(منبرو محراب) منافقین کی نشانیاں اور مومنین کا طرزعمل - ابو ابراہیم

11 /

منافقین کی نشانیاں اور مومنین کا طرزعمل

(قرآن و حدیث کی روشنی میں)


مسجد جامع القرآن، قرآن اکیڈمی ڈیفنس ،کراچی میںامیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ  کے11اکتوبر 2024ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

خطبہ ٔمسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد!
قرآن حکیم میں سورۃ التوبہ کی آیات 67 اور 68 میں منافقین اور71 اور 72 میں سچے ایمان والوں کا تذکرہ موازنے کے طور پر آیا ہے کہ منافقین مرد ہوں یا عورتیں، ان کا طرز عمل کیا ہوتا ہے اور سچے اہل ایمان مرد ہوںیا عورتیں تو ان کا طرز عمل کیا ہوتا ہے۔آج ان شاء اللہ ان آیات کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ ان کی روشنی میں اپنے معاشرے کا بھی جائزہ لیں گے کہ ہم بحیثیت مجموعی کہاں کھڑے ہیں۔
سورۃ التوبہ مدنی سورت ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کے حوالے سے بھی تذکرہ کیا ہے ، فتح مکہ کے بعد سرزمین عرب پر اللہ کے دین کو جو غلبہ عطا ہوا اس کی مناسبت سے بھی ذکر آیا ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ کے دور میں سب سے بڑا لشکر( تقریباً 30 ہزار کا ) غزوۂ تبوک کے موقع پر روانہ ہوا ۔ اس موقع کے حوالے سے بھی تذکرہ ہے اور اسی موقع پر منافقین کا پول بھی کھولا گیا اور ان کی سزا بھی بیان ہوئی۔ آیت67میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
{اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُہُمْ مِّنْ م بَعْضٍ } ’’ منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک دوسرے میں سے ہیں۔‘‘
یعنی یہ ایک جیسے ہیں۔بظاہر کلمہ بھی پڑھتے ہیں، نمازیں بھی پڑھتے ہیں اور کچھ دیگر نیک اعمال بھی بجا لاتے ہیں تاکہ ان کو مسلمان مانا جائے لیکن ایمان لانے کے جو تقاضے ہیں، ان سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں بلکہ اُس کے اُلٹ کرتے ہیں ۔ فرمایا :
{یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْکَرِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ وَیَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَہُمْ ط نَسُوا اللّٰہَ فَنَسِیَہُمْ ط اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ(67)}’’ یہ بدی کا حکم دیتے ہیںاور نیکی سے روکتے ہیں اور اپنے ہاتھوں کو بند رکھتے ہیں۔ انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے (بھی) انہیں نظر انداز کر دیا۔ یقیناً یہ منافق ہی نافرمان ہیں۔‘‘
اس آیت میں منافقین کی کچھ نشانیاں بیان ہوئی ہیں ۔ ذیل میں ہم ان کا جائزہ لیتے ہیں کہ وہ کیا ہیں :
(1)برائی کی دعوت دینا
ایمان لانے کا تقاضا تو یہ ہے کہ خود بھی برائی سے اجتناب کیا جائے اور دوسروں کو بھی برائی سے روکا جائےلیکن منافقین کا طرزعمل اس کے برعکس یہ تھا کہ وہ برائی کی دعوت دیتے تھے، برائی کو پروان چڑھاتے تھے اور دوسروں کو بھی خیر ، بھلائی اور نیکی کے کاموں سے روکتے تھے۔ آج ہمارے مسلمان معاشروں میں کیا کام ہو رہا ہے؟ گناہ اور نافرمانی کے کاموں کو پرکشش بنا کر پیش کیا جارہا ہے ۔ یعنی برائی کی دعوت دی جارہی ہے ۔ بے حیائی اور فحاشی کو پروان چڑھایا جارہا ہے ۔ ڈانس ، موسیقی ، جوا، سٹہ ، سود ، حرام خوری ، رشوت، کرپشن ہر قسم کی دعوت یہاں اپنے قول و فعل سے دی جارہی ہے۔یہ ساری انشورنس کمپنیاں ، سودی کاروبار ، بینک، فلم انڈسٹری ، ڈرامے ، ناچ گانے کے دوسرے ذرائع سب برائی اور حرام کی دعوت دے رہے ہیں ۔
