(زمانہ گواہ ہے) مشرق وسطیٰ میں پھیلتی جنگ کے اثرات - محمد رفیق چودھری

10 /

OICکے چارٹر میں شامل ہے کہ فلسطینیوں کی عسکری مدد بھی

کی جائے گی۔ آج اگر عسکری مدد نہیں کر سکتے تو کم از کم

خوراک اور ادویات تو اہل غزہ کے لیے مہیا کردیں : خورشید انجم

13 ماہ کی دہشت گردی اور خونریزی کے باوجود اسرائیل اپنےاہداف

اور مقاصد حاصل نہیں کر سکا:ڈاکٹر فرید احمد پراچہ

جب تک نظریاتی طور پر مسلم ممالک ایک پیج پر نہیں آتے تب

تک کسی بھی سفارتی ، معاشی یا عسکری محاذ پر متحد نہیں

ہوسکتے : رضاء الحق

مشرق وسطیٰ میں پھیلتی جنگ کے اثرات کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمد

سوال:گزشتہ13 ماہ سےاسرائیل غزہ پر بمباری کر رہا ہے اور اب اس کی جارحیت لبنان ، ایران اور یمن تک پھیل چکی ہے۔ ہزاروں شہادتیں ہو رہی ہیں جن میں حماس اور حزب اللہ کے دو دواعلیٰ ترین عہدیدار بھی شہید ہو چکے ہیں ۔ نیتن یاہو اور صہیونی فورسز کا جنگی جنون کب اور کیسے رُکے گا؟
ڈاکٹرفرید احمد پراچہ: حالات جس نہج پر جا رہے ہیں، اس میں بظاہر مایوسی نظر آرہی ہے مگریہ بھی بہت ضروری ہے کہ اُمت مسلمہ کے سامنے یہ بات آجائے کہ حالات جتنے بھی زیادہ سخت ہوں شکست کا بہرحال اہلِ ایمان کے ہاں کوئی امکان نہیں ہوتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھادیں گے اور بےشک اللہ نیکوں کے ساتھ ہے۔‘‘ (العنکبوت:69)
ایک راستہ بند ہوتا ہے تودیگر کئی راستے کھل جاتے ہیں ۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ حالات اپنی گرفت سے باہر نکل رہے ہیں مگر دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے فتح کے کئی امکانات بھی روشن کر دیئے ہیں ۔ اسرائیل نے دہشت گردی کا جو بازار گرم کیا ہوا ہے اس سے مسلمانوں کا جانی نقصان تو ہوا ہے، 45 ہزار کے قریب عورتیں ، بچے اور مرد فلسطین میں شہید ہو چکے ہیں ، غزہ کو کھنڈر بنا دیا گیا ہے ،ایمبولنس گاڑیوں، ہسپتالوں اور عبادت گاہوں کو تباہ کر کے نیٹو معاہدات تک کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں لیکن اس سب کے باوجود اسرائیل اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکا ۔ اُس کا دعویٰ تھا کہ وہ حماس کو ختم کر دے گا مگر حماس ابھی تک لڑ رہی ہے ۔ ٹھیک ہے لیڈرشپ شہید ہوئی ہے مگر حماس ایک نظریے کا نام ہے اور نظریہ کبھی مرتا نہیں ہے ۔ آپ کو اہل فلسطین میں گھبراہٹ اور خوف کا اشارہ تک نہ ملے گا جبکہ دوسری طرف اسرائیل میں مظاہرے ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیںکہ نیتن یاہوکو نکالو ۔ 250 کے قریب اسرائیلی فوجی اور جرنیل حماس کی قید میں ہیں ان کو ابھی تک اسرائیل بازیاب نہیں کراسکا۔ اس جنگ سے پہلے کئی مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کر چکے تھے اورکئی تسلیم کرنے کی باتیں کر رہے تھے لیکن اب دنیا کہہ رہی ہے کہ فلسطین کو تسلیم کیا جائے۔ کئی یورپی ممالک بھی فلسطین کو تسلیم کر چکے ہیں ۔ پھر یہ کہ اسرائیل مانے یا نہ مانے مگر اس کی معیشت تباہ ہو کر رہ گئی ہے ۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اب تک اسرائیل کا 60 بلین ڈالرز کے قریب نقصان ہو چکا ہے ۔ شیفیلڈ یونیورسٹی کے معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر جنگ نہ رکی تو یہ نقصان آئندہ سال 93 ارب ڈالرز تک پہنچ جائے گا ۔ موڈیز اور سٹینڈرڈ جیسی ریٹنگ ایجنسیوں نے بھی کہا ہےکہ اسرائیل کی معیشت کا جنازہ نکل چکا ہے ، وہ قرضوں کی قسطیں تک ادا نہیں کر سکا ۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ اسرائیل فتح کی مستی میں جھوم رہا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے ۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
’’عنقریب ہم کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے۔‘‘ (آل عمران:151)
وہ رعب تو ان کے دلوں میں بیٹھا ہوا ہے ۔آج دنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں جبکہ جس حماس کو اسرائیل دہشت گرد کہتا تھا اس کی حمایت دنیا میں بڑھ رہی ہے ۔ یحییٰ سنوار اپنی شہادت کے آخری لمحات میں بھی دنیا کو ایک جذبہ دے گئے ۔ ٹوٹے ہوئے بازو کے ساتھ انہوں نے اسرائیلی ڈرون پر لکڑی سے وار کیا ۔ آج اسرائیل کے اخبارات یہ لکھ رہے ہیں کہ اگر یحییٰ سنوار دہشت گردہے تو ہم اس سے بڑے دہشت گردہیں ۔ وہ پوچھ رہے ہیں کہ ہم نے اس جنگ میں کیا حاصل کیا ؟ہماری زراعت تباہ ہوگئی ، صنعت و تجارت تباہ ہوگئی ۔ اسرائیل سے جانے کے لیے ایئر پورٹس بھرے ہوئے ہیں ۔ گویا قرآن میں جو کہا گیا ثابت ہورہا ہے :
’’یہ وہ لوگ ہیں جن سے لوگوں نے کہا کہ لوگوں نے تمہارے لئے (ایک لشکر) جمع کرلیاہے سوان سے ڈرو تو ان کے ایمان میں اور اضافہ ہوگیااور کہنے لگے: ہمیں اللہ کافی ہے اورکیا ہی اچھا کارساز ہے۔‘‘(آل عمران:173)
حماس اورفلسطینیوں کے پاس نہ اسلحہ ہے ، نہ طیارے ہیں ، نہ ٹینک ہیں ، بظاہر یہ یک طرفہ جنگ ہے مگر اس سب کے باوجود ان کے حوصلے بلند ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے ۔
سوال:روس نے یوکرین پرقبضہ کرنے کی کوشش کی تو پوری یورپی یونین یوکرین کی پشت پر کھڑی ہوگئی ۔ دوسری طرف اسرائیل فلسطین پر قبضہ کی کوشش میںفلسطینیوں کا لہو بہا رہا ہے مگر اُمت مسلمہ کی غیرت کیوں نہیں جاگ رہی ؟
خورشید انجم:ایک طرف تو یہاں ہمیں پوری دنیا کا دہرا معیار نظر آتا ہے۔ جیساکہ آپ نے فرمایا کہ یوکرائن کی پشت پر یورپی یونین کھڑی ہوگئی ، امریکہ کے صدر جوبائیڈن نے جنرل اسمبلی میں تقریر میںکہا ہم یوکرائن کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتے ، ہم اس کا دفاع کریں گے اور دوسرے ممالک کو بھی اس نے دعوت دی کہ وہ یوکرائن کا ساتھ دیں لیکن غزہ کے حوالے سے انہیں کوئی تشویش نہیں ہے۔ اسرائیل کے خلاف کوئی قرارداد آتی ہے تو امریکہ اسے ویٹو کر دیتاہے ۔ فلسطینیوں کی نسل کشی پر امریکہ اور یورپ کی حکومتیں خاموش ہیں ، 45 ہزار کے قریب عورتیں بچے ، مرد شہید ہو چکے مگر یورپ کو اگر فکر ہے تو ان 250 یرغمالیوں کی ہے جو حماس کی قید میں ہیں ۔ دوسری طرف مسلم ممالک کی طرف سے بھی کوئی خاص ردعمل نہیں آرہا ۔ صرف بیانات کی حد تک ہے۔ ایران نے کچھ ردعمل ظاہر کیا ، انڈونیشیا  کی طرف سےبھی کچھ ردعمل آیا، پاکستان میں اندرونی سطح  پر سیو دی غزہ (Save of Gaza)مہم سینیٹر مشتاق احمد خان نے چلانے کی کوشش کی تو انہیں گرفتارکرلیا گیا ، ان پر تشدد کیا گیا ۔ وزیراعظم کی جنرل اسمبلی میں تقریر البتہ اچھی تھی ۔ اسی طرح حافظ نعیم الرحمن (امیر جماعت اسلامی) نے ایک مہم شروع کی اور اس کے نتیجے میں ایک آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس میں فلسطین کے حوالے سے بڑا اچھا مشترکہ موقف اختیار کیاگیا ۔ پھر ہماری مذہبی جماعتوں اور دینی حلقوں کی طرف سے بھیبھر پور آواز اُٹھائی گئی لیکن عرب دنیا اس معاملے میں بہت پیچھے رہ گئی۔ عرب حکمران تو اسرائیل کو تسلیم کرنے جارہے تھے ۔ حماس نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ اب وہ کس منہ کے ساتھ اسے تسلیم کریں۔بلنکن کے دورہ کے دوران بھی عرب حکمرانوں نے کہاتھا کہ حماس اصل میں الاخوان ہےاور اس کو شکست دینا ناگزیر ہے ۔ مصر نے کہا کہ کیمپ ڈیوڈ والی فضا باقی رہنی چاہیے۔ بنیادی طور پر حماس کی جڑ میں احیائی فکرہے ، وہ دین کا تصور رکھتے ہیں مذہب کا تصور نہیں رکھتے ، یعنی وہ سیاسی اسلام کا تصور رکھتے ہیں ۔ یہی چیز عرب حکمرانوں کے لیے کسی صورت قابل قبول نہیں ہے کیونکہ وہ اسے اپنی بادشاہتوں کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف پوری دنیا میں غیر سیاسی اسلام کو پروموٹ کیا جارہا ہے ۔ وہ لوگ جو تصوف کو متوازی دین کہتے ہیں، وہ بھی خانقاہ بنا رہے ہیں ۔ یہ سارا کچھ عالمی جبر کے تحت ہورہا ہے ۔ اس حوالے سے مسلمان ممالک کا رویہ بہت ہی قابل افسوس ہے۔ ان حالات میں سب سے زیادہ پڑوسی عرب ممالک کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اہل غزہ کی مدد کریں ۔ OICکے چارٹر میں تو یہ بھی شامل ہے کہ ہم فلسطینیوں کی عسکری مدد بھی کریں گے۔ آج اگر عسکری مدد نہیں کر سکتے تو کم ازکم سفارتی اور اخلاقی مدد تو کر سکتے ہیں ۔ کم از کم خوراک اور ادویات تو اہلِ غزہ کے لیے مہیا کردیں ۔
سوال:پاکستان کے دورے پر تشریف لائے ہوئے عالمی مبلغِ اسلام ڈاکٹر ذاکر نائیک نے پچھلے دنوں ایک تجویز دی کہ اب یہ وقت آگیا ہے کہ مسلم ممالک بھی نیٹو کے طرز پر اسلامی عسکری اتحاد بنائیں ۔ آپ کے خیال میں کیا یہ قابل عمل تجویز ہے؟
رضاء الحق:یہ خواہش تو بہت اچھی ہے لیکن اگر زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو اس کے کوئی امکانات بظاہر دکھائی نہیں دیتے ۔اس کی بہت ساری وجوہات ہیں ۔نیٹو کی بنیاد دوسری جنگ عظیم کے بعد سیکولر ورلڈ نے ایک خاص مقصد کے تحت رکھی تھی اور وہ مقصد یہ تھا کہ پہلے سوویت یونین کا اور بعد ازاں سیاسی اسلام کا مقابلہ کرکے سرمایہ دارانہ نظام کو عالمی سطح پر غالب کیا جائے ۔ اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ معاشی سطح پر بھی مغربی ممالک اکٹھے ہوئے، یورپی یونین کا قیام بھی عمل میں آیا ۔ عسکری سطح پر بھی نیٹو وجود میں آیا ۔ پھر جہاں جہاں انہو ں نے دیکھا کہ مسلمان خطرہ بن سکتے ہیں تو ان کو تباہ کردیا، چاہے عراق ہویا شام ، افغانستان ہو یا لیبیا ۔ OICکا قیام اس وقت عمل میں آیا جب 1969 ء میں آسٹریلیاکے باشندے نے مسجد اقصیٰ میں آگ لگانے کی کوشش کی اور مسجد اقصیٰ کو جزوی طور پر نقصان بھی پہنچا ۔ بنیادی طور پر OICکا ہدف یہی تھا کہ ہم مسجد اقصیٰ کی حفاظت کریں گے ، اس کے بعد مسلم ممالک کے مشترکہ مفادات کے تحفظ کو بھی منشور میں شامل کیا گیا لیکن جن ممالک کے سربراہان نے OICکی بنیاد رکھی تھی ان کو نشان عبرت بنا دیا گیا ۔ اسی طرح کچھ عرصہ قبل 39 مسلم ممالک کی مشترکہ فوج بنائی گئی اور ہمارے ایک سابق جرنیل اس کے چیف بنے لیکن اس فوج کا مقصدبھی صرف عرب بادشاہتوں کو بچانا ، بنیاد پرستی اور سیاسی اسلام کا قلع قمع کرنا اور ماڈرن اسلام کو رائج کرنا تھا۔ اب اس کی مثالیں بھی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں سامنے آرہی ہیں ۔ اسی طرح عرب ممالک نے مل کر GCCبنائی تو وہ بھی حوثیوں کے مقابلے میں لڑنے کے لیے بنائی گئی جبکہ دوسری طرف ایران حوثیوں کی مدد کر رہا تھا ۔ یعنیGCC مسلمانوں کی آپس میں ہی خانہ جنگی کے لیے استعمال ہوئی ۔ لہٰذا بنیادی بات یہی ہے کہ جب تک نظریاتی طور پر مسلم ممالک ایک پیج پر نہیں آتے تب تک کسی بھی سفارتی ، معاشی یا عسکری محاذ پر وہ متحد نہیں ہوسکتے۔
سوال: عالمی ادارے چاہے وہUNOہویا سلامتی کونسل ، جنرل اسمبلی ہویا عالمی عدالت انصاف، مشرق وسطیٰ میں جنگ رکوانے میں کامیاب کیوں نہیں ہو پارہے؟
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ: اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ان عالمی اداروں کی تعمیر کے اندر ہی بڑی خرابیاں موجود ہیں ۔ مثلا ً یہ کہ ان کا اپنامالیات کا کوئی نظام نہیں ہے لہٰذا یہ خود کو چلانے کے لیے امریکہ سے مدد لیتے ہیں اور اس کے بدلے میں امریکہ ان کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتاہے ۔ دوسرا یہ کہ ویٹو کاحق چند ممالک کو دے کر جمہوریت کی نفی کر دی گئی ہے ۔ ساری دنیا ایک طرف ہو جائے ایک تنہا ملک ویٹو کر دیتا ہے تو پھر دنیا میں عدل و انصاف کیسے قائم ہو گا ۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس ۔ ان اداروں کی ناکامی کی تیسری بڑی وجہ ان کے دہرے معیار ہیں ۔ مسئلہ کشمیر اور فلسطین کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادیں چیختی رہتی ہیں مگر عمل درآمد نہیں ہوتا ۔ لیکن مشرقی تیمور کا مسئلہ ہو یا جنوبی سوڈان کا مسئلہ ہو تو وہ فوراً حل ہو جاتاہے۔ مسلم ممالک کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ نام نہاد عالمی ادارے مسلم ممالک کے مفادات کا تحفظ نہیں کر سکتے بلکہ ان کو اُلٹا آپس میں لڑایا جاتاہے ۔ کبھی ایران اور عراق کو لڑا دیا ، کبھی عراق اور کویت کو لڑا دیا۔ ہم کیوں ان کے ہاتھوں تماشا بنے ہوئے ہیں ۔ OICکا ڈھانچہ ہی بدل دیا گیا ۔ اس کو آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس کی بجائے ’’کوآپریشن‘‘ کر دیا گیا ۔ مولانا مودودی ؒ نے بھی کہا تھا کہ مسلم ممالک کو اپنا مشترکہ دفاعی نظام ، مشترکہ منڈی اور مشترکہ ابلاغ کا نظام بنانا چاہیے ۔ لیکن موجودہ صورتحال یہ ہے کہ عالمی عدالت انصاف میں بھی کوئی مسلم ملک نہیں گیا ۔ جنوبی افریقہ انسانیت کے ناطے عالمی عدالت میں گیا ۔ اس کا فیصلہ بھی اسرائیل کے خلاف آگیا مگر عمل درآمد نہیںہوا ۔ کیونکہ امریکہ اسرائیل کی پشت پر ہے ۔ لہٰذا تمام عالمی ادارے ناکام رہیں گے جب تک وہ امریکہ کے گھڑے کی مچھلی بنے رہیں گے ۔
