(مطالعۂ کلام اقبال) ابلیسکی مجلس شوریٰ (12) - ڈاکٹر حافظ محمد مقصود

11 /

ابلیس کی مجلس شوریٰ

ڈاکٹر حافظ محمدمقصود

(گزشتہ سے پیوستہ) 
ابلیس کی مجلس شوریٰ میں ابلیس اسلام کے نظام سے خوف کھاتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ ایسا دین (نظام) ہے جو کہتا ہے کہ یہ زمین بادشاہوں کی نہیں بلکہ اللہ کی ہے ۔ جو بھی زمین کسی حاکم نے فتح کی ہے یا جس پر وہ حاکم ہے اس کے ایک ذرے پر بھی اس کی ملکیت نہیں ہے اور جس کے پاس جتنی زیادہ زمین ہے وہ اتنا ہی جواب دہ ہے ۔ اگر یہ نظام دنیا میں رائج ہو گیا تو ہمارے ابلیسی نظام کی تاریخی اور جغرافیائی بنیادیں اُکھڑ جائیں گی ۔ 
چشمِ عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئیں تو خوب
یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محرومِ یقیں
ابلیس کی خواہش ہے کہ یہ دین لوگوں کی نگاہوں سے چھپا رہے تو بہتر ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ خود مسلمانوں کو بھی اس یقین سے محروم رکھا جائے کہ اس نظام میں کتنی برکات ہیں اور کتنی طاقت ہے ۔ 
ہے یہی بہتر الٰہیات میں اُلجھا رہے
یہ کتابُ اللہ کی تاویلات میں اُلجھا رہے
 اسلام کے نفاذ میں کتنی خیر و برکت ہے اور اس کے کس قدر فوائد ہیں مسلمانوں کو ان تجربات سے محروم رکھا جائے اور اس کی بجائے اسے بحث مباحثوں میں اُلجھا کر رکھا جائے تاکہ ان تاویلات اور بحثوں سے وہ نکل ہی نہ سکے ۔ 
توڑ ڈالیں جس کی تکبیریں طلسمِ شش جہات
ہو نہ روشن اُس خدا اندیش کی تاریک رات
جن لوگوں کی نگاہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ پر جم گئی اور انہوںنے دنیا کو بھی یہ پیغام دیا کہ اصل طاقت اور قدرت رکھنے والا اور آپ کے حالات کو بدلنے والا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے نہ کہ فلسفے اور مباحث تو ایسے لوگوں کو اس طرح اُلجھا دیا جائے کہ اُن کی تاریک راتیں کبھی روشن نہ ہوسکیں ۔ یعنی وہ راتوں کو اُٹھ کر اللہ سے لو نہ لگا سکیں تاکہ ان کو مزید عقل و شعور کی روشنی نہ مل سکے ۔ 
ابن مریم مر گیا یا زندۂ جاوید ہے
ہیں صفاتِ ذاتِ حق، حق سے جُدا یا عینِ ذات؟
ایسے لوگوں کو ان بحثوں میں اُلجھا دیا جائے کہ حضرت عیسیٰd فوت ہو گئے ہیں یا ابھی زندہ ہیں ،     اللہ تعالیٰ کی صفات اللہ کی ذات کا حصہ ہیں یا اس سے الگ کوئی چیز ہیں۔
آنے والے سے مسیحِ ناصری مقصود ہے
یا مجدّد، جس میں ہوں فرزندِ مریم کے صفات؟
عیسیٰ ابن مریم کے نام سے جو زمین پر آئے گا وہ حضرت عیسیٰ d ہی ہوں گے یا کوئی ایسا شخص ہوگا جس میں حضرت عیسیٰ ؑ کی صفات ہوں گی ۔ ایسی بحثوں میں مسلمانوں کو الجھا دیا جائے ۔ 
ہیں کلامُ اللہ کے الفاظ حادث یا قدیم
اُمّتِ مرحوم کی ہے کس عقیدے میں نجات؟
 ابلیس چاہتاہے کہ مسلمان انہی بحثوں میں اُلجھے رہیں کہ صحیح عقیدہ کیا ہے ۔ اس لیے فلسفیوں نے یہ بحث چھیڑ دی ہے۔ 
کیا مسلماں کے لیے کافی نہیں اس دَور میں
یہ الٰہیات کے ترشے ہُوئے لات و منات؟
ایسی بحثیں چھیڑ کر ابلیس چاہتاہے کہ مسلمان ایسے ہی   نئے نئے بتوں کی پرستش میں لگے رہیں ۔ 
تم اسے بیگانہ رکھّو عالم کردار سے
