آئینی ترمیم راتوں رات کرنے کی کوشش کی گئی اس کے پیچھے بھی اشرافیہ کے مفادات ہیں۔ اسی طرح  ہمارے ہاں امیر کے لیے تعلیم کا نظام کچھ اور ہے اورغریب کے لیے اور ہے ۔ اسی طرح مذہبی طبقہ اگر دینی ایشو پر احتجاج کرے تو اسے دہشت گرد ، انتہاپسند ، جنونی اورپتا نہیں کیا کیا نام دیے جاتے ہیں ، اگر سیکولر سیاسی قیادت کے مفاد کے لیے کارکن احتجاج کریں تو وہ انقلابی اور ہیرو کہلاتے ہیں ۔ اگر کوئی دین کے نفاذ کی بات کرے تو اسے بنیاد پرست ، مذہبی جنونی کہہ کر اس کے کام کو ختم کر دیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف لبرل اور سیکولر ایجنڈا کس طرح زبردستی ہم پر مسلط کیا جارہا ہے اس حوالے سے کوئی نہیں بات کرتا۔ جب تک ہم انصاف اور قانون کا ایک ہی معیار نہیں رکھیں گے اس وقت تک ہم ایک قوم بن ہی نہیں سکتے ۔ ہمارے بگاڑ کی اصل وجہ یہی ہے کہ ہم نے قانون اور انصاف کا ایک معیار نہیں رکھا ۔
سوال: گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں 26ویں آئینی ترمیم کی بات ہو رہی ہے اور آئینی عدالت بنانے کی بھی باتیں ہو رہی ہیں آپ کی اس حوالے سے کیا رائے ہے؟
عطاء الرحمان عارف: اصول یہ ہے کہ اگر کوئی آئینی ترمیم لانی ہے تو اس کو پہلے پبلک کیا جائے ، اس پر پارلیمنٹ میں مکمل بحث ہو ، پارلیمنٹ کی کمیٹیاں بنیں اور جو بھی قانونی طریقہ کار ہے اس کو فالو کیا جائے۔ راتوں رات آئین میں کوئی تبدیلی یا ترمیم کرناکسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں ہے ۔ پھر یہ کہ وقت اور حالات کی نزاکتوں کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے ۔ ہمارے حکمران ، سیاستدان اور مقتدر لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم کونسا کام کس وقت کر رہے ہیں ؟ اس کے لیے یہ وقت موزوں ہے بھی یا نہیں ۔ کئی ممالک میں باقاعدہ آئینی عدالت ہوتی ہے جو اس چیز کو دیکھتی ہے کہ وہ تمام چیزیں جو دستور کے مطابق ہیں ان کی تنفیذ ہورہی ہے یا نہیں ہورہی ۔ اس میں جو جج حضرات بیٹھے ہوتے ہیں ان کے بھی اپنے معیارات ہوتے ہیں اور وہ بااختیار بھی ہوتے ہیں ۔ ہمارے ہاں  آئینی کورٹ کا ذکر میثاق جمہوریت میں موجود ہے۔اگرچہ میثاق جمہوریت پر دو ہی پارٹیوں کےدستخط ہیںلیکن میثاق جمہوریت کے لیے جو کانفرنس بلائی گئی تھی اس میں تمام سیاسی جماعتیں شامل تھیں ۔ اگر وہاں پر یہ بات طے ہو گئی تھی تو پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون دونوں کو اپنے منشور میں یہ چیز واضح کرنی چاہیے تھی کہ ہم جب حکومت میں آئیں گے تو آئینی کورٹ بنائیں گےلیکن ایک پارٹی کا منشور اس حوالے سے بالکل خاموش ہے ۔ اس میں قصور سیاستدانوں کا بھی ہے اور پارلیمنٹ کا بھی ہے ۔
سوال:پاکستان کی عدالتی تاریخ نظریہ ضرورت کے تحت دیئے گئے فیصلوں سے بھری پڑی ہے۔ سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے مقدمات میں نظریۂ ضرورت کے تحت جو فیصلے دیئے جاتے ہیں وہ ہمارے ہاں عوامی غم وغصے کا سبب تو نہیں بن رہے؟
