(اداریہ) اُٹھو! نظامِ باطل پر ضرب کاری لگا دو.... - خورشید انجم

11 /

اداریہ
خورشید انجم

اُٹھو! نظامِ باطل پر ضرب کاری لگا دو....

گزشتہ چند دنوں کے دوران دل دہلا دینے والی بعض خبریں سوشل میڈیا پر زیادہ اور روایتی میڈیا پر ڈھکے چُھپے انداز میں گردش کرتی رہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انہیں خبریں نہیں، ملک و ملت اور معاشرے کی اجتماعی حالتِ زار کا نوحہ کہنا زیادہ درست ہوگا۔ اگرچہ خبروں میں ہر سطر کے مصدّقہ ہونے اور تصویر کا کون سا رخ درست ہے اِس پر تو کوئی بات حتمی طور پر نہیں کہی جا سکتی۔ حکومتی سطح پر اُس دلخراش واقعہ کے حوالے سے وزیر اعلیٰ پنجاب صاحبہ نے 50 منٹ کی ایک پریس کانفرنس میں میڈیا کو بعض تفصیلات سے آگاہ کیا۔ اُن کے مطابق ایسا واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں اور یہ سوشل میڈیا کا فتنہ ہے۔ موصوفہ یقیناً اپنے عہدہ کی حساسیت اور اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ذمہ داری سے بیان دے رہی ہوں گی۔ البتہ جملہ معترضہ کے طور پر عرض کریں گے کہ زنا بالجر کا نشانہ بننے والی کوئی بدنصیب ناپاک نہیں بلکہ مظلوم ہوتی ہے۔ لہٰذا حکومتی عمائدین کو الفاظ اور استعاروں کے استعمال میں حد درجہ احتیاط برتنی چاہیے۔ بہرحال دیگر کئی ذرائع واقعہ کے حوالے سے مختلف داستان پیش کر رہے ہیں اور یقیناً حتمی طور پر تو اس معاملے کی حقیقت اللہ کو ہی معلوم ہے۔ لیکن اس حقیقت سے آنکھیں چُرانا ناممکن ہے کہ ہمارے معاشرے میں زنابا لجبر کے واقعات میں ہوش ربا اضافہ یقیناً لمحۂ فکریہ ہے۔ اس سے بھی بڑا جرم یہ ہے کہ زنا با لرضاء کو شاید سرے سے برائی سمجھا ہی نہیں جا رہا۔ جس معاشرے میں مرد و زن کا اختلاط رواج پکڑ جائے، وہاں ایسے ہیبت ناک واقعات کا ہونا اچنبھے کی بات نہیں۔
سیکولر اور لبرل لوگوں کو ہماری بات بُری لگے گی لیکن یہ علمِ نفسیات کا مسلّمہ اصول اور اٹل حقیقت ہے کہ مرد و زن پر دینی و معاشرتی قدغنوں کا خاتمہ، مادر پدر آزاد معاشرے کو جنم دیتا ہے اور جنسی جرائم میں اضافہ کا موجب ہوتا ہے۔ پھر یہ کہ ہمارے ملک میں تعلیمی ادارے بھی مافیا کی سی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ جس ملک میں مافیاز کا راج ہو وہاں عدل و انصاف ناپید ہو جایا کرتا ہے۔
عوامی احتجاج اور سوشل میڈیا کا اس مبینہ سانحہ کو اس زور دار انداز میں سامنے لانا، حکومت اور پولیس کی ناکامی، نااہلی اور ’ملی بھگت‘ پر بھرپور تنقید، طلبہ کا ردعمل … ان تمام چیزوں میں کچھ بھی ایسا نہیںہے جسے فائدہ سے خالی قرار دیا جا سکے۔ لیکن یہ کیا ہے کہ وقتی احتجاج اور سوشل میڈیا کا شور شرابا وقت گزرنے کے ساتھ تھم جاتا ہے اور کچھ عرصہ گزرنے کے بعد پھر کوئی اور انسانیت سوز واقعہ سامنے آجاتا ہے، ایسا ہی کوئی شرمناک واقعہ، ایسی ہی درندگی اور بہیمیت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ پھر انسانیت کی شرمساری کا ذکر ہوتا ہے۔ پھر میڈیا چیخ و پکار کرتا ہے۔ گویا یہ ایک سائیکل ہے جو چل رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مرض کی محض نشان دہی سے یا اُس کی مذمت اور تنقید سے مرض ختم ہو سکتا ہے؟ بلکہ مرض صحیح تشخیص اور ضروری دوادارو سے ختم ہوتا ہے اور دیرپا صحت مند ہونے کے لیے مرض کا جڑ سے اکھاڑا جانا لازم ہے۔
