(زمانہ گواہ ہے) شنگھائی تعاون تنظیم: توقعات اور خدشات - وسیم احمد

11 /

پاکستان جس سفارتی تنہائی اور معاشی چنگل میں پھنس

چکا ہے،شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس اس

سے نکلنے کاراستہ فراہم کر سکتا ہے : خورشید انجم

شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس بہترین موقع ہے

جس سے فائدہ اُٹھا کر پاکستان اپنی کھوئی ہوئی ساکھ

بحال کر سکتا ہے :رضاء الحق

شنگھائی تعاون تنظیم: توقعات اور خدشات کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمد

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال: شنگھائی تعاون تنظیم کے اغراض و مقاصد کیا ہیں اور پاکستان کو 23ویں اجلاس کی میزبانی ملنا کتنی بڑی ڈویلپمنٹ ہے؟
خورشید انجم:چین نے شنگھائی تعاون تنظیم شنگھائی فائیو کے نام سے1996 ء میں قائم کی تھی اور اس وقت اس میں چائنہ، روس، کرغزستان ، قازکستان اور تاجکستان شامل تھے۔ 2001 ء میں اس میں ازبکستان بھی شامل ہو گیا۔2017ء میں پاکستان اور انڈیا کو بھی ممبر شپ حاصل ہوگئی ۔ افغانستان بھی 2012ء سے اس کا مبّصر تھا۔ 2021ء میں جب طالبان کی حکومت آگئی تو انہوں نے سابقہ افغان حکومت کے معاہدوں پر اعتراض  کرتے ہوئے انہیں منسوخ کردیا جس کی وجہ سے افغانستان کی بطور مبّصر ممبر شپ فریز کر دی گئی ۔ گزشتہ سال ایران بھی شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل ہو گیا۔ ابتدائی طور پر اس تنظیم کا مقصد رکن ممالک کی سکیورٹی اور استحکام میں باہمی تعاون تھا لیکن جب رکن ممالک کی تعداد بڑھ گئی تو مقاصد میں کچھ اور چیزیں بھی شامل ہوگئیں جیسا کہ دہشت گردی ، انتہا پسندی ،بنیاد پرستی ، منشیات اور سمگلنگ کی روک تھام وغیرہ ۔ اس تنظیم میں شامل ممالک کی آبادی پوری دنیا کی آبادی کا 40 فیصد ہے، اس لیے اس تنظیم کی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ مبصرین اس کا موازنہ نیٹو کے ساتھ کرتے ہیں جبکہ حقیقتاً اس کا نیٹو کےساتھ ٹکراؤ والا معاملہ نہیںہے ۔ فی الحال اس تنظیم کی ترجیحات میں  رکن ممالک کا اقتصادی ، ثقافتی اور معاشی سطح پر ربط اور تعلق بڑھانا ہے ۔ اس سال اس تنظیم کے سربراہی اجلاس کی میزبانی پاکستان کر رہا ہے جوکہ پاکستان کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے کیونکہ اس میں 200 کے قریب وفود شریک ہورہے ہیں ،ان میں روس کا 76 رکنی وفد بھی شامل ہے ۔11 سال بعد چائنہ کے وزیراعظم بھی آئے جن کے ساتھ پاکستان کے کافی معاہدے ہوئے ہیں۔ اسی طرح روس کےساتھ بھی کافی عرصہ بعدکئی معاہدات ہوئے ہیں ۔ یہ بہت خوش آئند ہے کیونکہ کافی عرصہ سے ہم تنہائی کا شکار تھے اور معاشی طور پر بھی چنگل میں پھنسے ہوئے تھے ۔ اُمید ہے کہ اس اجلاس کے بعد پاکستان کے لیے کئی راستے کھلیں گے۔ان شاء اللہ ۔
سوال:کیا پاکستان میں SCO کے حالیہ اجلاس کے انعقاد سے پاکستان کو سفارتی تنہائی اور معاشی بحران سے نکلنے کا راستہ ملے گا ۔آپ اس اجلاس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟
رضاء الحق: ایسی آرگنائزیشنز کے ذریعے جس قدر کوئی ملک اپنا اثر رسوخ دنیا میں بڑھا سکتا ہے اکیلے کبھی نہیں بڑھا سکتا ، چاہے وہ امریکہ ، روس یا چائنہ ہی کیوں نہ ہو ۔ اسرائیل بھی اکیلا کچھ نہیں کرسکتا ، وہ بھی بڑی طاقتوں کے ذریعے دنیا پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ پاکستان 77 سال سے مسلسل امریکی کیمپ میں ہے جہاں اس نے صرف نقصانات ہی اُٹھائے ہیں ۔ آج جو ہمارا سیاسی اور معاشی بحران ہے وہ بھی اسی وجہ سے ہے ۔ آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک وغیرہ بھی امریکہ اور اسرائیل کے کنٹرول میں ہیں ۔ لہٰذا اس چنگل میں پھنس کر آج پاکستان اپنی خودمختاری ، بقا اور سلامتی بھی داؤ پر لگا چکا ہے کیونکہ معاشی شکنجے کی وجہ سے ان کی تمام شرائط ماننا پڑ رہی ہیں ۔ دوسری طرف آپ دیکھیں کہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل جنگ کو پھیلا رہا ہے اور اس کے پیچھے امریکہ ہے ، روس اور یوکرائن کی جنگ میں بھی امریکہ یوکرائن کے ساتھ ہے اور تائیوان اور چائنہ کے مسئلہ میں بھی امریکہ تائیوان کے پیچھے کھڑا ہے ۔ امریکہ کا نیٹو اتحاد بنا ہی اسی لیے ہے کہ دنیا میں جنگیں انہوں نے لڑنی ہیں ۔ ان حالات میں SCO واحد عالمی تنظیم ہے جو نیٹو کا توڑ کر سکتی ہے ۔ پاکستان کے ایسے بہت سارے مسائل ہیں جو پاکستان نے خود حل کرنے ہیں۔ سب سے پہلے سیاسی عدم استحکام کوسب مل بیٹھ کر ختم کریں ۔ یہ کام روس یا چین ہمیں نہیں کرکے دے گا ۔ امریکہ کبھی نہیں چاہے گا ہمارے معاملات ٹھیک ہوں ۔ البتہ خارجی مسائل میں چین اور روس ہماری مدد کرسکتے ہیں جیسا کہ مسئلہ کشمیر پر مشرف دور سے ہم مسلسل پسپائی اختیار کرتے چلے جارہے ہیں ۔ SCOکے پلیٹ فارم سے ہم مسئلہ کشمیرکے حوالے سے اپنا اصولی مؤقف دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں کہ انڈیا سے ہمارے تعلقات اس وقت تک ٹھیک نہیں ہو سکتے جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوگا ۔ خاص طور پر جموں و کشمیر کا سپیشل سٹیٹس جو 2019ء میں ختم کیا گیا ہے اس کو بحال کیا جائے ۔ بہرحال اس موقع سے فائدہ اُٹھا کرپاکستان کو اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنا چاہیے ۔
سوال:گزشتہ برس SCO کے اجلاس میںشرکت کرنے ہمارے وزیر خارجہ بلاول بھٹو بھارت گئے تھے ۔ اب بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکربھی SCOکے اجلاس میں شرکت کرنے پاکستان آئے ہیں ۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ جے شنکر کی پاکستان آمد سے پاک بھارت تعلقات میں بہتری کا کوئی امکان پیدا ہوگا؟
