…… ضوفشانی چھوڑ جائوں گا
عامرہ احسان
یحییٰ سنوار 22 سال اسرائیلی جیل میں اور 61 سال دنیا وی جیل میں( حدیث کے مطابق دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے) گزار کر قطرے برابر زندگی جی کرراحتوں اور حیاتِ ابدی کے سمندر میں اترگیا! (ان شاء اللہ) اس نے(اپنی وصیت) میں کہا تھا۔ ’ان تاریک کوٹھڑیوں (جیل) کے اندر میں ہر دیوار میں کھڑکی دیکھتا تھا۔ جس سے دور کا افق دکھائی دیتا تھا: ہر سلاخ میں سے روشنی پھوٹتے دیکھتا تھا جو آزادی کا راستہ روشن کرتی تھی۔ جیل میں رہتے ہوئے میں نے سیکھا کہ صبر محض ایک اخلاقی خوبی نہیں بلکہ وہ ایک ہتھیار ہے، کڑوا ہتھیار جیسے کوئی سمندر کو قطرہ قطرہ کر کے پی لے۔ اور جیل تو آزادی کی منزل تک لے جانے والا ہماری طویل راہ کا ایک ٹکڑا ہے۔‘یہی مثبت، پُر عزم طرز فکر شخصیت ساز ہوتا ہے۔ قید خانے کو تربیت گاہ جانا۔ عبرانی سیکھی۔ لائبریری کی کتابیں چاٹیں۔ تعلق بالقرآن نے آزادی، روشنی کی منزل حقیقی کے لیے صبر و ثبات دیا۔ خواہش پوری ہوئی! ’ قابض (اسرائیلی) جو تحفہ مجھے دے سکتے ہیں وہ شہادت ہے۔ میں ان کے ہاتھوں شہید ہو کر اللہ سے جاملوں، یہ کو رونا سے بہتر ہے!‘ دور، ابدی آزادی کے روشن راستوں کا تھکا ماندہ مسافر! اپنے لہو کی سرخی افق پر چھوڑ کر قوم کی رگوں میں اپنا پُر عزم خون سمو گیا۔ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔
یحییٰ سنوار یوں شہید ہوئے جو اسرائیل کبھی نہ چاہتا تھا کہ بہادری سے لڑتے شجاعت کے جھنڈے گاڑتے، بے خبر اسرائیل کے عام فوجیوں کی گولی سے انجانے میں شہید ہوجاتے ۔سال بھر اسرائیل سرمارتا رہا یحییٰ کو قتل کرنے کے لیے۔ اس کی بہترین ٹیکنالوجی، نہایت مخصوصی تربیت یافتہ فورسز، جدید ترین امریکی ٹیکنا لوجی کی مزید مدد سبھی کچھ میسر تھا۔ اسرائیل کی خصوصی جاسوسی یونٹیں، اہم ترین مہارتوں سے کی گئی منصوبہ بندیاں ، سنوار کی دیوانہ وار تلاش سب اکارت گئی۔اسرائیلی محکمہ ہائے جاسوسی تصور بھی نہ کر سکتے تھے کہ پورا سال گزر جانے کے بعد بھی سنوار زندہ ہو گا! وہ سرنگوں کی لمبائی، پھیلاؤ اور پیچیدگی پر دنگ تھے۔ سوچتے، کہتے رہے کہ سنوار یرغمالیوں کی اوٹ میں انھیں ڈھال بنائے چھپا بیٹھا ہے۔ سنوار کے بہانے اس نے شہریوں کی بے بہا جانیں اندھا دھند قتل ِعام میں ختم کر دیں۔ حقیقی طور پر تین لاکھ سے متجاوز فلسطینی شہید اور پورا غزہ کھنڈر۔ اس سب کے باوجود سنوار انہی کے بیچ اپنے صرف دو ساتھیوں کے ساتھ عام اسرائیلی فوجیوں کے مقابل جھڑپ میں زخمی ہوا۔ یہ ان سے بچھڑ کر الگ بلڈنگ میں گیا۔ اس پر ٹینک کے گولے پھینکے اور فوجی یہ سمجھ کر اندر گئے کہ وہ جان دے چکا۔ مگر اس نے دوسری منزل سے دو گرینیڈ دے مارے جن میں سے ایک پھٹ گیا۔ اب اندر کی خبرلا نے کو ایک ڈرون بھیجا۔ آخری لمحات کی منظر کشی اسرائیلی ڈرونز نے کی۔ دایاں بازو کٹ گیا تھا۔ سکارف میں چہرہ لپٹا تھا۔ ہاتھ میں پکڑی چھڑی ڈرون پر پھینک دی۔ ڈرون پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوا۔ آخری سانس تک مقابلہ! دوسرے ڈرون سے انبیاء کی سرزمین کو اپنے لہو سے سیراب کرتے فلسطینیوں کے قائد کا آخری منظر جو کہ اسرائیلیوں نے مسلمانوں کے لیے محفوظ کیا، دنیا کو دکھایا۔ لینذر من کان حیاً ۔ہر اس شخص کے لیے جو ابدہی کا خوف زندہ بیدار کرنے کو جو حامل قرآن ہو کر بھی غزہ سے بے نیاز بیٹھا ہے۔
