(تربیت و تزکیہ) دَورۂ بھارت کے مشاہدات و تاثرات - ڈاکٹر اسرار احمد

11 /

دَورۂ بھارت کے مشاہدات و تاثرات

بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ

مقام: قرآن آڈیٹوریم لاہور‘ بتاریخ: 2 جنوری2005ء

ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی ایک تحریر سے منتخب اقتباسات

بشکریہ: ماہنامہ میثاق لاہور، فروری 2005ء

بھارت میں ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کا ادارہ اسلامک ریسرچ فائونڈیشن (IRF)بھی بہت کام کر رہا ہے۔ اوّل تو ذاکر نائیک خود انتہائی فعال آدمی ہیں۔ آپ نے انہیں ٹیلی ویژن پر دیکھا ہو گا۔ ابھی بیالیس برس کے ہوئے ہیں‘ گویا نوجوان ہیں۔ دُبلے پتلے ہیں‘ لیکن یوں لگتا ہے جیسے ان میں بجلی بھری ہوئی ہے۔ ہر کام کو وہ خود انتہائی مستعدی سے کنٹرول کر رہے ہوتے ہیں۔ میری تقریروں کے دوران وہ تمام تر انتظامات کی نگرانی خود کرتے اور تین گھنٹے تک ان کا یہ حال رہتا جیسے مچھلی کو سمندر سے باہر لے آئیں تو وہ تڑپتی رہتی ہے۔ وہ بڑے ہائی ٹیکنیکل لیول پر ریکارڈنگ کرتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ یہاں جو میرے شام کے دس لیکچر ہوئے ہیں ان میں سے کسی ایک لیکچر کی ویڈیو کاپی ہمیں دے دیں تاکہ ہم جا کر اپنے ساتھیوں کو دکھا سکیں‘ لیکن انہوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ آپ کے ایک ایک ویڈیو کی ایڈیٹنگ پر میرا ایک ایک مہینہ لگے گا‘ پھر میں اس کو ریلیز کروں گا۔ جب میں نے اصرار کیا کہ پندرہ منٹ کا   کوئی chunkنکال کر ہی ہمیں دے دیں ‘تو انہوں نے بادلِ نخواستہ پندرہ منٹ کا ایک chunkنکال کر دیا۔ اسے دیکھ کر آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ حاضری کی جو کیفیت میں کہہ رہا ہوں ‘ وہ کوئی مبالغہ نہیں ہے۔میں آپ کو صحیح ترین اعداد و شمار بتا رہا ہوں‘ اس لیے کہ کرسیاں گنی ہوئی ہوتی تھیں۔ آخری دن دس ہزار کرسیاں تھیں ‘جو ساری کی ساری پُر تھیں اور پھر بھی کچھ لوگ کھڑے تھے۔ اسی طرح خواتین کے لیے چار ہزار کرسیاں علیحدہ تھیں‘ جن میں سے بھی کوئی خالی نہ تھی۔ لہٰذا گنتی میں کسی غلطی کا امکان ہے ہی نہیں۔ 
میں ذاکر نائیک صاحب کا تعارف کرا دوں ۔ وہ1992-93ء میں پاکستان آئے تھے ۔ ابھی نوجوان ڈاکٹر تھے ‘ پریکٹس بھی کر رہے تھے۔ دل میں کچھ کرنے کا جذبہ تھا۔انہوںنے پورے پاکستان کا دورہ کیا اور مجھ سے بھی ملے۔ کہنے لگے کہ پاکستان میں دین کے نام پر   جتنے کام ہو رہے ہیں میں نے ان سب کا جائزہ لے لیا ہے اور میرے نزدیک صحیح رُخ پر صرف آپ کام کر رہے ہیں۔ اُس وقت وہ ساٹھ ہزار روپے مالیت کے ہمارے آڈیو اور ویڈیو کیسٹس لے کر گئے تھے‘ جن کی ریکارڈنگ مارکیٹ میں دستیاب عمدہ tapes پر خاص طو رپر کروائی گئی تھی۔