تو بھی اے اہل ِپاکستان اپنی خودی پہچان
مرکزی ناظم نشر و اشاعت محترم خورشید انجم کا جی سی یو میں خطاب
رپورٹ:خالد نجیب خان
جی سی یو لاہور ، ایکس سروس مین سوسائٹی اور لاہور کے کئی اداروں کے باہمی اشتراک سے گزشتہ دنوں ’’فلسطین اور کشمیر‘‘ کے موضوع پر ایک سیمینار جی سی یو کے بخاری آڈیٹوریم میں منعقد کیا گیا ۔ امیر تنظیم اسلامی جناب شجاع الدین شیخ کو اس سیمینار سے خصوصی خطاب کی دعوت دی گئی تھی ۔اپنی دیگرانتہائی اہم مصروفیات کے باعث وہ بذات خود سیمینار میں شریک نہ ہو سکے ۔مرکزی ناظم نشرواشاعت تنظیم اسلامی محترم خورشید انجم نے ان کی نمائندگی کرتے ہوئے سیمینار سے خطاب کیا۔ اُنہوں نے کہاکہ کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ کوئی ایک دو سال پرانا نہیں بلکہ یہ پون صدی کا قصہ ہے۔ بین الاقوامی سیاست کو بغور دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں مسئلے یونہی الل ٹپ نہیں بن گئے بلکہ یہ خاص طور پر بنائے گئے ہیں۔ اِس وقت کشمیری اور فلسطینی تو دشمن کے خلاف لڑ کر اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں مگر دُکھ کی بات یہ ہے کہ باقی اُمّتِ مسلمہ کہاں ہے؟ مسلم اُمّہ خصوصا ًپاکستان پر اِس حوالے سے بڑی اہم ذِمّہ داری ہے۔ اسرائیل کے بننے سے چند ماہ پہلے ہی پاکستان اِس انداز میں معرض وجود میں آگیا تھا کہ اللہ تعالی جب کوئی مرض پیدا کرتا ہے تو اُس کا علاج پہلے پیدا کر دیتا ہے۔نیوکلیئر توانائی کے ہوتے ہوئے پاکستان کوکسی سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے مگر ہمارے حکمران بھی ویسے ہی خوف زدہ ہیں جیسے دیگر اسلامی ممالک کے سربراہ خوفزدہ ہیں ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ تمام مسلم ملک مل کر نیٹو کی طرز کا ایک عسکری اتحاد بنائیں تو اسرائیل کی تمام تر بدمعاشی ختم ہو جائے گی۔ اِس وقت ساری دنیا عدل کی تلاش میں سرگرداں ہیں جو اِسلام کے سوا کسی کے پاس ہے ہی نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس کوہ نور سے بڑھ کر ہیرا موجود ہے مگر جستجو ہم کانچ کی کررہے ہیں ۔ہمیں اپنا لائحہ عمل بدلنا ہوگا۔علامہ اقبال نے فرمایا تھا ؎
رومی بدلے، شامی بدلے، بدلا ہندوستان!
تو بھی اے فرزندِکہستان! اپنی خودی پہچان!
اقبال سے معذرت کے ساتھ میںکہوں گا کہ
تو بھی اے اہلِ پاکستان !اپنی خودی پہچاناِس سے قبل جناب ڈاکٹر ظہورالٰہی چیمہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ اِس روسٹرم اور سٹیج پر 1988ء سے خطاب کر رہے ہیں۔ 1988ء میں ہم صرف کشمیر کے حوالے سے بات کرتے تھے مگر اب کشمیر کے ساتھ ساتھ فلسطین کا اضافہ ہوگیا ہے۔ صاحبان اقتدار کو چاہیے کہ وہ جوش کی بجائے ہوش سے کام لیں۔ ہمارا دشمن کشمیر میں ہو یا فلسطین میں کسی کو بھی اُس سے رحم یا رعایت کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔
اپنے خطاب میں جناب لیفٹیننٹ جنرل غلام مصطفیٰ نے کہا کہ ہم جب بھی کشمیر یا فلسطین کی بات کرتے ہیں تو ہماری حیثیت اُس فقیر کی سی ہوتی ہے جو کسی چوراہے پر بھیک مانگ رہا ہوتا ہے۔ اِس طرح سے نہ تو کشمیر آزاد ہوگا اور نہ ہی فلسطین واپس ملے گا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں اِس بری صورتحال سے نکلنے کاکوئی راستہ نظر نہیں آرہا اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے راستہ متعین ہی نہیں کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ کشمیری آزادہیں، فلسطینی بھی آزاد ہیں کیونکہ وہ اپنی مرضی سے کام کر رہے ہیں۔وہ شہید ہو رہے ہیں یا دشمن کو مار رہے ہیں۔ جبکہ غلام میں ہوں یا ہم ہیں کہ اپنی مرضی سے کچھ بھی نہیں کر سکتے، ہمارے فیصلے کوئی اور کر رہا ہے مگر اُس پر کوئی مزاحمت بھی نہیں کررہا یا پھر بھی ہم راضی ہیں۔ اور غلامی کیا ہوتی ہے؟
جامعہ اشرفیہ کے جناب مفتی محمد زکریا نے کہا کہ اُمہ کی موجودہ صورتِ حال کے حوالے سے قصور وار ہم خود ہیں کیونکہ قرآن و سنت نے ہمیں جو حل بتایا ہے ہم اُس کی طرف جا ہی نہیں رہے بلکہ یو این اوکی منتیں ترلے کر رہے ہیں۔
تقریب سے ایکس سروس مین سوسائٹی کے صدر ریٹائرڈ جناب لیفٹیننٹ عبدالقیوم، جناب جنرل غلام مصطفیٰ، جناب برگیڈیئر جاوید احمد سمیت کئی یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز، اسلامی سکالرز اور طلبہ نے بھی خطاب کیا اور چند طلبہ نے ملی نغمے بھی پیش کئے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025