ڈاکٹر اشرف علی: سوال یہ ہے کہ یہ نظریہ ضرورت کب تک ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ بنارہے گا۔ اگر ہمیں ملک میں بہتری لانی ہے تو ہمیں اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا ہوگا ۔ ہمیں اپنے معاشی بحران پر قابو پانا پڑے گا، ہمیں اپنے سیاسی عدم استحکام کو ختم کرنے کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا ۔بالخصوص یہ حالات دہشت گردی کو بھی فضا مہیا کر رہے ہیں ۔ لہٰذا ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کو سر جوڑ کر بیٹھنا پڑے گا ۔ جس طرف ہم چل پڑے ہیں وہاں مسائل کا حل نہیں ہے بلکہ صرف تباہی ہے ، ہمیں حقیقت کی طرف پلٹنا پڑے گا ۔ کبھی کوئی فرد واحد آتاہے اور اپنی مرضی کی پالیسیاں بناتا ہے اور کبھی کوئی فرد واحد اپنی مرضی سے ملک کو چلانا چاہتاہے ، آئین، عوامی اور ملکی مفاد کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے ۔ یہ انتہائی خطرناک روش ہے اور اس کے نتائج بہت بھیانک نکلیں گے ۔
سوال:آئندہ ہفتےپاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس میںہورہا ہےاور پاکستان اس سربراہی اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے جس میں چائنہ کے صدر کی آمدبھی متوقع ہے۔آپ اس حوالے سے حکومت ، اپوزیشن اور ہمارے ریاستی اداروں کو کیا پیغام دینا چاہیں گے ؟
رضاء الحق: نائن الیون کے بعد ہمارے پاس ایسے بہت کم مواقع آئےہیں کہ ہم نے کوئی بین الاقوامی سربراہی اجلاس بلایا ہو ۔ یہاں تک کہ سربراہان مملکت کے پاکستان کے دورے بھی کم ہوگئے ۔ سارک ممالک کی کانفرنس ہوا کرتی تھی، اب وہ بھی نہیں ہو رہی۔ دوسری طرف بھارت نے ان بیس پچیس سالوں میں دنیا کی بڑی معاشی اور فیصلہ ساز طاقتوں میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔ گوگل سمیت دنیا کے بڑے بڑے اداروں کے سربراہ بھارتی ہیں ، یہاں تک کہ برطانیہ کے ایک سابق وزیراعظم اور امریکی صدارتی الیکشن میں ڈیموکریٹس کی اُمیدوار بھارتی نژاد ہیں۔ پھر کواڈجیسے بڑے بڑے عسکری اتحاد وں میں بھارت شامل ہو چکا ہے۔ اس وقت عالمی حالات یہ ہیں کہ اسرائیل نے ایک سال سے جو جنگ اہل غزہ پر مسلط کی ہوئی تھی اب اسے پھیلا کر باقی عرب علاقوں تک بھی لے جارہا ہے ۔ اسرائیل کے عزائم واضح ہیں ۔ پاکستان بھی اسرائیل کے نشانے پر ہے ۔ جیساکہ بن گوریان نے 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد ہی کہہ دیا تھا کہ پاکستان ہمارا اصل دشمن ہے اور بھارت ہمارا فطری اتحادی ہے ۔ آج بھارت واقعی اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے ۔ ان حالات میں ہمارے لیے شنگھائی تعاون تنظیم کی سربراہی کانفرنس کی میزبانی بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ ہمارے لیے روس اور چین کے اتحاد میں جگہ بنانا بہت ضروری ہے ۔ اس حوالے سے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم خود کو معاشی اور سیاسی حوالے سے مضبوط کریں۔ معاشی بہتری میں سودی نظام سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ لہٰذا سب سے پہلے ہمیں سودی نظام کا خاتمہ کرنا چاہیے۔ سیاسی جماعتیں چاہے وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں ہوں ان کو چاہیے کہ ملکی مفاد میں مل بیٹھ کر قومی پالیسی بنائیں اور ریاستی ادارے بھی عوامی حقوق اور آئین کی پاسداری کریں۔ وہ جبر کی بجائے اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریوں کو پورا کریں ۔