سوال: اسلام میں ہجرت کا آپشن موجود ہے ۔ جس علاقے میں آپ اپنی جان ، مال ، عزت کا تحفظ نہیں کر سکتے تو کسی دوسرے علاقے میں ہجرت کر جائیں ۔ جیسا کہ نبی ﷺ کی سنت سے بھی ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی جماعت کے ہمراہ مدینہ ہجرت کی اور اپنی طاقت اور تعداد بڑھا کر پھر مکہ کو فتح کیا ۔ کیا اہل فلسطین کے لیے اس سنت پر عمل ایک حل ہو سکتاہے ؟
خورشید انجم:قریش مکہ کے مظالم جب مسلمانوں  پر بڑھ گئے تو آپ ﷺ نے حبشہ ہجرت کرنے کی اجازت دی۔ یہ ہجرت اختیاری تھی۔ اس کے بعد جب مدینہ کی طرف ہجرت ہوئی تو وہ اللہ کی طرف سے فرض  تھی۔ اس میں حکمت یہ تھی کہ مدینہ کو بیس کیمپ بنا کر ایک عالمی انقلاب کی بنیاد رکھی جارہی تھی۔ لیکن موجودہ صورتحال یکسر مختلف ہے ۔ فلسطین کے پڑوس میں کئی مسلم ممالک ہیں لیکن وہ بھی اہل فلسطین کی مدد نہیں کر رہے اور اسرائیل نے بھی اعلان کیا ہوا ہے کہ جہاں بھی ہمارے ٹارگٹس ہوں گے وہاں ہم ان کو ہٹ کریں گے ۔ یعنی فلسطینی جہاں بھی جائیں گے ان کے لیے مسائل ہیں اور وہ کسی جگہ بھی اپنا بیس کیمپ نہیں بنا سکتے ۔ لہٰذا ان کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر رہ کر ہی مزاحمت جاری رکھیں جس طرح افغانستان نے گوریلا وار کی ہے اسی طرح حماس نے بھی اپنی سرنگیں بنائی ہوئی ہیں ۔
سوال:گریٹر اسرائیل کے نقشے میں دریائے نیل سے فرات تک کے سارے علاقے کو دکھایا جاتاہے ۔ کیا یہ شدت پسند یہودیوں کا محض خواب ہے یا اس کی کوئی حقیقت بھی ہے ؟
رضاء الحق:گریٹر اسرائیل کا تصور پہلی بار یہودی پروٹوکولز میں 1898ء میں دیا گیاجن میںBiblical boundaries کا ذکر کیا گیا ۔اس میں وہ سارا علاقہ شامل ہے جو دریائے نیل سے فرات تک ہے ، اسی طرح ان پروٹوکولز میں ترکی اور سعودی عرب کے کچھ علاقے بھی شامل ہیں۔ 1917ء میں یہ پلان کھل کر سامنے آگیا جب ناجائز صہیونی ریاست کی بنیاد رکھی گئی ۔ پھر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں نیتن یاہو نے اپنی تقریر کے دوران بھی یہ نقشہ دکھایا جس میں انڈیا مڈل ایسٹ اکنامک کوریڈور کو بھی دکھایا گیا ۔ اس کے علاوہ بھی اسرائیلی حکام آئے روز گریٹر اسرائیل کی بات کرتے رہتے ہیں ۔ سارے یہودی گریٹر اسرائیل پر متفق ہیں ۔ البتہ بعض کہتے ہیں کہ مسایاح(یعنی دجال) کے آنے کے بعد قائم ہوگا جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ پہلے قائم ہونا چاہیے ۔
سوال: پچھلے کچھ عرصےکے دوران ایران اور اسرائیل کے ایک دوسرے پر حملے بڑھ رہے ہیں ۔ اگر یہ سلسلہ چلتا رہا تو کیا کسی بڑی جنگ کا پیش خیمہ ثابت نہیں ہوگا؟