اللہ رب العزت اپنی آخری کتاب قرآن حکیم کی سورۃ التین میں ارشاد فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا اور پھر وہ ہو جاتاہے نچلوں میں سب سے نچلا۔ اور سورۃ الاعراف میں فرمانِ الٰہی ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ انسان اپنے افعال بد کی وجہ سے حیوان کی مانند ہو جاتا ہے بلکہ حیوان سے بھی بدتر۔ اگر ہم انسان کے ماضی اور حال پر سرسری سی بھی نگاہ ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ کیسی ناقابلِ تردید حقیقت ہے جو قرآنِ پاک نے بیان کی ہے۔
اللہ کے ہر پیغمبر نے لوگوں کو توحید کا پیغام دیا، شرک کو بدترین گناہ قرار دیا، لیکن انسانوں کی اکثریت شرک کی مرتکب ہوتی رہی۔ اکثر معاشروں کو یہ علم تھا کہ ماضی میں اللہ نے اس گناہِ عظیم کی پاداش میں بستیوں کی بستیاں تباہ و برباد کر دیں لیکن پھر بھی وہ شرک کا ارتکاب کرتے رہے۔ اگرچہ ماضی کا یہ شرک بعض ترامیم اور تبدیلیوں کے ساتھ کسی نہ کسی انداز میں اب بھی جاری ہے۔ لیکن بہر حال محدود ہو گیا ہے لیکن جدید دنیا نے شرک میں بھی جدت پیدا کر لی ہے۔ آج دنیا مادہ کی پرستش کر رہی ہے اگرچہ اُسے باقاعدہ سجدہ نہیں کیا جاتا۔ اس حوالہ سے آج کی دنیاانکار کی دنیا ہے۔ مادہ کے حصول کے لیے سب کچھ کر گزرو،نہ حقوق اللہ کی پرواہ کرواور نہ بندوں کے حقوق کو پائوں تلے روندنے سے گریز کرو، پھر بھی اس بات سے انکار کرو کہ ہم مادہ پرست ہیں ۔ ناپ تول میں ڈنڈی مارنے پر قوم شعیب ؑ تباہ ہوئی۔ آج یہ جرم چھوٹے اور متوسط طبقہ کا جرم ہے، بڑے بڑے ایوانوں میں تو میزان ہی اپنی طرف الٹا لی جاتی ہے۔ فحاشی اور بے حیائی بھی انسانی معاشرہ میں نیا مسئلہ نہیں ہے۔ حضرت لوط d کے دور میں جنسی بے راہروی تھی، بے حیائی نے نئی شکل اختیار کی اور انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ مرد شہوت رانی کے لیے مردوں کی طرف مائل ہوئے۔ اللہ نے اُن کی قوم پر آسمان سے پتھر برسائے۔ آج انسانی معاشرے فحاشی، عریانی اور بے حیائی کو آرٹ کا نام دے رہے ہیں۔ اگر ایک مرد اور عورت رضامندی سے زنا کے مرتکب ہوتے ہیں تو قانون اس کو جرم نہیں گردانتا۔ فحاشی اور بے حیائی کے اس کینسر نے پہلے مغرب کو اپنی لپیٹ میں لیا، آج یہ پوری انسانیت کے جسد میں پھیل چکا ہے۔