سوال: کیا پاکستان میں واقعتاً حکومت مخالف جذبہ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ بنگلہ دیش جیسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے ؟
ڈاکٹر اشرف علی:ظاہر ہے کہ ایک طرف شدید معاشی بحران ہے۔ لوگوں کی قوت برداشت جواب دے رہی ہے ۔ پٹرول کی قیمت 300 سے اوپر گئی ، کرائے بڑھ گئے ، اب 250 ہے تو پھر بھی کرائے وہی ہیں ۔ یعنی عوام تک جو فائدہ پہنچنا چاہیے وہ نہیں پہنچ رہا ۔ دوسری طرف سیاسی عدم استحکام اور کشیدگی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ پوری قوم دو حصوں میں بٹ چکی ہے ۔ان حالات سے فائدہ اُٹھا کر دشمن قوتیں دہشت گردی کو بھی بڑھاوا دے رہی ہیں جس کی وجہ سے لوگ تنگ آچکے ہیں ۔ خیبر میں گرینڈ قومی جرگہ ہورہا تھا ، اُن پر پولیس نے فائرنگ کی اور تین افراد شہید ہوگئے ، 10 زخمی ہوگئے ۔ صورتحال یہ ہے کہ جو لوگ اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہے ہیں ، ان پر بھی گولیاں برسائی جارہی ہیں ۔ میڈیا پر بھی حکومت کا مکمل قبضہ ہے اور صرف ایک طرف کی بات کی جاتی ہے ، دوسری طرف کی بات نہیں کی جاتی ۔ جمہوری معاشرہ تووہ ہوتاہے جہاں حق اور انصاف کی بات کی جاسکے اور عوام جس کو ووٹ دیں وہ حکومت میں آسکے ۔ مگر یہاں عوام جس کو ووٹ دیتے ہیں اس کو آپ جیل میں ڈال دیتے ہیں۔ عدالت سے مخصوص نشستوں کا فیصلہ آیا تو ان پر بھی قبضہ کرلیا گیا ۔ جلسے جلوسوں پر بھی پابندی لگا دی گئی ۔ جس پارٹی کو عوام ووٹ دیتے ہیں اس کو آپ دہشت گرد قرار دے رہے ہیں ۔ ایسے حالات پیدا کیے جارہےہیں کہ عوام کا قانون اور اداروں پر سے اعتماد اُٹھ رہا ہے ۔اس وجہ سے پھر عوام قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں اور جرائم بڑھتے ہیں۔ صرف کراچی میں اس سال 50 ہزار سے زائد کرائمز ریکارڈہوئے ہیں۔ 39 ہزار کے قریب موٹرسائیکل چوری ہوئے ہیں ۔ 12 ہزار کے قریب موبائل چھینے گئے ہیں ۔ مجھے خدشہ ہے کہ اگر حکمرانوں کے حالات یہی رہے تو یہ ملک کسی بڑی مشکل میں پھنس سکتا ہے ۔
عطاء الرحمان عارف:بظاہر پاکستان کی سیاست اور تیسری دنیا کی سیاست ایک جیسی نظر آتی ہے۔ فی الحال اسٹیبلشمنٹ حکومت کے ساتھ ہے۔ آج اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ اس پر سے اٹھ جائے توپھر بنگلہ دیش تو کیا سری لنکا جیسی صورت حال بھی پید اہوسکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی معیشت میںکچھ بہتری آئی ہے ۔ برآمدات میں اضافہ ہوا ہے ، انفیلیشن ریٹ کم ہوا ہے ۔ پٹرول کی قیمت کم ہوئی ہے ۔ مگر اس بہتری کا فائدہ اگر عوام تک نہیں پہنچ رہا تو اس میں ہماری انتظامیہ کی نااہلی ہے جو اس وقت ان چیزوں پر دھیان دینے کی بجائے صرف سیاسی مخالفین کو دبانے میں لگی ہوئی ہے ۔ ان حالات میں اگر سیاسی استحکام نہیں آئے گا تو حالات تبدیل نہیں ہوں گے ۔سیاسی استحکام کے لیے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو مل بیٹھنے کی ضرورت ہے ۔ خاص طور پر شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر دنیا کو یہ پیغام جانا چاہیے کہ ہم بحیثیت قوم متحد ہیں ۔ بنگلہ دیش میں صورتحال یہ تھی کہ وہاں  1971ء سے لے کر حسینہ واجد کی حکومت تک پورا جھکاؤ بھارت کی طرف تھا ۔ جبکہ پاکستان میں ایسی صورتحال نہیں ہے ۔ البتہ پاکستان ہمیشہ دوکشتیوں کا سوار رہا ہے ۔ یعنی مغربی بلاک کی طرف بھی دیکھتا رہا ہے اور مشرقی بلاک کی طرف بھی۔ اب اگر پاکستان مشرقی بلاک کی طرف جاتاہے تو یہ اس کے لیے بہتر ہوگا ۔
