(کارِ ترقیاتی) پامال حرمت ِانساں - عامرہ احسان

11 /

پامال حرمت ِانساںعامرہ احسان

معیشت کی ڈوبتی ابھرتی نبضیں بچانے کو شنگھائی تعاون تنظیم کے سر براہی اجلاس کی میزبانی حکومت کے لیے نہایت اہم اور ایک چیلنج رہا۔
یہ اکٹھ خطے کے ممالک کا ہے۔ جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا، ہمسایوں کے مابین افغانستان کی عدم موجودگی   نیک شگون نہیں۔ ہمیں علاقائی تجارت، صوبائی قومی امن و امان، طویل مابین سرحد کی بنا پر احتیاط، حکمت و دانائی سے معاملات چلانے کی ضرورت ہے۔ بھارت جیسے بدخواہ کے ساتھ حالات سنوارنے کے لیے ہم سبھی کچھ برداشت کرتے اور سدھار کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ( باوجودیکہ مودی بھارت میںمسلمانوں کے وجود کے درپے ہے،مزید پاکستان میں ’را ‘کی کارگزاریاں!) ہمسائے بدلنا ممکن نہیں۔ ازبکستان، چین اور متحدہ عرب امارات نے افغان سفراء کی اسناد قبول کی ہیں۔ دنیا انھیں اپنے درمیان جگہ دے رہی ہے۔ امریکہ پوری دنیا کی فوجیں، بشمول پاکستانی تعاون دو دہائی جنگ لڑتا رہا۔ بالآخر اتنی بڑی سپر پاور مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر ہی راستہ بنا پائی۔ یہ نہ بھولیں کہ امریکہ دوستی میں ہم اس کے اتحادی بن کر افغانستان کے خلاف جنگ میں ہر طرح شریک رہ چکے ہیں۔ امریکہ کے جانے کے بعد امریکی فوج کے مددگار افغان بڑی تعداد میں ہمارے ہاں مہمان ہیں۔  امریکی ڈکٹیشن سے اب نکل کر ہمیں افغانستان پر اپنی پالیسی، اپنی ضروریات، حالات کے مطابق خود بنانے کی ضرورت ہے۔ کڑوے کسیلے بیانات امریکہ کو تو خوش اور مطمئن کر دیں گے مگر ہمارے شایاں نہیں۔ بڑے پن کا ثبوت دیجیے۔ سرحد کے آرپار تحمل اور بھائی چارہ دونوں ممالک کی ضرورت ہے۔
کبھی کبھی عوام الناس پر اچانک کوئی انکشاف ہو جاتا ہے۔ ملک مسلسل معاشی کمزوری کا شکار ہے۔ ہمارے ٹیکس کہاں استعمال ہوتے ہیں؟ سرکاری ہسپتال خدمتی عملے کی شدید کمی کا شکار۔ رشتہ دار ساتھ رہ کر سب کام خود کریں۔ غسل خانے گندگی سے اٹے پڑے۔ صفائی کے لیے واشنگ پاؤڈر، صابن کہاں سے آئے، ملک غریب ہے۔ یونیورسٹیاں، کچرے سے بھرے ڈبوں کا، یا کہیے ثقافتی کثافت اور کثافتی ثقافت کے مراکز ہیں۔ چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریٹائر منٹ پر 20 لاکھ سے دیئے جانے والے ڈنر سے انکار کیا تو پتہ چلا کہ حلوائی کی دوکان پر جج صاحبان کی ختم ہوتی نوکری کی فاتحہ ہمارے ٹیکسوں سے دی جاتی ہے!ہمیشہ دو ڈنر ہوتے ہیں ریٹائرمنٹ پر۔ایک سپریم کورٹ، دوسرا بار کونسل کی طرف سے ۔ پیرس اولمپکس میں میڈل جیتنے والے پر بھی بے شمار ڈنر لنچ منائے گئے ۔ پوری افسران،وزرا کی باراتوں نے اس کے بہانے قوم کا پیسہ اڑایاتھا۔
  ہم اپنی دنیا میں کھالے، پی لے، جی لے میں کھوئے گئے۔ ادھر اسرائیل 57 مسلم ممالک کی خاموش بے حسی پر پورے اطمینان سے غزہ کے تکے بوٹیاں کر رہا ہے۔ لبنان پر حملوں کے دوران بھی غزہ پر بمباری سے ایک دن باز نہ آیا۔ الاقصیٰ ہسپتال پر ساتویں مرتبہ حملہ کیا ہے۔ بے گھر فلسطینیوں سے بھرا ٹینٹ شعلوں کی نذر ہو گیا۔ درجنوں بری طرح جل گئے۔ ہسپتال پہلے ہی قریبی شیلٹر میں بمباری سے جلنے والے زخمیوں کے علاج میں مصروف تھا۔ 70 زخمیوں میں سے 25 کو دوسرے ہسپتال منتقل کرنا پڑا۔
شمالی غزہ اسی حال میں ہے۔ ایک زخمی لڑ کا وہیل چیئر پر کفن اوڑھے بیٹھا دنیا سے کہہ رہا ہے کہ 25 دن سے یہاں خوراک، پانی، دوا کچھ بھی نہیں آیا۔ ہم نے دنیا سے مایوس ہو کر کفن پہن لیے۔ اگلی زندگی اس سے بہتر ہے۔ پوری انسانیت میں سے کوئی بچا نے والا نہیں۔ ہم عزت سے ( بھوکے) مر جائیں گے۔ غزہ نہیں چھوڑیں گے۔ ایک اور نوجوان اسی علاقے سے کہتا ہے (اپنی صورتحال بتا کر)’’کچھ تو کرو۔ ایک جملہ کہہ دو، ایک ہیش ٹیگ ہی سہی، ایک وڈیو چھوٹی سی ، دنیا کو متوجہ کرنے کے لیے۔ ہم یہاں ختم ہو رہے ہیں۔‘‘ ادھر اسرائیلی وزیر خزانہ بیذلیل (Bezalel) کا غم یہ ہے کہ بڑی طاقتیں اسرائیل کوغزہ کی پوری آبادی ختم کرنے کی اجازت نہ دیں گی اگر چہ وہ اخلاقاً کتنا ہی   قرین ِ انصاف کیوں نہ ہو! ہمارے یرغمال واپس نہ ملیں تو بھی ہمیں 20 لاکھ کو بھوک سے مار دینے کی اجازت نہ ملے گی۔ دیکھا آپ نے ان کا تکبر؟ حالا نکہ امریکہ اور مغرب نے قتلِ عام کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ اس کے ختم ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ یعنی آپ سوچیں 1200 اسرائیلیوں کے بدلے 3,35,000 کا قتل؟ (اب تک مضحکہ خیز حد تک کم تعداد دنیا کو بتائی گئی ہے۔ یعنی 41 ہزار فلسطینی بشمول 16 ہزار بچے۔) ایڈنبرا یونیورسٹی کی تازہ پبلک ہیلتھ رپورٹ یہ ہے کہ اسرائیلی قتلِ عام کی اموات 3 لاکھ 35 ہزار 5 سو ہو چکی ہیں۔ گارڈین میں سری دھر نے لکھا ہے کہ اموات اس سے زیادہ ہو سکتی ہیں۔ پچھلی"The Lancet" رپورٹ میں تعداد 1,86,000 بتائی گئی تھی جو سری دھر کے مطابق بہت کم ہے۔ ’ٹروتھ آؤٹ‘ میں شارون زانگ نے لکھا، صرف اس ہفتے اسرائیل نے کم از کم 902 خاندان مکمل ختم کر دیے ہیں۔
یو این جنرل اسمبلی میں ملائیشیا کے وزیرِ خارجہ  نے امریکہ کے ویٹو پاور کے استعمال پر شدید تنقید کی تھی۔ 79 واں سالانہ اجلاس مگر دنیا آج بھی محفوظ نہیں ہے۔ انسانیت کے خلاف جرائم کے ایسے موقع پر، کہ غزہ میں  قتلِ عام رو کا نہ جاسکا، ویٹو کا استعمال ختم کیا جائے۔ یورپین یونین کے پولینڈ کے ممبر پارلیمنٹ بران نے اسرائیل کو دہشت گرد ملک قرار دیا جسے آپ قتل کا لائسنس دینا چاہتے ہیں۔ ’’آپ سب وہ ہیں جو اسرائیل کی مذمت نہیں کر سکتے۔ جس ملک کو چاہیں ’اینٹی سیمیٹک‘ کہہ کر اس پر یہودیوں کو بمباری کا لائسنس دے دیں۔ یہ سرتا سر غلط ہے۔ اس اصطلاح کے گھسے پٹے نام اور ہولو کاسٹ کی کہانی بار بار دہرا کر ہم بلیک میل ہو رہے ہیں۔‘‘ تاہم اللہ کی بے آواز لاٹھی امریکہ پر برستی رہی ہے۔ اب بھی شدید طوفان سے 50 ارب ڈالر کا نقصان فلوریڈا و دیگر کئی ریاستوں میں ہوا۔ گارڈین میں یونیورسٹی آف میامی کاگراف بتاتا ہے کہ خلیج میکسیکو بہت اونچے درجے کی تپش سٹور کر رہی تھی جس سے طوفان غیر معمولی شدت اور قوت پکڑ رہے ہیں۔ فالتو گرمائش جیٹ فیول کی سی تاثیر رکھتی ہے طوفان (Hurricane) کے لیے۔ جس سے یہ فوری بڑے طوفانوں میں ڈھل جاتے ہیں۔ یہ 8 اکتوبر 2024 ء کی رپورٹ ہے۔ یعنی 7 اکتوبر 2023ء کے بعد اسرائیلی ایک سال قتل و غارت گری ،بمباریوں میں برسائی درندگی کی تپش! طوفان کی رفتار 200 میل فی گھنٹہ تھی۔ 4 میٹر بلند سیلابی پانی۔ شدید بارشیں، جابجا گھروں کی چھتیں اڑ گئیں۔ جنریٹر تباہ، شعلے ہی شعلے، 40 لاکھ بجلی کے بغیر، گھپ اندھیرا، غزہ جیسا گھروں کا ملبہ۔ لاکھوں لوگ گھروں کی از سرنو تعمیر میں کمر توڑ قیمت ادا کریں گے۔ غیر متوقع طور پر یہ طوفان اتنا خوفناک ہو گیا۔ گرے ہوئے درخت، ٹوٹی سڑکوں پر بجلی کی گری تاریں۔ جنگی بگولوں کے سے حامل اثرات کا طوفان! فلوریڈا جنت نظیر علاقہ، سیاحتی مرکز تھا۔ شاید امت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بے حس بیٹھی تھی۔ رب تعالیٰ کی قدرت نے غزہ کے مظلوموں کا انتقام عالمی چودھری سے کسی درجے میں لیا۔ ہم تو کہتے ہی تھے: ربِّ انی مغلوب فانتصر۔
عذابِ وقت ہے تہذیب آہن و بارود
کہ جس کے قدموں میں پامال حرمتِ انساں