خورشید انجم: جے شنکر نے آنے سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ دو طرفہ تعلقات پر کوئی بات نہیں ہوگی، یہ کہ وہ کانفرنس میں شرکت کے لیے آرہے ہیں جس کا ون پوائنٹ ایجنڈا ہے ۔ جہاں بھی پاکستان اور بھارت ہوگا تو تناؤ کی کیفیت تو رہے گی کیونکہ بعض ایشو ایسے ہیں جو کشیدگی کا باعث ہیں جیسا کہ مسئلہ کشمیر ہے ۔ اسی طرح  بھارت کی طرف سے پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگایا جاتاہے ۔ بلوچستان میں بھی بھارت دراندازی کر رہا ہے ۔ یعنی ایک مسلسل تناؤ کی کیفیت تو موجود ہے لیکن بہرحال کسی ملک کا نمائندہ آتا ہے تو ظاہر ہے کچھ نہ کچھ برف پگھلتی ہے۔SCOفورم کا مقصد بھی یہی ہے کہ رکن ممالک کے درمیان دوستانہ ماحول قائم ہو اور سفارتی اور تجارتی روابط بڑھیں ۔ عالمی سطح پر دیکھا جائے تو بھارت اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے ۔ مشرق وسطیٰ کی جنگ میں بھارت اسرائیل کو اسلحہ ، پائلٹ ، امداد ، سب کچھ دے رہا ہے ۔ جبکہ دوسری طرف پاکستان کا 7 اکتوبر 2023ء کے بعد سےاندرونی طور پر فلسطین کے لیے کوئی واضح کردار نہیں رہا ، البتہ وزیر اعظم پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں واضح موقف اپنایا۔جماعت اسلامی نے ایک مہم چلائی اور بالآخر اسلام آباد میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں تمام پارٹیوں کے رہنماؤں نے شرکت کی اور مسئلہ فلسطین پر بات کی۔ بہرحال عالمی سطح پر پاکستان اور بھارت متضاد سمتوں میں جاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔
سوال:SCO وسطی اور جنوبی ایشیا ئی ممالک کے اتحاد کا نام ہے ۔ کیا وجہ ہے کہ اس میں افغانستان شامل نہیں ہےاور نہ ہی ایک مبصر کی حیثیت سے اس کو کانفرنس میں مدعو کیا گیا ہے حالانکہ وہ خطے میں بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔
رضاء الحق:افغانستان اس خطے کا اہم ملک ہے جس کا وسط ایشیائی اور جنوبی ایشیائی ممالک کے ساتھ تاریخی، ثقافتی اور جغرافیائی لحاظ سے بہت گہرا تعلق ہے۔ یہاں  تک کہ قبائلی تعلقات بھی بہت زیادہ ہیں۔ افغانستان میں نائن الیون کے بعد جو جنگ رہی ہے اس میں بھی پاکستان اور بھارت سمیت دیگر ایشیائی ممالک کسی نہ کسی طرح  ملوث رہے ہیں ۔ بھارت وہاں اپنے قونصل خانے کھول کر خطے میں دہشت گردی میں بھی ملوث رہا ۔ روس بھی وہاں جنگ میں ملوث رہا ۔2012ء میں افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت کا SCOکےساتھ معاہدہ ہوا جس کو افغان طالبان نے حکومت میں آکر 2021ء میں ختم کر دیا کیونکہ سابقہ کٹھ پتلی حکومت امریکہ کے مفادات کی زیادہ محافظ تھی ۔ اس کے بعد سےSCOمیں افغانستان کی رکنیت فریز کر دی گئی ۔ پاکستان اس کانفرنس کا میزبان ضرور ہے مگر اس کے اختیار میں نہیں ہے کہ وہ افغانستان کو بلا سکے ۔ یہ توشنگھائی تعاون تنظیم کی ایگزیکٹو باڈی کا اختیار ہے کہ وہ کس کو بلاتی ہے ۔ اگرچہ چین کے افغانستان کے ساتھ تعلقات بڑے مضبوط ہیں ۔ یہاں تک کہ افغانستان کے تمام بڑے اقتصادی معاہدے چین کے ساتھ ہیں ۔ متحدہ عرب امارات کے بھی افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں ۔ افغانستان کی موجودہ حکومت ہر لحاظ سے ایک جائز حکومت ہے ،اس کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جانا چاہیے ۔ امید ہے کہ آئندہ چند برسوں میں افغانستان کو بھی SCOمیں  شامل کر لیا جائے گا ۔