ان کے والد عبدالکریم نائیک بہت بڑے psychiatrist ہیں۔ ڈاکٹر رشید چودھری صاحب مرحوم کے وہ بڑے گہرے دوست تھے۔ دو مرتبہ پاکستان  آئے بھی ہیں۔ ہماری اکیڈمی کا بھی انہوں نے visitکیا تھا۔ لیکن میں چونکہ دونوں مرتبہ ملک سے باہر تھا لہٰذا اُن سے ملاقات نہیں ہو سکی تھی‘ تو ممبئی میں ان سے میری یہ پہلی ملاقات تھی۔ ذاکر نائیک صاحب نے ایک بلڈنگ کے دوفلیٹس کو باہم جوڑ کر اپنی بہت عمدہ رہائش گاہ بنا ئی ہوئی ہے‘جو انہوں نے ہمارے لیے خالی کرا دی تھی۔دس گیارہ دن انہوں نے ہماری میزبانی کا پور اپورا حق ادا کیا۔ ذاکر صاحب جب پاکستان کے دورے پر آئے تھے تو میں نے ان سے کہا تھا کہ آپ کو اگر واقعی دین کا کوئی کام کرنا ہے تو اپنی میڈیکل پریکٹس کو ترک کرنا ہو گا‘ یہ دو کام ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ اس کے بعد میری ان سے ملاقات نہیں رہی‘ صرف امریکہ میں ایک مختصر ملاقات ہوئی تھی۔ البتہ میرے چھوٹے بیٹے آصف حمیدسے آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ کے سلسلے میں اُن کا رابطہ رہا ہے ۔ بہرحال اب انہوں نے مجھے یہ کہہ کر دورئہ بھارت کی دعوت دی کہ چونکہ آپ کے کہنے پر میں نے پریکٹس چھوڑ دی ہوئی ہے لہٰذا اب آپ کو یہ دعوت قبول کرنی چاہیے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے‘ میں بسر وچشم حاضرہونے کو تیار ہوں۔ 
اصل میں ان کا فروری 2004ء کا پروگرام تھا ‘ لیکن بھارتی حکومت نے ویزا دینے میں تاخیر کر دی۔ اس کے لیے بھارتی ہائی کمیشن نے بھارت کی سنٹرل گورنمنٹ سے اجازت حاصل کی۔ چنانچہ اس میں وقت لگا اور جب ویزا ملا تو وہاں شدید حبس والی گرمی کا موسم شروع ہو چکا تھا اور بارشیں شدید ہو رہی تھیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ مجھے کسی کھلے میدان میں خطابات کرنے ہوں گے جبکہ میں اسے ناپسند کر رہا تھا ‘ اس لیے کہ میرا مزاج اس کے ساتھ     ہم آہنگ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کافی زیادہ لوگوں کی آمد متوقع ہے اور وہ کسی ہال میں سما نہیں سکتے‘لہٰذا ہمیں کھلے میدان میں پروگرام کرنا پڑے گا‘ اور ایسا ہم ان دنوں میں نہیں کر سکتے‘ اس لیے اب آپ دسمبر میں آئیں۔ مجھے اُن سے تھوڑا سا گلہ بھی رہا کہ میں نے اپنا ذہن بنا لیاہے اور آپ اسے بہت زیادہ مؤخر کر رہے ہیں۔ کہاں فروری مارچ اور کہاں نومبر دسمبر! لیکن وہاں جا کر معلو م ہوا کہ ان کی بات صحیح تھی۔جتنے لوگ آ رہے تھے‘ کسی ہال میں ان کے سمانے کا امکان ہی نہیں تھا۔ 
