(خصوصی رپورٹ) مبلغ اسلام ڈاکٹر ذاکر نائیک کا دورہ قرآن اکیڈمی لاہور - محمد رفیق چودھری

11 /

ڈاکٹر اسراراحمدؒ کی نصیحت کی وجہ سے میری زندگی بدل گئی،

ڈاکٹر اسراراحمدؒ اور شیخ احمددیداتؒ دو ایسی شخصیات تھیں جن

سے متاثر ہوکر میں جسم کے ڈاکٹر سے روح کا ڈاکٹر بنا ،

بل گیٹس اور ایلون مسک جیسے بڑے بزنس مین بھی اللہ کے

نزدیک ایک داعی کے مقابلے میں کچھ نہیں ،

اکثر پاکستانیوں سے جب میں ملتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ

ڈاکٹراسراراحمدؒ جب تک زندہ تھے تو ہم نے

ان کی اتنی قدر نہیں کی جتنی کرنی چاہیے تھی مگر آج

احساس ہوتا ہے کہ وہ کس قدر عظیم انسان تھے۔

مبلغ اسلام ڈاکٹر ذاکر نائیک کا دورہ قرآن اکیڈمی لاہورمیں اور حاضرین سے خطاب

مجھے بے حد خوشی ہو رہی ہے کہ 33 سال بعد دوبارہ قرآن اکیڈمی میں قدم رکھنے کا شرف حاصل ہوا لیکن ساتھ ساتھ ڈاکٹر اسراراحمدؒ کی کمی بھی شدت سے محسوس ہورہی ہے ۔ اکثر پاکستانیوں سے جب میں ملتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹراسراراحمدؒ جب تک زندہ تھے تو ہم نے ان کی اتنی قدر نہیں کی جتنی کرنی چاہیے تھی لیکن اب ہمیں احساس ہوتاہے کہ وہ کس قدر عظیم شخصیت تھے ۔ جیسا کہ آپ حضرات جانتے ہوں گے کہ میں ایک تواپنے مرشد شیخ احمد دیدات صاحبؒ سے متاثر تھا۔ 1987 ء  میں ان سے ملاقات کی اور اس کے تقریباً ساڑھے تین سال بعد میں نے ڈاکٹر اسرار احمدؒسے ملاقات کی ۔ یہی دو ایسی شخصیات تھیں جن سے متاثر ہوکر میںجسم کے ڈاکٹر سے روح کا ڈاکٹر بنا ۔ الحمدللہ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ عالم اسلام کے واحد داعی تھے جن کی اردو تقاریر میں سنتا تھا ۔ حالانکہ ڈاکٹر اسراراحمدؒ صاحب کی اُردو بہت مشکل تھی لیکن پھر بھی دل کو چھوتی تھی۔ میرا شوق تھا کہ ان سے ملاقات کروں  اور یہ شوق بالآخر 1991ء  میں مجھے پاکستان لے آیا ۔ اس وقت اسی قرآن اکیڈمی میں ڈاکٹر اسراراحمدؒ سے ملاقات ہوئی اور جب انہوں نے مجھے پوچھا :بیٹا! پاکستان کیوں آئے ہو؟ تو میں نے کہا کہ یہاں اسلامک ادارے ہیں ان کو دیکھنے آیا ہوں اور دوسرا آپ سے ملنے آیا ہوں ۔ انہوں نے کہا : پاکستان میں ادارے تو بہت ملیں گے لیکن اسلام نہیں ملے گا ۔ میں ڈاکٹر اسرارحمدؒ کی سادگی سے بہت متاثر ہوا ۔ اُنہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں ۔ میں نے کہا میں سرجن بننا چاہتا ہوں اور ساتھ ساتھ داعی کا کام بھی کروں گا ۔ انہوں نے کہا میں نےسات سال کوشش کی کہ دونوں کام ساتھ ساتھ کروں مگر میں ناکام رہا ۔ اگر آپ مہارت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو دونوں میں سے ایک کا انتخاب کریں ۔ ڈاکٹر صاحب کی اس وقت کی یہ نصیحت ایسی تھی جس کی وجہ سے گویا میری زندگی بدل گئی۔ جب میں واپس گیا تو میں نے والدین سے کہا کہ میں سرجن نہیں بنوں گا بلکہ میں ریڈیالوجی میں ماسٹر کروں گا کیونکہ اس کے لیے مجھے 24 گھنٹے ہسپتال میں نہیں رہنا پڑے گااور میں داعی کا کام بھی کر سکوں گا ۔ والدین نے اجازت دے دی۔ اس وقت میں نے اور میرے بھائی نے مل کر پیتھالوجیکل سینٹر قائم کیا اور طے کیا کہ ہم آدھا وقت میڈیکل پریکٹس کو دیں گے اور باقی آدھا وقت دعوتی کام کو دیں گے ۔ والدین نے کہا کوئی مسئلہ نہیں ۔ پھر ایک سال کے اندراندر میں نے فیصلہ کیا کہ میں پورا وقت دعوت کو دوں گا ، والدین نے اس کی بھی اجازت دے دی ۔ میرے بھائی نے کہا کہ تم دعوت کا کام کرو تمہیں اپنا 50 فیصد حصہ ادارے کی طرف سے مل جائے گا۔ میں نے ڈاکٹر اسراراحمدؒ کی نصیحت پر عمل کیا کہ اگر آپ نےکامیاب داعی بننا ہے تو اپنی ضروریات کو کم کرو ، کم سے کم پر گزارہ کرو تاکہ آپ کو محتاجی نہ ہو ۔ ڈاکٹر صاحب کی اس نصیحت کو میں نے دل میں سنبھال کر رکھا۔ جب داعی کا کام شروع کیا تو فیملی کی طرف سے فُل سپورٹ تھی ، معاش کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی ۔ پھر یہ کہ میں نے شادی بھی داعیہ سے کی ۔ نبی پاکﷺ کی حدیث ہے کہ شادی کرنے کے لیے چار چیزیں لوگ دیکھتے ہیں : خوبصورتی ، دولت ، خاندان اور دینداری ۔ تم دینداری کو ترجیح دو ۔ میں نے اس حدیث پر عمل کیا ۔ اکثر داعی بیوی کو وقت نہیں دے پاتے لیکن میں عام آدمی سے بھی کہیں زیادہ اپنی اہلیہ کو وقت دیتا تھاکیونکہ ہمارے درمیان جو گفتگو ہوتی تھی وہ دعوتی امور کے متعلق ہوتی تھی ۔ عام آدمی آٹھ نو گھنٹہ دن میں کام کرتا ہے لیکن ہم 13 سے 14 گھنٹے روزانہ دعوت کا کام کرتے تھے ۔ ہم نے اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کا شعبہ خواتین قائم کیا اور میری اہلیہ اس کی صدر بن گئیں ۔ لوگوں نے کہا جب بچے پیدا ہوں گے تو دعوت کے لیے وقت کم ملے گا۔ جب بچے ہوئے تو ہم نے اسلامک انٹرنیشنل سکول کی بنیاد رکھی اور میری اہلیہ اس کی پرنسپل بن گئیں ۔ اب بچے بھی دعوتی عمل میں شامل ہوگئے اور اس طرح ہمارا زیادہ وقت دعوت میں گزرنے لگا ۔ بچے جب جوان ہوگئے تو میں اور میرے بیٹے اجتماعاتِ عام میں خطاب کرتے تھےاور میری اہلیہ اور میری بیٹیاں خواتین کے اجتماعات میں خطاب کرتی تھیں ۔ مہینہ میں دو تین بار پوری فیملی سیر پر بھی جاتی تھی ۔ سال میں کم ازکم دوبار بیرون ملک کی سیر بھی کرتے تھے ، خصوصاً حج اورعمرہ کےلیے جاتے تھے۔ اگر آپ اللہ کی راہ میں نکلنا چاہتے ہیں تو اگر آپ کی اہلیہ بھی داعیہ ہواور بچے بھی آپ کا ساتھ دیں تو پھر آپ زیادہ کامیاب ہو سکتے ہیں ۔
ڈاکٹر اسراراحمدؒ کہا کرتے تھے کہ اگر کامیاب داعی بننا ہے تو اپنی ضروریات کو کم کرو ۔ الحمدللہ میں اور میری فیملی آج بھی اس نصیحت پر عمل پیراہے ۔ پھر اللہ نے مجھے نوازا اور میں تجارت کرنے لگا ۔ روزانہ دو اڑھائی گھنٹہ بزنس کو وقت دیتا ہوں ۔ تجارت بھی اللہ کے رسول ﷺ کی سنت ہے ۔ اللہ نے توقع سے بڑھ کر نوازا ۔ لیکن میرا اصول تھا کہ میں زیادہ وقت بزنس میں نہیں لگاؤں گا اور نہ زیادہ ذہن لگاؤں گا ۔بزنس کی وجہ سے دعوتی کام میں خلل نہیں آنا چاہیے ۔ میرے بیٹے نے کہا مجھے بزنس سیکھنا ہے ۔ میں نے کہا بڑے سےبڑا بزنس مین ہو ، بل گیٹس ہو ، ایلون مسک ہو ایک داعی کے مقابلے میں اس کی حیثیت کچھ نہیں ہوتی ۔ آپ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بزنس کر سکتے ہو لیکن اصل کام دعوت کا ہے اورساتھ اگر بزنس کرنا ہے تو اس میں اللہ کو اپنا پارٹنر بناؤ ۔ میں نے بیٹے سے کہا کہ آپ نے 51 فیصد منافع اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے ۔ جتنا زیادہ آپ اللہ کی راہ میں خرچ کریں گے اُتنا ہی زیادہ آپ کے پاس واپس آئے گا۔ جس طرح ڈاکٹر اسراراحمدؒ کہتے تھے کہ اللہ کے بینک میں اپنا مال جمع کرواؤ ۔ قرآن میں اللہ فرماتا ہے کہ اگر آپ ایک دانہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ  سات سو گناہ بڑھا کر واپس کرے گا ۔ اگر اللہ تعالیٰ کو اپنا پارٹنر بنائیں گے تو آپ کا بزنس محفوظ رہے گا ۔
ڈاکٹر اسراراحمدؒ فرماتے تھے کہ میں نے ڈاکٹر ی کا پیشہ اس لیے چنا تھا کہ میں سمجھتا تھا کہ انسانیت کی خدمت کے لحاظ سے یہ سب سے بہتر پیشہ ہے لیکن جب میں نے قرآن کو پڑھا تو وہاں یہ تعلیم تھی کہ : 
{وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ(33)} ’’اور اُس شخص سے بہتر بات اور کس کی ہوگی جو بلائے اللہ کی طرف اور وہ نیک عمل کرے اور کہے کہ میں مسلمانوںمیں سے ہوں۔‘‘
ڈاکٹر اسراراحمدؒ کہتے تھے کہ اس وجہ سے میں ڈاکٹری چھوڑ کر داعی بنا کیونکہ یہ سب سے بہتر کام ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے امید ہے وہ ہمارے کام کو قبول فرمائے گا اور اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کی آخرت اچھی ہو جائے ۔ آمین !