سوال: اس کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان آئے چینی وزیراعظم نے پاکستان کے ساتھ کئی معاہدات کیے اور گوادر ایئر پورٹ کا بھی افتتاح کیا ۔ آپ یہ فرمائیں کہ چین کے ساتھ ہمارے اقتصادی اور تجارتی تعلقات کے حوالے سے یہ دورہ کتنی اہمیت کا حامل ہے ؟
خورشید انجم:پہلی بات یہ ہے کہ چینی وزیر اعظم 11 سال بعد پاکستان آئے ۔ یہ بڑی ڈویلپمنٹ ہے ۔ پچھلے کچھ عرصہ سے چین کے ساتھ ہمارے تعلقات سرد پڑ چکے تھے کیونکہ پاکستان میں کام کرنے والے چینیوں کے لیے سکیورٹی کے مسائل بہت بڑھ گئے تھے۔ہم سمجھتے ہیں کہ چینی وزیراعظم کا دورہ پاکستان اور پاکستان کے ساتھ معاہدات کرنا اس بات کی علامت ہے کہ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتری کی طرف جارہے ہیں ۔ ان معاہدات میں ITاور زراعت کے معاہدات بھی شامل ہیں ، سکھر تاکراچی موٹر وے ، گوادر ایئر پورٹ ، آزاد پتن ہائیڈرو پاور پروجیکٹ ، تھرکول ہائیڈروپاورپروجیکٹ جو کہ 6.8 بلین کا منصوبہ ہے، یہ سب شامل ہیں ۔ تاہم اصل سوال یہ ہے کہ پاکستان دوبارہ ان تعلقات کو قائم رکھ پائے گا یا نہیں ۔ہمارا حال یہ ہے کہ IMFکے چنگل میں پھنس کر پہلے ہی ناجائز شرائط مانے جارہے ہیں اور اس شرمناک صورتحال پر بھی ہماری اشرافیہ بھنگڑے ڈال رہی ہے کہ ہمیں قسط مل گئی اور قسط ملتے ہی پہلا کام یہ کیا گیا کہ اشرافیہ کےلیے مہنگی گاڑیاں خریدی گئیں۔ اسی طرح  SCOکا اجلاس ، چین کے ساتھ معاہدات وغیرہ بڑا بریک تھرو ہے لیکن کیا اس کے فوائد عوام تک پہنچ پائیں گے ؟تاہم ملکی سطح پر کچھ فوائد ممکن ہیں جیسا کہ ان معاہدات سے پاکستان کے لیے نئی اقتصادی اور تجارتی راہیں کھل سکتی ہیں ۔ پاک چین تعلقات میں جو سرد مہری آگئی تھی وہ دور ہو جائے گی ۔
سوال:کیا SCO کے سربراہی اجلاس اور حکومت کی حالیہ کارکردگی کو دیکھ کر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان معاشی دلدل سے نکل رہا ہے اور سفارتی تنہائی سے نکلنے کا امکان بھی پیدا ہوا ہے؟
رضاء الحق : پاکستان کی 77 سالہ تاریخ کا جائزہ لیں تو پاکستان کی سفارتی تنہائی اس قت بڑھ جاتی رہی ہے جب امریکہ اس سے ناراض ہو جاتا رہا ہے ۔ لیکن جب امریکہ خوش ہوتا تھا تو پاکستان کی سفارتی تنہائی بھی دور ہو جاتی تھی ۔ اب اگر پاکستان SCOسے فائدہ اُٹھاتے ہوئے روس اور چین سے تعلقات بڑھا لیتا ہے تو اس کی سفارتی تنہائی دور ہو سکتی ہے ۔ اس کے علاوہ پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن ایسی ہے کہ چاروں طرف سے مخالفین نے اس پر نظریں گاڑی ہوئی ہیں کہ کس طرح اس کو نقصان پہنچایا جائے ۔ سب سے بڑھ کر اسرائیل پاکستان کو اپنا اصل دشمن سمجھتا ہے کیونکہ گریٹر اسرائیل کے منصوبہ میں پاکستان ہی اصل رکاوٹ نظر آتا ہے کیونکہ پاکستان واحد ایٹمی اسلامی قوت ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حکومتی کارکردگی کی وجہ سے معیشت میں بہتری آئی ہے لیکن اصل مسئلہ سودی قرض اور سودی نظام کا ہے۔ جب تک سودسے نجات نہیں حاصل کی جائے گی تب تک ہم معاشی بحرانوں سے نہیں نکل سکتے۔ سودی قرضہ بڑھتا چلا جارہا ہے اور اس کے منفی اثرات ہماری قومی سلامتی اور پالیسیوں پر بھی پڑتے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے مشترکہ اعلامیہ میں بھی یہ چیز سامنے آئی ہے کہ اقوام متحدہ کے کچھ طے شدہ اہداف ہیں۔ چین اور روس بھی آئی ایم ایف کے اثر و رسوخ سے باہر نہیں ہیں ۔ پاکستان چین سے بھی قرض کا لین دین آئی ایم ایف کی ہدایات کے بغیر نہیں کرسکتا ۔ اسی طرح کچھ عرصہ قبل ہماری روس کے ساتھ لوکل کرنسی کی ٹریڈ کے حوالے سے اچھی پیش رفت ہوئی تھی اور معاشی حوالے سے یہ بہت اچھی پیش رفت تھی لیکن مغربی پریشر اس میں رکاوٹ بن گیا ۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے مشترکہ اعلامیہ میں چند چیزیں ایسی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ مستقبل میں یہ فورم مغربی پریشر کے راستے میں بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ مستقبل میں جنگوں کا دارومدار زیادہ تر جدید ٹیکنالوجی پر ہوگا۔ اس حوالے سے بھی SCOسے پاکستان مستفید ہو سکتاہے۔ اپنے معاشی اور تجارتی معاملات میں بھی پاکستان اس فورم سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ رکن ممالک مل کر ماحولیات کے حوالے سے بھی بہتر اقدامات کر سکتے ہیں ۔ میری نظر میں SCOکی کامیابی کے راستے میں رکاوٹ ایک ہی ہے اور وہ انڈیا ہے کیونکہ وہ مغربی بلاک کا اہم عسکری اور تجارتی پارٹنر ہے ۔ وہ SCOمیں موجود تو ہے لیکن معاشی ، دفاعی اور عسکری معاملات میں اس کی دلچسپی زیادہ مغربی بلاک کے ساتھ ہی رہے گی ۔ لیکن پاکستان کے لیے بہترین موقع ہے کہ وہ اس عالمی فورم سے زیادہ فائدہ اٹھا کر اپنے اندرونی حالات بھی ٹھیک کر سکتا ہےا ور عالمی سطح پر بھی تنہائی اور محتاجی سے نکل سکتا ہے ۔
سوال:کانفرنس کے اختتام پر جو اعلامیہ جاری ہوا ہے اس پر آپ کی رائے کیا ہے؟
رضاء الحق :ایک تو یہ خوش آئند بات ہے کہ کانفرنس اچھے طریقے سے منعقد ہوگئی ، کوئی مسئلہ نہیں ہوا اور اسلام آباد میں ان دنوں میں جو سیاسی کشیدگی پیدا ہوگئی تھی اُس کو بھی بروقت فریقین نے حل کر لیا ۔ لہٰذا اس کی وجہ سے بھی کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا ۔ جہاں تک مشترکہ اعلامیہ کی بات ہے تو زیادہ تر نکات ان میں روایتی قسم کے ہی ہوتے ہیں جیسا کہ زراعت ، تجارت، اقتصادیات اور ماحولیات میں تعاون ، دہشت گردی ، انتہا پسندی وغیرہ کے خلاف باہمی تعاون وغیرہ ۔ تاہم چند نکات ایسے ہیںجو بہت اہم ہیں جیسا کہITمیں تعاون اور اقتصادی معاہدے ۔ ان کا مستقبل میں اچھا اثر پڑے گا ۔ ایک اہم چیز یہ بھی ہے کہ کسی رکن ملک کی سالمیت پر حرف نہیں آنا چاہیے ۔