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ:بظاہر اس وقت عالمی جنگ چھڑنے کے امکانات نہیں ہیں کیونکہ عالمی جنگ اس وقت چھڑتی ہے جب دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو ۔ مگر اس وقت تو ایک طرف مظلوم فلسطینی ہیں اور دوسری طرف اسرائیل کا ظلم ہے ۔ یہ جنگ اس وقت چھڑ سکتی ہے جب دنیا کا ضمیر جاگ اُٹھے یا مسلم ممالک متحد ہو جائیں ۔ پھر یہ کہ ابھی ایک سال ہی جنگ چھڑے ہوا ہے اور یورپ اور امریکہ میں احتجاج شروع ہو گیا ہے کہ ہمارےپیسے کو ظلم کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ۔ اس کو روکا جائے ۔ یہودی بھی احتجاج کر رہے ہیں کہ نتین یاہو نے ہمیں عالمی مجرم بنا دیا ہے ، یہودیوں کے خلاف نفرت عالمی سطح پر بڑھ رہی ہے ۔ پھر یہ کہ جنگ کے اخراجات بھی ہوتے ہیں ، انہیں اسرائیل کب تک برداشت کر پائے گا ۔
رضاء الحق: اگرایران اور اسرائیل کے درمیان صرف دھمکیوں اور میزائلوں کی حد تک ہی معاملہ رہتا ہے تو پھر جنگ چھڑنے کے امکانات شاید نہ ہوں لیکن اگر اسرائیل نے ایران پر باقاعدہ حملہ کردیا تو پھر روس اور چین بھی جنگ میں ملوث ہو سکتے ہیں ۔یوکرین اور تائیوان کی وجہ سے امریکہ ، روس اور چین جنگ میں کود سکتے ہیں ۔ ایک مرتبہ جب جنگ چھڑ گئی تو پھر اس کو روکنا ممکن نہ ہوگا ۔
سوال:آپ قیامت سے قبل مشرقِ وسطیٰ کا مستقبل کیا اور کیسا دیکھتے ہیں؟
خورشید انجم: احادیث میں واضح طور پر کچھ علامات بیان کی گئی ہیں ۔قرآن مجید میں بھی ایک اشارہ ملتا ہے ۔ فرمایا :
اور اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہا کہ تم اس زمین میں آباد رہو پھر جب آخرت کا وعدہ آئے گا ہم تمہیں سمیٹ کر لے آئیں گے۔(الاسراء :104)
یہاں ایک اشارہ یہ بھی ملتا ہے کہ جب آخری وقت آئے گا تو بنی اسرائیل کو سمیٹ کر اس سرزمین پر لے آیا جائے گا ۔ چونکہ بنی اسرائیل مغضوب علیہم قوم ہے۔ اس نے انبیاء کا قتل کیا ، حضرت عیسیٰ ؑ کا انکار کیا اوراپنے تئیں ان کوسولی پر چڑھایا ۔ پھر اللہ کی آخری کتاب اور آخری رسول ﷺکا انکار کیا ۔ آپ ﷺکے خلاف اور اللہ کے دین کے خلاف سازشیں کرتے رہے ۔ ان سارے جرائم کی سزا ان کو ملنی ہے لہٰذا گریٹر اسرائیل کے ہی بہانے ان کو آخری وقت میں سزا کے لیے اکٹھا کیا جارہا ہے ۔ واللہ اعلم ۔ شام کے حوالے سے احادیث میں ذکر ہےکہ اس میں بہت خونریزی ہوگی ۔ نبی اکرم ﷺکے دور میں شام میں فلسطین اور اردن کا علاقہ بھی شامل تھا ۔ ایک حدیث میں ذکر ہے کہ آخری وقت میں چرواہے بڑی بڑی عمارتیں بنائیں گے اور اس ضمن میں ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گے۔ آج عرب کے بدو بڑی بڑی بلڈنگیں بنانے میں ایک دوسرے کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔ اسی طرح احادیث میں بڑی جنگ (الملحمۃ الکبریٰ ) کا بھی ذکر ہے ۔ عیسائی کتب میں آرمیگاڈان کا ذکر ہے ۔ ان جنگوں میں اتنا قتل عام ہوگا کہ اُڑتے ہوئے پرندے کواُترنے کے لیے خالی جگہ نہ ملے گی۔ ہر طرف لاشیں ہی لاشیں ہوں گی ۔ اسی دوران حضرت مہدی ؑ کا بھی ظہور ہوگا۔ پھر حضرت مہدی ؑ کی نصرت کے لیے خراسان سے قافلے جائیں گے۔ پھر حضرت عیسیٰd کا ظہور ہوگا اور وہ دجال کو قتل کریں گے ۔ اس کے بعد یہودیوں کا صفایا ہو گا۔ پتھر اور درخت بھی یہودیوں کے خلاف بولیں گے کہ ان کو قتل کر دو سوائے غرقد کے درخت کے، جس کی بڑے پیمانے پر اسرائیل میں شجر کاری کی جارہی ہے۔ یہ سارا نقشہ مشرق وسطیٰ میں اُبھرتا ہوا ہمیں نظر آرہا ہے ۔ جس میں ہر طرف تباہی ہی تباہی ہے لیکن بالآخر مسلمان فتح پائیں گے ۔