ذاکرنائیک صاحب شیخ احمد دیدات سے بھی بہت متاثر ہیں‘ جنہوں نے اس دور میں عیسائیت میں سپیشلائز کیا ہے ۔میرے نزدیک وہ اس دور کے مولانا رحمت اللہ کیرانوی ہیں جنہوں نے پادری فنڈر کو شکست دی تھی ۔ اگر اُس وقت اسے شکست نہ دی گئی ہوتی تو شاید پورا ہندوستان عیسائی ہو جاتا۔ وہ شخص جرمن تھا اور بہت  learned  آدمی تھا۔ عربی‘ آرامی اور فارسی کاپوری طرح ماہر تھا۔ اس کا قرآن کا مطالعہ بھی بہت زیادہ تھا۔ وہ جب ہندوستان آیا تو کلکتہ میں اس نے پہلا مناظرہ کیا۔ کلکتہ ہی سے برٹش گورنمنٹ پورے ہندوستان پر قابض ہوئی تھی‘ پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت تھی ۔کلکتہ ہی میں انگریزوں نے پہلا پریس قائم کیا تھا اور وہاں پر بائبل کا اردو اور دیگر مختلف زبانوں میں ترجمہ کرا کے بہت بڑے پیمانے پر شائع کیا تھا۔ تو وہاں پادری فنڈر نے مسلمان علماء کو مناظرے کا چیلنج دیااورسب کو ہرا دیا۔ پھر وہ وہاں سے بنگال کے مختلف شہروں بہار‘ یو پی سے ہوتا ہوا آیا اور ہر جگہ پر علماء کو شکست دی ۔ ہمارے علماء نے کبھی بائبل اور تورات کی صورت نہیں دیکھی ‘بلکہ عام طور پر بائبل اور تورات کا پڑھنا گناہ سمجھتے ہیں ‘تو اب کیا جواب دیں! کائونٹر اٹیک کے بغیر مناظرے کے اندر کامیابی ممکن نہیں۔ مناظرے میں تو دراصل مخاطب کو شکست دینا اور اسے کسی طریقے سے چپ کرانا مقصود ہوتا ہے۔ 
پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم نے مجھے یہ واقعہ سنایا تھا کہ شہنشاہ شاہجہاں کے دربار میں عیسائی اور مسلمان علماء کا مناظرہ ہوا تھا۔ اس کا پس منظر یہ تھا کہ شاہجہاں کو بواسیر ہو گئی تھی اور اس کی وجہ سے تخت پر بیٹھنا مشکل ہو گیا تھا۔ اب وہ بادشاہ جو تخت پر بھی نہ بیٹھ سکے وہ بادشاہ کہاں رہا! اس کا علاج نہ کوئی جراح کر سکا اور نہ کوئی حکیم۔ اس زمانے میں کاروباری سلسلہ میں مغربی اور مشرقی ساحل پر انگریزوں کی کچھ آمد و رفت شروع ہو گئی تھی ۔ ایک انگریز سرجن نے آ کر سرجری کی تو بادشاہ ٹھیک ہو گیا۔ بادشاہ نے احسان کے بدلے کے طور پر پوچھا کہ کیا مانگتے ہو‘ تو اس سرجن نے کہا کہ ہمیں تجارتی حقوق چاہئیں کہ ہم یہاں اپنی کوٹھیاں بنا سکیں ۔چنانچہ سارے ساحل میںان کی تجارتی کوٹھیاں بن گئیںاور ان میں چپکے چپکے سے اسلحہ بھی آنا شروع ہو گیا ۔ اسی شاہجہاں کے دربار میں انگریز پادریوں نے مسلمان علماء کے ساتھ مناظرہ کیا۔ درباری علماء میں ہر علاقے کے چوٹی کے لوگ جمع ہوتے تھے ‘ لیکن پادریوں نے درباری علماء کو شکست دی۔ ایک پادری نے ایک آیت پیش کی تو تمام علماء نے کہا کہ یہ قرآن میں ہے ہی نہیں۔ اس نے قرآن منگوا کر کھول کر دکھایا تو وہ آیت موجود تھی۔ اب اندازہ کیجئے کہ ان علماء کی کیا حالت ہوئی ہو گی!