(2) نیکی سے روکنا
دوسرے نمبر پرایمان کا تقاضا تو یہ ہےکہ خود بھی نیک اعمال کیے جائیں اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دی جائے مگر منافقین کا طرزعمل یہ ہوتاتھا کہ وہ خیر اور بھلائی کے کاموں سے روکتے تھے ۔ آج ہمارے معاشرے میں کیا چل رہا ہے ؟بعض اوقات بیٹی پردہ کرنا شروع کر دے تو ماں اور باپ روکتے ہیں، معاشرہ رکاوٹ بنتاہے اور سو سو بہانے تراشے جاتے ہیں۔ اسی طرح کوئی نوجوان اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر چہرے پر سنت رسول ﷺ سجا لے تو ہر طرف سے دبائو ڈالا جاتاہے، بیوی آڑے آجاتی ہے ، دوست احباب رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ یعنی گھروں سے لے کراوپر کی سطح تک نیکی سے روکنے کی بات کی جاتی ہے ۔ آپ پاکستان کے کسی علاقے میں کنسرٹ کروا لیں، DHAمیں ، بحریہ ٹاؤن ، کینٹ ایریاز میںنا چ گانا کروا لیں ، کسی اجازت نامہ کی ضرورت نہیں پڑے گی لیکن انہی علاقوں میں آپ درس قرآن کا کوئی پروگرام رکھوا لیں ، دعوت دین، اقامت دین کے مقاصد پر مبنی کوئی تقریب رکھ لیںاکثر آپ کو نہ صرف اجازت نامہ کے لیے مارا مارا پھرنا پڑے گا بلکہ آپ کو بڑے سائز کے پیپر پر لکھی ہوئی شرائط کی پوری فہرست تھما دی جائے گی کہ ان شرائط کو پورا کرو گے تو اجازت ملے گی ۔ یعنی ریاست کی سطح پر بھی نیکی سے روکنے کا کام ہورہا ہے ۔ بے حیائی کے پروگراموں کے لیے پولیس والے چار موبائلز بھیج دیں گے کہ ہم آپ کو پروٹیکشن دیں گے لیکن دین کے پروگرام ہوں تو پروٹیکشن دینا تو دور کی بات اجازت ملنا مشکل ہوجاتی ہے ۔ الا ماشاء اللہ ۔ ہماری یونیورسٹیز کے اندر فیشن پریڈکے نام پرکیا کچھ ہوتاہے اور کیسی کیسی پروڈکٹس کی وہاں پر مارکیٹنگ کی جاتی ہے جن کا نام بھی شریف آدمی زبان پر نہیں لا سکتا لیکن انہی یونیورسٹیوں میں اگر کچھ طلبہ کسی عالم دین یا سکالر کو بلا کر کوئی پروگرام کرنا چاہیں تو انتظامیہ سے اجازت لینے کے لیے طویل جدوجہد کرنا پڑتی ہے اور بعض اوقات پھر بھی اجازت نہیں ملتی ۔ یہ سارے کام اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں ہورہے ہیں۔
(3) اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنا
فرمایا:{وَیَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَہُمْ ط}(التوبہ:67)’’اور اپنے ہاتھوں کو باندھ کر رکھتے ہیں۔ ‘‘
اللہ کے دین کا تقاضا تویہ ہے کہ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کیا جائے ، اللہ کے دین کے غلبہ کے لیے ، جہاد اور قتال میں خرچ کیا جائے لیکن منافقین کا طرزعمل یہ ہے کہ یہ خود بھی اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے اور دوسروں کو بھی اس سے روکتے ہیں ۔ چونکہ ان کی نظر میں آخرت کی بجائے دنیا کی اہمیت ہے اس لیے یہ دنیا کا مال بچابچا کر رکھتے ہیں، اللہ کی پکار پر ، اللہ کے پیغمبر ﷺکی پکار پر خرچ نہیں کرتے، دین کی پکار پر خرچ نہیں کرتے۔ گھر میں شادی کا فنکشن آ جائے توہاتھ رکتا نہیں ہے ، ہندوانہ رسومات کے لیے ، فضول کاموں  کےلیے ، بے حیائی ، ناچ گانے اور اللہ کے دین سےسرکشی اور بغاوت کے ہر کام میںدل کھول کر خرچ کرتے ہیں مگر اللہ کی راہ میں خرچ کرنا پڑجائے ، فلسطینیوں کے لیے ہنگامی فنڈز جمع کروانا ہو ، سیلاب متاثرین کے لیے دینا ہو، اللہ کے دین کی دعوت اور سربلندی کے لیے خرچ کرنا ہوتو سو سو بہانے یاد آجاتے ہیں ۔ ہماری حکومتوں اور اداروں کی سطح پر بھی دیکھ لیجئے مساجد اور مدارس کے لیے خرچ کرنا ہو ، اللہ کے دین کے تقاضوں پر خرچ کرنے کی بات ہو تو سو بہانے ہوتے ہیں کہ جی بڑے اکنامک پریشرز ہیں ، ملک پر قرضہ ہے، وغیرہ وغیرہ لیکن دوسری طرف کنسرٹس کروانے ہوں ، میوزک میلے لگانے ہوں ، سکول ٹیچرز کو ڈانس سکھانا ہوتو اس کے لیے فنڈز بھی ہوتے ہیں اور کوئی معاشی دبائو بھی کسی حکومت پر نہیں ہوتا ۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہمارا طرزعمل منافقین جیسا ہی ہے ۔ الا ماشاء اللہ ۔ اللہ ہمیں اس بیماری سے محفوظ فرمائے ۔ آگے فرمایا :
{نَسُوا اللّٰہَ فَنَسِیَہُمْ ط}(التوبہ:67)’’ انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے (بھی) انہیں نظر انداز کر دیا۔‘‘
حالانکہ منافقین کلمہ بھی پڑھتے تھے ، باجماعت نماز ادا کرتے تھے ، روزہ بھی رکھتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ انہوںنے اللہ کو بھلا دیا ۔ مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی ترجیحات میں نہیں تھا،اللہ کے دین کی دعوت ، اقامت دین کی جدوجہد ، اللہ کے دین کے لیےجان اور مال خرچ کرنا ان کے لیے معنی نہیں رکھتا تھا بلکہ اُن کی ترجیح مال تھا ، دنیا کی محبت ترجیح تھی لیکن آخرت ترجیح نہیں تھی ۔
اسی تناظر میں ہم اپنا بھی جائزہ لیں کہ ہماری ترجیحات کیا ہیں ؟ بچہ سکول سے لیٹ ہو جائے تو پریشانی ہوتی ہے لیکن بچے کی نماز ضائع ہوجائے تو ہمیں کوئی پریشانی ہوتی ہے ؟بچہ فر فر انگریزی نہیں بول سکتا تو پریشانی ہے ، اگر قرآن کی تلاوت نہیں کر سکتا توکیا پھر بھی کوئی پریشانی ہے ؟ ہم کیسے مسلمان ہیں ؟کیا ہم نے رب کو بھلا نہیں دیا ؟ حالانکہ جمعہ کے خطبات میں بھی ہم سنتے ہیں :
{فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ}(البقرہ:152)
’’پس تم مجھے یاد رکھو‘ میں تمہیں یاد رکھوں گا‘‘
یعنی تم مجھ سے تعلق قائم رکھو میں تم پر نظر کرم کرتا رہوں گا۔ منافقین نے اپنی سوچ اور زندگی سے اللہ کو نکال دیا تواللہ نے بھی ان کو اپنی رحمت سے دور کردیا ۔ آج ہماری ترجیحات میں بھی اللہ کا دین شامل نہیں ہے تو پھر ہم پر اللہ کی رحمت کیسے نازل ہوگی ؟ کیسے مسلمانوں کے حالات بدلیں  گے ؟ آگے فرمایا : { اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ(67)} (التوبہ) ’’یقیناً یہ منافق ہی نافرمان ہیں۔‘‘
فسق کے ایک معنی ہیں پھٹ جانا، مراد ہے اللہ کی اطاعت کے دائرے سے نکل جانا، اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود پار کرنا ۔ اللہ کے احکامات سے سرکشی اور بغاوت کا راستہ اختیار کرنا ۔ اللہ کے دین کے تقاضوں کوپامال کرنا۔ یہ اپنی جگہ ایک بڑا موضوع ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے بھی سورۃ المنافقون کی روشنی میں حقیقت نفاق کے عنوان سے اس موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔ ہر تھوڑے عرصہ بعد ہر مسلمان کو اس حوالے سے اپنا جائزہ لینا چاہیے، خصوصاً تنظیم اسلامی کے رفقاء منتخب نصاب میں شامل اس حصہ سے استفادہ ضرور کریں ۔
منافقین کی سزا
اگلی آیت میں فرمایا :