اچھائی ہو یا بُرائی، جس کا بھی غلبہ ہو گا اُسے پھیلنے سے نہیں روکا جا سکتا۔ اس بے حیائی نے جب اپنی انتہا کی طرف سفر شروع کیا تو نتیجہ کیا نکلا؟ خود کو مہذب کہنے والی انتہائی جاہل دنیا نے ہم جنس پرستی کو قانونی جواز فراہم کر دیا۔ مغرب کا معاشرہ خاص طور پر اس حوالے سے مادر پدر آزاد معاشرہ ہے۔ وہاں اچھی خاصی اکثریت کا حال یہ ہے کہ باپ اپنی بیٹی کو اطلاع کرتا ہے کہ اُس کا بوائے فرینڈ آیا ہے اور ماں اپنی بیٹی کی حرام اولاد کی خوشی مناتی ہے۔ لہٰذا عریانی کا نظارہ اور بے حیائی کی تشہیر جب نوجوانوں کی جنسی خواہش کو مشتعل کرتی ہے تو انہیں جنسی خواہش کی تکمیل کے لیے اُس مادر پدر آزاد معاشرہ میں کسی خاص دِقت کا سامنا نہیں ہوتا۔ پھر بھی چھوٹی چھوٹی بچیوں سے ظلم کا ارتکاب ہوتا رہتا ہے۔ مرد کو عورت اور عورت کو مرد دستیاب ہے، پھر بھی ہم جنس پرستی عام ہے۔ صورتِ حال ایک عرصہ قبل ہی اِس بدترین نہج پر پہنچ چکی تھی کہ سابق امریکی صدر کلنٹن کو سٹیٹ آف دی یونین خطاب میں یہ کہنا پڑا کہ عنقریب ہماری نئی نسل کی اکثریت ولد الزناء لوگوں پر مشتمل ہوگی اور بعدازاں بش اور اوباما نے بھی اپنے اپنے دور میں عورتوں پر توجہ دینے کا درس دیا۔ بہرحال پاکستان جیسے مشرقی اور مسلمان ملک کا معاملہ کچھ مختلف ہے۔ یہاں اخبارات اور جرائد میں فحش تصاویر کی بھرمار ہے۔ الیکٹرانک میڈیا فحاشی کی تشہیر کے حوالہ سے تمام حدود پار کر چکا ہے۔ فلمیں اور تھیٹر کے ڈرامے نوجوانوں کی جنسی خواہشات میں تہلکہ مچا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک طوفانِ بدتمیزی اور پرلے درجے کی بے حیائی ہے۔ تاہم یہاں کا معاشرہ ناجائز جنسی خواہش کی تکمیل کے لیے مغربی معاشرہ کی طرح کھلی سہولتیں فراہم نہیں کرتا۔ معاشرہ میں ابھی کچھ مشرقی، کچھ اسلامی رکھ رکھائو باقی ہے لہٰذا جنسی خواہش کی ناجائز تکمیل اتنی آسان نہیں۔ لیکن دکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ روشن خیالی اور ترقی کے نام پر مملکتِ خداداد میں بھی بے حیائی کے دروازے کھولے جا رہے ہیں۔
ہماری رائے میں اس کے سوا کوئی حل نہیں ہے کہ اس باطل اور فرسودہ نظام کو تہہ وبالا کر کے اور اُسے دفنا کر نئی بنیادوں پر ایک نیا نظام قائم کیا جائے جو سب کو بلا تفریق انصاف مہیا کرے۔ لیکن کسی انسان کا بنایا ہوا نظام تمام طبقات کے لیے منصفانہ اور قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ کوئی انسان اپنے مفادات کو پس پشت نہیں ڈال سکتا۔ لہٰذا ایک ہی حل ہے کہ جس ہستی نے اس کائنات اور انسان کو پیدا کیا اُس کے نازل کردہ نظام کو نافذ کیا جائے ورنہ باطل نظام سے ایسے انسانیت سوز اور شرمناک جرائم جنم لیتے رہیں گے۔ جس نے انسان کے لیے اس دنیا کو جہنم بنا رکھا ہے۔ آسمانی نظام جو وحی کے ذریعے نازل ہوا وہی اس جہنم کو جنت میں تبدیل کر سکتا ہے۔لیکن یہ خود بخود نافذ نہیں ہو گا مسلمانانِ پاکستان کو اس کے لیے اٹھنا ہو گا۔ وگرنہ جو آج خود کو محفوظ سمجھتے ہیں وہ کل محفوظ نہیں رہیں گے۔ اس باطل نظام نے ہر گلی محلہ میں درندہ صفت انسانوں کو جنم دیا ہوا ہے۔
اُٹھیں اور اس باطل نظام پر کاری ضرب لگائیں تاکہ پاکستان کی ہربیٹی کی عزت محفوظ ہو جائے۔