اسی طرح کا فنڈر کا معاملہ ہو رہا تھا۔ کلکتہ میں علماء کو شکست دینے کے بعد وہ کئی شہروں سے ہوتا ہوا دہلی آیا اور جامع مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر اس نے اعلان کیا: مسلمانو! میں کلکتے سے چل کر یہاں تک آ گیا ہوں ‘ کہیں پر بھی کوئی مسلمان مجھ سے مناظرہ نہیں کر سکااور مجھے ہرا نہیں سکا ‘ اب میں پورے ہندوستان کے علماء کو چیلنج کر رہا ہوں کہ آئیں اور میرا مقابلہ کریں۔ اُس وقت مولانا رحمت اللہ کیرانوی کھڑے ہوئے اور انہوں نے فنڈر کوشکست دی ۔ اُس وقت انگریز غالب اور فاتح کی حیثیت سے آ رہا تھا‘ ساتھ ہی اگر یہ بات بھی عوام کے سامنے آتی کہ ہمارے علماء تو مار کھا گئے ‘ تو ارتداد اور تبدیلی ٔمذہب کا معاملہ کس بڑے پیمانے پر ہوتا‘ آج آپ تصور نہیں کر سکتے۔ انگریز سے مرعوبیت تو پہلے سے تھی۔ بہرحال اِس زمانے میں ایک دوسرا رحمت اللہ کیرانوی پیدا ہوا ہے اور وہ ہے شیخ احمد دیدات۔ اب بہت عرصے سے وہ صاحب فراش ہیں۔ تقریباً پورا جسم مفلوج ہے‘ صرف آنکھیں کام کرتی ہیں اور آنکھوں کی مدد سے ہی کچھ communicationہوتی ہے۔ لیکن ان کے شاگرد کی حیثیت سے ڈاکٹر ذاکر نائیک نے جو نام اور مقام حاصل کیا ہے اُس کے حوالے سے یہ احمد دیدات پلس+) (ہیں‘ یعنی ان سے آگے ہیں‘ کم نہیں ہیں۔ احمددیدات کا انداز بہت زیادہ جارحانہ ہے‘ جبکہ ان کا انداز نسبتاًکم جارحانہ ہے۔ مناظرے کے اندر جارحانہ انداز اختیار کرنا پڑتا ہے۔ 
اب انہوں نے ایک بہت بڑا اور اہم کام یہ شروع کیا ہے کہ ہندوستان کی چوٹی کی مذہبی کتابوں مثلاً وید وغیرہ کا مطالعہ کیا ہے۔ اس کے حوالے سے ابھی پچھلے دنوں ان کا ایک بہت بڑا پروگرام ٹیلی ویژن پر نشر ہوا جو اتفاق سے میں نے بھی یہاں دیکھا۔ اس کا عنوان تھا : "Similarities between Hinduism and Islam"۔ انہوں نے بہت گہرے مطالعہ کے بعد یہ پروگرام پیش کیا اور بتایا کہ ویدوں میں خالص توحید موجود ہے اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں ان کا تصور ہے: ’’ایکیم دوناستم‘‘ یعنی وہ ایک ہی ہے‘ اس کے ساتھ دوسرا کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ جیسے قرآن مجید میں ہے : {قُلْ ہُوَ اللہُ اَحَدٌ(1)اَللّٰہُ الصَّمَدُ(2) لَمْ یَلِدْ  لا وَلَمْ یُوْلَدْ(3)وَلَمْ یَکُنْ لَّـہٗ کُفُوًا اَ حَدٌ(4)} (الاخلاص)
      مزید برآں ان ویدوں میں حضورﷺ کا نام لے کر پیشین گوئیاں کی گئی ہیں۔ ایک پیشین گوئی ہے کہ حضورﷺ اونٹ پر سوار ہوں گے‘ دس ہزار کا لشکر لے کر جائیں گے اور فتح حاصل کریں گے۔ یہ فتح مکہ کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ ہم نے ہندوستان پر آٹھ سو برس یا ایک ہزار برس حکومت کی ہے اور عیش کئے ہیں‘ لیکن ہندو ذہن کے اندر کبھی جھانک کر ہی نہیں دیکھا کہ اس کے اندر ہے کیا! اس کا علمی پس منظر کیا ہے؟ ان کے نظریات اوراعتقادات کیا ہیں؟ یہ حقیقت میں ہم نے سمجھا ہی نہیں‘ جوکہ  افسوس ناک ہے۔ میں نے آج سے بارہ تیرہ سال قبل جب ہندوستان کا آخری دورہ کیا تھا تو میں لکھنؤ بھی گیا اور پھر رائے بریلی بھی۔ میں نے مولانا علی میاں صاحب سے ملاقات کی اور اُن سے عرض کیا کہ آپ سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں‘ جو کسی اور عربی مدرسہ کے اساتذہ سے کہوں گا تو وہ اسے سنیں گے بھی نہیں‘ جبکہ ندوۃ العلماء چونکہ نسبتاً کشادہ ذہن کے حامل لوگوں کا ادارہ سمجھا جاتا ہے لہٰذا میری درخواست کے درجے میں ایک تجویز یہ ہے کہ آپ ’’ندوۃ العلماء‘‘ میں سنسکرت کی تعلیم کو لازم کر دیں‘ تاکہ یہاں سے فارغ التحصیل حضرات سنسکرت کو پڑھ کر ہندو ذہن کو صحیح طور پر سمجھ سکیں‘ اس کا گہرائی میں مطالعہ کریں اور ان کے ذہن تبدیل کریں۔ قبل ازیں ہندوستان میں نچلے طبقات مثلاً اچھوتوں وغیرہ کے اندر ایک تبدیلی لائی گئی تھی۔ جب سعودی عرب وغیرہ سے کچھ مالی امداد آنی شروع ہوئی تھی تو پسماندہ‘ دبے ہوئے اور پسے ہوئے طبقات‘ جن کی معاشرے میں کوئی حیثیت اور عزت نہیں تھی‘ ان کی کچھ مالی امداد کی گئی اور ان کے لیے زندگی گزارنے کے بہتر مواقع پیدا کئے گئے تو کچھ ہریجن‘ شودر قسم کے لوگ مسلمان ہو گئے۔لیکن اس پرپورے ہندوستان کے اندر بڑا شدید ردعمل ہوا تھا کہ کہاں سے پیسہ آ رہا ہے! اس کے بعد اس کا راستہ روک دیا گیا۔ تو اس پہلوسے میں نے کہا تھا کہ اب تو elite  higher طبقہ کو خطاب کرنا چاہئے۔ اسلام کی تبلیغ کا اصول یہ نہیں ہے کہ کسی معاشرے میں داخل ہونے کے لیے وہاں کے پسماندہ لوگوں کو جمع کرلیا جائے‘ ان کے ذہن کو بدلا جائے یا ان کا عقیدہ بدل دیا جائے اور بس۔ یہ عیسائی مشنریوں کا طریق تبلیغ ہے‘ کیونکہ عیسائیت میں تو عقیدے کے سوا کچھ ہے ہی نہیں‘ جبکہ اسلام میں یہ ’’بیک ڈورانٹری‘‘ نہیں ہے‘ بلکہ ’’فرنٹ ڈور انٹری‘‘ ہے کہ پہلے چوٹی کے لوگوں کو مخاطب کرو۔ جیسے حضرت موسیٰdکو کہا گیا تھا: {اِذْہَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی} کہ اے موسیٰ فرعون کے پاس جائو کہ وہ طغیانی پر اتر آیا ہے۔حضورﷺبھی طائف گئے تو تینوں سرداروں سے ملے‘ وہاں آپﷺ نے street preachingنہیں کی۔ تو اس اعتبار سے اسلام کا مزاج کچھ اور ہے۔ اس پر مولانا علی میاں صاحب کہنے لگے‘ ہاں آپ نے واقعی بہت اچھی بات کہی ہے۔ پھر دو سال بعد شکاگو‘ امریکہ میں میری ان سے ملاقات ہوئی۔ وہ بھی ایک کانفرنس میں مدعو تھے اور میں بھی۔ میں نے وہاں ان سے اس بارے میں دریافت کیا تو کہنے لگے میں تو بھول ہی گیا! تو یہ ہمارے علماء کا حال ہے ! مولانا علی میاں تو چوٹی کے عالم تھے ۔ انہیں آپ سب سے زیادہ روشن خیال کہہ سکتے ہیں اور وہ سب سے زیادہ دنیا میں گھومے پھرے ہوئے ہیں‘ پھر بھی انہوں نے اس بات کی اہمیت کو نہیں سمجھا۔ لیکن اب کچھ ادارے اس پہلو سے کام کر رہے ہیں ‘جن میں سے ایک یہ ’’آئی آر ایف‘‘ ہے جس کا میں نے آپ کے سامنے تعارف کرانا ضروری سمجھا ہے۔ تو اسلام کے حوالے سے یہ ایک بہت بڑا بریک تھرو ہو رہا ہے ۔