{وَعَدَ اللّٰہُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَالْمُنٰفِقٰتِ وَالْکُفَّارَ نَارَ جَہَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْہَاط }(التوبہ :168)’’ اللہ نے وعدہ کیا ہے ان منافق مردوں ‘ منافق عورتوں اور تمام کفار سے جہنم کی آ گ کا‘جس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔‘‘
منافقین کو بھی دنیا میں مسلمان مانا گیا لیکن دل میں ایمان نہیں تھا ،عمل میں سرکشی اور بغاوت تھی ، اللہ کے رسول ﷺ کی اطاعت سے فرار تھا لہٰذا ان کا آخری انجام جہنم کا سخت اور دائمی عذاب ہے ۔ جہنم کا عذاب کوئی معمولی سزا نہیں ہے ۔ اللہ کے پیغمبرﷺ صبح اور شام سات مرتبہ دعا فرماتےتھے: ((اللھم اجرنی من النار)) ’’اے اللہ مجھے آگ سے بچا لے۔ ‘‘
آپ ﷺ تو معصوم ہیں ، بخشے بخشائے ہیں۔یہ دعائیں  درحقیقت ہمارے لیے تعلیم کی گئیں ۔ ہم گنہگاروں کو کس قدر فکر ہونی چاہیے ؟ہم دن میں کتنی مرتبہ جہنم کی آگ سے بچنے کی دعا کرتے ہیں ؟آگے فرمایا:
{ہِیَ حَسْبُہُمْ ج }(التوبہ :168)’’ بس وہی ان کے لیے کفایت کرے گی۔‘‘
منافقین کو بھرپور اور مستقل عذاب دینےکے لیے جہنم کی آگ کافی ہے ۔ یعنی یہ اتنا بڑا عذاب ہوگا کہ انسان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا: جہنم کا کم ترین عذاب یہ ہوگا کہ بندے کو انگاروں کی جوتیاں پہنائی جائیں گی اور ان کی وجہ سے بندے کا مغز کھول رہا ہوگا جیسے چولہے پر ہنڈیا کھولتی ہے ۔ آگے فرمایا:
{ وَلَعَنَہُمُ اللّٰہُ ج وَلَہُمْ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ (68)} (التوبہ ) ’’ اوراللہ نے ان پر لعنت فرما دی ہے اور ان کے لیے عذاب ہے قائم رہنے والا۔‘‘
لعنت کا مطلب ہوتا ہے اللہ کی رحمت سے دور ہو جانا۔چونکہ جنت میں داخلہ اللہ کی رحمت سے ہی ملے گا لہٰذا اللہ کی رحمت سے دور ہونے کا مطلب جہنم میں جانا ہے ۔
مومنانہ صفات
سورۃ التوبہ کی آیت 71 میں اللہ نے فرمایا :
{ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ } (التوبہ:71)’’اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں‘یہ سب ایک دوسرے کے ساتھی ہیں۔‘‘
یعنی مومن مرد اور مومن عورتیں اللہ کے دین کے معاملے میں ،رسول اللہ ﷺ کے مشن کے اعتبار سے ، دین کے تقاضوں پر عمل کرنے کے اعتبار سے ، اللہ کی رضا کے حصول کی کوشش کے اعتبار سے ایک دوسرے کے معاون اور مددگار ہیں ۔ بعض لوگ اس آیت کا غلط مطلب نکالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بقول شاعر ؎
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
اس آیت کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ مومن مرد اور عورتیں آپس میں دوستی کرلیں ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں مومن مردوں اور عورتوں کے درمیان معاملات کی حدود بھی مقرر کر دی ہیں ۔ سورہ نور کی آیت 31 میں اس حوالے سے پوری تفصیل موجود ہے کہ کس طرح نگاہوں کی حفاظت کرنی ہے ، پردہ اور حجاب کرنا ہے ، اپنی حیا اور عصمت کی حفاظت کرنی ہے ۔ یہاں تک کہ گھر میں باپ یا بھائی ہو تو اس کے سامنے بھی چادرکا اہتمام کرنا ہے ۔ سورۃ الاحزاب کی آیت 31 میں فرمایا:
{وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَـبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْاُوْلٰی} ’’اور تم اپنے گھروں میں قرار پکڑواور مت نکلو بن سنور کر پہلے دورِ جاہلیت کی طرح‘‘ یعنی گھر سے باہر نکلنا ہے تو حجاب کے احکامات پر عمل کرنا ہے ۔ سورہ احزاب کی آیت 53 میں صحابہ کرام ؇کو حکم دیا گیا:
{وَاِذَا سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ ط} ’’اور جب تمہیں نبی (ﷺ) کی بیویوں سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کی اوٹ سے مانگا کرو۔‘‘
اسی سورت کی آیت 59 میںفرمایا:
{یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَنِسَآئِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ ط} ’’اے نبی(ﷺ)!اپنی بیویوں‘ اپنی بیٹیوں اور اہل ایمان خواتین سے کہہ دیں کہ‘وہ اپنے اوپر اپنی چادروں کا ایک حصہ لٹکا لیا کریں۔‘‘
جلباب بڑی چادر کو کہتے ہیں جو پورے جسم کو ڈھانپ لے۔ ان احکامات کو بھی سامنے رکھا جائے اور اس کے بعد واضح ہو جائے گا کہ دین کے مشن میں مومن مرد اور مومن عورتیں کس طرح ایک دوسرے کے معاون اور مددگار بن سکتے ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ دین کے کام میں شوہر اور بیوی ایک دوسرے کا ساتھ دیں ، بہن بھائی کا ساتھ دے ، ماں اولاد کی حوصلہ افزائی اور مدد کرے ، باپ بیٹی کو دین پر چلنے کی ترغیب دے ۔ حضرت عمر ؄ کے اسلام لانے کا ذریعہ ان کی بہن بن گئیں اورپھر آدھی دنیا حضرت عمر ؄ کی وجہ سے دین میں داخل ہوگئی ۔ آگے فرمایا:
{یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَیُطِیْعُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ ط}’’وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں‘بدی سے روکتے ہیں ‘نماز قائم کرتے ہیں ‘زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔‘‘
یہاں مومنین کی چند صفات بیان ہوئی ہیں : 
(1)نیکی کا حکم دینا
حکم ہم وہاں دے سکتے ہیں جہاں اختیار ہوتا ہے، باپ اپنی اولاد کو حکم دے سکتاہے ، کسی ادارے کا سربراہ ماتحت لوگوں کو حکم دے سکتاہے ، ریاست کا سربراہ رعایا کو حکم دے سکتا ہے ۔ لیکن جہاں حکم نہیں چل سکتا وہاں  ترغیب و تشویق کے معنی لیے جائیں گے ۔ حدیث میں ہے کہ بچہ سات سال کا ہو جائے تو نماز کی ترغیب دلاؤ ،10 سال کا ہو جائے تو بستر بھی الگ کرو، نماز نہ پڑھے تو سختی کرو ۔مرنے کے بعد پہلا سوال نماز کے بارے میں ہوگا اور ہر شخص سے اس کے ماتحت لوگوں کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:((كُلُّكُمْ رَاعٍ وَ كُلُّكُمْ مَسْؤُوْلٌ عَنْ رَّعِيَّتِهِ))’’تم سب راعی (حاکم) ہو اور تم سب سے اپنی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ باپ ہے تو اولاد کے بارے میں سوال ہوگا ، شوہر ہے تو بیوی کے بارے میں سوال ہوگا ، ادارے کا سربراہ ہے تو ماتحت لوگوں کے بارے میں سوال ہوگا ، ریاست کا حکمران ہے تو رعایا کے بارے میں سوال ہوگا ۔
(2)برائی سے روکنا
اُمت مسلمہ کو کس عظیم مقصد کے لیے کھڑا کیا گیا ہے اس حوالے سے سورہ آل عمران کی مشہور آیت ہے :
{کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ} (آیت:110)
’’تم وہ بہترین اُمت ہو جسے لوگوں کے لیے برپا کیا گیا ہے، تم حکم کرتے ہو نیکی کا‘اور تم روکتے ہو بدی سے۔‘‘
ہم سچے اُمتی اسی وقت قرار پائیں گےجب یہ فریضہ ادا کریں گے ۔ یہ کام اپنی استطاعت اور دائرہ کار میں رہتے ہوئےکرنا ہوگا ۔ حدیث کے مطابق جو اپنے ہاتھ سے برائی کو روک سکتا ہے تو ہاتھ سے روکے ، زبان سے روک سکتا ہے تو زبان سے روکے اور زبان سےبھی نہیں  روک سکتا تو کم ازکم دل میں بُرا جانے ۔ ہمارے حکمرانوں  کے پاس اختیار ہے وہ باطل نظام کو ختم کرکے اسلام نافذ کر سکتے ہیں ، اگر نہیں کرتے تو روز قیامت ان سے پوچھا جائے گا ۔ ہم زبان سے برائی کے خلاف آواز اُٹھا سکتے ہیں ، اگر نہیں اُٹھائیں گے تو روز محشر پوچھے جائیں گے۔