جاپان کے تو تمام ا خبارات نے سنوار کی عظیم مثال، قربانی کی داستان اپنی قوم کو پڑھائی۔ وہ اسے اپنے ایک بہادر جاپانی جنگجو ’سمورائی‘ کی سی شجاعت کا حامل قرار دے رہے تھے۔ البتہ اسی وقت جب یحییٰ شہید اور شمالی غزہ میں 60 بچوں سمیت اسرائیلی عفریت نے 85 شہید کیے، مصر میں ایک لاکھ عربوں کا شیطانی اکٹھ، لال نیلی روشنیوں میں رقص و موسیقی کا جشن منا رہا تھا۔ سنوار زندگی کے آخری منظر میں شدید زخمی، خونچکاں حالت میں دشمن ڈرون کی طرف چھڑی پھینکتا نظر آتا ہے۔ ہر آن ہر سانس دشمن پر حملہ آور! الق مافی یمینک…پھینک دے جو تیرے دائیں ہاتھ میں ہے۔ دایاں ہاتھ تو جعفر طیار ؓ کی سنت پر پہلے جنت کے دروازے کھٹکھٹانے پہنچ چکا۔ بائیں ہاتھ کی ماری چھڑی امر ہو گئی۔ آئیے دیکھیں! ایک سنوار گیا دوسرا روپ ملبے میں چھپا دباننھا سابچہ دیکھئے ۔۔۔سنوار ابنِ سنوار ابنِ سنوار! چھوٹی سی ایک دائرہ نما کھڑکی ہے گھر کے ملبے میں، جو اسرائیلی ابھی مار کر گئے ہیں بموں سے۔ اس سے گول مٹول سا بچہ، روشن، سیاہ آنکھوں میں امید اور حیرت لیے بار بار جھانکتا ہے۔ ننھا سا چوم لیے جانے والا ہاتھ بار بار باہر نکالتا دنیا کو متوجہ کرتا ہے۔ اس کے پاس چھڑی ہے! جو اس کی کل متاع ہے۔ سبز چھڑی عین اس کے سائز اور کردار کی آئینہ دار۔ سنوار چلا گیا؟ اب چھڑی میرے ہاتھ میں ہے! نئے یحییٰ سنوار آتے چلے جائیں گے! بچے کی اپنے حال کی شدت سے بے خبری! سراپا امید، امت کی متلاشی آنکھیں جو اپنے دوارب ماموں، چچا کی منتظر حیران و ترساں ہیں۔ یہ منظرِ امید بھی ہے مگر دل درد سے بھینچ ڈالنے والا!
سنوار کی آخری جھلک میں گن / اسلحہ گرینیڈ بردارجیکٹ موجود ہے۔ سنتِ نبویﷺ۔ وقت ِوصال نبویﷺ آپﷺ کا اثاثہ تلواریں ہی تو تھیں ! یحییٰ سنوار گرد و غبار میں اَٹے ہوئے تھے۔ نبیٔ الملاحمﷺ کی اس خوش خبری کو پانے کے لیے کہ جن قدموں پر راہِ جہاد کی دھول مٹی پڑ جائے اسے جہنم کی آگ نہیں چھو سکتی! اور پھر یہ گرد و غبار ایک اور منظر کا عکاس بھی تو ہے۔ غزوئہ تبوک، (شدید گرمی، سواریوں ، پانی، غذا کی قلت، اخراجات کی کمی سے دوچار لشکر) روم کے خلاف جنگ میں آپ سر خرو ہو کر لوٹے۔ لیکن طویل سفر، مشکل حالات سے نبرد آزمائی مبارک سراپے پر چھائی ہوئی تھی۔ سیدہ فاطمہk سے ملنے اسی حال میں پہنچے۔ سیدہ رو دیں۔ آپﷺ نے وجہ پوچھی تو کہنے لگیں: میں آپﷺ کی مشقت، تکلیف، گرد و غبار سے اَٹے کپڑے، نقاہت کے آثار، آپﷺ کی عمر(62 سال) اور کمزوری دیکھ کر رو رہی ہوں۔ آپؐ کو کب آرام ملے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا:’ نہ رواے فاطمہؓ ! اس زمین پر ایک ایسا دن آنے والا ہے، جب اس زمین پر کوئی کچا پکا گھر، ایسا نہ رہے گا جہاں تک تیرے باپ کا دین پہنچ کر نہ ر ہے۔ جو کوئی عزت سے قبول کرے گا، اسلام اسے عزت دے گا۔ جو میرے دین سے ٹکرائے گا، اللہ اسے ذلت کی گہرائیوں میں ڈال دے گا۔‘