سوال:حکمرانوں سے اپنے جائز مطالبات منوانے کے لیے ہمارا دین عوام کو کیا رہنمائی دیتاہے ؟
رضاء الحق:اس وقت دنیا میں جو مروجہ نظام ہے اس میں حقوق ، جمہوریت ، آزادی وغیرہ کی بات بہت کی جاتی ہے لیکن ہمارا دین اسلام ان ساری چیزوں کے ساتھ ساتھ فرائض کی بات بھی کرتاہے ۔حضرت عمر ؄کے حوالے سے بڑی معروف روایت ہے کہ ان کا خطبہ روک کر ایک عام شخص نے سوال اُٹھا یا تھا کہ آپ کا یہ لباس کہاں سے آیا؟ اس حوالے سے ہم ایک پہلو کو تو بیان کرتے ہیں کہ ہمارا دین ہر ایک کو سوال اُٹھانے کی آزادی دیتا ہے لیکن دوسرا پہلو بھول جاتے ہیں کہ سوال اُٹھانے کے لیے پہلے خود کا محاسبہ اور بلند کردار بھی ضروری ہے ۔ ہمارے دین میںریاست ، حکومت اور فرد کے حقوق و فرائض کا تعین کر دیا گیا ہے اور پاکستان کے آئین میں بھی اسلامی نظریاتی اساس کی حدیں معین کر دی گئی ہیں ۔مگر یہاں ان حدود کا خیال نہیں رکھا جاتاہے ۔ یہاں ایک ریڑھی والے سے لے کر حکومت اور ریاستی اداروں تک ہر کوئی بددیانتی اور حدود سے تجاوز میں ملوث ہے ، الا ماشاء اللہ ۔ ہماری بیوروکریسی ، عدلیہ ، ریاستی اور حکومتی اداروں میں جو لوگ ہیں وہ بھی اسی معاشرے سے آئے ہیں۔ بنیادی طور پر ہمیں معاشرتی اصلاح کی ضرورت ہے اور معاشرتی اصلاح کےلیے بہترین ذریعہ ہماری اسلامی نظریاتی اساس ہے۔ اس حوالے سے علمائے کرام اور مذہبی جماعتوں پر بھی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو ترغیب اور تشویق دلائیں، ان کی ذہن سازی کریں۔ جب معاشرہ ٹھیک ہو گا تو ادارے بھی ٹھیک ہو جائیں گے ۔ پھر یہ کہ دین صرف انفرادی اصلاح کا نام نہیںہے بلکہ اجتماعی سطح پر بھی اپنا نفاذ چاہتا ہے ۔ ہمارے پاس قرآن و سنت کی صورت میں پورا لائحہ عمل اور نظام موجود ہے ، ہمارے آئین میں بھی ساری چیزیں موجود ہیں ، ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ان پر صحیح طریقے سے عمل درآمد ہو ۔
عطاء الرحمان عارف:تنظیم اسلامی کی سطح پر ہم نے یہ طے کیا ہوا ہے کہ انقلابی جدوجہد میں جب وہ مرحلہ آئے گا کہ نظام کی تبدیلی کے لیے احتجاجی تحریک شروع کریں گے تو اس میں ہمارا احتجاج پُرامن اور منظم ہوگا ۔ ہم اپنے رفقاء اور احباب کی یہی تربیت کرتے ہیں کہ اپنے اہداف کے حصول کے لیے ہمیں صبر اور استقامت کے مراحل سے گزرنا ہے اور اپنی طرف سے کوئی ناجائز اور خلاف شریعت کام نہیں کرنا جس کی وجہ سے تحریک کو نقصان پہنچے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی تربیت دیتے ہیں کہ ہر خبر پر تحقیق کرنی چاہیے تاکہ غلط فہمیاں پیدا نہ ہوں ۔ جیسا کہ سورۃ الحجرات میں حکم دیا گیا ہے ۔ مروجہ سیاست میں اس طرح کی گمراہیاں اور غلط فہمیاں پھیلا دی جاتی ہیں کہ لوگ ایک دوسرے کے مدمقابل آجاتے ہیں اور مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں ۔ اس حوا لے سے ہم اپنے رفقاء کو یہ ہدایت دیتے ہیں کہ اپنے امیر کی معروف کے اندر اندر اطاعت کریں ۔