تا بساطِ زندگی میں اس کے سب مُہرے ہوں مات
  مسلمانوں کو ان چھوٹے چھوٹے اور غیرضروری فروعی مسائل میںایسے مشغول رکھو تاکہ زندگی کی بساط میں ان کی ساری تدبیریں بے کار ثابت ہو جائیں۔
خیر اسی میں ہے، قیامت تک رہے مومن غلام
چھوڑ کر اَوروں کی خاطر یہ جہانِ بے ثبات
مسلمانوں کی یہ غلامانہ سوچ بن جائے کہ یہ دنیا کی حکمرانی تو دوسروں کے لیے ہے ، ہمیں تو دنیا کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ 
ہے وہی شعر و تصوّف اس کے حق میں خوب تر
جوچھپا دے اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات
 ان کو شعروشاعری اور تصوف کے اندر الجھائے رکھوتاکہ یہ کردار و عمل کے لحاظ سے مفلوج ہو جائیں ۔ 
ہر نفَس ڈرتا ہُوں اس اُمّت کی بیداری سے مَیں
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتسابِ کائنات
     جس اُمت کے دین میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضے کو لازم کر دیا گیااور اس کے تحت ہر مسلمان کو مکلف ٹھہرایا گیا کہ معاشرے میں جو بھی غلط کا م ہوگا یا برائی پھیلے گی تو اس کے بارے میں اس سے بھی پوچھا جائے گا کہ تم نے اسے روکا کیوں نہیں تو ان صفات والی اُمت اگر بیدار ہوگئی تو برائی کا نظام (ابلیسی نظام ) مٹ جائے گا ۔ اسی لیے ابلیس اور اس کے حواریوں کو خوف ہے کہ یہ ایسی اُمت کہیں بیدار نہ ہوجائے ، یعنی اپنے اس فریضہ کو پہچان نہ لے جس کی بدولت اسے خیر اُمت کہا گیا ۔ اس لیے اسے معاشرے سے کٹ کر رہنے کا تصور دو کہ جو بھی معاشرے میں غلط یا صحیح ہوتا ہے تو ہونے دو تم کسی گوشے میں بیٹھ کر بس اللہ اللہ کرتے رہو ۔ 
مست رکھّو ذکر و فکرِ صُبح گاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے
        مسلمانوں کا ایسا مزاج بنا دو کہ اسلام کا نظام قائم کرنے اور دین کے نفاذ کی بجائے اپنی اپنی خانقاہیں بنا کر اللہ ھو اللہ ھو کی قوالی گاتے اور سنتے رہیں اور اسی موج میں مست رہیں کہ بس وہ بہت نیک اور پارسا ہیں ۔ باقی معاشرے میں برائی کا نظام بے شک اپنی جڑیں مضبوط کرتا رہے ۔ یہی ایک طریقہ ہے کہ اس امت کو غفلت میں رکھ کر ابلیسی نظام کو مستحکم و مضبوط کیا جاسکتاہے ۔ 
………
علامہ اقبال ؒ نے 1936ء میں ابلیس کی مجلس شوریٰ  کے عنوان سے یہ نظم لکھی تھی اور اس کے ذریعے اُمت کو جگانے کی کوشش کی تھی ۔ اس کے دو سال بعد یعنی 1938ء میں علامہ اقبال ؒ وفات پا گئے ۔ اس نظم میں مسلمانوں کے لیے بہت بڑا سبق ہے ، اگر اس کے مندرجات پر غور کیا جائے تو اس وقت امت مسلمہ کی جو حالت ہے اور جس طرح سے دنیا پر ابلیسی نظام کا غلبہ بڑھ رہا ہے اس کی اصل وجوہات ہمارے سامنے آتی ہیں ۔ امت کے زوال اور پستی کے ان اسباب کو سمجھنے کی ضرورت ہےاور پھر ان کمزوریوں ، غفلتوں اور گمراہیوں سے نکل کر از سر نو اسلام کے پیغام کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے ۔ یہی ایک صورت ہے کہ امت مسلمہ کو دوبارہ دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام اور وقار مل سکتا ہے ۔   اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !(ختم شُد)