اللہ نے اسلام کا پیغام پھیلا دینے کا کام خود کافر سے لیا! ابراہیم ؓ یکا و تنہا پوری آبادی کے فرد فرد تک مکمل دعوتِ توحید کیسے پہنچاتے۔ یہ کام بہ نفسِ خبیث نمرود نے خود کیا۔ آگ پر پوری قوم موجود ۔ توحید اور شرک آمنے سامنے۔ قوم نے اپنی آنکھوں سے ہولناک بھڑکتے شعلوں میں برداً وسلاماً۔ ٹھنڈک اور سلامتی بنتی آگ میں ابراہیم حنیف ؓ کو دیکھا۔ حجت پوری قوم پر تمام ہو گئی۔ یہی اہتمام اللہ نے فرعون کے ذمے لگایا۔ پہلے فرعون نے اللہ کے نبی کو اپنی گود میں، تمام تر را حتوں میں پال پوس کر جوان کیا۔ موسیٰ مدین سے واپسی پر رسالت لے کر لوٹے تو دربارِ فرعون میں دعوتِ اسلام دی۔ معجزات پیش کیے۔ فرعون آگ بگولا ۔مگر پوری قوم کو آگاہ کرنے کے لیے سارا اہتمام، انتظام سرکاری سطح پر جشن کے دن کیا تا کہ حاضری خوب ہو! دعوتِ توحید بمقابلہ کفر (سورۃ طہٰ پڑھ لیجیے) سب تک پہنچ گئی۔ فرعون کے گھر اور دربار تک میں مسلمان پیدا ہو گئے۔ (آلِ فرعون کا مومن!) مشاطہ اور بیوی! اسامہ بن لادن کو دنیا میں کون اس طرح متعارف کرواسکتا تھا۔ ملا عمرؒ کو کون جانتا تھا۔ یہ سب الیکٹرانک میڈیا، مواصلاتی ترقی کے تمام آلات اخبار و جرائد، ٹیلی وژن، میڈیا ہر رنگ میں خدمت کو حاضر ہوا۔ چار دانگ ِعالم میں…کو بکو پھیل گئی خوشبو! اور اب غزہ! اللہ نے انتخاب اس قوم کا کیا جو اس کی اہل تھی۔ اسرائیل نے فرعونی مظالم کی بھٹی میں انھیں تپایا۔ قیادتیں اللہ نے وہ عطا کیں جنھوں نے رگ وریشے میں قرآن کا نور، انبیاء کی سرزمین کی وراثت کا فخر اور اس کی قدر و قیمت ڈال دی جس کے لیے ہر قربانی روا تھی! ہر قیادت شیخ احمد یٰسینؒ، عز الدین القسامؒ تا اسماعیل ہانیہ ؒ و یحییٰ سنوارؒ و محمد ضیفؒ نے غزوات کا فہم، اسوئہ صحابہؓ، شہادت کے لیے مر مٹنے والا حو صلہ اپنی نسلوں میں اتار دیا۔ دنیا وی صلاحیت (سرنگوں کا عظیم شعبدہ، اسرائیل سر پٹختا رہ گیا)۔ سو فی صد شرحِ خواندگی (دنیاوی) حفظ ِقرآن کا شغف ہر گھر ہر فرد میں اتار دیا۔ صلاحیت و صالحیت کے پیکر۔
سال بھر میں اہل غزہ نے اپنا سب کچھ لٹا کر نہ کسی نے اپنی قیادت سے بغاوت کی، نہ دشمن کے ہاتھ بکے یا جھکے! نہ کہا کہ سنوار، ہانیہ، ضیف نے ہمیں مروا دیا! دنیا بھر کی ترغیب و ترہیب کام نہ آئی۔ وہ انبیاء کی زمین فلسطین کی میراث کا ایک چپہ چھوڑنے پر راضی نہ ہوئے! پورا شرق تا غرب، مغرب تا جاپان کفار دینِ اسلام کی حقیقت پاگئے! مغربی حکومتیں اپنے عوام کی نفرت کا نشانہ بنیں۔ اعلیٰ ترین ذہین و فطین طلبہ دنیا بھر میں غزہ کی محبت میں دیوانے ہو گئے!
ڈبو کر انگلیاں خوں میں وفا کا باب لکھوں گا
میں لفظوں کی دمکتی ضوفشانی چھوڑ جاؤں گا
اور یہ بھی کہ…میں بچوں کے قبیلے میں جوانی چھوڑ جاؤں گا!
وہ گول مٹول چھڑی والا منا تصدیق کر رہا ہے!