(3) نماز قائم کرنا
ہر بالغ مسلمان پر نماز فرض ہے اور مردوں کے لیے باجماعت نماز لازمی ہے ۔یہاں منافقین کے مقابلے میں مومنین کی صفات بیان ہورہی ہیں۔ مگر آج ہم اپنا جائزہ لے سکتے ہیں کہ ہم کس صف میں کھڑے ہیں ۔
{وَکُلُّہُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَرْدًاq}(مریم ) ’’اور قیامت کے دن سب کے سب آنے والے ہیں اس کے پاس اکیلے اکیلے۔‘‘
روزقیامت ہر ایک نے اپنےہر عمل کا حساب خود دینا ہے، لیکن بہرحال ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ اولاد کودین کی طرف توجہ دلائیں۔
(4)زکوٰۃ ادا کرنا
منافقین اللہ کی رہ میں جان اور مال خرچ کرنے سے فرار اختیار کرتے ہیں جبکہ مومنین اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ۔
(5)۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت کرنا
اللہ کا حکم نماز اور زکوٰۃ تک محدود نہیں ہے بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت پوری زندگی کے لیےہے۔میری زندگی میں اسلام غالب ہو ، میرے گھر میں بھی اللہ کا دین نافذ ہو ، میری خوشی اور غمی میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت ہو ، میرا کاروبار ، میری ملازمت ، میری پارلیمنٹ ، میری حکومت اور میری ریاست میں بھی اللہ کا دین نافذ ہو ۔ اللہ فرماتا ہے:
{یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص}(البقرہ:208) ’’اے اہل ِایمان! اسلام میں داخل ہو جائو پورے کے پورے۔‘‘
منافقین کے مقابلے میں جو سچے اہل ایمان ہوں گے ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر گوشہ میں اسلام نافذ ہوگا ۔ اس تناظر میں آج ہم اپنا بھی جائزہ لیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ؟آگے فرمایا:
{اُولٰٓئِکَ سَیَرْحَمُہُمُ اللّٰہُ ط اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ(71)}’’یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ رحمت فرمائے گا۔یقیناً اللہ زبردست ‘حکمت والا ہے۔‘‘
اللہ کی رحمت جس کے ساتھ ہو گی وہی جنت میں جائے گا ۔ لہٰذا جن مسلمانوں کے کردار و عمل میں درج بالا صفات کی جھلک ہوگی وہی حتمی کامیابی کی اُمید رکھ سکتے ہیں ۔ اگلی آیت میںفرمایا :
{وَعَدَ اللّٰہُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا وَمَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ط}(التوبہ :72) ’’اللہ نے وعدہ کیا ہے مؤمن مرد وں اور مؤمن عورتوں سے ان باغات کاجن کے نیچے ندیاں بہتی ہوں گی ‘وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے‘اور بہت عمدہ مکانات (کا وعدہ) ہمیشہ رہنے والے باغات میں۔‘‘
سچے اہل ایمان پر دنیا میں سخت آزمائشیںبھی آتی ہیں ، دنیا کی زندگی اجیرن ہو سکتی ہے مگر ان کی دائمی زندگی عالی شان محلوں اور باغوں میں گزرے گی ۔ یہ کس قدر عظیم فائدے کا سودا ہے جبکہ منافقانہ طرزعمل سے دنیا کی چند روزہ اور عارضی زندگی میں تو کچھ آسانیاں ممکن ہے مل جائیں مگر آخرت کی دائمی زندگی شدید عذاب میں گزرے گی اور یہ کس قدر گھاٹے کا سودا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں منافقانہ طرزعمل سے بچنے اور مومنانہ طرز عمل اختیار کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین !